مختصر افسانہ میں نفسیات کا عنصر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-04

مختصر افسانہ میں نفسیات کا عنصر

element-of-psychology-in-short-story

تخلیقی اور تخیلی ادب میں نفسیات کا عمل حیرت خیز شکل میں داخل ہوتا ہے ، ایک طرف ادب میں خود ادیب کی نفسیاتی زندگی اور طبعی رجحان کا داخل ہوجانا ضروری ہوتا ہے ، دوسری طرف لکھنے والا اپنے کرداروں کی نفسیات سے کام لے کر اپنے مقصد کو واضح کرنے کی جو کوشش کرتا ہے اس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں ، لیکن اس مختصر مضمون نویسی میں مصنف یا افسانہ نگار کے نفسیاتی عوامل سے بحث نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ مختصر افسانہ میں کرداروں کی نفسیاتی کیفیت کے اظہار کے طریقوں اور امکانات پر نظر ڈالی گئی ہے۔ یہ بات میرے پیش نظر ہے کہ افسانہ نگار کی نفسیات کو کرداروں کی نفسیات سے مکمل طور پر الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں ہے لیکن سوال زور دینے کا ہے یہاں افسانے میں نفسیات کے عمل پر زور دیا جائے گا، افسانہ نگار پر نہیں۔


مختصر افسانہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو اپنی گیرائی اور حد بندی کے لحاظ سے زندگی کے چند ہی عناصر پر مبنی اور چند ہی پہلوؤں تک ہوسکتا ہے ، اس کے مختصر خاکے میں چند کردار ، چند واقعات اور چند مناظر سے زیادہ نہیں سماسکتے۔ پھر چاہے کسی مخصوص تکنیک کی پابندی نہ بھی کی جائے تو وحدت زماں و مکان اور وحدت تاثر کا کسی نہ کسی حد تک خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ اس لئے افسانہ نویس کو کبھی کبھی بہت دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ اپنے مقصد کے اظہار کے لئے کرداروں کی گفتگو اور عمل کے ایک لفظ یا ایک پہلو کو بھی بیکار جانے کا موقع نہیں د ے سکتا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مختصر افسانے میں عمل کے مواقع کم ہی آتے ہیں، ان چند مواقع سے کبھی کبھی تو مقصد کی بے پایاں وضاحت ہوجاتی ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے ذرائع سے کام لینا پڑتا ہے تاکہ جو کچھ کہنا ہے اس میں تشنگی کا احساس باقی نہ رہ جائے ۔ ایسی صورت میں افسانہ نگار اپنی طرف سے کرداروں کی نفسیاتی کیفیات کا تجزیہ کرتا ہے۔ یوں تو مکالمہ اور عمل میں ہر جگہ نفسیاتی کیفیات کے اظہار کے مواقع آتے رہتے ہیں۔ لیکن عمل کی کمی کو نفسیاتی اظہار سے پورا کرنے کی کوشش ایک خاص شکل اختیار کرلیتی ہے۔ عمل کے لئے زمان و مکان دونوں کی ضرورت ہوتی ہے، کیفیات کے ذہنی بیان کے لئے ان کی طنابیں کھینچ کر چھوٹی کی جاسکتی ہیں۔ بلکہ ایک ہی جگہ لائی جاسکتی ہیں، چنانچہ وقت کے پھیلاؤکو سمیٹنے کے لئے کردارکا نفسیاتی تجزیہ ایک عام تکنیک کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ افسانہ نگار کردار کے خیالوں کے ساتھ ماضی ، حال اور مستقبل سب کی سیر کرآتا ہے۔ اور اس کی بہت سی خصوصیات کو اس طرح نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جس منزل تک پڑھنے والوں کو لے جانا چاہتا ہے۔ یا جس مقصد کو پیش نظر مد نظر ہے ، اس میں مدد ملے ، فنی حیثیت سے یقینا یہ بہت مشکل مقام ہے۔ کیونک مقصد کے بغیر کوئی اعلیٰ تخلیق ناممکن ہے اور مقصد کے بھدے اظہار سے فن کا خون ہوجاتا ہے تاہم دنیا کے قدیم اور جدید اعلیٰ ادب کی یہی خصوصیت رہی ہے۔ کہ لکھنے والے کا پورا نقطہ نظر پوری طاقت اور پوری ادبی لطافت کے ساتھ ادب کی شکل میں جلوہ گر ہوتا ہے۔


اس موقع پر جیمس جوائس کا خیال آتا ہے جس نے آرٹ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے’’آرٹ اس فنی بصیرت کا نام ہے جس کی مدد سے آرٹسٹ کسی چیز کو کسی چیز پر ترجیح یا زور دئیے بغیر سب کچھ ایک ہی لمحہ میں ظاہر کردیتا ہے۔ جہاں جوائس اپنی مفروضہ عدم مقصدیت کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ کسی چیز کو کسی چیز پر ترجیح دینا یا کسی بات پر زور دینا۔ یہ دونوں باتیں گویا ادیب کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ زندگی کے اہم مسائل اور مخالف یا متضاد تصورات میں سے بعض کو رد کرے اور بعض کو قبول کرے۔ جوائس اس بات سے گھبراتا ہے۔ اسی لئے وہ ایک ہی لمحہ میں ہر چیز کے اظہار پر زور دیتا ہے اور اسی کو آرٹ قرار دیتا ہے۔ حالانکہ اگر منطقی نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو یہ خود ایک طرح کی یک طرفہ رائے ہے۔ جو آرٹ کے معاملہ میں کسی خاص نقطہ نظر کو قبول کرتی ہے۔ اور کسی دوسرے کو غلط قرار دیتی ہے یہاں جیمس جوائس کے فلسفہ خیال کی تنقید مقصود نہیں لیکن یہ ضرور ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ عدم مقصودیت ایک طرح کا فریب ہے۔ ادیب کا مقصد کسی نہ کسی طرح اس کے تخلیقی یا توضیحی کارناموں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس لئے جب کوئی مثبت یا منفی مقصد خیال کا جزو لازم ہے۔ تو مختصر افسانے کی بناوٹ، کرداروں کے ہنسنے بگڑنے اور افسانے کے اختتام تک پہونچنے پربھی اس کا اثر ہونا لازمی ہے۔ یہیں نفسیات کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ افسانہ کے کردار کیا سوچتے ہیں، ان کے ذہن میں خیالات کس طرح آتے ہیں، کہاں سے آتے ہیں، اور کس طرح افسانے کا جزو بن جاتے ہیں؟ افسانہ نگار اپنے کرداروں کے ذہن کو کھول کر پڑھنے والوں کے سامنے اس لئے رکھ دینا ضروری سمجھتا ہے کہ ان کے اعمال اور حرکات ان خیالوں کی روشنی میں پرکھے جاسکیں۔ افسانہ نگار اس طرح ذہین قاری اور ناقد کے ہاتھ میں ایک پیمانہ بھی دے دیتا ہے جس کی مدد سے وہ اس کے کرداروں کے عمل اور ذہن میں تطابق کی جستجو کرتی ہے۔ اور عمل اور خیال کے تعلق کو ناپ سکتا ہے۔


افسانوں کے کردار عام طور سے ایسے انسان ہوتے ہیں، جن کی ذہنی کیفیت سے ہم جلد واقف ہوسکتے ہیں ، کبھی کبھی وہ غیر معتدل اور مریض ذہن رکھنے والے کردار بھی ہوسکتے ہیں۔ جن کے خیالوں کا بہاؤ اور عام اندا ز معتدل یا نارمل انسانو ں سے مختلف ہوگا، ان کا سمجھ لینا بھی کچھ ایسا دشوار نہ ہوگا ، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اپنے کردار کے ذہن میں جو خیالات رکھتا ہے ، اس کی جو نفسی کیفیت بیان کرتا ہے ، وہ اس کردار کے مادی وجود سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ تقریباً پندرہ سال سے اردو میں لوگوں کو فرائڈ تحلیل نفسی سے واقفیت ہوئی ہے۔ یہ واقفیت عالمانہ یا ناقدانہ نہیں ہے۔ بلکہ محض چند موٹے موٹے اشاروں کی معلومات تک محدود ہے۔ جنس اور لاشعور کی خصوصیت کے ساتھ افسانوی ادب میں جگہ ملی ہے اور ان کے جاو بے جا اظہار نے بہت سے افسانوں کو گورکھ دھندا بنادیا ہے۔ میرے پیش نظر ادب میں تجزیہ نفس سے کام لینے یا فرائڈ کی نفسیات کو پرکھنا نہیں ہے۔ بلکہ مختصر افسانے میں لاشعور کے کام لینے کا مسئلہ ہے۔ جس نے شعروادب میں بہت سی الجھنیں بڑھا دی ہیں۔ انسان خاص طرح کے مادی اور سماجی حالات میں جس طرح سوچتا ہے، اس کا سمجھنا مشکل نہیں ، لیکن جو کچھ اس کے لاشعوری ذہن میں گزر رہا ہے اس کا باہر نکالنا افسانہ نگار اپنے ذمہ لیتا ہے اور اس کے ذہن میں وہ باتیں بھردیتا ہے ، جن کا بظاہر کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا۔ لاشعور کے نام پر افسانہ نگار بہت سی غیر متعلق باتوں کردیتا ہے اور چونکہ اس کی بنیاد مادی یا سماجی شعور پر نہیں ہوتی۔ اس لئے جدھر چاہتا ہے ، خیالوں کی باگ موڑ دیتا ہے اور اس کے جانچنے یا پرکھنے کا کوئی خاص ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک معتدل ذہن اور جذبات رکھنے والا اس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ تجزیہ نفس سے دلچسپی رکھنے والے ناقد اسے بھی حقیقت نگاری کہتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو لاشعور ہی کے تجزیہ کو حقیقت میں شمار کرتے ہیں۔ کیونکہ شعور اور لاشعور میں ایک اور دس کی نسبت ہے۔ حقیقت کے جانچنے کا طریقہ سائنس اور فلسفہ دونوں میں یہی ہے کہ وہ تجربہ میں آسکے۔ اور اس کا وجود مادی حیثیت رکھتا ہو۔ لاشعور کا وجود مادی اور سماجی نہیں، جبلی اور وجدانی رہ جاتا ہے۔ جہاں انسان اپنے افعال اور خیالات کے معاملہ میں مجبور اور بے بس ہوجاتا ہے۔ سائنٹیفک نفسیاتی مطالعہ کی مدد سے ان چیزوں کا مطالعہ بھی مادی اور سماجی حیثیت اختیا رکرلیتا ہے ، جنہیں لاشعوری کہاجاتا ہے۔ مگر تحلیل نفسی کی زلفوں میں اسیر ہوجانے والے اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ، اسی وجہ سے وہ کوشش کر کے ذہنی کیفیات اور سماجی پس منظر کو بے تعلق کر دیتے ہیں۔


شعور کا بہاؤ، خیالات کی رفتار ، میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس بہاؤ کو روک کر فن کار یا افسانہ نگار کو اپنے کام کی چیزیں لے لینا اور انہیں اپنے مقصد کے سانچے میں ڈھال لینا چاہئے۔ ورنہ کردار کے عمل اور خیال میں مطابقت باقی نہ رہے گی۔ اور وہ مقصد بھی حاصل نہ ہوسکے گا۔ جس کے لئے ادب کی تخلیق ہوئی ہے ، تخلیق ہی کے وقت افسانہ نگار اپنی قوت فیصلہ کا اظہار کرسکتا ہے۔


خیال کا وجود انسانی وجود سے باہر کوئی چیز نہیں اور وہ خیال جو کرداروں کے ذہن میں گزرتا ہے۔ افسانے کے عمل سے ماورا نہیں ہوسکتا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کردار کا ذہن اپنے مادی وجود اور ماحول کے مطابق ہی عمل کرسکتا ہے۔ اگر افسانہ نگار وہ خارجی پس منظر فراہم نہیں کرتا۔ جس سے کردار کا ماحول متعین ہوسکے۔ اور اس کی ایسی نفسیاتی کیفیتیں پیش کرتا ہے، جن کے لئے مخصوص ماحول اور ترتیب واقعات کی ضرورت ہے وہاں اس کا فن پڑھنے والوں کے دل میں شکوک اور سوالات پید ا کرے گا جن کے واضح جواب فراہم نہ ہوسکیں گے۔ خارجی اور داخلی ماحول اس مطابقت کی کمی رومانی اور تخیلی انداز نظر رکھنے والوں کی نگاہ میں عیب نہ ہو لیکن اسباب اور ان کے نتائج پر غور کرنے والے کبھی آسودہ نہ ہوسکیں گے۔ یہ ایک طویل بحث ہے کہ خیالات کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ اور مختلف الخیال فلسفیوں نے اس کا جواب مختلف طریقوں سے دیا ہے لیکن آج جس تصور کو اہمیت حاصل ہے وہ یہی ہے کہ انسان کے خیالات اس کی زندگی کی حقیقتوں سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ حالات سے بے نیاز ہوکر محض خیالات کی دنیا میں چلاجاتا ہے اس وقت اس بھی وہ منفی صورت میں حقائق کے قریب ہوتا ہے۔ خارجی پس منظر کے بغیر نفسیات کا تصور بے حقیقت ہے۔ اس لئے جس افسانے میں خارجی حالات کی طرف واضح اشارے نہیں پائے جاتے ، وہاں نفسیات کے سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اگر خارجی حالات اور ماحول کا صحیح نقشہ پیش کردیاجائے تو متعلقہ جذبات اور متصادم خیالات بھی پیش کرکے نبھائے جاسکتے یہں۔ اور تلاذمہ ذۃنی کی مدد سے خیالات کو کہیں سے کہیں پہونچایاجاسکتا ہے۔ بشرطیکہ افسانہ نگار اپنے موضوع اور مقصد سے دور نہ ہو۔


اس میں شک نہیں کہ خیالوں کی دنیا بہت وسیع ہے اور افسانہ نگار ان سے بڑا کام لیتا اور لے سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افسانہ نگار جب نفسیات کا استعمال کرتا ہے اور اپنے کرداروں کے ذہن میں چند باتیں ڈالتا ہے۔ تو وہ محض کرداروں کے وجدان کا خیال رکھتا ہے۔یا اس ذہنی رابطہ کا جو خیالوں کا محرک ہے۔ دوسر ے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرد کی نفسیات کو محض فرد کے خیالات کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ یا ان خیالوں کے سماجی اور ماحولی پس منظر کو بھی سامنے رکھتا ہے ؟ خیالوں کی انفرادی بنیاد اتنی کھوکھلی اور بے معنی ہوتی ہے کہ وہ کچھ دور تک افسانہ نگار کے مقصد کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ چند عضویاتی نفسی کیفیات کے سوا ہر نفسی کیفیت سماجی حیثیت رکھتی ہے۔ محض جبلت کے سہارے کرداروں کے عمل کا پتلا بنانا ایک بے سود کوشش سے زیادہ نہیں کیونکہ جدید تجرباتی نفسیات میں جبلی اور وجدانی محرکات کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ یہ بات ضرور یا درکھنا چاہئے کہ جس طرح انسان کا عمل امکانات سے متعین ہوتا ہے اسی طرح اس کے خیالوں کو بھی امکانات کا پابند ہونا چاہئے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ عمل کے مقابلہ میں خیال زیادہ آزادی سے امکانات کی حدوں کے اندر وہ فضا پیدا کرسکتا ہے۔ جو وہ چاہتا ہے۔ لیکن خیال کو بھی ناممکن الوقوع نہیں ہونا چاہئے۔ افسانہ میں نفسیات کے عنصر کو جس پہلو سے بھی دیکھاجائے، نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کرداروں کی نفسیاتی کیفیت ان خارجی حالات کی پابندی ہوتی ہے۔ جن میں وہ گھرے ہوئے ہوتے ہیں یا جو ان کو عمل پر اکساتے ہیں۔ معمولی اعصابی حرکات کی بنیادوں کا پتہ نہ چل سکے۔لیکن انسان کے اعمال اور افعال کا مسلسل غیر شعوری محرکات کا نتیجہ ہونا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ کسی پاگل بیمار یا غیر معتدل کردار کی ذہنی کیفیت دکھانے میں سماجی بنیادوں کو نظر انداز کیاجاسکتا ہے۔ لیکن معتدل انسان کی نفسیات کا بھی معتدل ہونا ضروری ہے اور ہیجانی مواقع پر بھی اس کے عمل کا تجزیہ کیاجاسکتا ہے۔


طبقاتی سماج میں جس طرح ادب، فلسفہ ، قانون، سیاست اور اخلاق کی نوعیت طبقاتی ہوتی ہے ، اسی طرح نفسیات کا طبقاتی رنگ میں رنگ جانا ضروری ہے۔ یہاں معتدل اور معتدل انسانوں میں اپنی نفسیاتی کیفیت کے لحاظ سے فرق ہوجاتا ہے۔


لاشعوری اور رسمی نفسیات کا دلدادہ کہتا ہے کہ بنیادی طور پر تو سب کی نفسیاتی کیفیت یکساں ہوتی ہے لیکن جب وہ مادی اور خارجی حالات کی روشنی میں دو یکساں واقعات کو دیکھے گا تو طبقاتی فرق واقعات کے اثر میں ان کے رد عمل میں زبردست اختلاف ظاہر کرے گا۔ اعلیٰ طبقہ کا ذہن اپنے سماجی وجود سے متعین ہوتا ہے۔ اور متوسط طبقہ کا ذہن اپنے سماجی وجود سے ، مزدور اور کسان کا دماغ اپنے معاشی روابط کی وجہ سے دوسری طرح کام کرتا ہے۔ مخصوص حالات میں ان کا مخصوص شکل میں سوچنا ہی ممکن ہے اور اپنی مادی زندگی کی حدوں میں خیال آرائی کرتا ہے اور خیالات کی انتہائی پرواز میں بھی امکانات کے منطقی حدود ہی میں رہتا ہے۔


لفظ اور معنی میں جو تعلق ہے لفظوں سے جو معنوی علامتیں وابستہ ہیں۔مناظر کے بیان میں جو جذباتی تہیں ہوتی ہیں ، تھوڑا بہت ان سے بھی کام لیاجاسکتا ہے۔ حالانکہ ان کی زیادہ ضرورت شاعری میں پڑتی ہے۔ لیکن یہ بھی شعوری ہوتی ہیں اور افسانہ نگار انتخاب کی قوت سے کام لے کر ہی وہ فضا پیدا کرسکتا ہے جو اس کے کرداروں کی حقیقی مادی اور ذہنی زندگی سے ہم آہنگ ہو لفظ اور معنی میں کوئی ایسا انوکھا تعلق پیدا کرنا، ایسی علامتیں بنانا یا لفظوں سے ایسی مصوری کرنا جو سماجی حیثیت نہ رکھے افسانہ نگار کے لئے مناسب نہیں۔ کیونکہ اس طرح بھی وہ اپنے مقصد سے دور جاپڑے گا۔ اور وہ تخلیقی ادب کے بجائے ایک معمہ دے جائے گا جسے پڑھنے والے حل کرتے رہیں گے۔


آج نفسیات کا مقصد کیا ہے؟ تاریخ، جغرافیہ، بشریات، اقتصادیات اور حیاتیات سے مسالہ لے کر ایک ایسی سماجی نفسیات کی تشکیل کرنا جس میں فرد کا عمل مرکب اور پیچیدہ تہذیبی اور طبقاتی زندگی سے اس کے تعلق کا اظہار کرے۔ یہاں فرد فرد بھی رہتا ہے اور سماج کا ایک حصہ بھی، اس کی نفسیاتی کیفیت انفرادی ہوتے ہوئے بھی اس طبقاتی اور سماجی تعلق کا اظہا ر کر ے گی جس سے باہر رہنا کم سے کم مکمل علیحدگی ناممکن ہے۔ یوں افسانوں میں جہاں فرد کا رشتہ سماج سے کٹ جاتا ہے اس کی نفسیاتی کیفیت کا محض میکانکی اظہار ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کے مادی معاشی اور ذہنی روابط نمایاں نہیں ہوتے، یا دشعور کے متعلق قیاس آرائیاں ہوتی ہیں۔ وہاں افسانے میں حقیقت اور صداقت کے عناصر بہت کم ہوتے ہیں اور نفسیات انسانی وجود سے باہر کی چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔


***
ماخوذ از رسالہ: ادبِ لطیف ، افسانہ نمبر 1949
مرتبین: چودھری برکت علی، میرزا ادیب اور قتیل شفائی (شمارہ:1 ، جلد:29)

The element of psychology in short story

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں