میکش اعظمی کا شعری مجموعہ - اُف - ایک جائزہ از علیزے نجف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-05

میکش اعظمی کا شعری مجموعہ - اُف - ایک جائزہ از علیزے نجف

اے خدا چشمِ محبت میں یہ تاثیر بھی دے
بعد اس کے کوئی صورت ہی نہ بھائے مجھ کو
یہ شعر ایک ایسے شاعر کا ہے جن کے شعروں میں موضوعات کی کثرت اور احساسات کا تنوع ملتا ہے ۔ جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو اپنی جہد مسلسل سے ایک ایسی سمت عطا کی جو کہ ادبی دنیا کی شاہراہ سے جا ملتی ہے ۔ ان کی زبان کی سادگی اور اظہار بیان کی برجستگی ان کی شاعری کی پہچان ہے یوں تو ان کا نام شمشاد احمد ہے لیکن ادبی محفلوں میں انھیں میکش اعظمی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ان کے دو مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں جس میں سے ایک اردو شعری مجموعہ "آف" ہے جو میرے سامنے رکھا ہوا ہے ۔
ان کی اس کتاب کا سرورق کافی دیدہ زیب ہے اور عبید اعظم اعظمی کے مقدمے نے ان کے مجموعے کی ساری غزلوں کی ہیئت و اثریت کو چند لفظوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ سمیٹ دیا ہے کہ بحیثیت قاری ہم ان کے اشعار زیر لب گنگنائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بقول عبید اعظم اعظمی کے 'وہ اتنی دور تک اپنی اچھی اور سچی شاعری کے بدولت آئے ہیں '
اور ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر شباب الدین کے تبصرے نے اس کی قدر و قیمت کو مزید بیش قیمت بنا دیا ہے بےشک انھوں نے بجا طور پہ کہا ہے
' میکش اعظمی نے جن لفظوں کو جذباتیت کے ساتھ چھوا ہے وہاں ان کا قلم آبشار کی طرح بہہ رہا۔ ہے اسلوب بیان، انداز گفتگو ، الفاظ کا انتخاب اور پوری شاعری کی فضا اتنی مترنم اور کیف آگیں ہو جاتی ہے کہ قاری کے دل و دماغ سے ایک تبسم پھوٹ پڑتا ہے اور اس پاس ترنم بکھر جاتا ہے '
بےشک انھوں نے سچ ہی کہا ہے اگر میں ان کے خیالات سے تھوڑی دیر چشم پوشی برتتے ہوئے ان کے مجموعے کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کا تنقیدی جائزہ لوں تو مجھے اس میں ان کی ادب نوازی صاف طور سے نظر آتی ہے ۔ جس کا اعتراف ہم پر عین واجب ہے۔ انھوں نے نعت، نظم، غزل دوہے قطعات کی صورت اپنی شاعرانہ صلاحیتوں برتا ہے جو کہ حلقہء اہل ادب میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔


آغاز میں انھوں نے سب سے پہلے اردو زبان کے تئیں اپنے احساسات کا بے ساختہ اظہار کیا ہے ان کی محبت نظم کے ایک ایک لفظ سے ظاہر ہو رہی ہے اور اردو کے سارے ارتقائی مراحل کو بھی اس نظم میں بہت خوبصورتی سے سمیٹا ہے ۔ اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا عکس بھی نظر آتا ہے


میں چشتی کا پیغام ، نانک کی بانی
میں اردو ہوں خسرو کی شیریں بیانی
سدا خانقاہوں نے عزت بڑھائی
شوالوں نے ہر آن قیمت بڑھائی
پلایا ہے گنگا نے شفاف پانی
میں اردو ہوں خسرو کی شیریں بیانی


پھر ورق گردانی کرو تو غزلوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان کے جذبات و خیالات کی عکاسی کر رہی ہے ۔
میکش اعظمی دیار شبلی کے پروردہ ایک کھلتا ہوا غنچہ ہیں جس کے ادبی پیراہن میں ان کے خطہ یعنی اعظم گڈھ کی مٹی کی ملاحت اور خطے کا عظمت و وقار صاف طور پر محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے علمی اعتبار سے زرخیز دیار کی آبرو کو سنوارا اور ادبی وراثت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو اسے مزید اُپج دینے کے لئے وقف کردیا ہے ۔ جس کی مثال ان کے قلم سے لکھا جانے والا وہ ترانہ ہے جو انھوں نے شبلی کالج اعظم گڈھ کے عنوان سے لکھا ہے


شبلی کا یہ چمن ہے شبلی کا یہ چمن ہے
یہ فخر قوم و ملت ، یہ عظمت وطن ہے


ہر وقت ہر گھڑی ہے علم و ہنر کی بارش
فکر و ہنر کا نغمہ لعل و ہنر کی بارش
بے معنی جس کے آگے سب مال و زر کی بارش


آغوش میں سدا سے افکار کی کرن ہے
شبلی کا یہ چمن ہے شبلی کا یہ چمن ہے


یہ ترانہ ان کے فکر و فن کی اعلی مثال ہے اور ان کے شخصی نظریات کا ترجمان بھی ہے انھوں نے اعظم گڈھ کی مٹی سے جو کچھ لیا تھا اپنی استعداد کے مطابق بہت کچھ اسے لوٹانے کی کوشش کی تاکہ یہ ورثہ وقت کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو کر آنے والی نسل کو منتقل ہوتا رہے اور اس مٹی کی زرخیزی سلامت رہے۔ یہ کچھ انھوں نے قرض چکانے کی نیت سے ہرگز نہیں کیا بلکہ ایک فرض کی طرح اس کو بڑے خلوص کے ساتھ ادا کیا ہے۔


ابتداءً ان کی شاعری میں رومانیت اور اور رشتوں کے تئیں احساسات کی پّو پھوٹتی نظر آ رہی ہے اور جیسے انگلیاں ورق پلٹتی جاتی ہیں ان احساسات کے نقش بھی مزید گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں ان غزلوں میں رومانوی خیالات کے درمیان زمانے کے تلخ حقائق کی بھی منظر کشی کرنے کی کوشش کی گئ ہے اور اس میں بدلتی دنیا کے تقاضے بھی نظر آتے ہیں انھوں نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے جو زمانے کی رفتار کے ساتھ اپنی پہچان بنانے کا ہنر رکھتا ہے


پیار میں جب بھی سانحہ ہوگا
دل ہی ٹوٹے گا اور کیا ہوگا
رات کو فون میں نہیں کرتا
وہ کوئی خواب دیکھتا ہوگا
اپنے گھر میں بڑا تو میں ہی ہوں
ہر کوئ مجھ سے ہی خفا ہوگا


یہ اشعار پڑھتے ہوئے قاری بھی میرے خیالات سے متفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انھوں نے ایک ہی غزل میں کتنے متنوع خیالات کو پرونے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔
ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف رومانیت کا خوبصورت احساس ہے وہیں دوسری طرف انھوں نے محبت کے بعد پیش آنے والا المناک سانحہ یعنی ہجر کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے ۔
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے ایک فنکار صرف اپنے خیالات کی ہی نہیں بلکہ تمام انسانی احساسات کی ترجمانی کی کوشش کرتا رہتا ہے وہ ایک حساس ذہن کا مالک ہوتا ہے ہر تجربہ و مشاہدہ اس کے قلم کو مہمیز دیتا ہے اور وہ بنا تعصب کے اسے اپنے لفظوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے ۔
یہ کوشش میکش اعظمی کے یہاں بھی جابجا نظر آتی ہے ۔
اور حساسیت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اوروں کے جذبات و خیالات کو اس شدت کے ساتھ محسوس کیا جائے کہ اس کی کسک آپ کے اپنے دل میں اترتی محسوس ہو
کتنے زخم سہتے ہیں کتنے غم چھپاتے ہیں
تب کہیں پہ تھوڑا سا لوگ مسکراتے ہیں


بات میں تکلف ہے لب بھی تھرتھراتے ہیں
تم بھی کچھ چھپاتے ہو ہم بھی کچھ چھپاتے ہیں


دل اگر جواں ہے تو پھر خطا ضروری ہے
بارشوں کے موسم میں جسم بھیگ جاتے ہیں


ان کے ان اشعار میں جہاں ایک طرف بےتکلفی ہے وہیں حقیقت پسندی کی گہری چھاپ بھی نظر آ رہی ہے انھوں نے حقیقت سے فرار کے بجائے حقیقت کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا ہے ۔
ان کے شعروں میں تھوڑی سی بے نیازی و رازداری بھی ہے جو کہ ہمیشہ سے محبوب کا شیوہ رہا ہے انھوں نے مشکل اور بلیغ الفاظ استعمال کرنے کے بجائے سادہ اور آسان لفظوں کو ترجیح دی ۔ اگر یہ اشعار غیر اردو داں قاری سنے تو اسے سمجھنے میں کوئ دقت نہیں ہوگی یہ کہیں نہ کہیں ان کی خوبی بھی ہے اور سادگی بھی جو کہ قابل ستائش ہے
انھوں نے اپنے اس شعری مجموعے میں کئ نظمیں بھی شامل کی ہیں جو کہ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھی گئ ہیں ان میں سے ایک پیاری نظم ہے 'اور تم نہیں آئے' آپ بھی ملاحظہ فرمائیں


اور تم نہیں آئے


شام جا چکی کب کی
رات آ چکی کب کی
قہقہے پرندوں کے
گم ہوئے فضاؤں میں
خامشی کے دامن میں
سو گئے ہیں ہنگامے
آسماں ابر آلود
بجلیاں چمکتی ہیں
تیرگی مٹانے کو
اس مہیب منظر میں
منتظر نگاہوں کا
اک چراغ روشن ہے
اور تم نہیں ائے


ان کی اس نظم کا ایک ایک مصرعہ پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ انتظار کا ایک ایک لمحہ ان کے ذہن پہ ادراک کے در بھی وا کرتا رہا ہے اگر اس میں کہیں یاس ہے تو وہیں اس میں پس پردہ مان بھی جھلک رہا ہے
میکش کی غزلیں کہیں نہ کہیں ان کی اس سوچ کو منعکس کرتی ہے جو معاشرے میں پائی جانے والی فضا کو دیکھ کر ان کے ذہن میں احساس بن کر بیدار ہوتی ہے جن میں اخلاقیات بھی نظر آتی ہے اور حقیقت کی عکاسی بھی ہو رہی ہوتی ہے ۔


خودنمائی جہاں کردار میں آ جاتی ہے
خدمت خلق بھی بازار میں آ جاتی ہے


بھوک اور پیاس کا عنوان نہیں بنتی ہے شاعری جب کبھی دربار میں آ جاتی ہے


چھوٹے لوگوں کو حقارت سے نہ دیکھو میکش
پارٹی چھوٹی بھی سرکار میں آجاتی ہے


ان کے ان شعروں کو پڑھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں غم جاناں کے ساتھ غم دوراں بھی موجود ہے انھوں نے خیالوں کی پر لطف وادیوں اور دل میں محبت کی اٹھنے والی انگڑائیوں اور خوابوں کی خود ساختہ دنیا میں ہی رہ جانے کے بجائے اپنے ارد گرد کے کرداروں کو بھی اپنا موضوع خیال کمال مہارت سے بنایا ہے
ان کے شعری مجموعہ "اف" کو پڑھتے ہوئے کئ جگہ یہ بات شدت سے محسوس ہوئی ہے کہ وہ حقیقت کو بےبنیاد تصورات و خیالات سے علیحدہ رکھتے ہیں ۔ وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں بلا تکلف اسے اپنی شاعری میں بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں


چلو یہ ٹھیک ہوا پاس مال و زر بھی نہیں
ہمیں تو شہر میں لٹنے کا کوئ ڈر بھی نہیں


جب ہی خواہشِ پرواز ہے فضاؤں میں
مرے وجود میں جب کوئی بال و پر بھی نہیں


ہم ایک ڈوبتی کشتی کے راہرو ٹھہرے
کہ قافلے کا کوئی اپنے راہ پر بھی نہیں


غرضیکہ میکش اعظمی کا شعری مجموعہ "اف" ان کی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے جس میں انھوں نے اپنے عمر بھر کے تجربات و مشاہدات کو سمونے کی بھرپور کوشش کی ہے جو کہ قابل ستائش ہے ۔ ادب کے تئیں ان کی جذباتیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات بھی کسی حد تک وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے وقت میں میکش اعظمی اپنی تمام تر شاعرانہ وجاہت کے ساتھ آسمان ادب پہ اپنی شناخت کو مستند بنانے میں ضرور کامیاب ہوں گے اور ان کی کاوشیں ادب کے میراث میں ایک سرمایہ کی حیثیت حاصل کرے گی

***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Uff, a poetry collection by Maikash Azmi. Reviewer: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں