حسنین عاقب - معاصر اردو شاعری میں جدید طرزِ فکر کا استعارہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-15

حسنین عاقب - معاصر اردو شاعری میں جدید طرزِ فکر کا استعارہ

Hasnain-Aaqib

ایک طویل عرصہ گزرا کہ اردو زبان اپنی ادبیات کے شعبے میں نہایت فعال اور متحرک ہوا کرتی تھی۔ چاہے شعری معرکے ہوں یا نثری بزم و رزم آرائیاں، کچھ نہ کچھ نیا ہوتا ہی رہتا تھا۔ لیکن کیا کیجئے امتدادِ زمانہ کو کہ اب کچھ نہیں ہوتا۔ بس، سب کچھ فرسودگی اور بوسیدگی کا شکار ہوگیا ہے۔اہلِ ذوق اب تازہ ہوا کے جھونکوں کو ترس گئے ہیں۔رسائل میں کثرت سے سیلن زدہ نثری اور شعری ادب پڑھنے کو ملتا ہے۔ پڑھنے کو نہیں ، بلکہ زہرمار کرنے کو ملتا ہے۔ اگر بات صرف شاعری کی کریں تو موجودہ دور میں اردو شعراء کی اتنی بھیڑ ہے کہ ہر تیسرا یا چوتھا شخص اپنے آپ کو شاعر کہلوانے کے لئے مضطرب دکھائی دیتا ہے۔ایسے میں یک غزلیہ شاعروں اور کثیر غزلیہ شاعروں کا جمِ غفیر دوڑتا ہوا آتا نظر آتا ہے۔لیکن اگر کثیر غزلیہ شعراء کی بات کی جائے تو میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسے شعراء بہت جلد ایک یا کئی عدد دیوان کے مالک بن جاتے ہیں (خالق نہیں)۔


لیکن ادبی انحطاط پذیری کی اسی دنیا میں 'گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را' کے مصداق کہیں کہیں کچھ تازگی نظر آتی ہے۔ایسی ہی تازگی بھری مشرقی شعری روایات کی بازیافتگی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں حسنین عاقب، جن کا شمار برِ صغیر ہند و پاک (کے ساتھ ساتھ اردو کی نوآبادیات ) کے جواں سال لیکن کہنہ مشق شاعر، ادیب اور ترجمہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ عاقب صاحب نظم و نثر پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی اور فارسی میں بھی اتنی شگفتہ اور حرکی شاعری کرتے ہیں جیسی وہ اردو زبان میں کرتے ہیں۔ تنقید میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں اور ترجمہ نگاری میں تو کم ہی لوگ ان کے پائے کے ہوں گے۔ آئیے ، پہلے ہم عاقب صاحب کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔


خان حسنین عاقب کی پیدائش 8/ جولائی 1971ء کو آکولہ شہر کے ایک علمی اور تہذیبی خانوادے میں ہوئی۔ دادا حضرت محمد میر باز خان صاحب ؒ صوفی منش شخص تھے۔ اسی شہر میں کے سرکاری اردو مدار س میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور یہیں سے بی۔ اے او ر بی۔ ایڈ کیا۔ابتدائی ملازمت بھی وہیں کی۔ لیکن پھر نا قدرئ روزگار کے ہاتھوں مجبور ہوکر بسلسلۂ ملازمت پوسد چلے آئے۔ یہاں رہ کر ملازمت کے ساتھ ساتھ پانچ مختلف مضامین میں پوسٹ گریجویشن کیا اور انگریزی ادب میں پی۔ایچ۔ڈی کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ تا دمِ تحریر، پوسد ہی میں کارِ معلمی انجام دے رہے ہیں۔انگریزی پڑھاتے ہیں۔ اس لئے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر بھی اتھاریٹی سمجھے جاتے ہیں۔ فارسی پر اس قدر ملکہ حاصل ہے کہ اس زبان میں گاہے گاہے شعر بھی کہتے ہیں اوراس نئی نسل سے ریاستِ مہاراشٹر کے شائد واحدشخص ہیں جو فارسی میں شاعری کر تے ہیں۔ ان کی فارسی شاعری قارئین کو فارسی ادب کے اعلیٰ معیار کا اندازہ لگانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حسنین عاقب نے تقریباً ہر معروف اور مروجہ صنف میں شاعری کی ہے اور نثر نگاری بھی کی ہے۔ جب انہوں نے ہندی میں شاعری کی تو اپنے نئے لہجے اور موضوعات کے تنوع سے ہندی کے شعراء، قارئین اور نقادوں کو چونکادیا۔ لہجے کی انفرادیت اور فکر و احساس کی توانائی ان کی اردو شاعری کے ساتھ ساتھ انگریزی ، ہندی اور فارسی کلام میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔سب سے پہلے میں حسنین عاقب کے بارے میں جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب کی رائے سے ان کے فنِ شاعری کے تجزئے کا آغاز کرتا ہوں۔


"میں نے تمہاری (حسنین عاقب کی )شاعری کچھ دل چسپی کے ساتھ پڑھی ہے۔ تمہاری اردو شاعری اکثر اوریجنل ہے اور اعلی شعری معیار کی حامل ہے۔ "
- شمس الرحمن فاروقی


عاقب اپنے لئے نئے راستے تلاش کرنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں اس لئے شاعری بھی اسی انداز کی کرتے ہیں۔
تجھے وقتِ عبادت دے رہا ہوں
خُدا ہوں، اتنی مہلت دے رہا ہوں
ہے گویائی بھی میرے معجزوں میں
میں گونگوں کو فصاحت دے رہا ہوں
زمینیوں کا توازن رکھو قائم
پہاڑوں کو ہدایت دے رہا ہوں


یہ اشعار عاقب کے مجموعۂ غزلیات 'رمِ آہو' کی پہلی غزل کے ہیں جو اس بات کی شہادت دینے کے لئے کافی ہیں کہ انہیں چلے چلائے راستے پر چلنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی تشنگی بجھانے کے لئے اپنا کنواں خود کھودتے ہیں۔اسی لئے ظفر گورکھپوری نے حسنین عاقب کے بارے میں کہا ہے کہ
"معاصر غزلیہ شاعری کی بھیڑ میں ان کی غزلوں میں وہ تاب و تواں ہے جو ایک سنجیدہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلے۔ ان کی شاعری میں باطن کی واردات کے عکس کے ساتھ زندگی کے خارجی مسائل کی شعلگی بھی ہے اور بلاشُبہ یہ شاعر کی فکری بالیدگی کا ثبوت ہے۔ زندگی کو چیلینج سمجھ کر ا س سے بنرد آزما ہونے اور اس پر فتح پانے کا نا قابلِ تسخیر جذبہ عاقب کی غزلوں میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میری رائے میں یہی مثبت فکر ہے۔"
- ظفر گورکھپوری


انہوں نے اپنی غزلوں میں خصوصی طور پر ایسے اشعار نکالے ہیں جو شاعری کے کسی بھی عالمی انتخاب میں یقینی طور پر منتخب کئے جانے سے محروم نہیں رکھے جاسکتے۔
تحرّک ہے ترا پیغام در یا !
تری قسمت کہاں آرام، دریا!
سکوتِ بحر سے کیا تجھ کو نسبت؟
تو ہر لحظہ ہے پُر ہنگام دریا!
فلک کو گھوُرتا ہے سینہ تانے
بڑی جرات سے صبح وشام دریا!
اسی میں خواہشوں نے خودکشی کی
نہیں یہ ایسا ویسا عام دریا!
اگر سب متّحد ہوکر چلیں گے
تبھی قطروں کا ہے انجام دریا!


عاقب کے یہ اشعار انہیں نئی نسل کے صفِ اول کے شعراء میں شامل کرتے ہیں۔نیا لہجہ، نئی بات، کچھ تازگی اور جدت طرازی، یہ سب ایسے اوصاف ہیں جن سے حسنین عاقب کی شاعری مملو نظر آتی ہے۔ دریا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے زندگی کے کتنے ہی سربستہ رازوں کی نقاب کشائی کی ہے۔ اسی ردیف میں انہوں نے مزید خوبصورت اشعار کہے ہیں جو مجھے ذاتی طور پر بھی بے حد پسند ہیں۔
کتنا لمبا ترا سفر دریا
اس کو کر تھوڑا مختصر دریا
مل گیا جاکے اب سمندر سے
واہ ! تو ہوگیا اَمر ، دریا!
بیچ اپنے جو ہوگئی حائل
اُس بلندی سے اب اُتر دریا!
کچھ نشیب و فراز لازم ہیں
سیدھے سیدھے نہ کر سفر دریا!


ایسے اشعار عاقب کے یہاں کثرت سے ملتے ہیں جن کو سُن کر اور پڑھ کر سامع اور قاری کی زبان اور قلم سے ایک ساتھ آہ بھی نکلتی ہے اور واہ بھی۔ عاقب نے اپنی شاعری کو شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ کشمکشِ حیات سے نبرد آزما ہونے اور رہنے والے عام انسانوں کے جذبات کوگویائی عطا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ نہایت کامیاب رہے ہیں۔ ان کے یہاں لفظ ، محض ترسیلِ معنی کا وسیلہ نہیں ہے۔ وہ خود کہتے ہیں۔
لفظ آیت بن گئے بات کی ترسیل میں
خامہ سجدہ ریز ہے حُکم کی تعمیل میں


یعنی انہوں نے الفاظ کو اس درجہ تقدس بخشا ہے کہ ان کے استعمال کردہ الفاظ محض الفاظ نہ رہ کر ، کسی آیت کا استعارہ بن گئے ہیں۔ اور جب کوئی شاعر الفاظ کو اس طرح تقدس عطا کرتا ہے تو پھر اس کی تاثیر سے کچھ بعید نہیں ہے کہ ان الفاظ کو قرطاس پر وجود بخشنے والا قلم سجدہ ریز ہوجائے۔یہی کمال حسنین عاقب کی شاعری کا یہی کمال بھی ہے اور اختصاص بھی جو انہیں ان کے ہم عصر شعراء سے ممتاز و ممیز کرتا ہے۔
اسی غزل میں ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں۔
ہیں ملوث آپ بھی، اور برابر کے شریک
جائیے، اب جائیے، بات کی تفصیل میں
گھُٹ رہا ہے روز دَم، ہوگئی امّید کَم
کچھ نہیں شائد بچا، عُمر کی زنبیل میں
زندگی کی فلم کا وہ ٹریلر ہے خوشی
جو دِکھایا جاتا ہے صرف پہلی ریل میں


جائیے، اب جائیے بات کی تفصیل میں۔۔۔ سماج اور افراد کے دوہرے رویے پر ایسا کاٹ دار طنزہے جس کے ڈنک سے بچ پانا مشکل ہے۔ یعنی وہ لوگ جو کسی جرم یا گُناہ میں ملوث اور برابر کے شریک ہوتے ہیں لیکن خود کو پارسا ظاہر کرکے اپنے شریک ِ جُرم پر الزام تراشی کرتے ہیں، شاعر ان کو آئینہ دکھارہا ہے کہ معاشرہ آپ کی حقیقت جانتا ہے کہ آپ بھی اسی جرم میں شریک ہیں جس کا الزام آپ دوسروں پر لگارہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ آپ میں کتنی ہمت ہے جو آپ اس جُرم کی تفصیل میں جائیں۔
زندگی کی فلم کا وہ ٹریلر ہے خوشی۔۔۔ دراصل ایک ندرت بھرا خیال ہے۔ فلم جب دکھائی جاتی ہے تو ابتداء میں ٹریلر دکھایا جاتا ہے۔ عاقب نے اس تکنیکی بات کو اپنے شعر میں نہ صرف کامیابی سے باندھا ہے بلکہ فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے کہ زندگی کی فلم میں خوشی بھی ایسی ہی حقیقت رکھتی ہے جیسی حقیقت خوشی کی ہوتی ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے تو امکانی طور پر خوشی کا ماحول ہوتا ہے لیکن اس کے بعد مسلسل اور پیہم کشمکش کا عالم ہوتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں۔
مجھ کو مصروفِ غم دیکھ کر
اُلٹے پاؤں پھِری زندگی
اور پھرزندگی میں غموں کے وجود کا منطقی جواز بھی پیش کردیتے ہیں۔


غم بھی لازم ہیں، کِس کام کی ؟
صرف خوشیوں بھری زندگی
اور ان کی نظر میں زندگی میں غموں کا وجود ہی اسے مکمل بناتا ہے۔
یوں تو سب کچھ مرے پاس تھا
بس مکمل نہ تھی زندگی
اور غموں سے انسانی زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ مصائب بھی غموں کا ہی تکملہ ہیں اور جب عاقب غموں کو زندگی کا لوازمہ مانتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ مصائب کو بھی وہ خوش آمدید کہتے ہوں گے۔
مصیبتوں سے عبارت ہے زندگی کا خمیر
یہ ساتھ چھوڑیں تو جینا عذاب ہوجائے


عاقب کی شاعری میں نازک احساسات کو بڑی آہستگی سے شعری قالب میں ڈھالا جاتا ہے ، ایسے ہی جیسے کوئی ماں اپنے سوتے ہوئے بچے ہو ہلکے سے اپنی گود سے اُتار کر جھولے میں ڈالتی ہے۔ انہوں نے شعر گوئی میں اپنی نئی راہ کا تعین یوں ہی نہیں کیا ہے۔ انہیں اس راہ کو اختیار کرنے میں اردو شعری روایات سے انحراف کا بھی اعتراف ہے لیکن وہ اسے مستحسن مانتے ہیں۔
حوصلہ تم میں اگر ہو تو بغاوت کرنا
ورنہ پھر ٹھیک ہے تقلیدِ روایت کرنا
جب تقلید کی بات ہوتی ہے تو قیادت کی بات ہونی لازمی ہے اور عاقب نے یہ موضوع بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ روایات کی تقلید کرنے والے مقلدین کو وہ طنزیہ انداز میں مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
تقلیدِ قیادت میں رہے عقل محافظ
دَلدل میں کوئی اُترے، اُترجاؤگے تم بھی؟
لیکن وہ روایاتِ کہنہ سے مکمل بغاوت بھی نہیں کرتے۔ بلکہ مثبت اور صحت مند روایات کا احترام اور پاسداری بھی کرتے ہیں۔ اسی ذیل میں انہوں نے کہا
جس آنکھ کے جادو کِیا تم کو نظر بند
جائے گی جہاں تک وہ نظر ، جاؤگے تم بھی
جو عشق سے بچتے تھے ، فنا ہوگئے عاقب
اِعراض کِیا اِس سے ، تو مرجاؤگے تم بھی


پہلے شعر میں آنکھ کا جادو ، دراصل ہماری کلاسیکی روایات کا استعارہ ہے جس کے بارے میں عاقب کا ماننا ہے کہ کلاسیکی روایات کے جادو نے ہمارے پورے ادب کا احاطہ کیا ہوا ہے اور اس نے تمام اہلِ قلم اور اہلِ فن لوگوں کو نظر بند کر رکھا ہے۔لیکن عاقب نے ان روایات کے مطالعے سے اپنی شاعری کو جِلا بخشی اور پھر اس کی روشنی میں اپنے لئے ایک نئی راہ نکالی۔ انہوں نے اساتذہ اور معاصرین، سب کے انداز کا مطالعہ کیا اور اپنا ایک نیا انداز قائم کیا۔
اور دوسرا شعر تو عشق کی آفاقیت کا لوازمہ فراہم کرتا ہے۔ جس نے مغرب میں شکسپئر سے لے گر ورڈس ورتھ تک کو نہیں چھوڑا۔ وہ اس سے عاقب بھلا کیسے چھوٹ جاتے؟ عاقب عشق کو ایک غیر شعوری فعل مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
سوچ کر عشق نہیں ہوتا کبھی
کل کہا، آج بھی کہتا ہوں میں
اور وہ اپنی اس بات پر استقلال کے ساتھ قائم ہیں۔اس موضوع کو مزید وسعت دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔
لُغت سے عشق کی ، جو انتخاب ہوجائے
قسم خُدا کی ، سراپا کتاب ہوجائے
اسی موضوع کو مزید وسیع کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔
عشق کے ایک لفظ کا جادو
حاصلِ اکتساب ٹہرا ہے


عاقب کی شاعری میں عشق کو نئے نئے زاویوں سے برتا گیا ہے جو نہایت خوش آئند محسوس ہوتا ہے۔
جہانِ ہوش و خِرد میں ہے جس کا نام گُناہ
وہ ملکِ عشق میں کارِ ثواب ہوجائے
عشق ہے جُرم یہاں، چل کے کہیں اَور رہیں
اے مرے دلِ ! یہ کو ئی اَور نگر لگتا ہے


اور پھر وہ عشق ہی کیا جو اس کیفیت سے نہ گزرے کہ دوئی کا جھگڑا ختم ہوجائے؟ عاقب کی نظر میں عشق کا فلسفہ یہی ہے۔
عاقب نے کہا
عشق تجھ سے رہا اتنا ہم کو
سب نے سمجھا ترا سایا ہم کو
عاقبعشق کے پَکّے رنگ کے قائل ہیں۔ اسی لئے ان کے اشعار ہم سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ایسا لگتا نہیں کہ اُترے گا
عشق کا یہ کَلر ہے، کیا کہیے
آپ کا عشق بھی کمال کا ہے
جو نہیں ہے، مگر ہے، کیا کہیے
اظہارِ عشق ، صورتِ اشعار کردیا
پوشیدہ بات تھی جِسے اخبار کردیا
کہتے ہیں عشق جس کو، خُدا نے پھر ایک روز
اس حادثے سے ہم کو بھی دوچار کردیا


یہاں مجھے یہ بات بتانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ حسنین عاقب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز انگریزی شاعری سے کیا تھا۔ ان کے انگریزی شعری مجموعہ Flight Of A Wingless Bird کو لندن کے منروا پریس نے بڑے احترام کی نظر سے دیکھا تھا اور اس کے مسودے پرMarks Sykes نے اپنا گراں قدر ادارتی تجزیہ بھی تحریر کیا تھا۔ فنِ ترجمہ نگاری میں موصوف یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال، سیماب اکبر آبادی، گلزار، زبیر رضوی، ندا فاضلی، معصوم شرقی، عاجز ہنگن گھاٹی جیسے شعراء کی نظموں اور غزلوں کے کامیاب منظوم تراجم کئے ہیں اور مشاق و مستند مترجم کی حیثیت سے اپنی منفرد پہچان بنالی ہے۔ انہوں نے ظفر گورکھپوری کی منتخب اردو نظموں کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا ہے جو Screams Of Silence کے عنوان سے جلد شائع ہونے والا ہے۔ بڑی کامیابی کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے قر آنِ کریم کے تیسویں جزو پارۂ عم کی سورتوں کا منظوم انگریزی ترجمہ کیا ہے جسے عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے اور یہی ان کے لئے آخرت کا بھی سرمایہ ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ۔ ایک اور اہم سنگِ میل ان کی زندگی میں انگریزی میں نعتیہ ادب کی تخلیق اور نعت کے لئے انگریزی میں متبادل لفظ وضع کرنا ہے۔ ان کے عشقِ رسول نے ان سے یہ کام بھی کر وایا ہے۔ان کی اب تک تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن کے نام ' رمِ آہو' (مجموعۂ غزلیات) 'خامہ سجدہ ریز' (شکردانِ حمد و نعت) اور 'اقبال۔ بہ چشمِ دِل' (اقبالیات پر کتاب) ہیں۔


حسنین عاقب کے فکر و فن پرملک اور بیرونِ ملک کے شعراء ااور ماہرینِ فن نے ان کی شاعری کا عرق ریزی سے مطالعہ کرتے ہوئے بڑے حوصلہ افزاء اور امید افزاء مضامین لکھے ہیں۔ اور انہیں نئی نسل کی صف ِ اول کے شعراء میں شمار کیا ہے۔ حسنین عاقب کی غزلیات کے مطالعہ کے بعد اہلِ ذوق حضرات قطعی نہیں کہہ سکتے کہ اردو غزل گھِسے پِٹے عنوانات کے نیچے دب کر دم توڑ رہی ہے۔ عاقب نے اپنی غزلوں میں زندگی کے فلسفے کو نئے انداز سے پیش کر کے اردو شاعری کو نیا رخ عطا کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں ندرت اور جدت ہے۔ نئی تراکیب، اسلوب اور معیارِ تغزل کی پاسداری ان کی شاعری کے اہم خاصے ہیں۔ ان کے یہ منتخب اشعار اس بات کے برملا شہادت دیتے ہیں۔
عشق جو میرا ہے، وہ پا بہ جنوں ہے، یوں ہے
تیری جانب سے مگر ہاں ہے، نہ ہوں ہے ، یوں ہے
قطرہ قطرہ جو ٹپکتا ہے مری آنکھوں سے
ہے تو بے رنگ ، مگر یہ بھی خوں ہے، یوں ہے
مجھ کو رکھتا نہیں تنہا کبھی تیرا احساس
انجمن ایک مرے دِل کے دَروں ہے، یوں ہے
سرِ ورق پہ لکھا 'انتقام' ہے شاید
اسی بیاض میں میرا بھی نام ہے شاید
نمازِ فجر میں مسجد میں کیوں ہے سنّاٹا؟
نمازی کوئی نہیں، بس امام ہے شاید


کہا جو میں نے کہ کچھ احتجاج بر پا ہے
تو بولے ظلِ الٰہی ، عوام ہے شاید
اے خُدا، جیسی ہے تری دنیا
اس سے کتنی الگ مری دنیا
میری دنیا بھی کوئی دنیا ہے؟
عارضی اور سرسری دنیا !
اس شہر میں یوں صاحبِ کردار بہت ہیں
سنتے ہیں مگر اِن دِنوں بیمار بہت ہیں
اک سر کہ ہمارا ہے، تنا رہتا ہے ہردم
اور گردنیں یاروں کی لچکدار بہت ہیں
فصیلِ شہر کی اُس سمت فوج سایوں کی
اِدھر تھے شاہ بھی اور شہسوار کاغذ کے
تھا جن کو زُعم خریدے نہ جائیں گے وہ کبھی
غلام ہوگئے بے اختیار کا غذ کے
گُلدان میں رکھے تھے جو گُل، وہ بکھر گئے
دِل میں اُترنے والے بھی دِل سے اُترگئے
لوگوں کے کام آنے کا تم کو بہت ہے شوق
تم پر پڑا جو وقت، تو وہ سب کِدھر گئے؟
دِل دے دیا ہے تجھ کو، لُٹادی ہے جان بھی
آ گے بچا ہے کیا کوئی اور امتحان بھی
اب بھی ڈٹا ہوا ہوں محاذِ حیات پر
ترکش بھی خالی ہوگیا، ٹوٹی کمان بھی


عاقب نئی نسل کے تازہ فکر شاعر ہیں اس لئے ان کا طرزِ سخن جداگانہ اور منفرد ہے۔ جس میں تخاطب کو بڑا دخل حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی، روشنی، حوصلہ ، محبت،نئی نسل وغیرہ جیسے عناصر
سے براہِ راست مخاطب ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے۔
کر و محسوس تم بھی اے امیرو !
تمہیں تھوڑی ضرورت دے رہا ہوں
اُجالو ! پھیل جاؤ چار جانب
تمہیں دِن کی حکومت دے رہا ہوں
راہ، منزل، سفر کے خواب نہیں
زندگی ! تو جو ہم رکاب نہیں
روشنی کا کوئی حساب نہیں
یار سورج! ترا جواب نہیں
منافقوں سے کبھی اجتناب ہے کہ نہیں
کچھ آپ بھی تو کہیں، کیوں جناب ! ہے کہ نہیں


ان سارے اشعار اور ان جیسے تمام اشعار میں حسنین عاقب کا طرزِ تخاطب بے حد لازمی اور بر موقع معلوم ہوتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تخاطب محض بھر تی کے لئے یا شعری ضرورت کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری نے کبھی شکستہ پائی کی ترجمانی نہیں کی۔ زندگی کی حقیقتوں سے ان کی شاعری بھی ان ہی کی طرح نبرد آزما رہی ہے۔ ان کی شاعری حوصلہ مندی کو propagate کرنے والی اور دورِ حاضر کے مسائل سے دوچار انسانوں کو جینے کی ہمت دینے والی شاعری ہے۔ ان کے یہ اشعار اسی قبیل میں شمار ہوتے ہیں۔
اور تھوڑا سا بکھر جاؤں ، یہی ٹھانی ہے
زندگی ! میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے
ترکش میں تیر کتنے ہیں، اس سے غرض نہیں
یہ دیکھئے کہ کتنی ہے طاقت کمان میں
اُڑنے کی آرزو ہے تو کیجے نہ پیش و پس
دوچار پر تو ٹوٹیں گے اونچی اُڑان میں


حسنین عاقب نے غزل کے معیار کو بر قرار رکھتے ہوئے عصر ِ حاضر میں انسانوں کے باہمی رشتوں کی حقیقتوں کو جس سلیقے سے بیان کیا ہے ، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
بیٹا جو ہو نہار تھا، زن کے اثر میں ہے
کِس کی نظر کا نور تھا، کِس کی نظر میں ہے
خود ہی دولہا ڈھونڈ لیتی ہیں یہ آج
بیٹیاں کتنی سیانی ہو گئیں
بگڑا ہے ایک تو ، میر ے بیٹے، مگر یہ سوچ
بگڑے ہیں کام کتنے ترے اک بگاڑ سے
یہ سوچ کر وہ ہوگیا ماں باپ سے الگ
گستاخیاں نہ ہوں کہیں بیوی کی شان میں


حسنین عاقب پرانی صحت مند قدروں اور رشتوں کی بازیافتگی پر بھی زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار بلاشبہ پائے کے اشعار کہے جاسکتے ہیں۔
اگر میں علم کی کرسی پہ تن کر بیٹھ بھی جاؤں
میں اپنے باپ کے قد سے بڑا ہو ہی نہیں سکتا
ان کا یہ شعر ہمیں اقبال کی یاد دلادیتا ہے جو کہہ گئے ہیں کہ
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو؟


حالانکہ شعر کا موضوعاتی پس منظر contrasting ہے لیکن ایک ہی رشتہ پر دو پہلوؤں سے دو مختلف شعراء نے بات کی ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے۔ خیر! عاقب اپنے دوستوں سے بے نیاز رہے ہیں لیکن دوستوں کے دِلوں میں پلنے والے نفاق سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہ ایک شاعر کی نظر اور اس کا تجربہ ہے جو کہہ اٹھتا ہے کہ
منافقانہ فضٖا ء دوستوں کے شہر کی ہے
میں پیٹھ پھیروں تو خنجر نکلنے لگتے ہیں
اس دور نے بدل دئے مفہومِ دوستی
دوری بنی ہوئی ہے رفاقت کے باوجود


میر کے معتقد تو غالب بھی رہے ہیں پھر عاقب کیوں پیچھے رہتے ؟ میر کا جادو ان کے یہاں سر چڑھ کو بولتا دکھائی دیتا ہے جب وہ کہتے ہیں۔
رِوایتوں کے تاثر کا اپنا جادو ہے
کہیں کہیں میری غزلوں میں میر رہتے ہیں
غم اُٹھاتا ہوں، غزل کہتا ہوں، جیتا رہتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ اک دِ ن میر ہو جاؤں گا میں
بہت پرکھ ہے اسے میرے شعر کی عاقب
کبھی کبھی وہ مجھے عکسِ میر بولتی ہے


میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں حسنین عاقب کی غزل گوئی کو ہی موضوع بنایا ہے۔ جبکہ ان کی نظمیں بھی جدید لب و لہجے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی ترجمہ نگاری اور تنقید نگاری کا ذکر بھی ایک مخصوص عنوان کا متقاضی ہے۔ حسنین عاقب کی شاعری اور ان کے فن کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ کرنے کے لئے مجھ جیسے تہی دامن قلمکار کو اپنی اہلیت کا شاکی ہونا پڑرہا ہے۔لیکن وہ شہرت کی طرف نظر اُٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ بے نیاز اور درویش صفت شخص ہیں۔ادب کی خاموش مزاجی کے ساتھ خدمت کئے جارہے ہیں اور صلے و ستائش کی تمنا سے بے پروا ہوکر کام کئے جارہے ہیں۔حالاں کہ ان کے فن اور شخصیت پر اردو دنیائے کے دسیوں نامور شعراء و نقادوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے لیکن ان کی لاپروائی کہ چھپنے چھَپانے کے تئیں کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ان کی شاعری ، فن اور شخصیت کے کئی پہلو ایسے ہیں جن پر بڑی آسانی کے ساتھ کئی کتا بیں لکھی جاسکتی ہیں۔ یوں بھی ان کی قدر دانی کا زمانہ قریب آرہاہے۔ آئیے ، ہم حسنین عاقب کو صفِ اول کے شعراء میں شمولیت پر مبارکباد پیش کریں۔

***
محسن ساحل۔ ممبئی۔

Email: mohsinsahiluk[@]gmail.com

محسن ساحل

Hasnain Aaqib, a metaphor for modern thinking in contemporary Urdu poetry - Essay: Mohsin Sahil

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں