شعر و ادب میں جانوروں کا حصہ - یوسف ناظم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-05

شعر و ادب میں جانوروں کا حصہ - یوسف ناظم

sher-o-adab-mein-janwaron-ka-hissa-by-yusuf-nazim

ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے عاشقوں اور بادشاہوں کو ادب میں خاصا اونچا مقام دے رکھا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ادب کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر صرف ہوا ہے۔ اس کا ہمیں کوئی خاص گلہ نہیں کیونکہ جہاں عاشقان کرام یعنی فرہاد اور مجنوں کا تعلق ہے ان دونوں نے عشق وعاشقی کے میدان میں واقعی قابل قدر کارنامے انجام دئیے ہیں۔ دونوں کے دونوں نہایت دیانت دار ، جفا کش اور مخلص عاشق تھے۔ ان میں عقل کچھ کم تھی تو کیا ہوا دوسری خوبیاں تو بہر حال وافر مقدار میں تھیں اس لئے ان کی خدمات کو بھلایا جانا ممکن نہیں۔ کسی میونسپل کارپوریشن یا ضلع پریشد کو تو ان کے مجسمے بنواکر سڑکوں پر یا پارکوں میں کھڑا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ عام طور پر اس قسم کے کمر شیل ادارے عشق کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یا ممکن ہے فنڈ کی کمی کی وجہ سے ان سے یہ کام نہ ہوسکا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ میونسپل ٹیکس مکانوں کی قیمت کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں تاہم فرہاد اور مجنوں کے مجسموں کے خرچ کی گنجائش نکلنی اب بھی مشکل ہے۔ شہری زندگی میں تو انہیں داخلہ مل نہیں سکا اگر ادب میں بھی ان لوگوں کا ذکر نہ ہوتا تو معلوم نہیں انہیں یہ بات کتنی ناگوار گزرتی اور ان کی روحیں کتنا ایجی ٹیشن کرتیں۔


اسی طرح اگر چند بادشاہوں کو بھی ادب میں جگہ جگہ درج کردیا گیا ہے تو کچھ برا نہیں ہوا۔ کیونکہ بعض بادشاہوں سے بھی 'بھولے ہی سہی' کچھ نیک کام ضرور سرزد ہوئے ہیں۔ بعض بادشاہ تو عین رات کے وقت جو سب کے آرام کا وقت ہوتا ہے۔ بھیس بدل کر شہر کا دورہ کیا کرتے تھے کہ دیکھیں رعایا ٹھیک سے سوئی بھی ہے یا نہیں۔(بادشاہوں کا چھپ کر، رعایا کی خانگی باتیں سننا منع نہیں تھا۔ رعایا پر البتہ اس کی پابندی تھی) ان بادشاہوں کو اپنی گشت کے موقع پر عموماً رعایا آرام کی نیند سوتی ملی (رعایا کو آرام کی نیند سلادینے کا انتظام آج بھی ہے لیکن یہ انتظام اس زمانے کے انتظام سے قدرے مختلف بلکہ بہتر ہے ، آج کے انتظام میں رعایا سوکر اٹھتی نہیں ہے ) ان بادشاہوں کو کچھ رعایا موسیقی میں مگن ملی لیکن وہ موسیقی صرف چین کی بنسری کی موسیقی تھی جو رعایا خود ہی بجاتی اور خود ہی سنتی تھی (اس میں میوزک ڈائرکٹر نہیں ہوا کرتا تھا۔)بادشاہوں کا اس طرح بھیس بدل کر رعایا کی شکل کا ہوجانا اور وہ بھی اس مہارت سے کوئی پہچان ہی نہ سکے معمولی بات نہ تھی (مانا کہ اس زمانے میں رعایا اتنی ذہین نہیں تھی لیکن پہچانتے پہنچاتے تو آج بھی چھ سال لگ ہی جاتے ہیں۔ اس لئے اگر چند بادشاہوں کا ادب میں ذکر آگیا ہے تو اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں بلکہ ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا ورنہ ان کے ذکر کے بجائے کسی شاعر کی سات نظمیں نو غزلیں یا کوئی تبصرہ چھپ جاتا۔ یوں بھی ہر زبان کے ادب میں سر کشی کی داستانیں کم اور زر کشی کی وارداتیں زیادہ ہیں۔


لیکن ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے عاشقوں اور بادشاہوں کے علاوہ چند جانوروں اور پرندوں کو بھی ادب میں غیر معمولی منزلت سے نوازا ہے اور یہ لوگ بھی ادب یوں درانہ چلے آئے ہیں گویا ادب نہ ہوا غالب کا غریب خانہ ہوگیا۔ ان جانوروں میں سے دو تو ایسے ہیں جن کے ساتھ خصوصی رعایت برتی گئی ہے اور ان کے ساتھ اتنا امتیازی سلوک کیا گیا ہے کہ کیا کوئی ماں یا کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرے گا!


گھوڑااور بلبل یہ دو افراد ایسے ہیں جنہوں نے ادب میں سب سے زیادہ جگہ گھیر رکھی ہے۔ ہماری ساری تشبیہات ، استعارے ، کنائیے روز مرہ ضرب الامثال اور محاورے انہی دو شخصیتوں کے گرد گھومتے ہیں اور بعض وقت تو یہ خوف ہونے لگتا ہے کہ آئندہ چل کر اگر کسی سیاسی دباؤ کی وجہ سے اردو کے رسم الخط کی طرح یہ بھی نظر میں آگئے اور ان دونوں کو ادب سے خارج کردینا پڑا تو ادب میں سوائے مزاح کے اور بچے گا کیا؟


گھوڑا ہمارے ادب میں اور خاص طور پر شاعری میں اسی طرح بس گیا ہے کہ ادب ہی کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہے۔ یہ جانور یوں بھی انسانوں سے بہت قریب رہا ہے۔ اتنا قریب کہ اسے ڈپٹی اشرف المخلوقات تو کہا ہی جاسکتا ہے۔(لیکن زندگی کے اس شعبے ڈپٹی کا کوئی عہدہ ہے نہیں) گھوڑے کی ہم سے قربت کا یہ حال ہے کہ وہ ہماری سماجی ، فوجی، سیاسی بلکہ ازدواجی زندگی تک میں دخیل ہے شادی کے موقع پر نوشہ گھوڑے ہی پر سوار ہوکر دلہن لانے جاتا ہے۔ گھوڑے پر بیٹھ کر نہ جانے والے دولہے کو دلہن تو خیر مل جاتی ہے لیکن جہیز نسبتاً کم ملتا ہے۔ سوئمبر کے جشن میں بھی گھوڑے ہی نے مستحق اشخاص کی مدد کی ہے۔ اس کی فوجی اہمیت بھی مسلمہ ہے کتنی ہی جنگیں انہوں نے ہرائی ہیں اور آج بھی گھوڑا جنگ کے میدان کا نہ سہی، ریس کے میدان کا تو ہیر وہے ہی بلکہ ریس کے وجود میں آنے کی وجہ سے اس جانور کے شخصی وقار میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
جنگ میں استعمال کئے جانے والے گھوڑوں کا شجرہ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن ریس کے گھوڑوں کا شجرہ ہوا کرتا ہے اور جب تک ان کے حسب و نسب کے بارے میں خاطر خواہ اطمینان نہیں کرلیاجاتا انہیں ریس کے میدان کے قریب بھی نہیں آنے دیاجاتا ہے۔ ہاں ان کے مالکوںکی بات اور ہے۔ گھوڑے کی اس افادیت اور وجاہت سے متاثر ہوکر ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپ نی ہر چیز کو گھوڑے سے نسبت دے رکھی ہے۔ شاعر اور ادیب اپنی ہر چیز کا انتساب گھوڑے ہی کے نام کرتے ہیں۔ وہ اپنے قلم کو صرف قلم نہیں کہیں گے کیونکہ قلم تو بچوں کے بھی ہوا کرتے ہیں۔ شاعروں کا قلم یا تو اسپِ خامہ ہوتا ہے یا اشہب قلم۔لکھنے کی رفتار چاہے کتنی ہی سست یا بے ڈھنگی کیوں نہ ہو وہ لکھیں گے اسپ خامہ ہی سے۔
شاعروں کا خیال بھی یا تو رہوارِ خیال ہوگا یا۔توسنِ خیال۔ خالی خیال انہیں زیب نہیں دیتا۔ ان کی رائے میں خالی خیال آدمیوں کا ہوا کرتا ہے۔ اکثر صورتوں میں شاعروں کے تو سنِ خیال اور ان کے اسپ خامہ میں دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہوپاتے۔ تو سن اور اسپ ہوتے تو دونوں ایک ہی جماعت کے رکن ہیں لیکن راتب کی مقدار یا کسی اور بات پر ان دونوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے یا دونوں میں شاید جھگڑا اس بات پر ہوتا ہو کہ ہارس پاور تو سن میں زیادہ ہے۔ یا اسپ میں۔ شاعر بے چارا بڑی مشکل سے ان دونوں کو قابومیں لاتا ہے۔ شاعری تو وہ اس افراتفری کے عالم میں بھی کرلیتا ہے لیکن اس کی ایک ہی غزل مختلف بحروں میں ہوتی ہے۔ (شاعر اپنی پریشانی میں اس پر غور نہیں کرپاتا) کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک شاعر کا رہوار خیال، کسی دوسرے شاعر کے توسنِ خیال سے لڑ جاتا ہے۔ اس تصادم کی شاعری میں بڑی اہمیت ہے اور اسے توارد کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ ہمارا کافی سے زیادہ شعری سرمایہ اسی توارد کی دین ہے۔ بعض لوگ اسے سرقہ کا نام بھی دیتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ کیونکہ ادب میں سرقے کی کیا گنجائش ہے۔ سرقہ ہمیشہ کارآمد چیزوں کا ہوا کرتا ہے۔


جب شاعر کا قلم اسپ اور اشہب ہو سکتا ہے اور اس کا خیال رہوار اور توسن ہوسکتا ہے تو عمر نے کیا قصور کیا ہے کہ اسے کسی عمدہ گھوڑے سے تشبیہ نہ دی جائے۔ شاعر اور ادیب اس لئے ہمیشہ عمر کو رخشِ عمر کہتے ہیں۔ اسی رخش عمر پر سوار ہوکر وہ ابلق ایام کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ابلق ایام اور ابلق لیل و نہار متذکرہ صدر گھوڑوں میں سب سے زیادہ تیز رفتار گھوڑے مانے گئے ہیں اور صرف رخش عمر ہی ان کا ہم رکاب ہوسکتا ہے۔ دوسرے گھوڑے اتنا تیز نہیں چل سکتے۔
ابلق ہوتا بھی سفید اور سیاہ ہے اور اسی لئے اسے دن اور رات سے تشبیہ دی جاتی ہے جو ان دنوں غلط ہے۔ اب تو دن بھی سیاہ ہونے لگے ہیں۔ ہمارے ایک شاعر دوست کو ابلق ایام کی ترکیب اس قدر پسند ہے کہ وہ کیلنڈ اور جنتری کو بھی ابلق ایام ہی کہا کرتے ہیں۔ وہ روزانہ ابلق ایام دیکھ کر اپنی گھڑی میں تاریخ اور دن بتلانے والے فرس کو صحیح مقام پر لے آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان دنوں تنخواہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہے۔ لیکن ابلق لیل و نہار، اڑیل ٹٹو ، کی طرح جگہ جگہ رک جاتے ہیں اور مہینہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہونے پاتا۔ ان کا تجربہ ہے کہ گھر میں صحیح مقدار میں پیسے نہ دئیے جائیں تو بچے بات کریں یا شوہر، ہر بات بیگم کے سمندناز پر تازیانے کا کام کرتی ہے اور ان کے مرکب زبان کو لگام دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے دوست ایسے موقعوں پر ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سوجاتے ہیں۔


بعض شاعروں نے فرس ایام کی ترکیب بھی استعمال کی ہے لیکن ابلق کے مقابلے میں فرس کامیاب نہیں رہا۔ شعروادب میں جتنے بھی گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہیں تو گھوڑے ہی لیکن ان سب کا مقام متعین کردیا گیا ہے۔ تو سن کی عمر کے ساتھ منسلک نہیں کیاجاسکتا۔ رخش کو لے جاکر کہیں اور نہیں باندھا جاسکتا۔ یہ سب گھوڑے اپنی اپنی جگہ رہین گے نہ تو ان کا تبادلہ کیاجاسکتا ہے اور نہ انہیں اپنی مرضی سے دل بدلی کا اختیار ہے کیونکہ یہ معاملہ ادب کا ہے۔ شعروادب میں استعمال کئے جانے والے گھوڑیے ہارس ٹریڈنگ کے نہیں ہوا کرتے۔ یہ کام آدمیوں کے ذمے ہے۔


پرندوں کو ادب میں اتنا اونچا مقام تو نہیں دیا گیا لیکن بلبل کو قریب قریب یہی رتبہ حاسل ہے۔ بات یہ ہے کہ بلبل جانور تو چھوٹا سا ہے لیکن کافی جاندار ہے اور دوسرے پرندوں کے مقابلے میں اس کی جمالیاتی حس بہتر ہے۔ آرٹ کے معاملے میں کی سوجھ بوجھ پر بھروسہ کیاجاسکتا ہے۔ اس کی نظر خوبصورتی کو پہچانتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خوبصورت پر اس کی اتنی ہی گہری نظر ہے جتنی ہمار ے بعض دانشوروں کا فکااور سارتر پر ہے۔ اس لئے عشق و عاشقی کے معاملے میں بلبل جسے عندلیب بھی کہاجاتا ہے ، آدمی کے برابر تو نہیں دوسرے نمبر پر ضرور ہے اور چاندی کا تمغہ اس کا حق ہے۔ شاعر کو جب بھی آہ و زاری کے سلسلے میں کسی شریک کا ر اور رفیق کی ضرورت پڑی ہے اس نے عندلیب ہی کو اس طرح آواز دی ہے ؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے دل پکار میں چلاؤں ہائے دل


اور عندلیب چونکہ شاعر کی طرز فغان سے واقف اور بذات خود دل کا اچھا شخص ہوتا ہے۔ اس نے ہمیشہ شاعر کی آواز میں آواز ملا کر اپنی آواز فکر کو ملا کر اس کی دل جوئی کی ہے شاعر کی آواز میں آواز ملانے پر بلبل پر جو بھی گذری ہوگی اس کا دل جانتا ہوگا لیکن عشق کا کاروبار یونہی آگے بڑھا ہے۔ شاعر اور بلبل کی جگل بندی کی نقل اور لوگ بھی کرتے ہیں لیکن وہ بات نہیں ہوتی۔


ہمارے ادب میں مرغ بھی موجود ہے (بلکہ یہ دنیا ہی "جہانِ مرغ و ماہی" ہے۔لیکن یہ مرغ انگریزی زبان کا وہ ٹیبل برڈ نہیں ہے جو لذت کام و دہن کے کام آتا ہے۔ انگریزی ادب کا جو جستہ جستہ مطالعہ ہم نے کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ادب میں بھی جانور بکثرت موجود ہیں بلکہ ان کے ہاں بارش بھی ہوتی ہے تو کتے اور بلیاں برسا کرتی ہیں، ہر مال غنیمت میں ان کا حصہ شیر کے حصے کے برابر ہوتا ہے۔ وہ لوگ اتنے چوکنے رہتے ہیں کہ بلی کی نیند سوتے ہیں۔ ان کے ہاں بیل کی آنکھ بھی ادب میں داخل ہے اور جب تک وہ کوئی بات خود گھوڑے کے منہ سے نہیں سنتے اس پر یقین نہیں کرتے۔


ہمارے ہاں بارش کو الگ طریقے سے ناپاجاتا ہے۔ بھیگی بلی تو ہمارے پاس بھی ہے لیکن وہ زمین ہی کی پیداوار ہے آسمان سے نہیں برستی۔ یوں بھی سارے جانوروں کے لئے ہمارے ادب میں گنجائش نہیں ہے۔ دو چار پرندے جنہیں ادب میں مشکل سے جگہ مل سکی ہے ان میں بطخ بھی ہے۔ ناؤ نوش کے سامان میں ایک بط مینا پائی جاتی ہے جو پیمانے سے اس طرح جھک کر بات کرتی ہے جیسے کوئی ماتحت اپنے افسر بالا کے کان میں کچھ کہا کرتا ہے۔ لیکن سچ پوچھئے تو بطخ جیسے خوبصورت پسندے کے ساتھ انصاف نہں ہوا ہے۔ یہ پرندہ غسل اور طہارت کا اتنا شوقین ہے کہ ہم میں سے چند لوگ تو اس سے سبق لے سکتے ہیں۔


دوسرے پرندوں میں ہم نے مرغ کو ادب میں ضرور جگہ دی ہے وہ بھی صرف اس لئے کہ مرغ کا مزاج ہمارے دل کی کیفیت کے عین مطابق ہے۔ ہم اپنے دل کو مرغ دل ہی کہاکرتے ہیں۔ دل میں ہوتے ہی دو حرف ہیں اس لئے لوگ عموماً تنگ دل ہوا کرتے ہیں۔ مرغ دل کہنے سے کچھ تو فراخ دلی پیدا ہو جاتی ہے۔


بعض لوگوں کا مرغ دل بہت نازک ہوتا ہے اور کبھی کبھی صرف اس بات پر رونے لگتا ہے کہ ہندوستانی فلمیں ، بہت خراب بننے لگی ہیں اور اس کے بر خلاف بعض لوگوں کا مرغ دل اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ بات ویتنام کی ہوکہ بنگال کے سیلاب کی۔ ان کے مرغ دل کا ذبح ہونا مشکل ہے۔ مرغ دل کے علاوہ ایک مرغ اور ہے جو عمارتوں پر ہوا کا رخ بتانے کے لئے لگایاجاتا ہے۔ سمجھدار لوگوں کی نظریں ہمیشہ اسی مرغ باد نما پر لگی رہتی ہیں اور قدم بھی اسی سمت اٹھتے ہیں جدھر اس مرغ کا منہ ہوتا ہے۔ مرغ باد نما نہ بھی ہو تو آدمی کو ہوا کا رخ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عقل اسی لئے دی گئی ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: البتہ (مزاحیہ مضامین)
مصنف: یوسف ناظم۔ ناشر: زندہ دلان حیدرآباد (سن اشاعت: 1981ء)

The role of animals in poetry and literature. (Sher-o-Adab mein janwaron ka hissa), Light-Essay by: Yusuf Nazim.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں