البتہ - یوسف ناظم - پی۔ڈی۔ایف کتاب ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-06

البتہ - یوسف ناظم - پی۔ڈی۔ایف کتاب ڈاؤن لوڈ

albatta-yusuf-nazim
یوسف ناظم (پ: 7/نومبر 1921 ، م: 23/جولائی 2009) اردو ادب میں طنز و مزاح کے معروف و مقبول نثرنگار تھے۔
ڈاکٹر مصطفی کمال (مدیر اعلیٰ ماہنامہ "شگوفہ" حیدرآباد) کی اجازت کے بعد، ان کے خصوصی شکریے کے ساتھ ، زندہ دلان حیدرآباد کی جانب سے شائع شدہ کتاب "البتہ (از: یوسف ناظم)" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 7 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

یوسف ناظم نے 1942 میں جامعہ عثمانیہ سے اردو میں بی۔اے اور 1944 میں ایم۔اے اردو کی تکمیل کی۔ بعد از تعلیم وہ حیدرآباد میں لیبر آفیسر کے طور پر مقرر ہوئے اور 1976ء میں ڈپٹی لیبر کمشنر کے طور پر وظیفہ یاب ہوئے۔
غزلوں اور نظموں کے ذریعے انہوں نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات کی تھی تاہم 1944ء سے ان کی تحاریر طنز و مزاح کے میدان کے لیے مختص ہو گئیں۔ انہوں نے سینکڑوں طنزیہ انشائیے، مختر انشائیے اور افسانے لکھے جو تیس سے زائد کتابوں میں یکجا کیے گئے۔ ان کتب میں کیف و کم، فُٹ نوٹ، البتہ، فقط، ورنہ اور منجملہ کافی مقبول ہوئے۔ طنز و مزاح پر مبنی ان کے کالم روزنامہ سیاست، انقلاب، اردو ٹائمز، ہفتہ وار بلٹز اور دیگر روزناموں کے علاوہ ماہنامہ شگوفہ (حیدرآباد) میں بھی بہ پابندی شائع ہوتے رہے۔
یوسف ناظم کو 1984ء میں غالب ایوارڈ دیا گیا اور 1992ء میں انہیں ہریانہ اردو اکیڈمی کی جانب سے مہندر سنگھ ایوارڈ حاصل ہوا۔ وہ مہاراشٹر انجمن ترقی ہند کے صدر اور لمبے عرصے تک مہاراشٹر ریاستی اردو اکیڈمی کے معتمد رکن رہے تھے۔ یوسف ناظم اپنے انتقال تک زندہ دلان بمبئی کے صدر تھے۔
نومبر 1921 میں جالنہ (مہارشٹرا) میں پیدا ہونے والی طنز و مزاح کی یہ عظیم شخصیت 23/جولائی 2009 کو ممبئی میں انتقال کر گئی۔

ادھر کچھ دنوں سے مزاحیہ کتابیں (یعنی مزاحیہ مضامین کی کتابیں) زیادہ تعداد میں چھپ رہی ہیں۔ کچھ کتابوں میں تو واقعی مزاح ہوتا ہے اور کچھ میں قاری اپنی طرف سے مزاح پیدا کر لیتے ہیں۔
(پیش لفظ: البتہ)

مصنف اب اپنی کتاب کا پیش لفظ نہیں لکھا کرتے کیونکہ کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ کتاب کے شروع ہی میں اس کا بھرم کھل جائے۔
(پیش لفظ: البتہ)

ادب کی دنیا میں واپسی کے سفر کا انتظام نہیں ہے۔ ادب میں وظیفے پر سبکدوشی کا بھی طریقہ نہیں ہے۔ البتہ بالجبر علیحدگی یا روپوشی کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔
(اصنافِ ادب کا دائرہ)

لائبریریوں میں پہلے جگہ جگہ یہ ہدایت لکھی ہوتی تھی کہ شور نہ کیجیے، شور نہ کیجیے۔ اب ان ہدایتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ضرورت تو ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابابلیں نوٹسیں نہیں پڑھا کرتیں۔
(شور نہ کیجیے)

بنک اب صرف روپوں پیسوں ہی کے بنک نہیں ہوتے۔ بلڈ بنک، بک بنک، دوا بنک، آنکھ کی پتلی کے بنک اور اس قسم کے سبھی بنک قائم ہو گئے ہیں۔ بعض ملکوں میں جب قومی اتحاد کے مظاہرے کا موسم آتا ہے تو سڑکوں پر بھی بلڈ بنک کھل جاتے ہیں۔
(دولت خانہ)

زیرنظر کتاب "البتہ" کے ایک مضمون "شعر و ادب میں جانوروں کا حصہ" سے چند دلچسپ اقتباسات سماعت فرمائیں۔
ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے چند جانوروں اور پرندوں کو بھی ادب میں غیرمعمولی منزلت سے نوازا ہے اور یہ لوگ بھی ادب میں یوں درانہ چلے آئے ہیں گویا ادب نہ ہوا غالب کا غریب خانہ ہو گیا۔
شادی کے موقع پر نوشہ گھوڑے ہی پر سوار ہو کر دلہن لانے جاتا ہے۔ گھوڑے پر بیٹھ کر نہ جانے والے دولہے کو دلہن تو خیر مل جاتی ہے لیکن جہیز نسبتاً کم ملتا ہے۔ گھوڑے کی فوجی اہمیت بھی مسلمہ ہے ، کتنی ہی جنگیں انہوں نے ہرائی ہیں۔ آج بھی گھوڑا جنگ کے میدان کا نہ سہی، ریس کے میدان کا تو ہیرو ہے۔ بلکہ ریس کے وجود میں آنے کی وجہ سے اس جانور کے شخصی وقار میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ کہ جب تک ان کے حسب نسب کے بارے میں خاطر خواہ اطمینان نہیں کر لیا جاتا انہیں ریس کے میدان کے قریب بھی نہیں آنے دیا جاتا ہے۔

پرندوں کو ادب میں اتنا اونچا مقام تو نہیں دیا گیا ہے لیکن بلبل کو قریب قریب یہی رتبہ حاصل ہے۔ بلبل جانور تو چھوٹا سا ہے لیکن کافی جاندار ہے۔ شاعر کو جب بھی آہ و زاری کے سلسلے میں کسی شریک کار اور رفیق کی ضرورت پڑی ہے، اس نے عندلیب ہی کو اس طرح آواز دی ہے:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے دل پکار میں چلاؤں ہائے دل
شاعر اور بلبل کی جگل بندی کی نقل اور لوگ بھی کرتے ہیں لیکن وہ بات پیدا نہیں ہوتی۔

دوسرے پرندوں میں ہم نے مرغ کو ادب میں ضرور جگہ دی ہے وہ بھی صرف اس لیے کہ مرغ کا مزاج ہمارے دل کی کیفیت کے عین مطابق ہے۔ ہم اپنے دل کو مرغِ دل ہی کہا کرتے ہیں۔ دل میں ہوتے ہی دو حروف ہیں، اس لیے لوگ عموماً تنگ دل ہوا کرتے ہیں۔ مرغِ دل کہنے سے کچھ تو فراخ دلی پیدا ہو جاتی ہے۔

ایک اور پرندہ جسے ادب میں مشکل سے جگہ مل سکی ہے وہ بطخ ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو بطخ جیسے خوبصورت پرندے کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے، یہ پرندہ غسل اور طہارت کا اتنا شوقین ہے کہ ہم میں سے چند لوگ تو اس سے سبق لے سکتے ہیں۔

انگریزی ادب میں بھی جانور بکثرت موجود ہیں بلکہ ان کے ہاں بارش بھی ہوتی ہے تو کتے اور بلیاں برسا کرتی ہیں۔ ہر مالِ غنیمت میں ان کا حصہ شیر کے حصے کے برابر ہوتا ہے۔ وہ لوگ اتنے چوکنے رہتے ہیں کہ بلی کی نیند سوتے ہیں۔ ان کے ہاں بیل کی آنکھ بھی ادب میں داخل ہے اور جب تک وہ کوئی بات خود گھوڑے کے منہ سے نہیں سنتے اس پر یقین نہیں کرتے۔

***
نام کتاب: البتہ
مصنف: یوسف ناظم
تعداد صفحات: 138
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Albatta Yusuf-Nazim.pdf

Direct Download link:

البتہ - از: یوسف ناظم :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1ایک پردیسی کا سفرنامۂ ہندوستان (دوسرا ایڈیشن)7
2ایک پردیسی کا سفرنامۂ ہندوستان (سفر نمبر 2)27
3اصنافِ ادب کا دائرہ41
4شعر و ادب میں جانوروں کا حصہ49
5دولت خانہ57
6کبھی ہم میں تم میں قرار تھا64
7شور نہ کیجیے70
8بالائے طاق74
9جی سے بھلایا نہ جائے گا80
10ہندوستانی رقص86
11تختی سے تختے تک92
12مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات101
13شیرخرمے کے دو ایڈیشن108
14جلوس پیش خدمت ہیں115
15مضمونچے121

Albatta, a collection of urdu humorous essays by Yusuf Nazim, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں