سردار جعفری کی بوالعجبی یاد رہے گی - علی احمد فاطمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-14

سردار جعفری کی بوالعجبی یاد رہے گی - علی احمد فاطمی

aiwan-e-urdu-ali-sardar-jafri-number-2000

اردو کے ممتاز اور صف اول کے ترقی پسند شاعر، ادیب، ناقد دانشور علی سردار جعفری پہلی اگست ۲۰۰۰ء کو ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے۔ ان کے رخصت ہوتے ہی اردو زبان، تاریخ و تہذیب کا ایک دور رخصت ہوگیا۔ ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ ساری دنیا میں ان کی موت کا غم منایاجارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ غم ان کی ہر دل عزیز شخصیت کے اٹھ جانے کا تو ہے ہی۔ اس غم کے پیچھے، ان آنسوؤں کے پس پردہ ان کی ساٹھ پینسٹھ سالہ ادبی، ثقافتی، صحافتی اور سیاسی خدمات کا اعتراف و اظہار بھی پوشیدہ ہے۔ جو کام کرکے جاتے ہیں انہیں دنیا مختلف طریقوں سے یاد کرتی ہے، مختلف طریقوں سے خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ عقیدتوں کے بڑے روپ ہوا کرتے ہیں۔


سردار جعفری کی شخصیت اور ان کا تخلیفی و تنقیدی ادب دونوں ہی ابتدا سے جتنے مقبول رہے اتنے ہی متنازعہ فیہ۔ ان کی ہر کتاب، ہر فکر ، ہر عمل، غرضیکہ ہر ادا پسند بھی کی جاتی رہی اور بحث و مباحثے کے نئے نئے دروازے بھی کھولتی رہی اور ساتھ ہی ان کی شہرت و محبوبیت میں اضافے بھی کرتی رہی۔


عام طور پر یہ خیال ہے کہ سردار جعفری بنیادی طور پر شاعر تھے ، لیکن جدید خیالات رکھنے والوں کا ایک حلقہ تو ایک سرے سے انہیں شاعر ہی نہیں مانتا، خود ترقی پسند حلقے میں بھی ان کی شاعری کو لے کر سرگوشیاں رہی ہیں۔ فراق گورکھپوری کہاکرتے تھے کہ سردار کی شاعری نغمگی اور لطافت سے عاری ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان کے ہر صفحہ پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہوں، فوج مارچ کررہی ہو، جذبی انہیں ایک سرے سے شاعر ہی نہیں مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر نثر نگار ہے۔اور لوگ بھی ہیں جو سردار جعفری کو شاعر یا اچھا شاعر تسلیم کرنے میں تامل برتتے ہیں۔ جو لوگ انہیں شاعر تسلیم کرتے ہیں ان کا بھی یہ اعتراض ہے کہ سردار کی شاعری میں انیس، اقبال، جوش وغیرہ کا ایسا ملاجلا آہنگ ہے کہ ان کی اپنی انفرادی پہچان بن ہی نہیں پاتی۔ ترقی پسند فکر و خیال کے بعض ناقدوں نے بھی سردار کو ایک اچھا اور بڑا شاعر تسلیم کرنے میں تکلف کیا ہے لیکن پھر بھی سردار کا شمار معدودے چند ترقی پسند شعرا میں ہوتا ہے اور اکثر کی زبان پر فیض کے بعد سردار کا ہی نام آتا ہے۔ ایسا کیوں؟


'ایک خواب اور ' پر تبصرہ کرتے ہوئے سجاد ظہیر نے یہ لکھا:


"سردار جعفری کی شاعری جدید اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔۔ جعفری کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اردو کی ترقی پسند ادبی خلاقی اپنے پورے آب و تاب اور اپنے تمام پیچ و خم کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔"


سجاد ظہیر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ سردار جعفری کی شعری تخلیقات کا ابتدائی سرا اقبال اور جوش کی شاعری سے ملتا ہے جو اس زمانے کی دوسری ، تیسری دہائی تک نظریاتی اعتبار سے حاوی تھے لیکن ساتھ میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جیسے جیسے بعد کے زمانے میں قومی اور عالمی سطح پر اشتراکی تحریکوں اور نظریات کا عرو ج ہوا اور ہندوستان کی قومی آزادی بھی متاثر ہوئی تو پھر مزدوروں ، کسانوں اور انقلابی دانشوروں نے اس تحریک کو بائیں طرف موڑ دیا ، اس سلسلے میں سب سے نمایاں کام سردار جعفری اور ان کی شاعری نے کیا۔


سردار جعفری کی شخصیت اور شاعری کو انہیں دوسروں کے درمیان رکھ کر دیکھاجائے تو بھی سردار اور ان کی شاعری کی قدرے معرفت حاصل ہوجائے گی اور اس سردار کا عرفان حاصل ہوجائے گا جو انتہائی کچی عمر میں، عین شیعی ماحول میں منبر پر بیٹھ کر مرثیے پڑھنے والا صرف کورانہ عقیدت کے بجائے حضرت امام حسین کے غیر معمولی کردار سے ظلم کے خلاف بغاوت کا سبق دیکھ کر پورے زمیندارانہ نظام سے منہ موڑ کر لکھنو آتا ہے اور یہاں بھی انگریزوں کے ظلم و جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے اور وہ ساری اذیتیں برداشت کرتا ہے جو اس وقت کے دیوانے باغیوں کا مقدر بنی ہوئی تھیں۔ علی گڑھ پہنچنے کے بعد ان کے وژن ، فکرو نظر میں تبدیلی آتی ہے۔ دنیا کے انقلابات سے ان کا ذہن مرتعش ہواٹھتا ہے۔ اشتراکیت ایک مضبوط راہ دکھاتی ہے۔
انقلاب روس اور دنیا کے ادیبوں کے انقلابی اقدامات پابلونوروا۔ ناظم حکمت ، جوہر لعل نہرو، قاضی نذر الاسلام اور پھر وطن کی نامکمل آزادی ، خواب در خواب ایک نئی جنگ کی تیاری۔ دنیا کی تاریخ، تہذیب، تصوف، انسان دوستی ہی نہیں انسانی جمالیات غرض کہ فکروخیال کی دنیا میں کروٹیں ہی کروٹیں، نئی نئی شمعیں روشن ہوتی گئیں۔ شاید پہلی بار ایسا ہوا کہ حافظ ، سعدی، رومی، پابلو نردا، ناظم حکمت، کبیر، گرونانک،میرا، میر، غالب، اقبال وغیرہ کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا۔ دنیا کے انسانوں کو ایک لڑی میں پرودیا اور شاعری ایک نئے درد، لے اور تیور کے ساتھ نمودار ہوئی۔ عالمی فکر اور درد مندی کے بین الاقوامی تصور سے مالامال، ایک نئے شعری آہنگ اور فکری کردار کو پیش کرنے میں جعفری پیش پیش تو رہے لیکن یہاں بھی ان پر اعتراض و اختلاف کے تیر چلائے گئے۔ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو ترقی پسندی کے ہی مخالف تھے۔
دوسری قسم ایسے لوگوں کی تھی جو درد مندی تو رکھتے تھے لیکن اردو شاعری کو درد دل اور درد جگر سے الگ کرکے دیکھنے کے عادی نہیں تھے اور آگے چل کر ان لوگوں نے بھی سردار کی شاعری کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جوشاعری کو صرف باطنی کیفیات کا مبہم اور پیچیدہ اظہار مانتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو سردار جعفری کی انقلابی یاخطیبانہ شاعری کس طرح پسند آسکتی ہے۔ چنانچہ اعتراضات ہوئے پوری ترقی پسند شاعری پر باالعموم اور سردار جعفری پر بالخصوص۔ ان لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو مزاحمتی یا ایجی ٹیشنل شاعری کا مفہوم تک نہیں سمجھتے جو ادب اور زندگی کے رشتوں پر یقین نہیں رکھتے یا پھر ان لوگوں نے جو بقول سردار جعفری "میری شاعری کو سلیقے اور سنجیدگی سے پڑھا ہی نہیں تھا۔"


صحیح بات یہ ہے کہ سردار جعفری کی بڑی شاعری وہیں جنم لیتی ہے جہاں وہ جوش خطابت ، انقلابی آہنگ میں ڈوب جاتے ہیں اور یہ لہجہ ان کے فکروفلسفہ کا اصل روپ اختیار کرلیتا ہے جس کے بطن سے انسان دوستی کی اعلی و ارفع قدریں پھوٹنے لگتی ہیں۔ عالمیت سے پر ایک مخصوص قسم کی بڑی شاعری کے یہی عناصر ہوا کرتے ہیں۔ کم از کم ترقی پسند شاعری ، انقلابی شاعری کے بنیادی عناصر اور سردار کی شاعری کی اولین شناخت کا حوالہ تو یہی عناصر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا خطیبانہ شاعری یا انققلابی شاعری بڑی نہیں ہوتی؟ آخر بڑی شاعری کے اصول اور پیمانے کیا ہیں۔ کیا دھیمے لہجے کی رومانی ، نفسیاتی، پیچیدہ ، شاعری ہی بڑی ہوسکتی ہے۔ اگر صرف یہی سچ ہے کہ دنیا کی وہ تمام بڑی شاعری جو خطابت سے وابستہ ہے خواہ وہ مولانا روم کی مثنوی ہو یا اقبال کی نظم نگاری۔ آپ اسے کس خانے میں رکھیں گے۔ چونکہ یہ سطریں فی الوقت تاثراتی انداز میں لکھی جارہی ہیں اس لئے بات کو سیدھے طور پر اس طرح سمجھ لیاجائے کہ زندگی کی طرح شاعری کے معاملات بھی بڑے عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ بڑے سردوگرم ، بڑے پیچ و خم ، بڑے خشک و تر ، کینوس پر ایک اچھی تصویر صرف دھیمے اور ٹھنڈے رنگوں کا مطالبہ نہیں کرتی اسے اکثر شوخ اور روشن رنگوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ جہاں جیسی ضرورت ہو۔ سجاد ظہیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ میکسیکو کے عوام کی انقلابی جدو جہد کا ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا کہ وہاں کے آرٹسٹوں نے عمارتوں کی دیواروں پر بڑی بڑی اور عوام کے انقلابی مزاج سے ہم آہنگ بے حد زور دار اور پرجوش تصویریں بنانے کا فن اختراع کیا اور اب اسے عالم گیر مقبولیت حاصل ہے۔کم و بیش اسی طرح ہندوستان کے آرٹسٹوں نے ایودھیا کے حادثے کے بعد کیا۔


سردار جعفری نے جس غلام عہد میں آنکھیں کھولیں، انقلاب کو بے حد قریب سے دیکھا۔ آہوں اور آنسوؤں کے ساتھ ساتھ زنجیروں اور قید خانوں کو معشوق کی طرح گلے لگایا ، وہ جس رومانی باغیانہ سرشت کے حامل تھے ایسے میں ان سے اسی طرح کی شاعری کی امید کی جاسکتی تھی۔ اور انہوں نے اس میدان میں خوب خوب جوہر دکھائے اور طرح طرح کے تجربے کئے۔ ان کی شاعری کو سمجھنا ہے تو ان تمام تناظر کے ساتھ ساتھ ادب کے اعلیٰ و ارفع اقدار اور نصب العین کو سمجھنا ناگزیر ہے جہاں ایسا ممکن نہیں وہاں سردار کی تفہیم بھی ممکن نہیں۔


حالی کی طرح سردار جعفری نے ابتدائی اسٹیج پر ترقی پسند ادب جیسی معیاری کتاب لکھی اور ترقی پسند فکرو نظر کی دنیا میں ہلچل پیدا کردی۔ مدتوں دنیائے ادب میں اتفاق و اختلاف کے بادل منڈلاتے رہے پھر اس کے سلسلے ، پیغمبران سخن سے لے کر، اقبال، شناسی، تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سیاست ،صحافت، ثقافت سب پر تجربے کئے اور کامیاب و کامران ہوئے۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر ، بلا کے مفکر و دانشور غرضیکہ بقول یوسف ناظم: "ان کی زنبیل میں ہر قسم کے نسخے ہیں اور ہر نسخے پر زعفران سے 'ہوالشافی' لکھا ہوا ہے۔"


ہر عظیم شخصیت فنکاربہرحال تنازعہ کو بھی چوتی ہے۔ بحث و تکرار، پسند و ناپسند کا مرکز بنتی ہے۔ سردار جعفری کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ ان کی علمیت، مقبولیت اور محبوبیت تھی۔ ان کا علم و فضل، ان کا منطقی و استدلالی انداز، خطابت کا بہتا ہوا اسلوب۔ الفاظ کے ابلتے ہوئے چشمے کہ بڑے بڑے تنکے کی طرح بہہ جاتے تھے ، بڑے بڑوں کے چراغ گل ہوجاتے تھے۔ لیکن یہ سب یونہی تو نہیں ہوتا اس کے پس پ ردہ نہ جانے کتنی دہائیوں کی ریاضت، غوروفکر کے لا متناہی سلسلے، مطالعہ و مشاہدہ کی لا محدود وسعت اور ان سب کو اپنی ذات میں تحلیل و تزئین کا کربناک تخلیقی عمل ، جلنے پگھلنے کا ایک طویل سلسلہ اور پھر اس کو ایک ترتیب و تنظیم، ایک نظریہ عطا کرنا اور پھر اس نظریہ کو تاریخ، تہذیب میں جذب و پیوست کردینا۔ ظاہر ہے کہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کے لئے تاریخ انسانیت کے بوسیدہ اوراق سے لے کر نت نئے علوم و افکار سے باخبروبا عمل ہونا پڑتا ہے اور بلا شک و شبہ سردار جعفری اپنی عمر و فکر کی ہر منزل پر ، ہر موڑ پر باخبر، باعمل اور بااثر رہے اور اپنے علم و فلسفہ ، شعور، و ہنر اور انسان دوستی کے ذریعہ نئی نئی شمعیں روشن کرتے رہے۔
کبھی تخلیق و تنقید کے ذریعہ ، کبھی تحریر و تقریر کے ذریعہ، کبھی انفرادی طور پر ، کبھی اجتماعی طور پر ، کبھی ڈھال بنے ، کبھی تلوار ، کبھی مفاہمت کبھی تکرار۔ غرض کہ ہر دور میں وہ علم و فضل ، فکرو عقل کے ذریعہ اپنے گروپ میں اپ نے عہد میں کلیدی و قائدانہ رول ادا کرتے رہے ایسے سردار جعفری کو جس نے اردو ادب کی سب سے بڑی تحریک میں بنیادی و کلیدی رول ادا کیا ہو جس نے شاعری کے کم و بیش دس مجموعے دیے ہوں۔ جس نے نثری تخلیقات میں بے پناہ توجہ اور شہد کا رس گھول دیا ہو، جس کی تقریروںنے ہنگامے برپا کررکھے ہوں۔ جس نے اپنے خطبوں ، اداریوں، بحثوں ، انشائیوں ، فلموں وغیرہ کے انبار لگا رکھے ہوں ، جس نے انسان کی عظمت سے لے کر انسانی ذہن کی تمام بوالعبی و بوقلمونی پر دسترس حاصل کررکھی ہو۔ جمالیات ، نفسیات، فلسفہ ، تصوف، بھگتی ، مارکسزم، کمیونزم ، سوشلزم، کانگریس ، میڈیا، صحافت وغیرہ پر اپنی مہریں ثبت کررکھی ہوں۔ اس سردار جعفری کو سمجھ پانا، اور بھلا پانا ناممکن ہے۔


تخلیق و تنقید ، تقریرو تصویر ، جلال و جمال ، شعلہ و شبنم غرض یہ کہ ہر طرح کے جذبات سے معمور سردار کی شخصیت اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔ ایک داستان اور ایک دبستان۔ ایسی تاریخی شخصیت جس کا غم منایا جانا ایک فرد کا نہیں بلکہ اسی سالہ تاریخ و تہذیب سیکولرزم اور سوشلزم کا غم منایاجاتا ہے۔


علی سردار جعفری آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں، لیکن ان کے عظیم کارنامے ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


***
ماخوذ از رسالہ: ایوانِ اردو - علی سردار جعفری نمبر (ستمبر 2000ء)
مدیر: منصور احمد عثمانی (اردو اکادمی دہلی کا ماہانہ رسالہ)

Ali Sardar Jafri, Essay by: Ali Ahmad Fatimi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں