نیند کی آغوش میں - افسانہ از طلعت فاطمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-27

نیند کی آغوش میں - افسانہ از طلعت فاطمہ

neend-ki-aaghosh-mein-short-story-talat-fatma

میں کئی گھنٹوں سے بستر پہ لیٹی ہوں لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن کے وہ سہانے دن جب میری اور نیند کی بڑی اچھی دوستی تھی۔ اسکول سے تھک کر جب میں گھر آتی تو وہ فوراً مجھے اپنی بانہوں میں لے لیتی اور لوریاں سنا کر سنہرے خواب دکھاتی۔ خواب میں، میں نیند کے سنگ جھولا جھولتی، پریوں کی نگری کی سیر کرتی اور خوبصورت کپڑوں میں ملبوس سفید بادلوں پہ سوار پوری کائنات کے چکر لگاتی۔ پھر جب لڑکپن میں قدم رکھا تو گویا نیند بھی میری طرح الہڑ اور دیوانی ہو گئی اور ہمہ وقت اُس کی یہی کوشش ہوتی کہ وہ مجھے اپنی آغوش میں بھر لے اور میں بھی اُس کی اتنی محبت پہ اپنا آپ اسے سونپ دیتی۔
پھر خوابوں کا ایک نیا سلسلہ چل نکلتا۔ ہر کہانی کی مرکزی کردار میں ہوتی جو کہیں اپنی بہادری اور دلیری کے جوہر دکھا رہی ہوتی اور کہیں کسی شہزادے کی مرکزِ نگاہ بنی ہوتی۔ خوابوں کی دلکشی اور نیند کی سرگوشی مجھے گُدگُدانے لگتی اور میں مزید مضبوطی سے نیند کے گرد بازو حمائل کر لیتی۔ وقت کی رفتار کے ساتھ ہی میں نوجوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی تھی اور نیند کے ساتھ میرا رشتہ بہت گہرا ہو گیا تھا۔ وہ میری تنہائیوں کی رفیقہ، میرے جذبات و احساسات کی ہمراز اور میرے ادھورے خواہشوں کی تکمیل تھی۔ روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد میرا محبوب مشغلہ خود کلامی اور نیند کے سنگ وقت گزاری تھا۔ اُس کے ہوتے مجھے کسی دوست کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ مجھے نئی نئی دنیا میں لے جاتی جہاں ہر چیز میری مرضی سے ہوتی گویا میں وہاں کی راجکماری تھی اور وہ پوری سلطنت میری جاگیر تھی۔ جہاں مختلف ریاست کے شہزادے میری ہمراہی کے خواب دیکھتے تھے لیکن اُن کا خواب محض خواب ہی رہنا تھا کیوں کہ تعبیر اُسی کو ملنی تھی جس پہ اِس شہزادی کی مُہر لگتی۔ یوں میرا وقت اور خواب دونوں ہی خوبصورت گذر رہا تھا۔


نیند اور خواب کی سنگت نے مجھے حقیقت سے بہت دور کر دیا تھا۔ میں اپنے ہی خیالوں کی دنیا میں ہمہ وقت مگن رہتی لیکن جیسا کہ زندگی کا پودا حقیقت کی سنگلاخ زمین پہ اُگتا ہے کبھی بارش کی ہلکی اور نرم پھوار پا کر لہلہا جاتا ہے اور کبھی سخت دھوپ سے مرجھا جاتا ہے، لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر ہی وہ تناور درخت کی شکل اختیار کرتا ہے اور ہر طرح کے مصائب کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے مگر میں ابھی وہ تناور درخت نہیں بنی تھی البتہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے میرا سامنا ہونے لگا تھا اور ان ڈراؤنے حقائق سے بھاگنے کے لیے میں خواب میں پناہ لینا چاہتی تھی لیکن خواب تو تب آتے جب نیند مجھ پہ مہربان ہوتی۔
اب نیند مجھ سے روٹھ گئی تھی پتہ نہیں کیوں؟ یا شاید مجھے خبر ہے وہ کیوں روٹھ گئی تھی۔ دراصل جب سے میں 'بے حسی' اور 'حقیقت' سے آشنا ہوئی تھی نیند مجھ سے خائف رہنے لگی تھی۔ نیند کو شکوہ تھا کہ میں اب پہلے کی طرح اُسے وقت نہیں دیتی اور بے حسی اور حقیقت کو مجھ سے گلہ تھا کہ میں اگر ان دونوں کا ساتھ نہیں دوں گی تو وقت سے بہت پیچھے رہ جاؤں گی۔ میں بہت زیادہ کشمکش میں رہنے لگی۔
کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہونے لگتا کہ میں حقائق اور خواب کا فرق بھولنے لگی ہوں۔ بعض اوقات گھر والوں سے گفتگو کے دوران میں کسی ایسے شخص یا ایسے واقعات کا ذکر ان سے منسوب کر کے کہہ دیتی جن کا حقیقی وجود یا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو گھر والے مجھے عجیب نظروں سے گھورنے لگتے۔ انہیں میری ذہنی حالت پہ شبہ ہوتا اور میں خود اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرنے سے قاصر ہوتی۔ ان کی نظریں مجھے خائف کر دیتیں اور میں وہاں سے اٹھ جانے میں ہی عافیت محسوس کرتی اور تنہائی میں بیٹھ کر گھنٹوں اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتی لیکن کوئی سرا ہاتھ ہی نہ آتا۔


اب میں خود بھی نیند سے ڈرنے لگی تھی اور اپنا زیادہ وقت بےحسی اور حقیقت کے ساتھ گزارنے لگی۔ نیند کو میری یہ بے التفاتی ناگوار گذری اور اب عالم یہ تھا کہ وہ رات کو بھی میرے قریب نہیں آتی۔ میں اکثر راتیں رو رو کر گزار دیتی۔ مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ واقعی میں نے اپنی ایک مخلص دوست کو کھو دیا۔ اب نہ نیند آتی تھی اور نہ ہی اپنے سنگ سہانے سپنے لاتی۔ اب بس بےحسی اور حقیقت کا ساتھ تھا جو ہمہ وقت مجھے نصیحت اور روک ٹوک کیا کرتی تھیں۔ ان کے نزدیک میں ایک بد دماغ مخلوق تھی۔ ان کے پاس میرے جذبات و احساسات کی کوئی قدر نہیں تھی۔ ایسے میں مجھے نیند اور خواب کی کمی بہت کھلنے لگی تھی۔ دھیرے دھیرے مجھے خود بھی اپنے جذبات و احساسات سے نفرت ہونے لگی۔


بےحسی اور حقیقت کے ساتھ رہتے رہتے میں اتنی زیادہ حقیقت پسند ہو چکی تھی کہ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھنے لگی۔ میرا شعور بہت بالغ ہو گیا تھا جو مجھے ہر وقت بے چین رکھتا۔ میں عشق و محبت کے جذبات سے بے بہرہ ہونے لگی تھی۔ خواہش کہ باجود نہ کسی سے محبت کر پاتی نہ ہی کسی کی محبت قبول کر پاتی کیوں کہ میری عقل میرے دل کی پہرے دار بن گئی تھی جو بس نفع و نقصان کا کھاتہ کھولے مجھے صحیح غلط کا پاٹھ پڑھاتی رہتی اور میں اُس کی نگرانی میں خود کو بے بس محسوس کرتی۔


وقت یونہی گزرتا رہا بےحسی اور حقیقت مجھ سے بیزار ہو کر کسی اور ہم نوا کی تلاش میں نکل پڑیں اور میں ایک بار پھر سے تنہا رہ گئی۔ اب میں اپنی ذات کے اندر سفر کرنے لگی وہاں میری نظر ایک شبنمِ نایاب پہ پڑی۔ میں اُس کی رعنائی اور سنہرے خد و خال کو دیکھ کر مبہوت ہوگئی۔ وہ بھی میری جانب دیکھ کر ہولے سے مسکرائی۔ میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کچھ نہ کہا بس چپ چاپ میری جانب دیکھتی رہی۔ اُسے جاننے کا تجسس مجھ میں بیدار ہوا۔ میں اُس کے اور زیادہ قریب آگئی۔ اُس نے خود کو مزید پوشیدہ کرلیا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میری بے چینی پھر سے بڑھنے لگی۔ میں اپنی بھولی بسری دوست نیند کو یاد کرنے لگی۔ تبھی وہ شبنمِ نایاب میرے قریب آئی اور اس نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس کے پُر فسوں لمس اور نرم قربت کو محسوس کرتے ہوئے میں اس کے گہرے اسرار و رموز سے آشنا ہونے لگی اور پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ تو خاموشی ہے میری ذات کا ایک اٹوٹ حصہ اور کائنات کی سب سے حسین شئے۔ اس نے آنکھوں کے اشارے سے میرے خیال کی تصدیق کر دی۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس لا متناہی سفر نے مجھے بہت تھکا دیا ہے، میں اب مزید چل نہیں پاؤں گی۔ مجھے کوئی طریقہ بتاؤ کہ میں اس محرومی سے باہر نکل آؤں لیکن خاموشی نے میرے لب پہ اپنی مخروطی انگلیاں رکھ دیں پھر میری آنکھوں نے اُسے میرے دل کا سارا حال کہہ سنایا۔ اس نے دھیرے سے میری آنکھوں کے ساغر پہ بندھ باندھنے کی کوشش کی۔


بہت دنوں بعد مجھے پھر سے ایک مخلص رفیقہ ملی۔ اب میں اسے کسی بھی قیمت پہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اب میں خاموشی کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ وہی میری رازدار اور غمگسار تھی لیکن اب بھی مجھے نیند کی کمی کھلتی تھی۔ میری آنکھیں اب بے خواب ہو چکی تھیں اور اگر بھولے سے کبھی آنکھ لگ جاتی تو ڈراؤنے سپنے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیتے۔ میں حواس باختہ سی بھاگنے کی کوشش کرتی لیکن خود کو بہت بے بس محسوس کرنے لگتی اور اچانک میری آنکھ کھل جاتی تب خاموشی مجھے سینے سے لگاتے ہوئے میری سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کرتی اور کسی قدر مجھے آرام مل جاتا۔ کبھی کبھی میں سوچتی کے نیند نے ضرور مجھے بد دعا دی ہوگی تبھی مجھے بے حسی اور حقیقت سے زیادہ خواب ڈرانے لگے ہیں۔
اب میں بہت بوڑھی ہو چکی ہوں۔ لوگوں کی نظروں میں بہت معمر اور معزز ہوں لیکن اپنی ذات میں تنہا اور ویران۔ ایک عرصہ بیت گیا لیکن مجھے وہ میری پیاری نیند نہیں ملی اور نہ ہی خوش رنگ خواب کا گزر میری آنکھوں سے ہوا البتہ خاموشی آج بھی میرے ہمراہ ایک عزیز از جان ہستی کی طرح موجود تھی۔ میرے کمرے میں ہر سو سکوت کا ماحول ہوتا تھا۔ اور میں اس گہری چپ کی چادر اوڑھے خلاؤں میں کسی کو تلاش کرتی رہتی۔


آج صبح سے ہی میری طبیعت بہت بوجھل تھی۔ ہر چیز سے بیزاری محسوس ہو رہی تھی۔ میں یونہی بستر پہ لیٹی لیٹی تھک گئی تو اُٹھ کر بیٹھنا چاہا۔ خاموشی بھی میرے قریب ہی لیٹی تھی۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ میں اٹھ پاتی۔ میں خاموشی کو آواز دے کر اپنی مدد کے لیے بولنا چاہتی تھی لیکن تب مجھے ادراک ہوا کہ میں اپنی آواز سےبھی محروم ہو چکی ہوں۔ میری آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں کہ اچانک مجھے اپنے سرہانے سے کسی کے سسکنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے کسی طرح ہمت جٹا کر گردن کو خم کر کے سرہانے پہ نظر ڈالنے کی کوشش کی۔ سسکی کی آواز نے میرے کمرے کے مہیب سناٹے میں ارتعاش پیدا کیا اور خاموشی بھی بیدار ہو گئی۔ میری غیر ہوتی حالت دیکھ کر وہ فوراً میرے قریب آئی اور مجھے سہارا دے کر بٹھا دیا۔ اب میں اپنے سرہانے کی طرف باآسانی دیکھ سکتی تھی۔ وہاں تکیے پہ میری دیرینہ رفیقہ اور میرے درد کی درماں، میری پیاری نیند بیحد نحیف و نزار، بالکل میری طرح ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ اسے بھی میری جدائی نے بہت نڈھال کر دیا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف شاکی نظروں سے دیکھتے ہوئے آنسو بہاتے رہے اور ہمارے درمیان خاموشی اپنی ازلی رمز و فسوں کے ساتھ براجمان رہی۔
کافی دیر رو لینے کے بعد جب ہم دونوں کے دل کا غبار چھٹ گیا تو ہم ایک دوسرے کو معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے بیتے دنوں کی ہمراہی کو یاد کرنے لگیں۔ خاموشی بھی ہمارے سنگ مسکراتی رہی۔ نیند اور میں دونوں ہی چوں کہ نحیف و کمزور ہو چکی تھیں اس لیے ہم ایک دوسرے سے بغل گیرنہیں ہوپا رہے تھے ایسے میں میری مخلص غمگسار خاموشی نے ہماری پریشانی کو دور کرتے ہوئے مجھے دوبارہ بستر پہ لٹا دیا اور نیند کو تکیے پر سے سہارا دے کر میری آنکھوں میں بٹھا دیا۔ میرے دل کی بے قراری کو قرار آگیا۔ میرا چہرہ مطمئن و تابندہ ہوگیا۔ نیند بھی سرشاری کی کیفیت میں مسرور میری آنکھوں میں ڈولنے لگی اور ہولے ہولے میری پلکیں بوجھل ہونے لگیں میرے دل کی ڈھرکنیں رک گئیں۔ نبض تھم گئی اور میری آنکھیں بند ہو گئیں۔


میں نیند کے ہمراہ حسین خواب کے ابدی سفر پہ روانہ ہو گئی۔ میرے چہرے کے اطمنان کو دیکھ کر خاموشی خوشی سے میرے کمرے میں رقص کرنے لگی اور بالآخر تھک کر میرے وجود سے لپٹ گئی !!

***
طلعت فاطمہ
ریسرچ اسکالر (پی ایچ ڈی)، شعبۂ اردو، عالیہ یونیورسٹی، کولکاتا۔
Email: talatfatma04[@]gmail.com

Neend ki aaghosh mein. Short Story by: Talat Fatma

1 تبصرہ:

  1. ویسے پوچھنا یہ تھا کہ ’گوہر نایاب‘ مذکر ہے یا مونث؟

    جواب دیںحذف کریں