کیدار شرما - فخرِ فلمیات سے ایک انٹرویو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-08

کیدار شرما - فخرِ فلمیات سے ایک انٹرویو

kidar-sharma-interview

خدا تعالیٰ نے یوں تو ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خوبی پیدا کی ہے ۔ لیکن ذی شعور ذی فہم اشخاص ان خوبیوں میں مزید محنت اور کوشش و جدوجہد سے اپنی شخصیت وآتما پرکشش بنالیتے ہیں کہ وہ قدرت کا ایک نمونہ اور شاہکار معلوم ہونے لگتے ہیں ۔ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک کیدار شرما بھی ہیں۔
کیدار شرما محض ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ یہ مختصر نام ایک انسانیت ، ایک آدمی اور ایک اداریے کا بھرپور تعارف ہے ۔ کیدار شرما کسی صلے کی پروا کئے بغیر لوگوں کی خدمت اور ہمہ قسم کی مدد کرتے رہے ہیں، یہاں ہما شما کا شمار نہیں بلکہ ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے کدارشرما سے اکتساب کیا ہے ، استفادہ کیا ہے ۔


فلمی دنیا کی وہ عظیم شخصیات جن میں بڑے بڑے ہیرو، ہیروئن ، ہدایت کاران، موسیقاران، مصنفین اور گیت گار ان ایسے ہیں جنہیں اگر سچ بولنے اور اعتراف کرنے کی توفیق ہو تو وہ کیدار شرما کے ممنون و احسان ہیں اور وہ اس شکریئے اور احساس کی بدولت ہی فلمی دنیا کے افق پر درخشاں و تابندہ ہیں۔
خدا تعالیٰ نے کیدار شرما کو بیک وقت کئی خوبیاں ودیعت فرمائی ہیں ، وہ کامیاب گیت کار و فلمساز ہیں، یادگار فلمی گیتوں کے خالق ہیں ، کئی کامیاب فلموں کے مصنف ہیں، مکالمہ نگار ہیں۔ بیشتر فلموں کے اداکار ہیں اور اس سے قطع نظر ان میں سب سے زیادہ وصف یہ ہے کہ وہ جب کسی شخص میں اپنے معیار کی صلاحیت محسوس کرلیتے ہیں ۔تو اسے بڑے سے بڑا موقع دینے میں کسی طرح کی دیر و دریغ نہیں کرتے، فلمی دنیا کے ہر شعبے میں ان کی دریافت، آج فلم کی کامیابی کی ضامن ہی نہیں وہ پائدار ستون بھی ہیں۔


کیدار شرما - امرتسر کے باشندے ہیں ، وہ 3,اگست 1907ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انگریزی ادب میں ایم۔ اے کیا۔ سابق صدر جہوریہ ہند گیانی ذیل سنگھ ان کے ہم جماعت رہے ہیں۔ حسرت امرتسری تخلص کے تحت شاعری بھی کی ہے۔ "پنچھی" کے نام سے اردو میں ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے کے دیباچہ نگار آرزو لکھنوی مرحوم تھے۔ اور اس مجموعے کی فرخت کی ذمہ داری آج کے مشہور و معروف فلمساز و ہدایت کار بی۔ آر۔ چوپڑا نے اٹھائی تھی۔
کیدار شرما نے اپنا فلمی کیریر کلکتہ سے شروع کیا۔ کلکتہ میں قیام کے دوران ٹیگور سے ملاقات ہوئی۔ لوگ ٹیگور سے ملاقات کرنے پر فخر کرتے ہیں لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ٹیگور نے آپ کو اپنے پاس بٹھا کر عزت دی۔ انہوں نے اپنی ایک کویتا کا پنجابی میں کیدار شرما سے ترجمہ کرایا۔ ٹیگور ، کیدار شرما کی بے پناہ صلاحیتوں سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔


کیدار شرما مشہور آرٹ ڈائریکٹر ہمت رائے شرما کے بڑے بھائی ہیں ، اور فلم "ہماری یادآئے گی" کے ہیرو اشوک شرما کے والد ہیں۔
کیدار شرما کا ایک اور بڑا وصف ان کا ایک بہترین انسان ہونا بھی ہے ، اور شاید اس وصف پر فرشتے بھی رشک کرتے ہوں گے ۔ اس عظیم فنکار کیدار شرما سے میرا ایک انٹرویو:


محمد خالد عابدی:
آپ کی ادبی زندگی کا آغاز کب اور کس طرح ہوا؟
کیدار شرما:
میری ادبی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب میں کالج میں پڑھتا تھا، بچپن ہی سے مجھے علم ادب سے بے حد لگاؤ رہا ہے۔ تھیٹر سے بھی مجھے بے حد دلچسپی رہی ہے ۔ ان دنوں پنڈت بیتاب اور آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں سے بے حد متاثر ہوتا تھا۔ کالج کے زمانے میں، میں نے کچھ ڈرامے بھی لکھے اور انعامات بھی حاصل کئے ۔


خالد عابدی:
آپ نے اپنے ابتدائی کلام پر کس سے اصلاح لی تھی؟ اور باقاعدہ استاذ کون تھا؟
کیدار شرما:
میں نے اپنے ابتدائی کلام پر کسی سے اصلاح نہیں لی ۔ ابھی تک میں اپنے کلام کو خود ہی پرکھتا ہوں ۔ میرا ضمیر ہی میر ااستاد ہے ۔


خالد عابدی:
کیا آپ نے افسانے بھی لکھے ہیں؟
کیدار شرما:
جب میں نیو ٹھیٹر میں کام کرتاتھا ۔ ان دنوں میں نے اردو افسانوں کی ایک کتاب لکھی تھی۔ جس کا نام تھا" کھلونے ٹوٹے ہوئے" جو آج تک شائع نہیں ہوئی۔ پہلا ڈراما پنجابی زبان میں کالج کے زمانے میں لکھا تھا جو بے حد کامیاب رہا۔


خالد عابدی:
ابھی تک اردو زبان میں آپ کی کن موضوعات پر کتابیں شائع ہوچکی ہیں؟
کیدار شرما:
اردو زبان میں ابھی تک میری صرف ایک ہی کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام تھا"پنچھی" یہ گیتوں کا مجموعہ تھا ۔ اس میں بیشتر گیت ایسے تھے جو مختلف فلموں میں آئے ۔ دیباچہ آرزو لکھنوی کا تھا۔


خالد عابدی:
کیدار شرما صاحب، آپ نے فلمی دنیا میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے ۔ آپ کے اپنے تجربات اور مشاہدات بھی ہیں ، بالخصوص فلموں کی ترقی میں اردو زبان کی کیا اہمیت ہے؟
کیدار شرما:
فلمی لائن میں واقعی میں نے ایک طویل عرصہ گزارا ہے ۔ اس لائن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ مختلف فنون لطیفہ کا ایک خوبصورت مرقع ہے ۔ اس انڈسٹری میں وہی شخص زیادہ دیر تک ٹک سکتا ہے جس کے اندر کچھ دم ہوتا ہے، جو ماہر فن ہوتا ہے حالانکہ تقدیر کا بھی اس میں کافی دخل ہے ۔ ورنہ کئی آئے ، کئی گئے، فلم کی کامیابی میں خصوصاًفلم لائن کی ترقی میں، اردو زبان کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ مکالمے اردو زبان میں لکھے گئے ہوں تو زیادہ بہتر ہے ،مگر مکالمے موثر اورجاندار ہونے چاہئے۔ اور ان میں ارد و الفاظ کا استعمال بہت ضروری ہے ۔


محمد خالد عابدی:
سنسر بورڈ سے فلم کے لئے لینگویج سرٹیفکیٹ کس طرح حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ ابھی تک کن کن فلموں کو اردو سرٹیفکیٹ ملے ہیں؟
کیدار شرما:
سنسر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے درخواست میں لنگویج کے کالم میں اس زبان کا نام لکھنا پڑتا ہے جس زبان میں فلم تیار کی گئی ہے ۔ کون سی فلم کس زبان میں تیار کی گئی ہے یہ تو اس فلم کا پروڈیوسر ہی بتا سکتا ہے ۔ مجھے تو صرف اپنی فلموں کے بارے میں معلوم ہے ۔


محمد خالد عابدی:
کیا آپ کی سبھی فلموں کو اردو سرٹیفکیٹ ملے ہیں؟
کیدار شرما: میری سبھی فلموں کو اردو سرٹیفکیٹ نہیں ملے ۔ مثال کے طور پر فلم"چتر لیکھا"،"دش کنیا" اور"جوگن" وغیرہ ان فلموں کی زبان ہندی تھی۔ فلم کی بیک گراؤنڈ اور ماحول کے مطابق اس فلم کی زبان بھی ہونی چاہئے ۔ جس طرح دھارمک فلموں یا پرانی اتہاسک فلموں جیسے"اشوک"، "چندر گپت"، "وکرمادتیہ" میں فارسی یا عربی الفاظ شوبھا نہیں دیتے اسی طرح فارسی یا عربی ماحول فلم میں ہندوستانی کے کٹھن شبد کانوں کو ناگوار گزرتے ہیں تاہم ہندی برج بھاشا ، فارسی کے "عام فہم" الفاظ اگر لکھے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ کیونکہ سنسکرت ، اردو اور فارسی کا آپس میں گہرا رشتہ ہے ۔ بلکہ برج بھاشا اور فارسی کے اختلاط سے جو زبان بنی وہی مخلوط زبان اردو کہلاتی ہے ۔اردو زبان خیالات کی نازکی ، تراکیب کی پختگی و زود کلام کے لحاظ سے سب زبانوں سے کہیں آگے ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان کی خدمت اور نشوونما و ارتقا کا فلم بھی ایک اہم ذریعہ ہے ۔ مکالمے لکھتے وقت ایسی زبان لکھی جائے جو با محاورہ ہونے کے ساتھ ساتھ فصیح بھی ہو ۔ جس سے ادب العالیہ کا ذوق بڑھے ، صحت زبان کے اصول و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اردو ادب کی عظمت برقرار رکھتے ہوئے میں نے آج تک جتنی بھی فلمیں لکھیں یا بنائی ہیں وہ دوسری فلموں سے بالکل مختلف ہیں اور یہ تفوق اہل نظر ، اہل ذوق اور فقہائے زبان کے علاوہ اردو زبان اور اردو علم و ادب سے شغف رکھنے والے حضرات نے میری فلمیں ہمیشہ پسند فرمائی ہیں۔


***
ماخوذ از کتاب: اردو مراسلاتی انٹرویو
مصنف: محمد خالد عابدی (سن اشاعت: 1996ء)

An interview with Kidar Sharma. Interviewer: Khalid Abidi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں