دستورِ اردو - از احسان دانش - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-08

دستورِ اردو - از احسان دانش - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

dastoor-e-urdu-ehsan-danish

احسان دانش (پ: 2/فروری 1914 ، کاندھلہ - م: 22/مارچ 1982 ، لاہور)
کا اصل نام احسان الحق تھا مگر ادبی حلقوں میں احسان دانش کے نام سے معروف ہوئے۔ احسان دانش ایک دبستانِ علم و ادب کا نام ہے، وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں۔ وہ نظم و نثر کے استعمال میں الفاظ کے انتخاب میں بے مثال قرینہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک مشہور کتاب "دستورِ اردو" میں اصول و قواعد کی روشنی میں صحیح و تصحیح کا امتیاز اور فصیح و غیر فصیح کا فرق نمایاں کر دکھایا ہے۔ اس کتاب کا تعارف ہی انہوں نے یوں کرایا ہے کہ: "اردو نثر کے تصنیفی و تالیفی کارناموں اور روزمرہ کے ان اغلاط کی اصلاح و تحقیق جو تقریر و تحریر کے طول و عرض پر حاوی ہیں اور زبان و قلم کی ہر سعی کو معیارِ فصاحت سے گرا دیتے ہیں"۔
یہ کتاب تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس کتاب کے مقدمہ بعنوان "باب الکتاب" میں محمد فیوض الرحمن عثمانی (پروفیسر اورینٹل کالج لاہور) لکھتے ہیں ۔۔۔
ہمارے عزیز دوست احسان نے "دستور اردو" کے نام سے ایک مجموعہ مرتب فرمایا ہے جس میں ان کوتاہیوں کی اصلاح فرمائی ہے جو ہماری روزمرہ کی بول چال اور مجلسی گفتگو میں پائی جاتی ہیں۔ اور جو نہ صرف عوام بلکہ خواص اور اہل علم کے یہاں بھی قابل اعتنا نہیں سمجھی جاتیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ عزیز موصوف نے اپنی خداداد فراست ذہنی سے محاوراتِ زبان کے ہر گوشہ پر گہری نظر ڈالی ہے۔ اور اپنے قیاس و تخیل ہی سے نہیں بلکہ اصول و قواعد کی روشنی میں صحیح و تصحیح کا امتیاز اور فصیح و غیر فصیح کا فرق نمایاں کر دکھایا ہے۔
مجھے توقع ہے کہ اردو سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اس کتاب سے مستفید ہوں گے اور احسان دانش کے گہرے مطالعے اور دقت نظری کی داد دیں گے۔
- محمد فیوض الرحمن عثمانی (پروفیسر اورینٹل کالج لاہور)
8/اپریل 1951


اس کتاب کے دیباچہ میں صاحبِ کتاب لکھتے ہیں ۔۔۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جو مضمون لکھنا جانتے ہیں اور جن کے یہاں غلطی کا کم امکان ہے۔ ورنہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سرے سے یہ چیز نہیں بتائی جاتی۔
نہ املا صحیح نہ انشاء، نہ زبان درست نہ خیال۔ یونیورسٹی سے کاپیوں میں ایک بےربط الفاظ کا انبار آ جاتا ہے۔ جس میں شاذ ہی مضمون سے الفاظ کی مطابقت ہوتی ہے۔ آزاد خیالات کا قیود و قواعد سے پاک ایک سیلاب ہوتا ہے کہ امڈا چلا آتا ہے۔
اس ناقابلیتی میں طالب علموں کا قصور نہیں کیونکہ نصاب تعلیم سے قطع نظر اب تک کوئی ایسی کتاب چھپی ہی نہیں جو نثر کے اغلاط کی طرف توجہ دلائے۔ حالانکہ اس قسم کی اصلاحی کوشش تعمیری اقدام کے لحاظ سے بلند مقام رکھتی ہے۔
یہی خیال تھا جس نے میرے مطالعہ کی یادداشتوں کا یہ مواد یکجا کرا دیا۔
مضمون نگار کے لیے دو چیزین لازمی ہیں۔ ایک خیالات دوسرے الفاظ۔ بعض اوقات جب خیالات بلند ہوتے ہیں تو الفاظ نہیں ملتے اور بعض دفعہ الفاظ کی بہتات ہوتی ہے تو معمولی خیالات دستیاب ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ خیالات کے ساتھ الفاظ بھی مطابق و موزوں ہوں۔
خیالات اور الفاظ کو سمونے کے لیے یہ خیال ضروری ہے کہ تحریر و تقریر میں فصیح الفاظ بلند معانی کے حامل ہوں اور خشک سے خشک مضمون شگفتگی اختیار کر لے۔
مطالعہ کا اصول یہ ہے کہ کتاب یا مضمون میں سے جو بات خیال یا فقرہ پسند آئے اس پر نشان لگا لیا جائے۔ اور ایک دفعہ مضمون کو سرسری طور پر پڑھنے کے بعد دوبارہ اس نیت سے پڑھا جائے کہ یہی خیال یا یہی بات کسی اور اچھے طریقے سے بھی ادا ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اور خیال کے لیے فضا محدود تو نہیں ہو گئی؟ اگر یہ ارادہ عمل میں آ جائے تو فوراً اپنے انداز میں ڈھال لیا جائے۔ اور حسب منشا نہ ڈھل سکے تو مایوس نہ ہو جائے بلکہ مشق کرتا رہے۔ رفتہ رفتہ یہی عادت اختصار کو تفصیل اور تفصیل کو اختصار تک لے آتی ہے۔

اسی طرح مطالعہ کرنے سے دماغ خیالات سے لبریز اور حافظہ الفاظ سے بھرپور ہو جاتا ہے۔ ہر وقت الفاظ صفیں باندھے اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ ادھر دماغ نے ایک خیال تخلیق کیا ادھر حافظے نے الفاظ کی آوازوں سے اس کی تصویر کھینچ دی۔ مطالعہ کرنے میں عموماً لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ جب خیالات کا ہجوم دیکھتے ہیں تو مزے میں پڑھتے چلے جاتے ہیں یا صرف اپنی ہی معلومات کے محدود الفاظ میں اسے ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے مطالعہ میں کم اور تحریر میں زیادہ وقت صرف ہونے کے علاوہ دماغ میں الفاظ کا ذخیرہ کم رہ جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ایک خیال خاطر خواہ الفاظ میں نہ ڈھل سکے تو خیال کو محفوظ کر لیا جائے۔ مشہور و معروف مصنفین کی تصانیف زیر مطالعہ رہیں تاکہ الفاظ اور خیالات ساتھ ساتھ اپنا اثر چھوڑتے جائیں۔ بلند مصنفین کی کتب میں نے اس لیے کہا ہے کہ بعض مصنفین ایسے ہیں کہ ان کے پاس خیالات تو ہیں مگر الفاظ نہیں اور بعض ایسے ہیں کہ الفاظ کا بہترین ذخیرہ ان کے قبضے میں دکھائی دیتا ہے مگر بلند خیالی نہیں۔ اور مضمون جب زرق برق الفاظ کی پشواز اتار دیتا ہے تو نہایت زار و نحیف اور مدقوق و مسلول خیالات برآمد ہوتے ہیں۔

***
نام کتاب: دستورِ اردو
مصنف: احسان دانش
تعداد صفحات: 145
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Dastoor-e-Urdu by Ehsan Danish.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Dastoor-e-Urdu by Ehsan Danish, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں