مسلم سیاست دانوں کا شرک کی طرف مائل ہونا
انتہائی کرب اور دکھ کے ساتھ اس انتہائی حساس موضوع پر قلم اٹھانا پڑ رہا ہے جس پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ احساس ستائے جا رہا ہے کہ کہیں ہم ہی سے ادنی سی کوتاہی نہ سرزد ہو جائے اور ہم اس موضوع کا حق ادا نہ کرنے پر روز محشر اللہ رب العزت کی ہم پر گرفت ہو جائے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ابنائے وطن میں اپنی ایک سیکولر ساکھ بنائے رکھنے کی خودفریبی میں مبتلا ہمارے مسلم سیاسی قائدین کے شرک کی طرف مائل ہونے پر ہمارے علمائے کرام اٹھ کھڑے ہوتے اور مسلم سیاست دانوں کو توحید اور شرک کی نزاکت سے واقف کرواتے اور انہیں جہنم کا ایندھن بننے سے روکتے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض دینی و ملی تنظیمیں بھی ملک کے بدلتے حالات سے خوف زدہ ہوکر شرک کے متوالوں کی دل جوئی کے جتن کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرنے لگے ہیں کہ اس طرح وہ مسلمانوں کے خلاف اغیار کے دلوں میں بھری ہوئی نفرت کو دور کرنے کا سامان کرنے لگے ہیں۔
شمالی ہند سے ایسی کئی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ ہمارے مسلم سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ بعض دینی تنظیموں کی جانب سے غیر مسلموں کے شرک کے مظہر تہواروں میں شرکت کرنے والوں کو آرام و سہولتیں بہم پہنچائی جا رہی ہیں اور ان افعال کی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ تشہیر بھی کی جا رہی ہے تاکہ یہ طریقہ کار دوسرے مسلمان بھی اختیار کریں۔
ایسا ہی کچھ ان دنوں شہر حیدرآباد میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے قائدین اور کارکن بڑے ہی اہتمام کے ساتھ غیر مسلموں کے تہواروں بلکہ ٹھیٹ مذہبی رسومات میں شرکت کرتے ہوئے خود کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بسا اوقات شرکیہ افعال انجام دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اور جب ان سے ایسے امور سے اجتناب کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ کسی مورتی کی آرتی اتارتے ہوئے یا کسی مندر کا درشن کرتے ہوئے یا پھر کسی مورتی کی پوجا کے بعد دیئے جانے والے پرساد کھاتے ہوئے وہ دل ہی دل میں سورہ فاتحہ یا سورہ اخلاص پڑھ رہے تھے۔ اس طرح وہ اپنے موحد ہونے کا سیلف ڈیکلریشن دے
دیتے ہیں، مگر یہ نادان نہیں جانتے کہ کفر اور شرک کا معاملہ نہایت نازک ہوتا ہے اور ذرا سی لغزش ہمیں کفر و شرک کے در پر لا کھڑا کر دیتی ہے اور شرک ایسا گناہ ہے جس کو اللہ رب العزت معاف کرنے والا نہیں ہے۔
ایسے لوگوں کو اللہ رب العزت کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہئے:
مومن کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں مومنوں کو چھوڑ کر اور جو شخص یہ کام کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں رہا سوائے اس کے کہ تم ان (کے شر) سے بچنا چاہو (تو کوئی مضائقہ نہیں) اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جاتا ہے۔
(سورہ آل عمران :28 )
ایسا ہی حکم سورہ نساء، سورہ مائدہ، سورہ توبہ، سورہ مجادلہ اور سورہ ممتحنہ میں بھی دیا گیا ہے۔ البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں بھی یوں واضح فرمایا گیا ہے:
اللہ تمہیں (اس بات سے) منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین ( کے معاملہ ) میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو یا انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
(سورہ ممتحنہ:8)۔
علمائے کرام نے کفار کی مذہبی تقریبات میں کسی مسلمان کی شرکت کو ناجائز اور مطلق طور پر انہیں مبارک باد دینا بھی حرام قرار دیا ہے۔ ایسی مذہبی تقریبات جن میں افعال شرکیہ انجام دے جاتے ہیں شرکت کرنا نہایت ہی سنگین گناہ ہے کیوں کہ بسا اوقات شرکت کرنے والا کفر میں بھی ملوث ہو سکتا ہے۔
حضرت ابن قیمؒ کہتے ہیں کفریہ شعائر پر مبارک باد دینا سب کے ہاں مسلمہ طور پر حرام ہے۔ اگر مبارک باد دینے والا شخص کفر کا مرتکب نہ بھی ہو تو اتنا ضرور ہے کہ یہ الفاظ منہ سے نکالنا ہی حرام ہے اور یہ ایسے ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارک باد دی جائے ، بلکہ شراب نوشی قبل اور زنا سے بھی بڑھ کر گناہ ہے۔
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ کفار کی کسی بھی شکل میں مشابہت اختیار کی جائے ، ان کے تہواروں میں، کھانے پینے ، لباس ، غسل ، آگ جلانے یا کام سے چھٹی وغیرہ کر کے ان کے ساتھ مشابہت اختیار کی جائے۔
یہ قائدین خود کو سیکولر ظاہر کرنے کے لئے غیر مسلموں کے شرکیہ افعال میں ساتھ دیتے ہوئے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس طرح ان کی پذیرائی ہوگی جب کہ سیکولر ازم کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسروں کے مذہبی رسومات میں شرکت کی جائے یا ان کی تہذیب و تمدن کو اختیار کیا جائے بلکہ حقیقی سیکولر ازم یہ ہے کہ اپنے مذہب، تمدن اور زبان پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے مذہب ، تمدن اور زبان کا احترام کیا جائے۔
ان سیاسی قائدین کو اس معاملہ میں بہت ہی محتاط ہونا چاہئے اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ شرک سے بچتے ہوئے بھی سیاست میں اپنے قدم جمائے جا سکتے ہیں۔ اپنے اچھے اخلاق اور عوام کی بہتر خدمت کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جن سیاسی قائدین نے اپنی گرتی ساکھ بچانے کی خاطر شرک کے در پر حاضری دی ، اللہ رب العزت نے انہیں گوشۂ گمنامی دھکیل دیا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ "منصف" حیدرآباد۔ ادارتی صفحہ، بروز منگل 26/جولائی 2022ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں