احسان دانش : اردو ادب کی رومانوی تحریک کا اہم نام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-28

احسان دانش : اردو ادب کی رومانوی تحریک کا اہم نام

ehsan-danish

احسان دانش (پیدائش: 2/فروری 1914 ، کاندھلہ - وفات: 22/مارچ 1982 ، لاہور) کا اصل نام احسان الحق تھا مگر ادبی حلقوں میں احسان دانش کے نام سے معروف ہوئے۔
احسان دانش کی رومانی نظمیں اپنے عہد میں بے حد مقبول ہوئیں انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو جذبوں کی صداقت سے مزین کر کے اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ ان کے شعری مجموعوں میں حدیث ادب، نوائے کار گر، نفیر فطرت، درد زندگی، چراغاں ، زخم و مرہم، آتش خاموش، ، جادہ نو، شیرازہ، مقامات، گورستاں بہت اہم ہیں۔ معاشرے کے پسے ہوئے مفلوک الحال طبقے سے انھیں بہت ہمدردی ہے۔ افلاس کی پر درد کراہیں سن کر وہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ ان کی رومانی شاعری میں غربت و افلاس، بے روزگاری، جبر، ناداری کے عذاب اور محنت کشوں کے مسائل کو اہم موضوع کی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے معاشرے کے تباہ حال پس ماندہ طبقے کے مصائب و آلام، معاشی اور اقتصادی زبوں حالی کے بارے میں نہایت خلوص اور دردمندی سے اظہار خیال کیا ہے۔


کبھی مجھ کو ساتھ لے کر کبھی میرے ساتھ چل کر
وہ بدل گئے اچانک میری زندگی بدل کر


جو تیرے آستاں سے لوٹ آئے
جنت دو جہاں سے لوٹ آئے


ما ہ و انجم کے ساتھ تھے ہم بھی
ہم مگر درمیاں سے لوٹ آئے


یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے


لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے


رعنائیِ کونین سے بیزار ہمیں تھے
ہم تھے ترے جلووں کے طلب گار ہمیں تھے


ہے فرق طلب گار و پرستار میں اے دوست
دنیا تھی طلب گار پرستار ہمیں تھے


احسان ہے بے سود گلہ ان کی جفا کا
چاہا تھا انھیں ہم نے خطا وار ہمیں تھے


احسان دانش نے ایک مزدور کی حیثیت سے رزق حلال کمایا اس لیے احسان دانش کو شاعر مزدور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ احسان دانش کی رومانیت میں ان کے ذاتی تجربات، مشاہدات قلبی جذبات واحساسات اور خلوص و دردمندی کی مظہر ہے۔ اگرچہ احسان دانش نے مغرب کے رومانی شعرا کی تخلیقات سے براہ راست استفادہ نہیں کیا تھا لیکن کئی تراجم ان کی نظروں سے گزرے تھے۔ ان کی مشہور نظموں "شام اودھ "اور "بیتے ہوئے دن "میں ان کی رومانیت اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ استحصالی معاشرے میں فرد کو جن مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے بارے میں احسان دانش کی شاعری میں پوری قوت اور جرأت سے رومانوی انداز میں صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ انھوں نے زبان و بیان پر اپنی کامل دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے تشبیہہ اور استعارے کے بر محل استعمال سے اپنی شاعری کو حسین و دلکش بنا دیا ہے۔ ان کی منظر نگاری سے قاری کو ایک نئے جہان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ احسان دانش نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ وہ مو ت کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ وہ خود احساس کی قندیل پر سلگ کر روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کی نظم "گورستان" ان کی خطابت اور رومانیت کی عمدہ مثال ہے۔


یہ کھلا عقدہ جہاں ہنگامہ زار مرگ ہے
عرش سے تا فرش بحر بے کنار مرگ ہے
شمع محفل کے لیے ہے موت دامان نسیم
روح گل کو موت کا پیغام پرواز شمیم
بے قراری چھین لی جائے تو ہے پیارے کی موت
چھوڑ کر گردش کو رک جائے تو سیارے کی موت
ذرے ذرے میں نمایاں موت کی تصویر ہے
لیکن اس تصویر میں گنجائش تقریر ہے
موت ہی جب تیرگی ہے موت ہی تابندگی
زندگی ہے نام کس شے کا کہاں ہے زندگی


احسان دانش کی ایک اہم کتاب ڈاؤن لوڈ کیجیے ۔۔۔
دستورِ اردو - از احسان دانش - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

Romanticism in Urdu literature and Ehsan Danish. Essay by: Ghulam Shabbir Rana

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں