چارلس ڈارون علم طبیعات کا ایک ماہر - مضمون از جواہر لال نہرو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-09

چارلس ڈارون علم طبیعات کا ایک ماہر - مضمون از جواہر لال نہرو

charles-darwin

انیسویں صدی کے وسط یعنی 1851ء میں انگلینڈ میں ایک کتاب شائع ہوئی جس نے غیر استدلالی یا اعتقادی نظریے اور سائنٹفک نظریے کی تکرار کو آخری حد تک پہنچا دیا۔ یہ کتاب چارلس ڈارون کی"جان دار مخلوق کی ابتدا"(ORIGIN OF SPECIES) تھی۔ ڈارون کا شمار بہت بڑے سائنس دانوں میں نہیں ہے۔ اس نے جو کچھ لکھا اس میں کوئی بہت نئی بات نہیں تھی۔ ڈارون سے پہلے طبقات الارض اور طبعی علوم کے بہت سے ماہر وں نے بھی اس موضوع پر بہت کام کیا تھا اور بہت سا مواد اکٹھا کرلیا تھا۔ پھر بھی ڈارون کی کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا اثر بہت وسیع پیمانے پر مترتب ہوا۔ دوسری سائنسی تصنیفات کے مقابلے میں اس کتاب نے سماجی نظریے میں تبدیلی پیدا کرنے میں سب سے زیادہ مدددی۔ اس نے ایک ذہنی انقلاب برپا کردیا اور ڈارون کو شہرت بخشی۔


علم الطبیعات کے ایک ماہر کی حیثیت سے ڈارون جنوبی امریکا اور بحر الکاہل میں ادھر ادھر خوب گھوما تھا اور اس نے اس سلسلے میں کافی مواد اکٹھا کرلیا تھا۔ اس کا استعمال کرکے اس نے یہ دکھایا کہ جان داروں کی ہر ایک نسل کس طرح قدرت کے ایک متعینہ اصول۔۔ اصول انتخاب کے ماتحت بدلتی ہوئی ترقی یافتہ شکل اختیار کرتی گئی ہے۔ اس وقت تک عام طور سے لوگوں کا یہی خیال تھا کہ انسان اور دوسری مخلوقوں کی تشکیل خدا نے ان کی موجودہ شکل میں الگ الگ کی ہے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی یا یہ کہ ایک جاند ار مخلوق بدل کر دوسری مخلوق کی شکل نہیں لے سکتی۔ ڈارون نے بہت سے ثبوت فراہم کر کے یہ ثابت کردیا کہ جان دار مخلوق کا ایک طبقہ دوسرے طبقے میں لازمی طور سے بدلتا ہے اور ترقی کا یہ فطری عمل ہے۔ یہ تبدیلی فطری انتخاب کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔ اگر کسی ذرا سی تبدیلی سے کسی جاندار طبقے کو ذرا بھی فائدہ ملا یا دوسروں کے مقابلے میں زندہ رہنے میں اس سے کچھ زیادہ مدد ملی تو وہ تبدیلی ان کے اندر آہستہ آہستہ مستقل اور دائمی شکل اختیار کرلے گی۔ ظاہر ہے کہ اس تبدیل شدہ طبقے کے جان دار زیادہ تعداد میں زندہ رہیں گے اور کچھ دنوں بعد اس تبدیل شدہ نسل کی بہتات ہوجائے گی اور یہ دوسری نسلوں کا صفایا کردے گی۔ اس طریقے سے ایک کے بعد ایک تبدیلی اور تغیر ہوتے چلے جائیں گے اور کچھ مدت کے بعد تقریباً ایک بالکل نئی نسل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح وقت پاکر تنازع الالبقاء کے اصول کے ماتحت فطری انتخاب کے عمل کے ذریعے بہت سی نئی نسلیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ ا س اصول کا پودوں ، جانوروں اور انسانوں تک پر اطلاق ہوگا۔ اس نظریے کے مطابق یہ ممکن ہے کہ آج حیوانات اور نباتات کی جو مختلف نسلیں دکھائی دے رہی ہیں ان سب کا پرکھا ایک ہی رہا ہو۔


کچھ ہی سال بعد ڈارون نے اپنی دوسری کتاب"انسان کا ارتقاء" شائع کی۔ جس میں اس نے اس نظریے کا نسل انسانی پر اطلاق کرکے دکھایا۔ ارتقاء اور فطری انتخاب کا یہ نظریہ اب بیشتر لوگوں نے تسلیم کرلیا ہے۔ اگرچہ ٹھیک اسی شکل میں نہیں جس شکل میں ڈارون اور اس کے پیروکاروں نے اسے دریافت اور مرتب کیا تھا۔ دراصل جانوروں کی نسل سدھارنے اور پودوں اور پھلوںں کے اگانے میں انتخاب کے اس اصول کا عملی طور پر استعمال کرنا لوگوں کے لئے ایک آسان بات بن گئی ہے۔آج کل کے مختلف بیش قیمت جانور اور پودے مصنوعی طریقوں سے پیدا کی ہوئی نئی نسلوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اگر انسان تھوڑی مدت میں اس طرح مصنوعی تبدیلی کر کے نئی نسلیں پیدا کرسکتا ہے تو لاکھوں اور کروڑوں سال کی مدت میں فطرت اس سلسلہ میں کیا کچھ نہیں کرسکی ہوگی ؟ لندن نے ساؤتھ کینسنگٹن میوزیم جیسے کسی علم الطبیعات کے عجائب گھر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نباتات اور حیوانات ہمیشہ اپنے آپ کو قدرتی حالات کے مطابق ڈھالتے چلے جارہے ہیں۔


آج یہ سب باتیں ہمیں مسلم نظر آتی ہیں۔ لیکن ستّر سال پہلے یہ حالت نہیں تھی۔ اس وقت مغرب کے زیادہ تر لوگوں کا یہی عقیدہ تھا کہ بائیبل کے تذکرے کے مطابق کائنات کا وجود عیسیٰ مسیح سے 4004 قبل ہوا۔ ہر ایک پیڑ پودے اور جان دار الگ الگ پیدا کئے گئے اور سب سے آخر میں انسان بنایا گیا۔ وہ مانتے تھے کہ سیلاب نوح آیا تھا اور نوح کی کشتی میں سارے جانداروں کے جوڑے اس لئے رکھے گئے تھے کہ کسی بھی جان دار مخلوق کا وجود ختم نہ ہونے پائے۔ یہ سب باتیں ڈارون کے نظریے سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ ڈاروناور طبقات الارض کے ماہرین جب زمین کی عمر کا ذکر کرتے تھے تو 6000 سال کی مختصر مدت کے بجائے کروڑوں سال کی بات کرتے تھے۔ اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں زبردست ہل چل مچی ہوئی تھی اور بہت سے آدمیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کریں۔ ان کا عقیدہ انہیں ایک بات ماننے کی تلقین کرتا تھا اور ان کی عقل دوسری بات ماننے پر مجبور کرتی تھی۔ جب انسان پرانی روایات میں اندھا یقین رکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو مجبور اور بے بس سا محسوس کرتے ہیں اور انہیں کھڑے ہونے کے لئے کہیں ٹھوس زمین دکھائی نہیں دیتی۔ مگر کسی دھچکے سے اگر ہمیں حقیقت کا علم ہوجائے تو وہ دھچکا اچھا ہوتا ہے۔


انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں سائنس اور مذہب کے درمیان خوب نوک جھونک رہی۔ اس کے نتیجے کے بارے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ صنعت و حرفت اور ٹکنالوجی کی نئی دنیا کا دارومدار سائنس پر تھا اس لئے سائنس کا دامن چھوڑا نہیں جاسکتا تھا۔ سائنس کی برابر فتح ہوتی چلی گئی اور "فطری انتخاب" اور "تنازع الالتقاء" کی اصطلاحیں زبان زد ہوگئیں۔ بہت سے لوگ ان کا مطلب پوری طرح سمجھے بغیر ہی ان فقروں کو استعمال کرنے لگے۔


ڈارون نے اپنی کتاب "انسان کی نسل" میں یہ بتایا گیا تھا کہ انسان اور بندروں کی کچھ ذاتیں اصلاً شاید ایک ہی ہوں گی۔ یہ بات ارتقاء کے مختلف مراحل کی مثال پیش کرکے ثابت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس سے"کوئی ہوئی کڑی" کا ایک عام مذاق چل پڑا اور عجیب بات یہ ہوئی کہ حکمراں طبقوں نے بھی ڈارون کے نظریے کو توڑ مروڑ کر اس سے اپنے مطلب کی بات نکال لی۔ انہیں یقین ہوگیا کہ اس نظریے سے ان کی برتری کا ایک اور ثبوت بھی مل گیا ہے۔ زندگی کی جدو جہد میں سب سے قابل ہونے کی وجہ سے وہ بچ گئے تھے اس لئے تنازع الالبقاء اور فطری انتخاب کے اصولوں کے ماتحت وہ سب سے اوپر آگئے اور حکمراں طبقہ بن گئے! ایک طبقے کا دوسرے طبقے پر یا ایک قوم کا دوسری قوم پر تسلط جمانے کے حق میں یہ ایک نیا بہانہ ہاتھ آگیا۔ سامراجی طاقت اور سفید نسل کی برتری کے لئے یہ ایک اور دلیل بن گئی اور مغرب کے بہت سے لوگ سمجھنے لگے کہ دوسروں پر جتنا زیادہ دھونس جمائیں گے اور جتنے زیادہ طاقتور اور ظالم بن کر رہیں گے انسانی زندگی کی قدروقیمت میں ان کا درجہ اتنا ہی اونچا ہونا ممکن ہوگا۔ یہ نظریہ صحت مند نہیں ہے۔ مگر اس سے ایشیا اور افریقہ میں مغرب کی سامراجی طاقتوں کے رویے کا راز کچھ کچھ کھلتا ہے۔


بعد میں کچھ سائنس دانوں نے ڈارون کے نظریے پر تنقید کی ہے۔ لیکن اس کا نظریے اپنے وسیع معنوں میں آج بھی صحیح مانا جاتا ہے۔ اس کے نظرییے کی وسیع پیمانے پر مقبولیت کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں کا ارتقائی نظریے میں یقین ہوگیا ہے۔ اس نظریے کا یہ مطلب تھا کہ یہ انسانی سماج اور دنیا اپنے کمال کی طرف بڑھ رہی ہے اور دن دن ترقی کرتی جارہی ہے۔ ترقی اور آگے بڑھنے کا یہ تصور صرف ڈارون کے نظریے کا ہی نتیجہ نہیں تھا۔ سائنٹفک تحقیق کے سارے رجحان نے اور صنعتی انقلاب کے نتیجے کے طور پر اور اس کے بعد رونما ہونے والی تمام تبدیلیوں نے لوگوں کا ذہن اس کے لئے ہموار کردیا تھا۔ ڈارون کے نظریے نے اس کی ایک طرح سے تصدیق کردی اور لوگ سوچنے لگے کہ انسانی ترقی کی آخری منزل کچھ بھی ہو وہ پے در پے فتح حاصل کرتے ہوئے فخر کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ترقی کا یہ تصور بالکل نہیں تھا۔ گزرے ہوئے زمانے میں یورپ ، ایشیا یا کسی بھی قدیم تہذیب میں ایسا کوئی تصور رہا ہو ، ایسا نہیں معلوم ہوتا۔ یورپ میں ٹھیک صنعتی انقلاب کے زمانے تک لوگ ماضی کو درخشاں اور مثالی زمانہ مانتے تھے۔ یونان اور روم کی کلاسیکی تصنیفات کا پرانا زمانہ بعد کے زمانوں سے برتر اور بہتر مانا جاتا تھا۔ لوگ ایسا ماننے لگے تھے کہ بنی نوع انسان تنزلی کے راستے پر گامزن ہے یا کم سے کم اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہورہی ہے۔


ہندوستان میں بھی تنزلی اور ماضی کی درخشاں تصویر کی قریب قریب ایسی ہی کہانی ہے۔ ہندوستانی پر ان بھی طبقات الارض کے ماہرین کے قائم کئے ہوئے زمانوں کی طرح کائنات کی بہت لمبی مدت مانتے ہیں مگر وہ بھی "سَت یُگ" سے شروع کرکے "کل جُگ" پر آتے ہیں۔


اس لئے ہم دیکھتے ہیں انسانی ترقی کا تصور بالکل نیا ہے۔ قدیم تاریخ کا ہمیں جتنا کچھ علم ہے ، اس سے ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا علم ابھی بہت محدود ہے اور ممکن ہے اس علم میں اضافہ ہونے پر ہمارا نظریہ بدل جائے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں اس ترقی کے بارے میں جتنی گرمجوشی تھی اتنی شاید آج نہیں رہی ہے۔ اگر ترقی کا نتیجہ یہی کہ پچھلی عالم گیر جنگ کی طرح ہم ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر تباہ و برباد کریں تب تو اس "ترقی"میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ضرور ہے۔ دوسری بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ ڈارون کے تنازع الالبقاء کی منطق کا یہ لازمی مطلب نہیں ہے کہ زندگی کی جدو جہد میں برتری ہی زندہ رہتا ہے۔ یہ سب تو عالموں کے مفروضات ہیں۔ ہمارے لئے تو غور کرنے کی بات صرف یہ ہے کہ غیر تغیر پذیر سماج کے پرانے اور عام خیال کو انیسویں صدی کی جدید سائنسی معلومات نے ایک طرف ڈھکیل دیا اور اس کی جگہ یہ خیال پھیل گیا کہ سماج تغیر پذیر ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترقی کا تصور بھی سامنے آیا اور اس میں شک نہیں کہ اس زمانے میں سماج در حقیقت اتنا بدل گیا ہے کہ اسے پہچانا نہیں جاسکتا۔


جب میں ڈارون کا جان دار نسلوں کے ماخذ کا نظریہ بتا رہا ہوں تو یہ جاننا اور بھی دلچسپ ہوگا کہ اس موضوع پر ایک چینی فلسفی نے 2500 سال پہلے کیا لکھا تھا۔ اس کا نام ژون ژے تھا اور اس نے عیسیٰ سے چھے سو سال پہلے بدھ کے زمانے کے آس پاس لکھا تھا:


"سب جان دار مخلوق کی پیدائش ایک ہی نسل سے ہوئی ہے۔ اس ایک بنیادی نسل میں رفتہ رفتہ اور برابر تبدیلیاں ہوتی گئیں۔ جس کے نتیجے میں جان داروں کی مختلف شکلیں سامنے آئیں۔ یہ تبدیلی ان جانداروں میں یکایک نہیں پیدا ہوگئی۔ بلکہ اس کے برخلاف پشت در پشت رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیوں سے یہ فرق پیدا ہوا۔"


یہ اصول ڈارون کے اصول سے کافی ملتا جلتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ عمرانیات کا یہ قدیم چینی مفکر ایسے نتیجے پر پہنچ گیا جس کی دوبارہ دریافت کرنے میں دنیا کو ڈھائی ہزار سال لگ گئے۔


انیسویں صدی جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی۔ تبدیلیوں کی رفتار بھی تیز ہوتی گئی۔ سائنس نے حیرت انگیز کارنامے دکھائے اور تحقیق و ایجاد کی کبھی نہ ختم ہونے والی دنیا کی رنگا رنگی نے لوگوں کی آنکھوں کو چکا چوند کردیا۔ ان میں سے تار ، ٹیلیفون ، موٹر اور پھر ہوائی جہاز جیسی کتنی ہی ایجادوں نے عوام کی زندگی میں بے پناہ تبدیلیاں لادی ہیں۔ سائنس نے دور آسمان اور آنکھوں کو نہ دکھائی دینے والے ایٹم کو ناپنے کی ہمت کی اس نے انسان کی تھکا دینے والی مشقت کم کردی اور کروڑوں انسانوں کی زندگی میں آسائشیں میسر کردیں۔ سائنس کی وجہ سے دنیا کی اور خاص طور سے صنعتی ملکوں کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ ساتھ ہی سائنس نے بربادی کے کامل طریقے بھی ایجاد کر ڈالے۔ مگر اس میں سائنس کو قصور وار نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ اس نے تو قدرت پر قابو پانے کے لئے انسان کی قوت بڑھا دی۔ مگر اس تمام قوت کو حاصل کرنے کے بعد انسان یہ نہیں سمجھ پایا کہ اپنے اوپر قابو کیسے پایاجاتا ہے۔ اس لئے اس نے بہت سے شرمناک کام کئے اور سائنس کی دین کو بے کار گنوادیا۔ لیکن سائنس کی ترقی کا یہ سفر برابر جاری رہا اور اس نے ڈیڑھ سو سال کے اندر ہی دنیا کی ایسی کایا کلپ کردی، جیسی پچھلے ہزاروں سال میں بھی نہیں ہوپائی تھی۔ سچ مچ سائنس نے ہر ملک میں اور زندگی کے ہر شعبے میں ہمہ گیر انقلاب برپا کردیا ہے۔


سائنس کے میدان میں یہ ترقی اب بھی جاری ہے اور اس کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے لئے کوئی ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے۔ ایک ریلوے لائن بنتی ہے مگر جب تک کہ وہ چالو ہو ، پرانی پڑ جاتی ہے۔ وقت آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایک مشین خرید کر کھڑی کی جاتی ہے کہ سال دو سال کے اندر اس سے بہتر اور کارگر مشینیں بننے لگتی ہیں۔ یہ دوڑ بے تحاشا جاری ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: یادگار شخصیتیں (مضامین) مصنف: جواہر لال نہرو۔ اردو ترجمہ: رفیق محمد شاستری
ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی۔ سنہ اشاعت: 1966

Charles Darwin, an expert of evolutionary biology

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں