حرفِ سرِ دار حبیب جالب - از الطاف گوہر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-27

حرفِ سرِ دار حبیب جالب - از الطاف گوہر

habib-jalib

چودہ پندرہ برس کی بات ہے کیلے فورنیا میں ایک اپاہج، گونگا اور نابینا بچہ پیدا ہوا ایک خاتون نے اس لاوارث بچے کو گود لے لیا اور پھر وہ بچہ اس کی کائنات بن گیا رات وہ اسی میں مگن رہتی اسی سے باتیں کرتی:
"لیزلی (LESLIE) آج تم بڑے چپ چپ سے ہو، آج تمہارے پاؤں میں کچھ جنبش سی ہے۔"
سال گزرگے گئے بچہ گم سم پڑا رہا۔ ایک صبح لیزلی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ ہولے ہولے رونے لگا۔ ماں کا یہ حال تھا کہ محلے والوں کو بلا بلاکر دکھا رہی تھی کہ لیزلی رونے لگا ہے ، دو چار سال اور گزر گئے۔ رات کے سناٹے میں پیانو کی آواز آرہی تھی کہ ماں کی آنکھ کھل گئی، اس نے سوچا کہ شاید اس کامیاں سونے سے پہلے ٹی وی بند کرنا بھول گیا ہو۔ وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئی اور جیسے سکتے میں آگئی ہو۔لیزلی اسٹول پر اکڑوں بیٹھا تھا اور اس کی انگلیاں بجلی کی طرح پیانو کے سروں پر لہرا رہی تھی۔ لیزلی جو نوالہ تک نہ اٹھا سکتا تھا یوں پیانو بجا رہا تھا جیسے اس کی ساری روح اس کی انگلیوں میں اتر آئی ہو۔ حکماء اور نفسیات کے ماہرین نے بڑی کھوج کے بعد یہ راز نکالا کہ لیزلی کے ذہن کا کوئی حصہ فالج کی زد سے بچ نکلا تھا بالکل ایسے ہی جیسے اتھاہ سمندر سے مٹی کا کوئی تودہ ابھر آئے اور رفتہ رفتہ ایک خوش نما جزیرہ بن جائے ، وہ جزیرہ اب لیزلی کی تخلیقی قوتوں کی ناقابل تسخیر آماجگاہ بن گیا تھا۔


حبیب جالب یا وہ بچہ ہے جسے معاشرے نے اپاہج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اس کی نظر دھندلانے اور گویائی سلب کرنے کے سب حربے آزما ڈالے یا وہ ماں ہے جس نے تمام آزمائشوں اور مصائب کے باوجود تخلیق کے ایسے منور اور تابندہ جزیرے کی حفاظت کی جس پر ہر سمت سے ظلمت کی یلغار تھی۔


حبیب جالب کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی تو اہل نظر نے اپنی ادب نوازی کا حق ادا کیا۔ سبط حسن نے کما جالب نے مظلوم کی حمایت کی سیاست کو اپنا دین بنایا اور خود ہی اپنے اصولوں کی فصل کاٹی۔ احمد ندیم قاسمی نے جالب کو آزادی اظہار اور جرات کی علامت قرار دیا۔ وزیر آغا نے کہا جالب ایک مجسمہ ہے جو اندر اور باہر ایک ہے۔ عبادت بریلوی کو جالب کے شعروں میں جہاد اور فارغ بخاری کو سوشلزم کے سراغ ملے۔ انتظار حسین نے دریافت کیا کہ جالب کی شاعری کو پہلے قبول عام حاصل ہوا ، پھر خواص نے چاروناچار انہیں قبول کیا۔ محمد خالد اختر نے لکھا:
"سبحان اللہ کیا شیخ تھے ، بھولے بھالے معصوم ، حقیقت میں مادر زاد ولی تھے۔ حرف صادق القولی کے لئے ہزارہا نعمت دنیائے دوں پر لات ماری تھی اور گوشہ نشینی اختیار کی تھی، اگرچہ تعلقات ظاہری بہت سوں سے تھے لی کن ایسی ہی بے تعلقی بھی حاصل تھی ، باہمرہے ہم سے کچھ آگے قدم رکھا تھا۔"


یہ سب باتیں مناسب مگر اصل بات انکار اور احتجاج کی ہے جس نے جالب کے شعر کو لازوال بنادیا ہے۔ انسان صدیوں سے ایک ایسے معاشرے کی جستجو میں ہے جو اس کی مادی ضروریات کا کفیل اور اس کی فکری اور تخلیقی قوتوں کی ترویج و تکمیل کا ضامن اور معاون ہو۔ اب تک جتنے بھی معاشرتی نظام وضع ہوئے ہیں ان میں جبرواستبداد، اور عدم مساوات کی قوتیں برسر اقتدار رہی ہیں گو ان کی شدت میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے۔ عام آدمی اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ان قوتوں سے مفاہمت کرلیتا ہے ، اور نظام استبداد کو تسلیم کرلینے ہی میں اپنی نجات سمجھتا ہے ، اگر وہ کبھی سر اٹھاتا ہے تو جبر کی ایڑی اسے وہیں کچل دیتی ہے۔ زمیندارانہ اور جاگیرانہ نظام جس کی بنیاد ہی انسان کی تحقیر اور تذلیل پر ہے آج بھی کئی ملکوں میں بڑے طمطراق سے چل رہا ہے اور ننگی پیٹھوں پر تازیانے آج بھی اسی کروفر سے لگ رہے ہیں جیسے آج سے پانچ سو برس پہلے۔


جو اقتصادی نظام اور طریق زرستانی ان ملکوں پر مسلط ہے جنہیں "آزاد دنیا" کا لقب دیاجاتا ہے وہاں حالت یہ ہے کہ چار میں سے تین آدمی مجبور و محکوم، نادار و قلاش ہیں ایک طرف اناج کے ذخیرے اگر یکجا کردئے جائیں تو آسما ن کو چھونے لگیں اور دودھ کی نہریں اگر بہادی جائے تو سطح سمندر پر سفیدی کی چادر بچھ جائے اوردوسری طرف لاکھوں انسان بھوک کا شکار ہیں اور موت کے انتظار کے علاوہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔


آج کی مہذب دنیا میں جہاں انسانی حقوق کے چارٹر اور کنونشن بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد پر قرار پاچکے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں ایک ایسا غیر انسانی طریق حکومت رائج ہے جہاں محض رنگ کی بنا پر ملک کی اکثریتی آبادی کو ہر انسانی حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ریورنڈ ایلن بوساک (REVEREND ALAN BOESAK) جو کالوں کے حریت پرست لیڈر ہیں ایک ملاقات میں کہنے لگے:
"ہم لوگ ، ہمارے ماں باپ ، ہمارے بھائی بہن اور ہمارے بچے یہ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں ایک ہی حق حاصل ہے اور وہ مرجانے کا حق ، اب ہم نے طے کیا ہے کہ یہ حق ہم خود استعمال کریں گے ، جب چاہیں گے اور جس طرح چاہیں گے۔"


صیہونی نظام کی بربریت مشرق وسطی میں تباہی و بربادی کا سامان بنی ہوئی ہے ، فلسطین سے جبری طور پر نکالے ہوئے لاکھوں لوگ کیمپوں میں پناہ گزین ہیں اور انہیں وطن جانے اور وہاں دوبارہ اپنے گھر بسانے اور خود اپنا ملک بنانے کا حق حاصل نہیں۔ کیمپوں میں فلسطینی بچے اور اسرائیلی سرحدوں کے قرییب اجڑے ہوئے گھروں میں بیٹھے ہوئے بوڑھے مرد اور عورتیں اسرائیلی بندوقوں اور توپوں کی زد میں ہیں اور اگر آپ لندن میں یہ کہیں کہ پی ایل او حریت پسندوں کی جماعت ہے اور اس کے سربراہ یاسر عرفات ایک حریت پسند لیڈر ہیں تو امریکہ اور یورپ میں یہودی تنظمیں آپ پر سام دشمنی کا ٹھپ لگا کر آپ کو بدنام کرنے لگتی ہیں۔


ایسی ہی وحشت اور بربریت کی فضا میں احتجاج کی آواز ابھری ہے ، شروع میں ایک فرد اور پھر وعام کی آواز بن جاتی ہے اور قصر استبداد لرزنے لگتے ہیں ، یہ آواز کبھی صوفی کی کبھی مفکر کی اور کبھی شاعر کی آواز بن کر نکھرتی ہے مگر اس کا ہدف ہر صورت میں جبر، نارسائی اور نا انصافی کا معاشرتی نظام ہوتا ہے۔


منصور حلاج نے ایک ہی نعرے سے سارے معاشرے کے ضمیر کو دھن کر رکھ دیا، اس نے کہا اصل طواف تو کعبہ دل کا ہے تو سلطنت عباسیہ پر جو حرمین شریف کی محافظ بنی بیٹھی تھی رعشہ طاری ہوگیا۔ اس نے کہا مجھے مار ڈالو کہ میری اور میرے خالق کی روح ایک ہے اور یوں مل چکی ہے جیسے مشک اور عنبر ایک دوسرے میں جذب ہوجاتے ہیں خلیفہ وقت اور اس کے وزیروں نے فیصلہ دیا کہ اس احتجاج کی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیاجائے۔ درباری فقیہ اور منصف سب نے سرجھکادئیے اور منصور حلاج سورۃ شوری کی یہ آیت پڑھتا ہوا"ان ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے وہ عذاب ان پر اس وقت آئے گا جب وہ اپنے کئے کے انجام سے ڈر رہے ہوں۔"آخری سانس کے ساتھ وہی ایک صدا نکلی"انا الحق" اور منصور ہ میشہ کے لئے سر بلند ہوگیا اور احتجاج کی آواز زمان و مکان کی ہر قید سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہوگئی۔


وہ نیلسن منڈیلا ہویا یاسر عرفات سب منصور حلاج کی سنت پر عمل کررہے ہیں، سب کا ایک ہی ایمان ہے کہ ظالم کا انجام بالآخر دردناک عذاب ہے۔


اردو شاعری میں احتجاج کی تحریک نظیر اکبرآبادی سے حسرت موہانی اور ظفر علی خان تک پہنچی، اقبال کے کلام میں اس آواز میں ایک عظمت پیدا ہوئی اور فیض نے اسے ایک عمومی رنگ دیا۔ آج حبیب جالب کے شعر میں منصور حلاج کی آواز گونجتی ہے ، وہ احتجاج کا علم اٹھائے گاؤں گاؤں پھرتا ہے دنیا کی عظمیں، عہدے رتبے اور آسائشیں اس نے اپنے لئے حرام کرلی ہیں۔ دنیا سے بے تعلقی احتجاج کی راہ میں پہلا اور سنگین ترین قدم ہے یہ قدم ایک بار اٹھ جائے تو راہ آسان ہوجاتی ہیں۔اقبال نے کہا:
" یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند، بتان وہم گماں لا الہ الا اللہ" اس قطع تعلق کی ایک عظیم مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے جب یروشلم کی یہودی عبادت گاہ میں انہوں نے حضرت مریم علیہ السلام سے کہا"عورت چلی جا، میں نہیں جانتا تو کون ہے۔"


احتجاج کا شاعر جب دنیا سے قطع تعلق کرلیتا ہے تو پھر وہ اپنی دنیا خود تخلیق کرتا ہے اس کی ذات میں ایک پوری کائنات ابھرنے اور سمانے لگتی ہے ، اور اس کائنات کے سب اجزاء اس کی روح اور فکر کے عکاس بن جاتے ہیں۔ انگریزی میں کائنات کا متبادل لفظ COSMOS ہے جس کے ابتدائی معنی دنیا کے نظام کے حسن ترتیب کے تھے ، مگر COSMOS سے حسن ترتیب اگر غائب ہوجائے تو دنیا ظلم اور جبر کا بھیانک سا ڈھانچہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ شاعر اپنی کائنات میں وہ حسن ترتیب جو دراصل مقصد حیات ہے دوبارہ پیدا کرتا ہے۔ غالب کی کائنات میں اس کے اپنے شب و روز ہیں جہاں شہود و شاہد و مشہود کی کوئی تفریق نہیں اور جہاں سر پھوڑنے کی رسم کسی سنگ آستاں کی محتاج نہیں اور جہاں قطرہ ساز انا البحر ہے۔


احتجاجی شاعر کی دنیا کے اپنے شہر، اپنے گاؤں، اپنے رستے ہیں اس دنیا میں لفظ بستے ہیں اور ان کی صدا صبح و شام گونجتی ہے ، یہاں لفظ خود اپنی حرمت کے امین ہیں اور اپنے حقوق کے ضامن۔ اس دنیا کے شہری ناقابل فنا ہیں اس لئے کہ لفظ دائم اور ابدی ہے۔ یہ صاحب کائنات شاعر صاحب دیوان شعراء کی صف میں نہیں آتا اس لئے کہ ان کا ہر لفظ ، ہر بول اپنا ہوتا ہے اس میں کسی اور کا رنگ یا جھلک نہیں ہوتی ، ان کا ہر لفظ اعلان کرتا ہے کہ میں غالب کے محلے کا ہوں ، اقبال کے گاؤں کا ہوں۔


شیکسپئر کے بارے میں ایک نقاد نے لکھا کہ وہ لفظ استعمال ہی نہیں کرتا ان پر اپنا نام بھی لکھو ادیتا ہے ، اس نے ایک ساینٹ سے مثال دی:

I SUMMON UPWHEN TO THE SESSIONS OF SWEET REMEMBERANCES OF THEINGS PAST SILENT THOUGHTS


اس کے بعد جہاں کہیں بھی SESSION کا لفظ آئے گا اس پر شیکسپئر کی مہر لگی ہوگی بالکل ایسے ہی جیسے رگ سنگ پر غالب کا نام لکھا ہے اور ذوق تن آسانی پر اقبال کی مہر لگی ہے۔


جالب کی زبان، جالب کا شعر، جالب کا بیان سب اس کی اپنی دنیا کے شہری ہیں اور ان کی اپنی پہچان ہے اور ان کی اپنی آواز ہے۔ "ہم آوارہ" جس طرح جالب کے دل کی گہرائیوں سے نکلا اور ہمارے دلوں کی گہرائیوں تک اتر گیا اس کی مثال نہیں اس لئے کہ یہ کوئی نفی کال نہیں آوارگی تو جالب کی دنیا کا مرکزی نقطہ ہے۔ آوارگی ہی کا شوق اسے اڑتے پتوں کے پیچھے لئے پھرتا ہے۔ وہ سارے جہاں کی خاک اڑاتا پھرتا ہے گو فلک دشمن جان، زمین غیر ہے کوئی اپنا نہیں۔ اور یہ حسن آوارگی ہی کا اعجاز ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے ایک داستان چھوڑ آتا ہے۔


جالب کے جو نقاد یہ کہتے ہیں کہ جالب کی شاعری عارضی اور وقتی موضوعات پر مبنی ہے وہ بعض شخصیتوں اور بعض مخصوص واقعات میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ جالب کی دنیا تک پہنچ نہیں پاتے ، جالب نے جب یہ کہا کہ"ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا، تو اس انکار کا تعلق ایک مخصوص آئین سے تو تھا ہی اور اس کی ضرب براہ راست اس آئین کے خالق پر پڑی مگر جالب کا موضوع ایک دائمی موضوع تھا وہ انکار تھا جبر کے ہر نظام سے وہ احتجاج تھا ظلم کی ہر دستاویز کے خلاف ابھی کل کی بات ہے کہ منیلا MANILA کے بازاروں میں یہی نعرہ گونج رہا تھا اور آج بھی جب جالب یہ کہتا ہے۔۔۔۔۔۔ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو ، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔


تو اس کے اپنے شہر ہی میں نہیں جوہانسبرگ JOHANESSBERG کے زندانوں میں قیدی زنجیر بدست رقص کرنے لگتے ہیں۔


فقیہ اور فلسفی آج تک یہ طے نہ کرسکے کہ منصور حلاج کو "رد" کیا جائے یا"قبول" اور بہت سے اب بھی"توقف" فرمارہے ہیں مگر منصور کی رسم احتجاج تمام دنیا کی معتبر ترین رسم بن چکی ہے جالب کہتا ہے "کاٹ دو میرا سر، کاٹ دو میرا سر" اور اعلان کرتا ہے:
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے


جالب اگر شاعر نہ ہوتا تو ایک شعلہ ہوتا جو عمر بھر لپکتا رہتا، جالب اگر شاعر نہ ہوتا تو ایک نعرہ ہوتا جس کی گونج سے اقتدار کے مسند لرزتے ، جالب اگر شاعر نہ ہوتا تو ایک سنگ تراش ہوتا جو جبر استبداد کے مہیب مجسموں کو پاش پاش کرتا اور پھر ان کے ٹکڑوں سے محبت اور سکون کی رنگین مورتیاں بناتا، آج یہ مورتیاں، یہ انکار کے شعلوں کی لپک پہ احتجاج کے نعروں کی گونج جالب کی کلیات حرف سردار کے ہر صفحے پر سجی ہوئی ہے۔


***
ماخوذ از مجلہ: حبیب جالب نمبر، رسالہ عالمی اردو ادب (نئی دہلی) - 1994
مدیر : نند کشور وکرم (جلد نمبر 9 : 1994ء)

Aesthetic sense - cultural heritage of human social evolution

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں