عمیرہ احمد کے ناول - ایک مزاحیہ رخ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-13

عمیرہ احمد کے ناول - ایک مزاحیہ رخ

umera-ahmad-novels
عمیرہ احمد ہمارے دور کے نوجوان لڑکیوں کی مقبول رائٹر ہیں۔ سنا ہے کچے ذہنوں کو مذہبی اینٹ گارے سے پختگی عطا فرماتی ہیں۔ ان کے ناولوں کے اختلافی مسائل یا تنقیدی زاویہ نگاہ سے ذرا ہٹ کر ۔۔۔ عمیرہ احمد کے اسلامی رومانس والی مندرجہ ذیل فکر و نظر پر توجہ فرمائیں۔ مزہ نہ آئے تو جوتے واپس۔

اگر عمیرہ احمد اسی انداز اور مقدار میں اسلامی رومان لکھتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب لڑکا یوں پروپوز کیا کرے گا:
"بسم اللہ حامداً و مصلیاً اما بعد! سب کچھ اللہ سے ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین۔ کیا تم میری بیوی بننا پسند کرو گی؟"

عمیرہ احمد کے ناولوں نے عوام الناس کو اتنا اسلام پسند بنا دیا ہے کہ اب وہ غلط فرینڈ کا بوسہ لیتے ہوئے احتیاط کرتے ہیں کہ فریقین قبلہ رخ نہ ہوں۔

نامحرم لڑکے اور لڑکی کو خلوتِ صحیحہ میسر ہو۔ پھر بھی وہ اسلامی باتیں کر رہے ہوں۔ ایسا صرف عمیرہ احمد کے ناولوں میں ممکن ہے۔

شریعت کا پابند ہو کر محبت کیسے کرنی ہے؟ یہ طریقہ عمیرہ احمد کے ناول سہل انداز میں قاری کو سکھاتے ہیں۔

شادی اور عمیرہ احمد کے ناولز میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ بندے کی ٹھرک بھی پوری ہو جاتی ہے اور دل پر گناہ کا بوجھ بھی نہیں پڑتا۔

پہلے لڑکیاں والدین اور بھائیوں سے چھپ چھپ کر رومانٹک کہانیاں اور ناول پڑھا کرتی تھیں۔ پھر اللہ بھلا کرے محترمہ عمیرہ احمد صاحبہ کا۔ انہوں نے بدنامِ زمانہ ٹھرک کو مذہب کا تڑکہ لگایا تو عشقِ حقیقی پانے کا راستہ بن گئی اور ماضی کی تاڑم تاڑی کو مقدس محبت کی طشتری میں اتنی عمدگی سے سجاکر پیش کیا کہ اب لڑکیاں اپنے بھائیوں کو ہی مجبور کرتی ہیں کہ ان کے لیے عمیرہ احمد کے ناول خرید کر لائیں۔

عمیرہ احمد کی ہیروئنیں اس قدر اسلام پسند ہوتی ہیں کہ صرف اس بات پر رشتے سے انکار کر دیتی ہیں کہ یہ لڑکا عصر کی نماز میں سلام پھیرنے کے بعد امام صاحب کے ساتھ دعا مانگے بنا مسجد سے نکل جاتا ہے۔

عمیرہ احمد اپنے ناولوں میں مڈل کلاس لڑکیوں کو وہ بیچتی ہیں جو ان کے دبے جذبات، محبت میں نارسائی جیسی محرومیوں، معاشی تنگ دستی جیسے مسائل کو اس سوسائٹی میں کوئی قابل قبول جواز دے۔ وہ جواز مصنفہ نے شعوری یا غیر شعوری طور پر مذہب سے برآمد کیا ہے۔ یعنی محبوب سے مل نہیں سکتے تو فراق عین اسلامی ہے اور ہجر اللہ کی عنایت ہے، مل گئے ہیں تو شریعت ایک دوسرے کو چھونے کی اجازت نہیں دیتی لہذا وصل کے لمحات میں ایک دوسرے پر درود پڑھ پڑھ کر پھونکیں ماریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جبلت بہت کمینی شے ہے، آپ اپنے آپ کو کامیاب انداز میں دھوکہ دے سکتے ہیں مگر اس کی چابکوں کے دیے درد کو نہ تو زیادہ دیر سہہ سکتے ہیں اور نہ ہی زخموں سے بھری پیٹھ چھپا سکتے ہیں۔

عمومی طور پر انکے ناول سے کچھ اس طرح کا نتیجہ نکلتا ہے کہ ناول پڑھ کر لڑکیاں اپنے آپ کو 1960 کی ہیروئنیں سمجھتی ہیں اور پارٹیشن سے پہلے کے بنے ہوئے تنگ و تاریک گھروں کی بوسیدہ سی بالکونی میں بیٹھ کر اپنے اپنے سالار اور سکندر کا انتظار کرتی ہیں ۔۔۔۔ پھر ایک دن اپنی خالہ یا پھوپھو کے بیٹے سے بیاہی جاتی ہیں اور ساری عمر نارسائی کا رونا روتی رہتی ہیں۔۔۔ مطلب کہ سچا پیار نہیں ملا ۔۔

عام ناول: لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ہنسی خوشی اپنی منزل کی جانب چل دیئے۔
عمیرہ احمد کے ناول: لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ دستانوں میں ملبوس گورا اجلا ہاتھ تھاما اور دونوں بآوازِ بلند الحمد للہ کہتے ہوئے ننگے پیر ساحلِ سمندر کی پاک ریت پر دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔

A satirical view on Umera Ahmad's Novels.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں