عہد حاضر میں رابندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت اور ان کی تخلیقات اور ان کے افکار و نظریات کسی تعارف کے محتاج نہیں بےشک ان کی شخصیت کی ہمہ جہتی اور ان کے تصور کی آفاقیت کے نقوش ہر اس قاری کے دل و دماغ پر ثبت ہیں جو کہ اپنے اندر کے نہاں خانوں میں ادب شناسی کا ہنر رکھتا ہے یوں تو ٹیگور کی شخصیت کے مختلف جشم کشا پہلو ہیں جو کہ بیک وقت احاطہء قلم میں نہیں آ سکتے واقعی انھوں نے دنیائے ادب کو قابل قدر اور لاثانی فن پارے سے آراستہ کیا ہے۔ اس وقت میرے ذہن کے پس منظر میں ان کی شاعری کی قوس قزح کی کرنیں ہیں جو میری جنبش قلم میں سرایت کر گئی ہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے بہت ہی کم عمری میں شعر کہنے شروع کر دئیے تھے۔ ٹیگور کو ابتدائی عمر سے ہی فطرت سے کافی انس تھا انھیں گاؤں کا فطری ماحول ان میں رہنے والے لوگوں سے بےحد لگاؤ تھا فطرت کے تئیں ان کی انہماکیت کا اندازہ ان کے ہر لفظ سے مترشح ہوتا ہے ادب کے تئیں ان کے میلان کو محسوس کرتے ہوئے ان کے بھائی نے ان کی شعری صلاحیت کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا رابندر ناتھ ٹیگور کو بچپن میں لوگ ربی کہہ کر پکارتے تھے یہ کہیں نہ کہیں ان کی ذات سے خاص لگاؤ کا نتیجہ تھا۔ ان کی شخصیت میں فطری مناظر کے تئیں جو عشق تھا وہ نہ صرف ان کی شاعری میں نظر آتا ہے بلکہ موسیقی ڈرامے کہانیاں سب میں اس کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔
گیتانجلی ان کا وہ شاہکار کارنامہ ہے جس کو کہ دنیا کے سب سے بڑے پرائز نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ بےشک گیتانجلی کے ہر لفظ میں ایک ساحری قوت ہے جو پڑھنے والے کو مبہوت کر دیتی ہے احساسات و تخیل کا امتزاج اور دلی آرزوؤں کو انھوں نے لفظوں میں بہت خوبصورتی سے پرویا ہے اس میں موجود جذبات لفظوں کی گمشدگی کے بعد بھی اپنا اثر قاری پر عرصہ دراز تک باقی رکھتا ہے بنگال کے قدرتی مناظر اور پرندوں کی چہچہاہٹ اور پودوں کی دلکشی اور بارش کا حسن پوری طرح ان کی شاعری میں اپنا وجود منوائے رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں گیتانجلی میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
صبح دم خامشی کا سمندر تھا بھوکا
کہ جیسے ہوں چڑیا کے گیتوں کی لہریں
کھلے پھول جو رہگذر کے کنارے پہ تھے
کتنے سرشار تھے
بادلوں کے جھروکوں سے گر گر کے
سونے کی دولت تھی بکھری ہوئی
پھر بھی ہم اتنے مصروف تھے
ان نظاموں کو پل بھر بھی دیکھا نہیں
راہ پر اپنی چلتے رہے
ان سارے لفظوں میں ٹیگور نے کس خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کو متوجہ کیا ہے کہ فطرت کا حسن ہمارے ارد گرد پورے آب و تاب سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے لیکن ہم ہیں کہ اپنی الجھنوں میں گم ان سے بے خبر ایک مخصوص ڈگر کے ساتھ جئے جا رہے ہیں۔
ٹیگور کی شاعری میں روحانیت کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں روحانی قدروں کا نور ان کی شاعری کا ایک اہم جزو ہے وہ واقعی مبہوت کن ہے روح جو کہ ہر مذہب کی تعلیم میں ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے جس کو کہ ہر بشر تسلیم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام پڑھنے والے قاری کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے ہو ان کے کلام کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی عمر میں ہی جان لیا تھا کہ ہمارے ارد گرد جو مناظر نظر آتے ہیں وہ اصل نہیں بلکہ اصل کا عکس ہیں۔ فطری اور انسانی تجربات میں جو صداقت پائی جاتی ہے وہ روحانی حقیقت سے ہم آہنگ ہے ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ خدا اپنے پیدا کردہ حسن کو محدود و مقفل نہیں ہونے دینا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس حسن کو سرایا جائے اور اسے محسوس کیا جائے اور اس کے لئے شکرگزار بھی ہوا جائے۔ اگر چہ ان احساسات کا کشف ہر دل پہ نہیں ہوتا شاید اسی لئے ہی اینی رسل ماربل نے ٹیگور کے بارے میں کہا تھا کہ :' ٹیگور کے جام دل کو خداوند کریم نے نبیوں اور پیمبروں کی طرح اچانک روحانی روح سے لبریز کر دیا ہے '
ٹیگور لکھتے ہیں:
ترے حکم نغمہ سرائی سے
مجھے یہ ہوا ہے گماں کبھی
کہ کہیں دھڑکنا نہ چھوڑ دے
مرا دل ہجوم غرور سے
ترے چہرے کو میں ہوں دیکھتا
مری آنکھیں ہوتی ہیں اشکبار
ہے کچھ ایسا عالم بےخودی
کہ خود اپنے نغموں کی مستی میں
میں تجھے ہی دوست پکار اٹھا
تو جو میرا آقا ہے اور خدا
ان کے اس شعر میں ان کی روحانیت کی اعلی مثال نظر آتی ہے وہ اس بات کا بخوبی اندازہ رکھتے تھے کہ آج کی مادی دنیا میں ایک ہی جائے سکون ہے وہ ہے خدا۔ وہ انسانیت اور روحانیت دونوں کو ہی یکساں اہمیت کا حامل سمجھتے تھے کیوں کہ اسی پر اس کائنات کے نظم کا انحصار ہے انسانیت اور روحانیت کو زخمی تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا قتل ممکن نہیں ٹیگور کے عقیدے کے مطابق دنیا میں صرف وہی قومیں ترقی کر سکتی ہیں اور پھل پھول سکتی ہیں جو اپنی روحانی احساس کی پرورش کریں اور خود اپنے فائدے کے لئے اپنے اندر روحانی مقناطیس پیدا کریں تاکہ دنیا ان کے خیالات کی طرف جھک سکے ہم مادی دنیا میں رہنے والے ایک روحانی مخلوق ہیں جس سے قطع تعلقی انسان کے دل و دماغ میں ہیجان برپا کر دیتی ہے گیتا نجلی اسی روح کو مخاطب کرتے ہوئے لکھی گئی ہے۔
پروفیسر وہاج الدین علوی نے گیتا نجلی کی نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
' گیتانجلی کے نغموں میں خدا تک پہنچنے کی آرزو اس سے شرف ہم کلامی اور ہم اخوشی کی تمنا ، التجا، التماس نارسائی کا شکوہ غرض کہ عبد و معبود کے بیچ رشتوں کا تسلسل ہے '۔
بےشک ان کے یہ الفاظ سچائی پہ مبنی حقیقت ہے جس کا کہ انکار نہیں کیا جا سکتا ٹیگور ایک جگہ بڑی بے ساختگی و معصومیت کے ساتھ لکھتے ہیں۔
اے میری روح زندگی
کوشش کروں گا میں سدا
یہ جسم میرا پاک ہو
اس راز سے ہوں باخبر
یہ تیرا لمس جاوداں
ہے میرے اک اک انگ پر
کوشش کروں گا میں سدا
جس کام کو بھی میں کروں
اس میں ترا ہی عکس ہو
اس راز سے ہوں باخبر
قوت عمل کی یہ مجھے
قدرت سے تیری ہے ملی
ٹیگور کا خیال ہے کہ خدا کی بارگاہ میں پیش کی جانے والی نیکیاں بھی درحقیقت خدا کے کرم کے ہی مرہون منت ہیں اس لئے ہمیشہ ہمیں اپنے ہر لفظ میں اس کی مدح و تشکر کے احساس کو سموئے رکھنا چاہئے اور اپنے جسم و جاں کو اس کی امانت خیال کرنا چاہئے جب جسم و جاں بےلگام ہو جائے تو انسان روحانی صداقتوں سے بھی محروم ہونے لگتا ہے یہ نہ صرف انسانی قدروں کا زوال ہے بلکہ انسانیت کا بھی زوال ہے۔
تری عطا نے مجھے تو دوام بخش دیا
ترا ہے کتنا کرم
کہ بارہا مرے کمزور ظرف ہستی کو
تو خالی کرتا ہے
اور پھر حیات تازہ سے
بھرتا بھی تو ہی رہتا ہے
ہیں چھوٹے ہاتھ مرے کس طرح سمیٹیں گے
تری عطاؤں کو جو بےحساب ہیں یارب
زمانے آتے ہیں جاتے ہیں
میرے دامن میں
ہمیشہ ہوتا ہے رہتا ترے کرم کا نزول
یہ ظرف بھرتا ہی رہتا ہے یونہی صبح و شام
کہ تشنگی میری ہر لمحہ بڑھتی رہتی ہے
مذکورہ نظم کا ایک ایک لفظ ٹیگور کے روحانی احساسات کا بہترین عکاس ہے انھوں نے اپنے مالک کے سامنے جس طرح دوزانو ہو کر الفاظ تشکر پیش کیا ہے وہ بےمثال ہے اور ساتھ میں اپنی طلب اور خواہش کا جس طرح اظہار کیا ہے اس کی سادگی قاری کے اندر بے اختیار جذب کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔
ان کی کتاب گیتانجلی جس کا اردو ترجمہ سہیل احمد فاروقی نے کیا ہے اس کی ہر نظم کی اپنی ہی ایک الگ جدا گانہ کیفیت ہے مترجم نے کہیں بھی اصل عبارت کے مافی الضمیر کو مضمحل نہیں ہونے دیا یہ اپنے آپ میں قابل رشک کارنامہ ہے۔
ٹیگور کی شخصیت و شاعری دونوں میں ہی روحانیت و فطرت دونوں کا زبردست آہنگ نظر آتا ہے ان کا شمار عہد جدید کے جدت پسند شعرا میں ہوتا ہے ادب کی شاہراہوں پہ ہمیشہ ان کی تخلیقات کسی سنگ میل کی طرح نصب رہیں گی آنے والی نسلیں اس سے فیضیاب ہوتی رہیں گی۔
ان کی شخصیت کے ظاہر باطن دونوں پہلو یکساں تھے ٔان کی شخصیت کیسی تھی اس کا اندازہ اس وأٔقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ایک مرتبہ جب وہ امریکہ کا دورہ کر رہے تھے ایک مقام پہ انھیں دیکھنے کے لئے بھیڑ جمع ہوگئ ٹیگور آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور بھیڑ بڑھتی ہی جا رہی تھی ہر شخص چاہتا تھا کہ سب سے پہلے وہ ٹیگور کا دیدار کرے وہ جب ایک بیوہ عورت کے قریب سے گذرے تو اس نے اپنا بچہ ان کے قدموں میں ڈال دیا ٹیگور نے بچے کو اٹھایا اور پیار کرنے لگے۔
چھوٹے بچے نے ان کی گھنی داڑھی کو گھورتے ہوئے پوچھا:
کیا آپ Jesus Christ (یعنی عیسی مسیح) ہیں ؟
ٹیگور مسکرا دیے کوئی جواب نہیں دیا۔
ان کے سکریٹری نے برجستہ کہا: عیسی مسیح نہیں ہیں مگر ان کے جیسے ضرور ہیں۔
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی ظاہری و باطنی شخصیت میں تضاد نہیں تھا وہ روحانیت و انسانیت جو ان کی شاعری میں نظر آتی ہے وہ ان کی شخصیت سے بھی عیاں ہوتی تھی۔
ایک مرتبہ کسی نوابی خاندان کے ایک معزز فرد نے ٹیگور کو دیکھ کر کہا
'واللہ کیا نورانی چہرہ ہے'
بےشک ایسی ہی نورانیت ان کے لفظوں سے بھی منعکس ہوتی ہے اور ٹیگور کی تخلیقات بلاشبہ ہماری ادبی دنیا کے لئے ایک عظیم اثاثہ ہیں اور ان کی شخصی خصائص ہماری سوچوں کا در وا کرتی ہیں اور ان کی روحانیت ہمیں بےاساس مادیت سے الجھنے سے روکتی ہے اور فطرت سے ان کا لگاؤ ہمارے اندر کی سو رہی تمناؤں کے لئے ایک لطیف ہوا کا جھونکا کی حیثیت رکھتی ہے۔
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں