عزیز قیسی - حیدرآباد کے ممتاز شاعر سے ایک انٹرویو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-14

عزیز قیسی - حیدرآباد کے ممتاز شاعر سے ایک انٹرویو

aziz-qaisi-interview

سوال: آپ کا اصلی اور مکمل نام؟
جواب: میرا اصلی اور مکمل نام، عزیز محمد خاں ہے۔


سوال: آپ کے والد ماجد کا اسم شریف اور وہ کس ملازمت وغیرہ میں تھے؟
جواب: میرے والد کا نام محمود خاں تھا۔ وہ ریاست حیدرآباد کی عدالت مطالبات خفیہ بلدہ(City Small Case Court) میں خزانہ دار تھے۔ ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین انضمام کے بعد بھی اسی پوسٹ پر رہے اور 1962ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔


سوال: آپ کی تاریخ پیدائش ، ماہ و سال؟
جواب: میری تاریخ پیدائش یکم جولائی ہے۔ سال 1931ء۔


سوال: آپ عزیز قیسی کس مناسبت و رعایت سے لکھتے ہیں؟
جواب: میں عزیزی قیسی ، قیس عامری سے کسی تعلق یا رشتے کی بناء پر نہیں ہوں۔ قیسیـؔ میرا تخلص ہے۔اس تخلص کو اختیار کرنے میں میرا کوئی ارادہ بھی شامل نہیں ہے۔ اس تخلص کے پیچھے ایک جذباتی واقعہ ہے۔ میں شعر بہت کم عمری سے کہتا ہوں۔ تیسری جماعت میں تھا تب پہلی بار اردو کی کورس کی کتاب میں "سداما کی کہانی" کو منظوم کردیا تھا۔ اس وقت میرا کوئی تخلص نہیں تھا۔ چھٹی میں ، ایک ہم عمر دوست کے ساتھ غزلیں کہنی شروع کیں۔ اس وقت تخلص عزیز رکھا۔ ہائی اسکول تک آنے تک عزیز ہی تخلص رہا۔ پھر جو پہلا تخلص بہت سوچ سمجھ کر رکھا (اپنی دانست میں) وہ برتر تھا۔ ان دنوں اسکول کے تقریری مقابلوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے تعلیمی جلسوں میں بھی شرکت کرتا تھا۔ اور اقبال کے تتبع میں کہی ہوئی نظمیں سناتا تھا۔ برتر غالبا ً اقبال کی شاعری(خاص طور پر خودی اور شاہین) کے اثر میں یہ تخلص رکھا ہوگا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک لڑکی سے بڑی دل انگیز اور "چوری چھپے" کی دوستی ہوئی۔ ان دنوں ایک فلم"لیلی مجنوں" بہت چل رہی تھی۔ اس فلم کی کئی باتوں کا اثر اس قوت کی میری اور اس اللہ کی بندی کے آغاز شباب کی جذباتیت پر پڑا۔ وہ لڑکی اسی فلم کے زیر اثر قیسی یعنی میرے تقیس کہہ کر مخاطب کرنے لگی۔ اور مجھے یہ تخاطب اتنا اچھا لگا کہ میں اپنے آپ کو عزیز قیسی کہلوانے میں خوشی محسوس کرنے لگا۔ اور پھر یہ تخلص میری عادت بن گئی۔ یہ تفصیل زندگی میں پہلی بار آپ کو لکھ رہا ہوں ، کچھ بہت قریبی دوست ، جو اس زمانے کے ہیں، یہ جانتے ہیں اور میرا خیال ہے اب تو وہ بھی بھول چکے ہوں گے۔ کیوں کہ مجھے تو اب اس لڑکی کا چہرہ بھی یاد نہیں ہے۔


سوال: آپ کی پہلی مطبوعہ تخلیق کس صنف میں تھی اور کہاں شائع ہوئی تھی ؟
جواب: میری پہلی تخلیق حیدرآباد کے کسی رسالے میں شائع ہوئی ہوگی۔ اور وہ رسالہ بھی کوئی اہم رسالہ نہیں ہوگا۔ میرے پاس نہ ذہنی طور پر اس بات کا ریکارڈ ہے نہ ہی میں نے اپنی ادبی کیریر کا کوئی ریکارڈ رکھا ہے۔ ہاں کالج میں آنے کے بعد جو چیزیں چھپیں وہ کچھ کچھ یاد ہیں ، دارالعلوم کالج میں غالباً 48ء یا 49 ء میں ‘فکر نو" جریدے میں شعر چھپے اور ایک مضمون نظیر اکبرآبادی پر چھپا۔ شعر کیا تھے، یاد نہیں ، لیکن کوئی نظم رہی ہوگی۔ کیوں کہ ہائی اسکول میں اقبال کے اثر سے اور ان دنوں غزل کے خلاف۔ حالی سے لے کر جوش تک کی ایک لہر چلی تھی اس سے میں متاثر تھا اور غزل کہنا نہیں چاہتا تھا۔


سوال: کیا آپ کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا ہے ؟
جواب: ادبی ذوق کیسے پیدا ہوا، کس کے سبب ہوا، یہ میں نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ میرے خاندان میں سات پشتوں تک کوئی ادب پڑھا ہوا بھی بزرگ نہیں۔ ہمارا خاندان پٹھانوں کا ہے۔ جو افغانستان سے آئے تھے اور یہاں کی جنوبی ریاستوں مین، سپاہی پیشگی کو میرے اجداد نے اختیار کیا تھا۔ اس لئے کوئی آثار میرے بچپن میں ادب اور شعر کے میرے گھر میں نہیں تھے ہاں میرے والد فارسی و عربی سے کما حقہ آگاہ تھے۔ مکتبی تعلیم تو ان کی بھی واجبی ہی تھی۔ وہ گلستاں بوستاں پڑھے ہوئے تھے۔ فارسی اشعار اور کہاوتیں ضرور بات چیت میں بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ بہت خو ش لحن تھے ، قرآن بلند قرأت میں لحن سے پڑھتے تھے۔ والدہ میری امی تھی ، مگر ان کی ددیال میں پڑھے ہوں گے۔ دادی ان کی قرآن اور علوم دین، امراء اور عمائدین کے بچوں کو پڑھاتی تھیں اور والدہ چونکہ کم سنی میں ہی ماں کی شفت سے محروم ہوگئی تھیں اور ان کے والد یعنی میرے نانا نے دوسری شادی کرلی تھی اور غالبا ً سوتیلی ماں کو میری والدہ کا میرے ناناکے ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔ تو وہ دادی کے زیر پرورش رہیں۔ اس لئے ان کا"علم سماعی" فارسی کی شاعری اور داستانوں پر مبنی تھا۔ وہ تلفظ کی غلطی کے باوجود فارسی شاعری، فارسی کہاتیں ، امیر حمزہ اور عمر عیار کی داستان سے لے کر شہر زاداور الف لیلی تک ہمیں سناتی تھیں۔ شہادت نامہ، نور نامہ، قصائد ، ازبر تھے۔ شاید اسی کا اثر تھا کہ میں پہلی جماعت سے ہی اردو کی کتابیں پہلے دن پوری پڑھ لیتا تھا۔ اور اس میں شامل نظمیں مجھے یاد ہوجاتی تھیں۔ اس یادداشت کو جو یقینا مجھے ورثہ میں ملی اور اس سماعی کو جو میرے بچپن نے سمیٹا، آپ میرا ورثہ کہہ سکتے ہیں۔ اور میرا ادبی ذوق اسی ورثہ کی دین ہے۔


سوال: آپ نے اپنے ابتدائی کلام پر کس سے اصلاح لی؟ اور باقاعدہ استاد کون ہے؟
جواب: میں اپنی شعر گوئی کو خدا داد ہی کہوں گا، نہ مجھے کسی نے شاعری سکھائی نہ میں نے کسی سے اصلاح لی۔ ہاں آپ چاہئیں تو جھے"تلامذ الرحمان" کہہ سکتے ہیں۔ اور اگر میرے شعر کسی لائق ہیں تو وہ دین مبدا کی فیاضی ہے۔ میں غالب کی طرح کہہ سکتا ہوں کہ شعر میرے ذہن میں ایسے نہفتہ تھے جیسے فولاد میں جوہر۔ استاد میرا ذوق ہے اسے"ذوق سلیم" کہہ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔



سوال: ابھی تک آپ کی کتنی کتابیں، کن کن موضوعات پرشائع ہوچکی ہیں؟
جواب: میری صرف تین کتابیں اب تک شائع ہوئی ہیں۔"آئینہ در آئینہ،72ء میں اور"گرد بار" 86ء میں اور ایک ناولٹ "دوسرے کنارے تک" 73ء میں(غالباً)"دوسرے کنارے تک " کو ناولٹ۔۔ طویل مختصر افسانہ کہہ سکتے ہیں۔ ویسے افسانوں کا ایک مجموعہ شعر کے دو مجموعے ،مضامین اور تبصروں کا ایک ضخیم مجموعہ، دیگر تحریروں کا ایک شیرازہ، مرتب ہے۔ چھپنے کا امکان کم ہی ہے۔


سوال: آپ ادب کے ساتھ ساتھ فلموں میں کس طرح آئے؟
جواب: کہاں سننے، کہانیاں لکھنے کا شوق مجھے بچپن سے ہے جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا۔ تیسری جماعت ہی میں، میں نے "سداما کی کہانی" کو جونثر میں لکھی تھی۔ منظوم کردیا تھا۔ کہانی اور شعر اس طرح پیوست بہ ہم دگر ہیں جس طرح شعر گوئی بچپن سے ہے۔ ویسے ہی افسانہ نگاری کی کوشش بھی اوائل عمر سے میں نے کی ، شعر لیکن پہلے سنائے بھی اور چھپائے بھی۔ افسانے بہت دیر میں چھپائے(وجہ کوئی نہیں ہے ) پھر اسٹیج سے ربط ضبط شروع ہوا تو ڈرامے لکھے جو اسٹیج ہوئے، ریڈیو کے لئے پلے، منظوم ڈرامے ، غنائیے لکھے۔ اسٹیج کے لئے یک بابی ڈرامے لکھے۔ جن میں بہ حیثیت اداکار بھی کام کیا۔ یہ پس منظر ہے جو فلم کی کہانی اور مکالمے لکھنے میں مددگار ہوا۔ لیکن فلم لائن میں "اتفاق" سے آیا ارادے سے نہیں۔ میں نے 56ء تک سرکاری ملازمت کی۔ اپنے سیاسی عقائد کی بناء پر لازمت چھوڑنا پڑی۔ 57ء میں تلاش معاش کے سلسلے میں حیدرآباد سے میں بمبئی آیا۔ میرے دوست اقبال قریشی انہیں دنوں بمبئی میں میوز ک ڈائریکٹر بننے کی کوشش میں تھے۔ بہت بے سروسامانی کا زمانہ تھا۔ اقبال قریشی کو 58ء میں میوزک ڈائریکٹر بننے کا چانس مل چکا تھا۔ مگر میں روٹی کی تلاش میں بمبئی ہی میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ انہیں دنوں اختر الایمان کے گھر پر ایک شعری نشست میں سرشار سیلانی سے ملاقات ہوئی جو فلمستان میں مکالمہ نگارکی حیثیت سے ملازم تھے۔ میری شاعری سے متاثر ہوکر انہوں نے مجھے فلمستان بلایا۔ فلمستان میں اس وقت کے سیٹھ صاحب کو میں نے اپنی دو ایک نظمیں سنائیں اور انہوں نے مجھے نغمہ نگار کی حیثیت سے ملازم رکھ لیا۔ میں نے گیت لکھنا کیوں چھوڑا یہ ایک دوسری کہانی ہے۔


سوال: بحیثیت کہانی نگار، مکالمہ نگار آپ کی پہلی فلم؟
جواب: بحیثیت مکالمہ نگار میری پہلی فلم" ہم کہاں جارہے ہیں" ہے۔ یہ فلمستان نے بنائی تھی۔ جو 66ء میں ریلیز ہوئی۔ دوسری دو تین فلموں پر دوسرے رائٹر کا نام تھا اور یہ کیسی جبر یا استحصال کی بناپر نہیں تھا ، کمپنی کے طریق کار کے عین مطابق تھا جو مجھے قبول تھا۔


سوال: کیا آپ نے فلموں کے منظر نامے بھی لکھے ہیں؟
جواب: جی ہاں، میں نے فلموں کے منظر نامے بھی لکھے ہیں۔


سوال: آپ شاعر بھی ہیں، تو کیا آپ نے فلموں کے لئے گیت بھی لکھے ہیں؟
جواب: گیت لکھنے ہی سے فلم میں داخلہ ملا تھا۔ فلمستان نے مجھے نغمہ نگار کی حیثیت سے ہی ملازم رکھا تھا۔ پہلی فلمی تخلیق ایک گیت ہی تھا ، لیکن فلمستان کی فلم کا نہیں ایک اور نظم کا جس کا میوزک اقبال قریشی نے دیا تھا۔


سوال: پہلے فلموں میں اردو تلفظ اور مکالمے کی ادائیگی کے لئے اردو اساتذہ رکھے جاتے تھے ، لیکن اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
جواب: فلموں میں اردو تلفظ کی اور مکالمے کی صحیح ادائیگی کے لئے اردو اساتذہ رکھے جاتے ہیں، لیکن بہت کم۔ اور یہ اساتذہ بھی اتنے ہی تلفظ اور قواعد زبان سے واقف ہوتے ہیں جتنے کہ آج کل کے اردو کے اساتذہ ہوسکتے ہیں۔ اس لئے آپ کو فلمیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب تلفظ اور قواعد اردو کا خدا ہی حافظ ہے۔


سوال: کیا وجہ ہے کہ فلموں کو برائے نام اردو سر ٹیفکیٹ دیئے جاتے ہیں؟
جواب: اردو کے سرٹیفکیٹ فلموں کو دئے نہیں جاتے ، فلم ساز ہندی کے سرٹیفکیٹ سرکار سے مانگتے ہیں اور انہیں ہ ندی کے سرٹیفکٹ دئیے جاتے ہیں۔ جو دو چار اردو کے سرٹیفکیٹ آپ نے پردۂ سیمیں پر دیکھے ہوں گے وہ فلم سازوں کو مانگنے سے ملے ہیں۔ سرکار کو قانون کیمطابق دستوری (14) زبانوں میں طلبیدہ سرٹیفکٹ دینا ہے۔ اب یہ فلم ساز کی مرضی ہے کہ وہ کس زبان میں سرٹیفکٹ مانگتا ہے۔


سوال: فلم کی ترقی میں اردو زبان کی کیا اہمیت ہے ؟ اور اس کا مستقبل؟
جواب: فلم کی ترقی کیا، فلم کا وجود ہی اردو زبان کا رہین منت ہے۔ اب جو نوے پچانوے فیصد فلمیں"ہندی" کے لیبل کے ساتھ ریلیز ہوتی ہیں ، ان میں سے نوّے پچانوے فی صد فلموں کی زبان اردو ہی ہے۔ اس لئے فلموں کے مستقبل کو اردو کی طرف سے ضمانت ملی ہوئی ہے۔ ہاں اردو کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں، لیکن اردو بول چال کی زبا ن کی حیثیت سے ترقی کررہی ہے۔ ترقی کرتی رہے گی اور اس کا مستقبل بہت شاندار اور لمبی عمر کا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ "مصلحتیں" اس زبان کو ہندی کہتی ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اردو والے جس زبان کو اردو کہہ کر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، ہندی والے اسی "اردو" کو ہندی کہتے ہیں اتنی لاف زنی کرتے ہیں اب آپ جو چاہیں کہہ لیں، اردو کا ڈنکا بجاتے رہیںیا اس کا سوگ منائیں


سوال: کیا فلمیات سے متعلق کوئی ایسا ادارہ بھی ہے جس میں ابتدائی فلموں کے Scriptمحفوظ ہوں۔
جواب: ایسا کوئی ادارہ نہیں جس میں ابتدائی فلموں کے اسکرپٹ محفوظ ہوں اکّا دکّا شوقین آدمی نے ایسا کیا ہو تو اور بات ہے۔ ویسے تو ابتدائی زمانے کی Scriptکیا، فلمیں ہی محفوظ نہیں۔


سوال: کیا آپ نے ٹی ، وی کے لئے بھی لکھا ہے اور آئندہ کیا لکھ رہے ہیں؟ٹی وی کے لئے؟
جواب: میں نے ٹی وی کے لئے لکھا ہے ، وہ پروجیکٹ اردو شاعری کے بارے میں تھا۔ ٹی، وی نے اسے Rpproveبھی کیا ، لیکن اس کے بنانے والے حضرات سے ایسا کوتاہیاں سرز ہوئیں کہ مجھے وہ پروجیکٹ چھوڑنا پڑا۔ میرے چھوڑنے کے بعد بھی، ان حضرات سے اب تک اس پروجیکٹ کی نمائش کا انتظام نہیں ہوسکا۔ میں نے ٹی وی کے لئے Scriptلکھتے تاریخی، نیم تاریخی ، ادبی، غیر ادبی اور سماجی مسائل پر پتہ نہیں،دور درشن ان میں سے کتنے منظور کرتا ہے، کتنے بنتے ہیں اور کتنوں کو دکھایاجاتا ہے۔


سوال: آپ کی آنے والی فلمیں؟
جواب: میری آنے والی فلمیں ہیں۔
1۔ "اندر جیت" (منظر نامہ میرا ہے۔)
2۔"معصوم گواہ"(مکالمے میرے ہیں اور
3۔"محبوب مرے محبوب" (مکالمے میرے ہیں)


سوال: فلموں میں جو نئے مکالمہ نگار اور کہانی نگار آرہے ہیں، آپ ان سے کسی طرح کا اتفاق رکھتے ہیں؟
جواب: فلموں میں جو نئے مکالمہ نگار اور کہانی لکھنے والے آئے ہیں، ان سے اتفاق و نفاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نہ فلم رائٹنگ پر میرا اجارہ ہے۔ نہ کسی اور کا۔ یہ آزاد تجارتی شعبہ زندگی ہے۔ فلم بنانے والے جسے چاہیں مکالمہ نگاراور کہانی نگار لیں اور جیسا چاہیں ان سے لکھوائیں۔ مجھے اتفاق کرنے ، نہ کرنے کا کوئی موقع ہے نہ حق ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: اردو مراسلاتی انٹرویو
مصنف: محمد خالد عابدی (سن اشاعت: 1996ء)

An interview with Aziz Qaisi. Interviewer: Khalid Abidi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں