دشتِ وحشت کا شاعر : ذوالفقار نقوی - پروفیسر قدوس جاوید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-18

دشتِ وحشت کا شاعر : ذوالفقار نقوی - پروفیسر قدوس جاوید

dasht-e-wahshat-by-zulfiqar-naqvi
شاعری

عمدہ شاعری محض موضوع ہوتی ہے اور نہ صرف ہیئت ۔ تحریر کا کون سا لسانی،سماجی،ثقافتی اور فنی و جمالیاتی پہلو اسے شعر بنا دے کچھ کہا نہیں جا سکتاکیونکہ آج بھی شاعری اگر ‘میکانیکی’ نہیں ہے تو دائرہ در دائرہ، ذوق اور وجدان، جذبہ و احساس اور فکر و دانش کے مرحلوں سے گزر کر سامنے آنے والے زبان، ذات،زندگی اور زمانے کے تخلیقی و جمالیاتی اظہار و بیان کا ہی دوسرا نام شاعری ہے۔لیکن شاعری کا معیار و مقام کیا ہے، اِس کے جائزے کے لیے تنقید مختلف طریقے اختیار کرتی ہے۔
کسی بھی معتبر شاعر کی شاعری کی تنقید کا ایک طریقہ یہ بھی رہا ہے کہ شاعری سے پہلے شاعر کی تخلیقی شخصیت کو بھی ممکنہ حد تک سمجھ لیا جائے۔چنانچہ ذوالفقار نقوی کی شخصیت اِن اشعار کے پردوں سے سامنے آتی ہے۔
ہم فقیروں کو زمانے کی تب و تاب سے کیا
ہم جہاں بیٹھ گئے ، اپنی بنا لی دنیا
سر بچے یا نہ بچے تیرے زیاں خانے میں
اپنی دستار بہر طور بچانا ہے مجھے
ذرا دیکھوں تو کتنا دم ہے اِس باد ِ مخالف میں
گھروندا اِک سرِ دشتِ بلا تعمیر کرنا ہے
دشت سے خاک اُٹھا لایا تھا اجداد کی میں
گھر میں رکھی تو ہوئے چاند کے ہالے شب و روز


اِس طرح کے اور بھی متعدد اشعار نقل کیے جا سکتے ہیں لیکن فی الوقت اِن اشعار کے کلیدی الفاظ و تراکیب ، مثلاً فقیری، زمانے کی تب و تاب، اپنی دنیا، زیاں خانہ، دستار، بادِ مخالف،دشتِ بلا، اجداد کی خاک اور چاند کا ہالہ وغیرہ کو نشان زد کر کے معنوی کے علاوہ اِن کی نفسیاتی اور تاثراتی تہوں اور طرفوں کو کھول کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نقوی انتشار و بحران سے دوچار اِس دور میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر یقین رکھنے والے ایک خوددار شخص ہیں جو اپنے آبا و اجداد کی خاک، یعنی موروثی روایات و اقدار اور عقائد و تعلیمات کا چاند کے ہالوں کی طرح احترام کرتے ہیں اور ساتھ ہی تمام تر منفی اور مخالف حالات کا مردانہ وار سامنا کرتے ہوئے ہر حال اور ہر قیمت پر اپنی شرافت و سیادت اور عزت و ناموس کو بچائے رکھتے ہوئے زمانے کے اِس ‘دشتِ بلا’ میں بھی گھروندا بنانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
لیکن ذوالفقار نقوی کی شاعری کے اندر سے ہی اِن کی جو تخلیقی شخصیت سامنے آتی ہے اُس کو مرکز میں رکھ کر اِن کے چند سینئر شعرأ جیسے افتخار عارف،منیر نیازی،شکیب جلالی، مظہر امام، شہر یار، ودیا رتن عاصی اور فاروق مضطر وغیرہ کے علاوہ اِ ن کے معاصر شعرأ محمد مشتاق،رفیق راز، ایاز رسول نازکی وغیرہ کی شاعری خصوصاً غزلیہ شاعری کے مزاج اور معیار کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ذوالفقار نقوی کی شاعری کی کائنات بحیثیت مجموعی اِن شعرأ سے الگ کوئی جزیزرہ نما نہیں بلکہ اِن سے اٹوٹ رشتہ رکھتی ہے،کہیں مفاہمت کا تو کہیں مزاحمت کا۔
ذوالفقار نقوی کہیں غزل کی روایت کی توسیع کرتے ہیں تو کہیں تجدید، لیکن اکثر وہ سب سے الگ ایجاد و اختراع سے بھی کام لیتے ہیں۔ اِس کی بہترین مثالیں اِن کے اِس مجموعۂ غزلیات "دشتِ وحشت" میں بھری پڑی ہیں۔غزل وہ صنفِ سخن ہے جس مضمون و معنی آفرینی کی نُدرت، تما م تر ہنر مندیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو کر شاعری کے لسانی و شعری، فنی و جمالیاتی اور تعبیراتی امکانات کو وسیع سے وسیع تر کرتی چلی جاتی ہے۔اور چونکہ غزل ہر دور میں زبان، ذات، زندگی اور زمانے کی لہروں کو اپنے اندر سمیٹ کر کمال مہارتوں کے ساتھ اِن کے اظہار و بیان کی قوت بھی رکھتی ہے چنانچہ اِس بنیاد پرذوالفقار نقوی ہی نہیں بلکہ پوی معاصر اردو شاعری کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ "زبان، ذات، زندگی اور زمانہ"ہی وہ چار عناصر ہیں جن کی ماہرانہ لسانی ،فنی اور جمالیاتی ترتیب و تنظیم سے شاعری وجود میں آتی ہے۔اور جو شاعر اپنے ذوق، اُفتادِ طبع یانفسیاتی ساخت کے مطابق جس توازن و تناسب کے ساتھ اِن عناصر کو جس معیار سے برتتا ہے اُس کی شاعری کا معیار و مرتبہ بھی اسی کی بنا پر قائم ہوتا ہے۔وسیع تناظر میں دیکھیں تو مشرقی اور مغربی ناقدین نے بھی شعر و شاعری کی تفہیم و تعبیراور تنقید کے لیے اپنے اپنے طور پر اِن ہی باتوں پر زور دیا ہے۔ قدما نے شعر کی تعریف میں کہا ہے کہ " شعر وہ کلامِ موزوں و مقفیٰ ہے جو کسی معنی پر دلالت کرے اور بالمقصد کہا جائے"۔ لیکن شمس الرحمن فاروقی اور دیگر کئی ناقدین اِس تعریف کو من مانا قرار دیتے ہیں۔قدما نے (عربی) شاعری میں لفظ اور قافیہ کے برتاؤ کے حوالے سے چار عنوانات قائم کیے ہیں۔
1۔ لفظ کا رشتہ معنی سے
2۔ لفظ کا رشتہ وزن سے
3۔ معنی کا رشتہ وزن سے
4۔ معنی کا رشتہ قافیہ سے


یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شاعر کے کلام میں الفاظ کے معنی اور جمالیاتی برتاؤ سے ہی شعریت، کیفیت، معنی خیزی اور تاثیر پیدا ہوتی ہے۔


زبان

شاعری کی زبان کے حوالے سے ذوالفقار نقوی کے ایسے اشعار اِن کے تخلیقی شعور کا پتہ دیتے ہیں۔
بے زباں لفظ ہیں شاعری ہے کہاں
درد و غم کی مرے، بات کی ہے کہاں
صوت و حرفِ تمنا سے ہو با خبر
ایسی ادراک میں نغمگی ہے کہاں
آپ بیتی کو جہاں بیتی بنا کر پیش کر
قافیہ پیمائی کی قیمت کوئی فن میں نہیں


ذوالفقار نقوی کی شاعری کی زبان اِن کے معاصرین کی طرح مضمون کی مناسبت سے سادگی اور استعاراتی نیز لطافت اور صناعت کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔دوسرے لفظوں میں ذوالفقار نقوی اردو زبان اور اِس کے تخلیقی برتاؤ کا سلیقہ رکھتے ہیں جو شاعرانہ اظہار و بیان کی بنیادی شرط ہے۔اور جسے اصطلاح میں "مذاقِ سلیم" کہتے ہیں۔اردو کی کلاسیکی اور جدید شاعری کے محاورات،تشبیہات و استعارات کی آگہی کے سبب نقوی کی شعری زبان اردو شاعری کے لسانی سرمایے سے بِلا تکلف اپنا رشتہ قائم کر لیتی ہے۔چند مثالیں:
دیکھا نہیں ہے یار کی جب سے گلی کا رُخ
چمکا ہے اُس کے بعد مری دلبری کا رُخ
ہفت اقلیم پہ دن رات نظر رکھتے ہیں
بے خبر ہوتے ہوئے ساری خبر رکھتے ہیں
ایسے امید کے پالے ہوئے اشجار گرے
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا ، سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پر شاہ و گدا روئے
تیری تخلیق کا خلاصہ ہوں
تُو مصور میں تیرا نقشہ ہوں
چڑھتے سورج کی میں پوجا کرتا ہوں
یار یہی اِک خصلت زندہ رکھتی ہے
اُٹھ رہا ہے شور لفظوں سے بہم
بھاگتا ہے فکر کا قاتل کہاں
اور پھر ایسے اشعار بھی ملتے ہیں۔
غازہ ، پوڈر مل کر میں بھی آ جاتا ہوں سرخی میں
بِک جاتا ہے چہرہ میرا سستے سے اخبار کے ساتھ
اِس قدر ٹینشن نہ پالا کر
خون اپنا نہ تُو اُبالا کر
جوجھتا رہتا ہوں میں وقت کی پر خاشوں سے
خوف آتا نہیں اب ظلم سے، پاداشوں سے


ذات

کسی بھی شاعر کے لیے زمان و مکان کی بصیرت سے پہلے خود اپنی ذات کے حدود و امکانات کی آگہی لازمی ہے اور خود آگہی کی یہ صفت ذوالفقار نقوی کے یہاں جگہ جگہ جلوہ گر نظر آتی ہے۔


مجھے زمان و مکاں کی حدود میں مت رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں مت رکھ
میں تیرے حرفِ دعا سے بھی ما ورا ہوں میاں
مجھے تُواپنے سلام و درود میں مت رکھ
مرا یقین سے جو سلسلہ مِلا ہوا ہے
کسی سے میں نے بھی اب رابطہ کیا ہوا ہے
تشنگی روز بڑھتی جاتی ہے
اِ ک سمندر ہوں اور پیاسا ہوں
تیرگی مجھ سے کیوں نہ ہو خائف
روشنی کا میں استعارہ ہوں
تُو مسافر بے نوا ہے ذوالفقارؔ
کون سی بستی تجھے اپنائے گی


زندگی

زندگی بول ترے ساز پہ گاؤں کب تک
بے سُری تال پہ اب پیر چلاؤں کب تک
راستہ تیرا جدا، اور مری سمت الگ
اِس طرح یار ترا ساتھ نبھاؤں کب تک
ٹیگ لگا کر بیٹھا ہوں میں جس بوڑھی دیوار کے ساتھ
مٹ جاؤں گا میں بھی شاید اِس کے ہر آثار کے ساتھ
کاٹ لے میرا سر مگر ظالم
میری دستار مت گرایا کر
کوزہ ر دیکھ اگر چاک پہ آنا ہے مجھے
پھر ترے ہاتھ سے ہر چاک سلانا ہے مجھے


زمانہ

دشتِ بلا کی دھوپ میں تھوڑی نمی سی ہے
شاید مرے جنون میں کوئی کمی سی ہے
بے رہ روی کی موج میں بہہ جائے گی کہیں
انسانیت کی گرد کو ہم پر جمی سی ہے
خطرے میں پھر ہے کعبۂ ایمان ذوالفقارؔ
یا رب کوئی پرند کا لشکر اُتار دے
سچ بھی چلتا نہیں زمانے میں
جھوٹ کا بھی ہنر نہیں آتا
کون کہتا ہے زمانہ تری جاگیر نہیں
بات اتنی ہے کہ تُو صاحبِ تدبیر نہیں
کس کو معلوم تھا وہ ایسا ستمگر ہوگا
حلقۂ غیر میں یوں دست بہ خنجر ہوگا
کل جہاں پھول برستے تھے، اُسی راہ پہ آج
کیا خبر تھی کہ ہر اِک ہاتھ میں پتھر ہوگا
بال و پر کاٹ لیے جانے پہ کیسا ماتم
روز ہوتا رہا، ہوتا ہے، یہ اکثر ہوگا


مذکورہ عناصر پر مبنی شاعری میں ذوالفقار نقوی کے یہاں مضمون و معنی آفرینی کے حوالے سے میر انیسؔ اور کہیں کہیں اقبالؔ کے لب و لہجے کے سائے بھی رقصاں نظر آتے ہیں لیکن اسلوب تقلیدی نہیں، اجتہادی ہے۔ مثلاً
رات بھر دیکھتا آیا ہوں چراغوں کے نشاں
صبحِ عاشور سے اب آنکھ ملانا ہے مجھے
سُونی سُونی ہیں خلائیں ، دیکھ تا حدِ نظر
اور شاہیں بھی کوئی اپنے نشیمن میں نہیں
پسِ وجودِ جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموزِ ہستئ دوراں ورود میں مت رکھ


ذوالفقار نقوی کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی سادگی اور پُر کاری کا مجموعہ ہے۔سادہ بیانی کی مثالیں ہم دیکھ چکے لیکن اِن کا استعاراتی نظام بھی قابلِ غور ہے۔ چونکہ شاعری میں معنی آفرینی، کیفیت طرازی یا حسنِ بیان پیدا کرنے کے لیے مختلف شاعرانہ حربے یعنی Poetic Devices استعمال کیے جاتے ہیں جیسے رمز و ایما، تلمیح و تراکیب، قولِ محال و ابہام، تلازمۂ خیال، مراۃالنظیر،مناسباتِ لفظی،شعری صنعتوں، علامات و پیکر اور تشبیہ و استعارہ وغیرہ ۔ شاعر اِن کا استعمال تمام تر لسانی، فنی اور جمالیاتی ترتیب و تنظیم کے ساتھ کرتا ہے تو اسے اس شاعر کا "استعاراتی نظام" کہتے ہیں۔اب یہاں ذوالفقار نقوی کے استعاراتی نظام کا نظارہ درج ذیل اشعار میں کیجیے۔
وفورِ وحشتِ صحرا میں سائباں کے لیے
وہ لا مکان سے اُترا ہے ہر مکاں کے لیے
کوئی ہو آپ سا محراب میں مصلے پر
بلال خلد سے آ جائیں پھر اذاں کے لیے
ایسے امید کے پالے ہوئے اشجار گرے
جس طرح سایۂ دیوار پر دیوار گرے
عکس کوئی زندگی کا تیرے درپن میں نہیں
سبز رَو کوئی شجر اِس حجرۂ تن میں نہیں
جس کی شاخوں پر کوئی اُجڑا پرندہ آ بسے
وائے ایسا اِک شجر بھی تیرے آنگن میں نہیں


ذوالفقار نقوی نے اپنے اِس شعری مجموعے کے لیے" دشتِ وحشت" کی جو ترکیب وضع کی ہے وہ بذاتِ خود ایک ہمہ جہت استعارہ ہے۔’دشت’ اور ‘وحشت’ فارسی اور اردو شاعری کے زندہ، متحرک اور مستقل استعارے ہیں جنھیں ہر دوور میں تقریباً تمام بڑے شاعروں نے اپنے اپنے طور پر برتا ہے۔ذوالفقار نقوی کے یہاں ‘دشت’ اور ‘وحشت’ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ اپنے استعاراتی برتاؤ کے سبب ‘دشت’ نقوی کی داخلی ذات ہی نہیں ،خارجی زندگی اور زمانے کا بھی احاطہ کر لیتا ہے۔ اِسی طرح ‘وحشت’ بھی الگ الگ مضمون اور موقع و محل کے اعتبار سے، کہیں داخلی کیفیت ، کہیں ارادہ اور مقصد کے تئیں کمٹمنٹ Commitment اور جنون کی ترجمانی کرتا ہے تو کبھی’وحشت’ نا مساعد سماجی، سیاسی اور ثقافتی حالات اور مسائل کا نگار خانہ پیش کرتا ہے۔ اِس لیے ذوالفقار نقوی کے شعری مجموعے کی نتیجہ خیز قرأت اور تفہیم و تعبیر کے لیے قاری کو بھی الفاظ اور استعاروں کے اندر بہت گہرائی تک اُترنا لازمی ہو جاتا ہے۔نقوی نے خود کہا ہے۔
ہر ایک حرف سے ہوتی ہے بات مدت تک
میں ڈوب جاتا ہوں جب قلزمِ معانی میں

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ذوالفقار نقوی اور اجالوں کا سفر - تبصرہ از نذیر قریشی

Book Review: Dasht-e-Wahshat - Zulfiqar Naqvi. Reviewer: Prof Quddus Javed

2 تبصرے:

  1. نہایت ہی متشکر و ممنون ہوں کہ آپ نے میرے شعری مجموعے سے متعلق یہ تبصرہ یہاں شائع کیا

    جواب دیںحذف کریں
  2. تعمیر نیوز ادب کی بے لوث خدمت انجام دے رہا ہے جس کے لیے برادرم مکرم نیاز قابلِ صد مبارک ہیں.. اللہ توفیقات میں اضافہ فرمائے

    جواب دیںحذف کریں