ذہن زاد - توصیف بریلوی کے افسانے - ایک مطالعہ ایک تاثر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-08

ذہن زاد - توصیف بریلوی کے افسانے - ایک مطالعہ ایک تاثر

zahan-zaad-short-stories-tauseef-bareilvi

"ذہن زاد" عصر حاضر کے ابھرتے ہوئے افسانہ نگار توصیف بریلوی کی ذہنی بالیدگی اور دیدنی ریاضتوں کا ایسا مجموعہ ہے جس میں آج کے نوجوانوں کی حسین شام اور سیاہ راتوں کا قصہ موجود ہے، جسے ستھری زبان اور آسان لفظوں میں برت کر توصہف بریلوی نے قاری کے ذہن پر چھاپ اور ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی ہے۔
کتاب میں بیس کہانیاں ہیں اور ہر کہانی میں ایک جہان آباد ہے، جس میں داخل ہوکر قاری کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ لفظوں کے حقیقی جہان میں عمدا گم ہوجائے، ان افسانوں میں ایک کشش ہے جو پڑھنے والے کو صرف متوجہ ہی نہیں کرتی بلکہ اپنے سحر انگیز حصار میں جکڑ لیتی ہے، افسانوں کا نیا پن نوجوان قاری کو چونکانے کے بجائے رکنے، سوچنے، مسکرانے اور اپنے گریبان مین جھانکنے پر مجبور کردیتا ہے۔
توصیف بریلوی کی اس ادبی کاوش کی معروف فکشن نگار سید محمد اشرف ستائش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ "مجھے ایک نرم نرم سا شکوہ رہتا تھا کہ علی گڑھ سے متعلق نئے افراد کہانی لکھنے سے دور ہوگئے ہیں، پچھلی تین دہائیوں میں علی گڑھ نے کوئی قابل ذکر کہانی کار نہیں پیدا کیا، اس مجموعہ کو دیکھ کر وہ شکوہ دور ہوگیا۔"


زیر نظر افسانوی مجموعہ ڈیڑھ سو صفحات اور بیس کہانیوں پر مشتمل ہے، کتاب کا انتساب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر طارق چھتاری اور ان کے ادبی کلب (FFC) کے نام ہے، مصنف نے پیش لفظ میں کہانی اور کتابی سفر کو بیان کرتے ہوئے اس راستہ میں جن اساتذہ اور رفقاء کا ساتھ رہا ہے ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے، مجموعہ کی پہلی کہانی "جیلر" ہے، جس میں افسانہ نگار نے یہ بتایا ہے کہ انسان کو سکون کتابوں کے جزیرہ میں ہی مل سکتا ہے، کتابوں اور لفظوں کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے کہ اس جنگل میں آپ ایک بار داخل ہوگئے تو سمجھئے اسیر ہوگئے، اب یہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہیں، افسانہ جیلر کے ذریعہ بہت ہی دلچسپ اور عمدہ انداز میں کتابوں کی اہمیت اور ضرورت سے روشناس کرایا گیا ہے۔


دوسرا افسانہ "پزا بوائے" ایک افسانہ ہی نہیں اس بدلتی ہوئی دنیا اور سماج کا ایک المیہ بھی ہے، اس کہانی میں انگریزی جملوں و الفاظ کا برجستہ استمعال لائق تعریف ہے، یہ کہانی اس معاشرہ کی ہے جو دولت، پیسہ اور دنیا کے پیچھے ایسا مگن ہے کہ تہذیبی قدریں اور ثقافت کا لباس تار تار ہوچکا ہے، اس کا دوسرا پہلو غربت اور افلاس کی حکایت بھی بیان کرتا ہے کہ غریبی اور بسا اوقات پیسوں کی ہوس میں آدمی انسانیت کا لباس اور اپنے تہذیبی ورثہ کو بھی بالائے طاق رکھ دیتا ہے، کہانی کی ابتداء دلچسپ اور اختتام بہت ہی دلسوز ہے، شروع اور آخر کا ایک ایک اقتباس ملاحظہ ہو:


"پزّا بوائے نے بائک پارکنگ میں کھڑی کی، وارمر سے پزا نکالا اور لفٹ میں سوار ہوگیا، اب وہ ایک ڈور بیل بجا رہا تھا، کچھ ہی دیر میں دروازہ کھلا، ایک گورا، خوبصورت اور لمبی انگلیوں کے ناخنوں پر نیل پینٹ والا ہاتھ باہر آیا، اس نے پزا بوائے کا گریبان پکڑا اور اندر کھینچ لیا، دروازہ بند، دھڑاک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ معاملہ اس ایک دروازہ کا نہیں تھا بلکہ بلڈنگ میں جتنے فلیٹ تھے، ان میں سے زیادہ تر کا تھا، یہ بات الگ ہے کہ کوئی پزا کھاتا ہے اور کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"


اب ہم آپ کو افسانہ کے آخری ورق پر لے چلتے ہیں:
"ٹینا ہاتھ میں چمچماتا ہوا چاقو لئے کھڑی تھی، اسی چاقو سے اس نے اپنے مختصر لباس کی ایک Strap بھی کاٹ دی تھی، پزا بوائے متواتر گڑگڑا کر رحم کی بھیک مانگ رہا تھا، کچھ ہی دیر میں ڈور بیل بجی، اچانک پزا بوائے کے جسم میں بلا کی پھرتی آگئی، وہ کسی بھی طرح بچ کر نکل جانا چاہتا تھا، کبھی دوڑ کر کھڑکی کی طرف جاتا، تو کبھی واپس آکر ٹینا کے سامنے آنسو بہاتا اور ٹینا تو جیسے پتھر ہو چکی تھی، ڈور بیل بجنا بند ہوچکی تھی، اب دروازہ توڑے جانے کی آوازیں بلند ہونے لگیں، دروازے سے آنے والی ہر آواز اس کے سینے کو چھلنی کر رہی تھی، اس کے دماغ میں مسلسل دھماکے ہورہے تھے اور پورا جسم پسینے سے شرابور ہوچکا تھا، جیسے ہی دروازہ ٹوٹا، پولیس اندر داخل ہوئی اور۔۔۔۔۔۔۔۔پزا بوائے کا جسم کھڑکی کا شیشہ توڑتے ہوئے ہوا میں لہراتا چلا گیا، چھلانگ لگانے سے پہلے اس کے علم میں شاید یہ بھی نہیں رہا کہ وہ بلڈنگ کی دسویں منزل پر تھا۔"


اسی طرح افسانہ "پرندوں کی کہانی" اور "یہ شام کب ہوگی" میں افسانہ نگار نے دوڑتی بھاگتی زندگی میں گھریلو اور ازدواجی زندگی کے کچھ پہلوؤں کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے، کہانی پڑھتے ہوئے ایسے جملے ملتے ہیں کہ زیر لب مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔
پانچواں افسانہ "ایش ٹرے" ایک حساس موضوع پر لکھا گیا دلچسپ افسانہ ہے، جو ایک باشعور قاری کی مانگ کرتا ہے اور معاشرہ کی خرابیوں کے ساتھ لوگوں کے رویے پر نہایت سلیقے سے روشنی ڈالتا ہے، مصنف نے کہانی کو اس ڈھنگ اور انداز سے خلق کیا ہے کہ لمحہ بھر کو کہانی سے باہر نکلنا قاری کے اختیار میں نہیں رہتا، مندرجہ ذیل عبارت پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ پوری کہانی کا راز اسی میں پنہاں ہے۔


"اور پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟ جِم نے سنجیدگی سے پوچھا۔"
"اسٹیلا کی سانسیں بے ترتیب ہوئیں، آنکھیں دھندلانے لگیں اور پھر یکا یک کچھ سوٹیڈ بوٹیڈ ہیولے اس کے سامنے پھرنے لگے، ان میں سے کسی کی بھی شکل ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہی تھی جس سے ان کی شناخت ہوسکے، وہ سب سگریٹ پی رہے تھے، ان کی سگریٹس سلگنے کے بجائے لپٹیں چھوڑ رہی تھیں، ان میں اپنی سگریٹ پہلے بجھانے کے لئے ہوڑ لگی ہوئی تھی، باری باری سے وہ اپنی سگریٹ کو ایک نہایت خوبصورت ایش ٹرے میں بجھا رہے تھے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ دو سگریٹ ایک ساتھ ایش ٹرے میں ڈال کر بجھانے کی کوشش کی جاتی۔"


توصیف بریلوی نے سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی افسانوں کے علاوہ نوجوانوں کے جنسی مسائل اور نفسیات پر بھی عمدہ پیرایہ میں قلم اٹھایا ہے، جس پر لوگ چاہ کر بھی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
"ایک چاقو کا فاصلہ" کے ذریعہ نہایت سلیقے سے قاری کو پیغام دیا ہے کہ آج کے دور میں صنف مخالف سے دوستی اور پھر دوستی جسمانی تعلقات میں کس آسانی سے تبدیل ہوجاتی ہے لیکن اس میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنا دامن بچاکر گزر جاتے ہیں۔
افسانہ "نوز پیس" ایک لڑکے کی نفسیاتی تناؤ کی کہانی ہے، جسے ایک برقع پوش لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے، پہلے ملاقات اور دوستی، پھر محبت سے شادی تک بات آجاتی ہے لیکن اس لڑکی کے چہرہ پر پڑا ہوا نقاب لڑکے کے لئے معنی نہیں رکھتا، بلکہ لڑکی کے خوبصورت ہاتھوں میں ہی اس کی ساری کائنات سما جاتی ہے لیکن شادی کی رات جب وہ چہرہ سے گھونگھٹ ہٹاتی ہے تو لڑکے پر ہسٹریائی قسم کا ایک دورہ پڑ جاتا ہے اور وہ دوپٹہ سے گلا گھونٹ کر لڑکی کی جان لے لیتا ہے پھر اس کے نرم گداز ہاتھوں کو سنبھال کر پہلو میں لیٹ جاتا ہے۔


بالکل اسی طرح مصنف نے "سکون" میں انسان کی فطری ضرورت اور جنسی نا آسودگی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی الجھن، جھنجھلاہٹ اور غصہ کو ایک پرلطف اور معنی خیز کہانی میں پرویا ہے، جس میں بھاری بھرکم "مُٹکی" اپنے شوہر سے تسکین نہ ہونے کی صورت میں ہر وقت گالی، لڑائی اور بچوں پر غصہ کرتی نظر آتی ہے، لیکن جب وہ اپنے دیور کے کمرہ سے نکلتی ہے تو اس کی آنکھوں میں ممتا کی جھلک بھی نظر آتی ہے اور چہرہ پر سکون کا سایہ بھی، درج ذیل جملوں سے اس کہانی کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے:


"سہ پہر کا وقت ختم ہوا چاہتا تھا، بچے گلیوں میں شور مچاتے ہوئے کھیل رہے تھے دونوں دیورانیاں کہیں گئی ہوئی تھیں، مٹکی بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھی، شاید اپنے کمرے میں تھی لیکن اس کا دیور۔۔۔۔۔۔؟ وہ شاید کہیں باہر گیا ہوگا، میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ تبھی مٹکی کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کا دیور شرٹ پہنتا ہوا باہر آیا، دروازے کا جو حصہ کھلا تھا اس میں سے میں نے دیکھا مٹکی تخت سے اٹھی اور ایک تکیہ اس کے پیروں کے پاس گرا۔"


"جب بچے جی بھر کر کھیل چکے تو گھر آگئے، مُٹکی نے خلاف معمول کسی کو گالی نہیں دی بلکہ بڑے پیار سے پیش آرہی تھی، ممتا آج اس کی آنکھوں سے چھلکی پڑ رہی تھی، دن رات گالیاں دینے والی وہ عورت بڑی ہشاش بشاش نظر آرہی تھی، اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر سکون تھا۔"


دسواں افسانہ "نِک ٹائی" میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان بیوی کے ہوتے ہوئے کیوں گھر کے باہر سکون کی تلاش میں چل پڑتا ہے، یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی شوخ وشنگ زندگی اور عاشقی بھرے لمحات، ملازمت اور ذمہ داری کے طوفان میں دھول بن کر رہ جاتے ہیں، بس ایک خلش اور ادھورا پن باقی رہتا ہے، پھر شادی کے بعد بیوی کی سرد مہری اور اپنی جانب سے معمولی بے توجہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ذہنی وجسمانی سکون کے لئے غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔


"ذہن زاد" جس پر افسانہ نگار نے کتاب کا عنوان بھی قائم کیا ہے، اپنے طرز کی ایک دلنشیں کہانی ہے جس میں تخلیق کار نے "قرطاس" اور "تالیف" نام کے دو کرداروں سے افسانہ میں رنگ بھرا ہے، "سرخ سفید" ناکام محبت اور مفاد پرستی میں کی جانے والی شادی اور اس سے متاثر ہونے والی لڑکی کی ایک دلخراش کہانی ہے، کہ معاشرہ میں کیسے بچوں کے جذبات کا خیال کئے بغیر ان کی زندگی کا پتا پھینکا جاتا ہے اور والدین دولت کے نشہ میں انہیں سیاسی رشتے بنانے پر مجبور کرتے ہیں، کہانی "رگ جاں سے قریب" کی کہانی مذہبی فرقے اور مسالک پر ایک گہرا طنز اور چوٹ کرتی ہوئی نظر آتی ہے، "دو تابوت" ایک شاندار افسانہ ہے، جس میں طربیہ اور المیہ فضا کا خوبصورت امتزاج ہے، ماڈرن عورتوں کا اپنی ذمہ داری سے بھاگنے کا ایک نیا طریقہ ہے کہ اگر کوئی بات آپ کے مزاج کے خلاف ہو تو بس دقیانوسی اور تنگ نظری کا ٹھپہ پلک جھپکتے مرد پر لگا دیا جائے، افسانہ "بلیکش" اسی انداز کی مزیدار کہانی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔


توصیف بریلوی نے زندگی کے بعض ٹھوس حقیقتیں اور مسائل پر بھی بڑی خوبصورتی سے روشنی ڈالی ہے، ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور اس جیسے دوسرے پلیٹ فارم سے جو نت نئے بیہودہ خیالات ونظریات پھیلائے جارہے ہیں اور کیسے نئی نسل اس میں بلا کی تیزی سے گرفتار ہوتی جارہی ہے کو موضوع بنا کر افسانہ "ای سگریٹ" میں بہت کامیابی سے پیش کیا ہے، مزید افسانہ "ٹشو پیپر" ٹیکنالوجی کے ذریعہ غلط اور غیر اخلاقی کاموں میں مبتلا ہونے والی نئی نسل کا ترجمان ہے، جہاں موبائل نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ باقی سب کچھ بھی آسان کردیا ہے اور عصر حاضر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں فون سیکس اور اس جیسی دوسری چیزوں میں ملوث ہورہے ہیں، یہ افسانہ موبائل کے فوائد سے صرفِ نظر اس کے منفی پہلوؤں پر سوچنے کے لئے مجبور کرتا ہے، زبان وبیان عمدہ ہے البتہ افسانہ کچھ ادھورا سا ہے یا پھر آخری لائن اضافی ہے۔


سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی ہی نہیں بلکہ سائنسی موضوعات پر بھی توصیف بریلوی نے کئی بہترین کہانیاں لکھی ہیں جس میں "تعذیب" دنیا کی تباہی اور ایک نئی زندگی کی تلاش کی کہانی ہے، جہاں سب کچھ مشینی ہے حتی کہ بچوں کی پیدائش کا طریقہ کار بھی بدل چکا ہے اور فطری ضرورتیں پوری کرنے کا ذریعہ بھی، البتہ اس کہانی کا اختتام ایسا ہے جو قاری سے پوشیدہ نہیں رہتا اور ختم ہونے سے پہلے ہی کہانی اپنے عروج پر دم توڑ دیتی ہے، "خوشبو کا خاکہ" اسی سلسلہ کی دوسری کڑی ہے، کہانی کی ہر سطر چونکنے پر مجبور کرنے کے ساتھ مصنف کے لئے داد چاہتی ہے، افسانہ بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ برتا گیا ہے اور پلاٹ بھی مستحکم ہونے کے ساتھ افسانے کے لوازمات پر کھرا اترتا ہے۔


"مصنف اور تصنیف" میرا پسندیدہ افسانہ ہے جس میں تخلیق اور تخلیق کار کے مابین ایک کشمکش دکھائی گئی ہے، جس سے قلم ورشنائی کا شیدائی ضرور گزرتا ہے۔ "نگاہ حسرت" کو ایک انتقامی کہانی بھی کہا جاسکتا ہے اور صرف آنکھوں کو بنیاد بناکر لکھا گیا ایک شاندار افسانہ بھی، جو کردار کو نفسیاتی تناؤ میں مبتلا کردیتا ہے، توصیف بریلوی کہانی تخلیق کرنے کا ہنر جانتے ہیں، آپ کے افسانے ذہنی کشادگی اور دور رسی کی عمدہ دلیل ہیں، افسانوں کے موضوعات عام زندگی سے اخذ ہیں، جس میں نوجوانوں کے مسائل پر زیادہ توجہ دی گئی ہے اور اس دور میں جب کہ لوگ کہنے کو زیادہ تہذیب یافتہ اور ترقی پذیر ہیں اس سماج کا یہ تاریک پہلو بھی بڑھتا جارہا ہے کہ انسان اخلاقی پستی کا شکار ہورہا ہے، توصیف بریلوی نے اپنے افسانوں میں کرداروں کے انداز وادا کے بیان، اسلوب، نفسیات اور زبان کا خاص خیال رکھا ہے، جو بادِ نو بہار کے خوشگوار جھونکے کے مثل ہے جسے پڑھتے ہوئے پژمردگی کا احساس اور کہیں کوئی شکستگی محسوس نہیں ہوتی ہے۔


کتاب کی طباعت صاف ستھری اور عمدہ ہے، مزید پروف کی غلطیاں بہت معمولی نوعیت کی ہیں، تاہم کتاب کا سرورق نہایت دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ایک تخلیق کار کی ذہنی کشمکش اور اس کی ریاضتوں کی ترجمانی کرتا ہے جس میں ایک نہیں بلکہ کئی جہاں بیک وقت آباد رہتے ہیں۔
امید ہے توصیف بریلوی کا یہ سفر یوں ہی جاری رہے گا اور ان کے افسانوں کا سحر ہم جیسوں پر اپنا اثر یوں ہی طاری رکھے گا اور نئے مسائل پر نئی کہانیاں نئے اسلوب میں پڑھنے کو ملتی رہیں گی۔

***
ایس ایم حسینی۔ ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ۔

Email: hamzahusaini0981[@]gmail.com


Zahan Zaad, a collection of Urdu short stories by Tauseef Bareilvi. - Book Reviewer: S. M. Husaini

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں