پیر کامل کی تلاش انسانی زندگی کے ارتقاء سے اب تک جاری رہی ہے، یہ تلاش وہ خواہش ہے، جو خالق خود انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے، اگر انسان کے دل میں یہ خواہش نہیں اتاری جاتی، تو وہ پیغمبروں پر کبھی یقین نہ لاتا، اور نا ہی ان کی پیروی اور اطاعت کرنے کی کوشش کرتا، پیرکامل کی تلاش انسان کو ہر زمانے میں اتارے جانے والے پیغمبروں کو طرف لے جاتی رہی، حتی کہ پیغمبروں کی بعثت کا یہ سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ختم کردیا گیا، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیر کامل کی تلاش و جستجو کا آخری و ابدی پیکر قرار دیا گیا۔
عمیرہ احمد کا ناول پیر کامل محض عام سا ناول نہیں، بلکہ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ملے جلے عمدہ کرداروں کا ایک ایسا خوبصورت سرچشمہ ہے، جہاں سے خاتم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تیز دھارے ابلتے ہیں۔
جہاں تک عمیرہ احمد کی بات ہے، تو ان کا اپنا ایک الگ تحریری انداز ہے، ان کے یہاں جہاں ایک طرف پلاٹ، کردار، خاکہ بندی اور مختلف زاویہ سے منظر نگاری موجود ہوتی ہے، تو وہیں دوسری طرف وہ مشرقی تہذیب کا اہتمام کرتی نظر آتی ہیں، خاص طور سے اسلامی اقدار و روایات کو بہت سلیقہ سے برتتی ہوئی نظر آتی ہیں، اس لحاظ سے ان کی ادبی شناخت کے ساتھ ساتھ تہذیبی پہچان تمام ناول نگاروں کے درمیان انہیں ممتاز بناتی ہے، وہ اپنے ناولوں میں ہمیں زندگی کے رنگوں کو اس زاویے سے دکھانے کی کوشش کرتی ہیں جہاں سے وہ خود دیکھتی ہے، جیسا کہ "پیر کامل" محض ایک ناول نہیں بلکہ اب ان کی پہچان بن چکا ہے۔
پیر کامل کا کلائمکس اتنا خوبصورت ہے، کہ وہ قاری کو مکمل طور سے اپنی گرفت میں لئے رہتا ہے، کہ پڑھنے والا چاہ کر بھی تسلسل توڑ نہیں سکتا ہے، ایک کرادر کا اختتام نئے کردار کو اس طرح سے جنم دیتا ہے، گویا کہ مختلف موتیوں کو ایک ہار میں پرو دیا گیا، کہ لینے والا پورے ہار کو ہی یک بارگی اچک لینا چاہتا ہے، یہ اس کے بس میں نہیں کہ وہ چند موتیوں پر قناعت کر سکے۔
پیر کامل کا پر اثر کلائمیکس ہی اس کی اصل جان ہے، جہاں ہر جواب کے اختتام میں ایک نئے سوال کی ابتداء کی ابتدا ہوتی ہے، کہ پڑھنے والا بڑی دلچسپی کے ساتھ جوابات کی جستجو میں ایسا ڈوب جاتا ہے، کہ اسے اپنے گرد و پیش گی خبر بھی نہیں ہوتی ہے، اتنے خوبصورت انداز میں خاکہ بندی کی گئی، مانو قاری کچھ پڑھ نہیں رہا بلکہ تمام کرداروں کو خود نگاہوں کے سامنے دیکھ رہا ہے۔
میں عمداً ناول کے کرداروں کا تذکرہ نہیں کروں گا، تاکہ چند پیراگراف میں ناول کے کرداروں کو بیان کرکے مصنفہ کے ساتھ حق تلفی نا ہونے پائے، اور چند پیراگراف میں ناول کی پوری کہانی کو پیش کرکے ناول کے اپنے لطف کو بدمزہ نہیں کروں گا، کرداروں کے بیان سے میری مکمل خاموشی اور ان کے ذکر سے مکمل بےاعتنائی ایک سنسپنس کو وجود بخشے گی ، جو ہر اس شخص کو میری جانب سے اک خاص تحفہ ہے، جس نے اب تک پیر کامل کو نہیں بنا پڑھا ہے۔
عمیرہ صاحبہ اپنے ناولوں کے ذریعے ادبی شناخت کے ساتھ ساتھ اپنی نمایاں مذہبی پہچان بنا چکی کی ہیں، اور یہ ان کا ذاتی حق ہے، کہ وہ جس عقیدے اور جس نظریہ کی حامی ہیں، اس کی جھلک ان کی تحریروں میں بھی نظر آئے، جیسا کہ کبھی کبھی میں خود ان کے بارے میں کہتا آیا ہوں، کہ :
" عمیرہ احمد کے ناول کی ہیروئن اس قدر باکردار ہوتی ہے، کہ رات بڑھے گھر سے بھاگتے وقت دو رکعت نفل نماز پڑھنا نہیں بھولتی ہے۔"
اور اسی طرح " عمیرہ احمد کی ہیروئنیں اس قدر اسلام پسند ہوتی ہیں، کہ صرف اس بات پر رشتے سے انکار کر دیتی ہیں، کہ یہ لڑکا عصر کی نماز میں سلام پھیرنے کے بعد امام صاحب کے ساتھ دعا مانگے بنا مسجد سے نکل جاتا ہے"۔
یہ مزاحیہ جملے ہو سکتے ہیں، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ عمیرہ احمد نے اپنے کرداروں میں مذہبی کلچر کو بڑی خوبصورتی سے سمویا اور یہ ان کا اپنا حق ہے، کہ وہ اپنے نظریات کو اولین مقام پر رکھیں اور پیش کریں، ان کو اس سے روکنا یا پھر اس چیز کو تنقید کا نشانہ بنانا ایک اخلاقی بات ہوگی، جو کسی نقد کرنے والے کو زیبا نہیں دیتی ہے۔
عمیرہ احمد نے اپنے اس ناول میں دونوں کلچر کو بحسن اسلوبی پیش کیا، اور ان تمام سماجی رکاوٹوں کو مکمل طور پر واضح کرکے دکھلایا ہے، جو محبت کے پرستار کو جھیلنا و سہنا پڑتا ہے، ان کے ناول میں مختلف پہلووں خوبصورت جھلکیاں ملتی ہیں۔
ان کے یہاں عشق کی داستان میں عشق مجازی کے ساتھ عشق حقیقی کا غلبہ ملتا ہے، کہ
" آخر کیا برائی ہے اگر میں اس شخص کا ساتھ چاہوں ، جس کی آواز مجھے بار بار اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتی رہی، میں کیوں اس شخص کے حصول کی خواہش نہ کروں، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھ سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے، کیا مضائقہ ہے اگر میں اس شخص کو اپنا مقدر بنائے جانے کی دعا کروں، جس کے لئے میں انس رکھتی ہوں، امامہ اپنے دل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا"۔ ( 115)
عمیرہ احمد نے عورت کی مظلومیت کی داستان کے درمیان میں اپنی ہیروئن کو بڑا بہادر بنایا ہے، آمریت اور ظلم و جور کے خلاف آواز اٹھانے کو اس میں حوصلہ بخشا ہے، کہ
" مجھ سے اگر تم نے زبردستی شادی کر لی، تو بھی تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، میں تمہاری بیوی نہیں بنوں گی، میں تم سے وفا نہیں کروں گی، مجھے جب بھی موقع ملے گا میں بھاگ جاؤں گی، تم آخر کتنے سال مجھے اس طرح قید کرکے رکھ سکو گے، کتنے سال مجھ پر پہرے بٹھاؤ گے، مجھے صرف چند لمحے چاہیے ہوں گے تمہارے گھر، تمہاری قید سے بھاگ جانے کے لیے۔۔۔۔۔ اور میں۔۔۔۔۔ تمہارے بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤں گی، تم ساری عمر انہیں دوبارہ دیکھ نہیں سکو گے، امامہ اسجد کے زبردستی شادی کرنے پر اسے مستقبل کا نقشہ دکھا کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی"۔ ( 155 )
عمیرہ صاحبہ اپنے ناول کے ذریعے حرماں نصیبی اور نا امیدی کے درمیاں امید کی شمع روشن کرتے ہوئے نظر آتی ہیں، ڈپریشن کے شکار ہر فرد کو زیست کی خوشی و اطمنان کے حصول کا طریقہ بتلاتی ہوئی، اور قناعت پسندی اختیار کرنے اور نا شکری سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جیسا کہ:
" انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے، کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے، اور کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے، ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے، اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے وہ شکر کا ہوتا ہے یا نا شکری کا، کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف جائیں، وہ شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے، ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روز بروز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے، جو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ ہونے نہیں دیتی اگر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت نہ ہو، تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی، اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد کرنے کی عادت نہ ہو، تو ہم کسی مخلوق کے احسان کو یاد رکھنے کی عادت نہیں سیکھ سکتے"۔ ( 331 )
عمیرہ احمد نے پورے ناول کو پیر کامل کے مرکزی کردار سے اس طرح باندھ کر رکھا ہے، کہ کسی بھی حالت میں اس کا خیال مخفی ہی نہیں ہو پاتا، حتی کہ قاری خود اپنی ذات میں اپنے لئے کسی پیر کامل کی جستجو محسوس کرنے لگتا ہے، کہ
"ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی بھی پیر کامل کی ضرورت پڑتی ہے، کبھی نہ کبھی انسانی زندگی اس موڑ پر آ کر ضرور کھڑی ہو جاتی ہے، جب یہ لگتا ہے کہ ہمارے لبوں اور دل سے نکلنے والی دعائیں بے اثر ہو گئ ہیں، ہمارے سجدے اور ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھ رحمتوں اور نعمتوں کو اپنی طرف موڑ نہیں پا رہے، یوں لگتا ہے جیسے کوئی تعلق تھا جو ٹوٹ گیا، پھر آدمی کا دل چاہتا ہے اب اس کے لئے کوئی اور ہاتھ اٹھائے، کسی اور کے لب اس کی دعا اللہ تک پہنچائیں، کوئی اور اللہ کے سامنے اس کے لئے گڑگڑائے، کوئی ایسا شخص جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں، جس کے لبوں سے نکلنے والی التجائیں اس کے اپنے لفظوں کی طرح واپس نہ موڑ دی جاتی ہوں، پھر انسان پیرِ کامل کی تلاش شروع کرتا ہے، بھاگتا پھرتا ہے، دنیا میں کسی ایسے شخص کے لئے جو کاملیت کی کسی نہ کسی سے سیڑھی پر کھڑا ہو"۔ ( 384)
پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ناول پیر کامل کلائمیکس کی دنیا خوبصورت شاہکار ہے، جس کا اثر بہت دیر تک قاری کے ذہن و دماغ پر چھایا رہتا ہے، اس کی سحر آفرینی سے فوری طور پر نکل آنا کسی کے آسان کام نہیں، البتہ میں یہاں بھی وہی بات کہوں گا، جو ناولوں کی ضخامت کے سلسلے میں میرا شروع سے نظریہ رہا ہے، کہ اگر اس ناول کو بھی پانچ سو سے زائد صفحات کے بجائے چار سو تک میں سمیٹ دیا جاتا تو یہ اور عمدہ اور بھی پرکشش ہوتا، میرے حساب سے یہ سمیٹا جا بھی سکتا تھا، مگر پھر بھی ناول کی دنیا کا یہ ایک لاجواب اور بہت ہی خوبصورت ناول ہے، جو اب عمیرہ احمد کی پہچان بن چکا ہے۔
نام ناول : پیر کامل ( صلی اللہ علیہ وسلم )
مصنفہ : عمیرہ احمد
سن اشاعت : دسمبر 2020ء
قیمت : 350
ناشر : الف پبلیشرز پی-228، گراؤنڈ فلور، بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025
ملنے کا پتہ: پاریکھ بک ڈپو، ندوہ روڈ لکھنؤ انڈیا
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
عمیرہ احمد کے ناول - ایک مزاحیہ رخ
زید مشکور (لکھنؤ، اترپردیش)
ای-میل: shaikhzaid947[@]gmail.com
زید مشکور |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں