ڈھولی دگڑو ڈوم - غیاث الرحمن کے ناول پر نقد و جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-28

ڈھولی دگڑو ڈوم - غیاث الرحمن کے ناول پر نقد و جائزہ

dholi-dagdo-doom-ghayas-ur-rahman-novel

غیاث الرحمن کا تعلق مہاراشٹر کے ضلع بلڈانہ سے ہے، آپ ایک اسکرپٹ رائٹر، افسانہ وناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں اور زیر نظر ڈھولی دگڑو ڈوم ان کا دوسرا ناول ہے، جو دلت ڈسکورس میں کورونا مہاماری سے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات بیان کرتا ہے۔


ہندوستان میں ہندو سماج کی بے راہ روی اور ذات پات کا نظام طبقاتی تقسیم کی قدیم ترین مثال ہے، ہندی اور اردو افسانوں میں دلت مسائل اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کی عکاسی شروع سے ہوتی رہی ہے، طبقاتی تصادم کے مختلف پہلوؤں کو متعدد ناولوں میں دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن دلت ڈسکورس میں غضنفر کا "دِوّیہ بانی" اور صغیر رحمانی کا "تخم خوں" کے علاوہ اردو میں کوئی ایسا ناول نہیں جسے نظیر کی طور پر پیش کیا جاسکے، البتہ شموئل احمد کے "چمرا سر" میں ہلکی سی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے، آج گرچہ دلتوں کو سرکاری وغیر سرکاری مراعات حاصل ہیں لیکن اونچے طبقہ کی ذہنی پسماندگی اور ذات پات کے نام پر بالخصوص شادی بیاہ اور عشق ومحبت کے معاملہ میں تفریق اور عدم مساوات کی مثالیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔


زیر نظر ناول "ڈھولی دگڑو ڈوم" طبقاتی کشمکش اور گذشتہ دنوں وبا سے ہونے والی تباہی کی داستان ہے، کہانی چھوا اچھوت کے ہندوستان میں جنم لیتی ہے اور کورونا کے ڈھائی سالہ وسیع کینوس پر دلت، اچھوت، شودر، کلیان اور نروان جیسے حوالوں اور لفظوں کے گرد گھومتی ہوئی ذاتی تعصبات کی بنیاد پر وجود میں آنے والے مسائل کو پیش کرتی ہے، مصنف نے ڈوم ذات سے تعلق رکھنے والے دگڑو نامی مرکزی کردار کو ناول کا عنوان بنایا ہے جس کا کام ڈھول بجانا، مردار جانوروں کی کھال اتارنا اور مہاماری کے دنوں میں چتائیں جلانا ہے، دوسری جانب سرلا کا کردار بھی قاری کو اپنی جانب بآسانی متوجہ کرلیتا ہے، جو طبقاتی تفریق کے خلاف مزاحمت کا شعلہ ہے اور ایک بامن ہوتے ہوئے دگڑو کی محبت میں گرفتار ہے جس میں کہیں ہمدردی کا جذبہ بھی پوشیدہ ہے کیوں کہ اس نے بچپن سے دگڑو کی طرف صرف نفرت بھری نگاہیں اٹھتی دیکھی ہیں، کہانی میں اور بھی دیگر کردار جیسے رنجنا، برجو، سیٹھ گوپال راؤ، سمپت دادا اور اندو رنگ بھرتے نظر آتے ہیں، کہانی کی ابتداء فلیش بیک کی تکنیک سے ہوتی ہے اور اتنا آہستہ روی سے آگے بڑھتی ہے کہ بعض اوقات جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے لیکن منظر کشی میں جزئیات نگاری اور کردار کی بنت میں ایسی تخلیقیت ہے کہ ذہن پر ان کے نقوش تادیر باقی رہتے ہیں، ناول میں دگڑو کا باپ بھیکو ڈوم اور وہ تین سادھو جو اگھوری بن کر کلیان پراپت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے جلے ہوئے انسانی مردار کا گوشت کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں، بھیکو ڈوم کے پوچھنے پر کہ کلیان کیسے حاصل ہو؟ ایک اگھوری کہتا ہے:
"جب پوری طرح اگھوری بن گئے اور وِدیا میں نپورن ہوگئے، تب اماوس کی رات میں کسی بامن کی کنواری کنیا کے مرت شریر سے سمبھوگ کرو، پھر چتا کے جلے ہوئے مانس کا سیون کرو، امر ہوجاؤ گے، کلیان ہی کلیان ہوگا"
بظاہر ان منفی کرداروں کے اس اقدام میں انتقامی جذبہ کی جگہ اچھوت اور شودر جیسے الفاظ سے چھٹکارا پانے کا جذبہ کار فرما ہے اور عرصہ سے ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا نتیجہ ہے۔


پہلی نظر میں ناول دو ایسے انسانوں کی خاموش محبت کی کہانی ہے جو فی زمانہ روایتی محبت سے مختلف اور اپنے اندر میٹھا احساس لئے ہوئے ہے جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، لیکن ناول آغاز سے انجام تک دلتوں اور برہمنوں کے درمیان طبقاتی تفریق، دلت طبقہ کی اذیت ناک زندگی اور سماج ومعاشرت کی مختلف شکلیں دکھاتا ہوا کئی تہوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ کھول کر بیان کرتا ہے، جس میں انسان کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کے زیر وبم کو محسوس کیا جاسکتا ہے، کہانی اس وقت نیا موڑ اختیار کرتی ہے جب پجاری پر سرلا اور دگڑو کے رشتہ سے متعلق انکشاف ہوتا ہے اور وہ داروغہ کی سانٹھ گانٹھ سے دگڑو کو چوری کے الزام میں پھنسانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد ایک روز تکیہ سے پجاری اپنی ہی بیٹی کا گلا گھونٹتا ہوا نظر آتا ہے، کورونا کی فضا میں لکھا گیا یہ ناول اردو فکشن میں ایک قابل قدر اضافہ ہے، مزید برآں ہندو مذہب کی طبقاتی تقسیم پر ایک اتہام اور ہندوستان کے حاشیائی افراد کی زندگی کا آئینہ دار بھی ہے۔


ناول میں کردار نگاری و منظر کشی اپنے عروج پر نظر آتی ہے لیکن جزئیات نگاری، جابجا ہندی الفاظ کی کثرت اور متن میں موجود املا کی فحش خامیاں کہانی اور قاری کے رشتہ کو مجروح بھی کرتی ہیں، البتہ ہندی الفاظ کا استعمال کئی مقامات پر موضوع کا مطالبہ معلوم ہوتا ہے لیکن متعدد جگہ اردو متبادل لفظوں سے بھی کام ہوسکتا تھا، ناول کی قرات کے دوران کئی چیزیں کھٹکتی ہیں مثلا ناول کا ٹائم پیریڈ کورونا ہے لیکن پورے قصہ میں کہیں بھی فون کا ذکر نہیں ہے الا ماشاءاللہ، دگڑو کا بغیر فون اور کسی پیغامبر کے ندی کے مقام پر سرلا سے بار بار کی ملاقات، کئی روز کے بعد اچانک سرلا کا دگڑو سے ندی پر ملنا اور جھٹ ٹی شرٹ نکال کر دینا، علاوہ ازیں ندی پر عورتوں کا کپڑے دھونے آنا وغیرہ، آج کے دور میں یہ سب ناممکن سا لگتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ناول کا ماحول، فضا اور زمانہ اسّی کی دہائی کا معلوم ہوتا ہے، مصنف کا اسلوب نہایت شائستہ اور لفظوں کا انتخاب عبارت میں شگفتگی کا باعث ہے، اگلا قصہ پچھلے واقعہ سے مربوط ہوتا ہے، وہ پہلے کہانی کو قاری سے جوڑنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں، پھر کہانی دھیرے دھیرے اپنے پیک پوائنٹ پر پہنچتی ہے اور اختتام اتنی خاموشی سے ہوتا ہے کہ اگلے ہی لمحہ قاری کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں، یہیں پر بس نہیں بلکہ ناول کا خاتمہ جس منظر کے ساتھ ہوتا ہے وہ قاری کے ذہن پر ایک آخری ضرب لگاتا ہے، جو انسانی روح کو جھنجھوڑ نے کے لیے کافی ہے، بھیکو ڈوم اور ان تین اگھوری سادھوؤں کے سامنے کنواری بامن کا مِرت شریر چتا پر رکھا ہوا ہوتا ہے، لیکن دگڑو کے موقع پر پہنچنے سے وہ "نیچ ذات" سے مُکت اور موکش حاصل کرنے کا آخری موقعہ گنوا بیٹھتے ہیں، ہلکی سی مزاحمت کے بعد دگڑو سرلا کی لاش لاد کر پورنا ندی کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے سیلاب میں چھلانگ لگاتا ہے تو قاری کا ذہن الجھن اور کئی ملے جلے جذبات کا مرقع بن جاتا ہے۔


120 صفحات پر محیط ناول میں جا بجا مہاراشٹری زبان اور لب ولہجہ سے بھی سابقہ پڑتا ہے، کتاب کے سرورق پر مضمون اور عنوان کی مناسبت سے ڈھول پیٹتے ہوئے ایک شخص کی تصویر کشی کی گئی ہے اور اس میں لہراتا ہوا ماسک کورونا کا استعارہ ہے، جو نہایت دیدہ زیب ہے اور طباعت صاف ستھری ہے، ناول کا عنوان ہی قاری کو متوجہ کرنے کے لئے کافی ہے، امید ہے اردو فکشن کے قارئین اس ناول کی طرف ضرور متوجہ ہوں گے۔


کتاب: ڈھولی دگڑو ڈوم
صنف: ناول
مصنف: غیاث الرحمٰن
سن اشاعت: 2022ء
صفحات: ایک سو اٹھائیس (128)
قیمت: دو سو روپئے
ناشر: عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی
ملنے کا پتہ: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی۔
***
ایس ایم حسینی۔ ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ۔

Email: hamzahusaini0981[@]gmail.com


Dholi dagdo doom, a novel by Ghayas ur Rahman. - Book Reviewer: S. M. Husaini

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں