الیکشن میں ہار جانے کے بعد فکر تونسوی صاحب اچانک غائب ہو گئے ہیں۔ ان کی گمشدگی کے متعلق طرح طرح کی افواہیں اڑ رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے دریائے جمنا میں ڈوب مرے ، کسی نے کہا میں نے انہیں ہمالیہ کی طرف بگ ٹٹ بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ہاپوڑ ریلوے اسٹیشن پر بھیک مانگ رہے تھے اور زار و قطار رو بھی رہے تھے۔
البتہ ایک قرض خواہ جب ان کا سامان قرق کرانے پہنچا تو تلاشی کے دوران ان کا ایک مضمون بھی ملا جو انہیں رسوا کرنے کے لئے ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے!!
***
اچانک میرے بارے میں افواہ پھیل گئی کہ میں الیکشن لڑ رہا ہوں۔ یہ افواہ سن کر میرے سسر نے میری بیوی کو ماتمی تار بھیجا۔ کافی ہاؤس میں میرے دو دوستوں نے ایک دوسرے کو زخمی کر دیا۔ ایک چور نے ٹیلیفون پر مجھ سے شکایت کی کہ ہم تو تمہیں قلاش سمجھ کر تمہارے گھر نقب نہیں لگاتے تھے۔ اب یہ الیکشن کے لئے روپیہ کہاں سے آ گیا؟ میرے ایک مخالف امیدوار نے ایک کافر ادا حسینہ کو میرے پاس بھیجا تاکہ وہ میرے تقدس کو تار تار کر سکے۔ پڑوسیوں نے ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی کہ محلے کے اس واحد بھلے آدمی کو روکا جائے اور اگر نہ مانے تو اسے اغوا کر لیا جائے۔
درحقیقت ہوا یوں کہ جب ملک میں عام چناؤ کی چرچا چلی تو مجھے شرارت سوجھی کہ مندر کے مہنت رنچھوڑ داس کو چناؤ لڑنے پر اکسایا جائے کیونکہ ایک تو اس کے پاس چڑھاوے کے ہزاروں روپے وافر پڑے تھے جنہیں ختم کرنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ اس کا ٹوٹل مطالعہ ایک گٹکا رامائن اور بھجنوں کے سستے ایڈیشن والی کتاب سے آگے نہ بڑھا تھا۔ اسے کامیاب بنا کر میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ہماری پارلیمنٹری جمہوریت کس حد تک گر سکتی ہے۔ اس لئے میں نے کہا۔۔ "مہنت جی! ملک کی جمہوریت خطرے میں ہے، اسے بچانے کے لئے آپ چناؤ لڑئیے۔"
مہنت بولا: "ہی ہی ہی۔"
میں نے کہا۔ "ہی ہی کا کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔"
"شرمندہ تو ووٹر ہوں گے۔ آپ کھڑے تو ہو جائیے!"
"نہیں، آپ مجھ سے زیادہ قابل ہیں آپ کھڑے ہو جائیے!"
"مگر قابل آدمی کے پاس موٹر کار نہیں ہے۔"
"میری موٹر کار حاضر ہے۔"
"روپیہ بھی نہیں ہے۔"
"بھگوان دے گا۔"
"بھگوان کا ایڈریس میرے پاس نہیں ہے۔"
"وہ میرے پاس ہے۔"
"تو آپ اور بھگوان مشورہ کر کے مجھے آگاہ کر دیجئے گا۔"
میں تو یوں مذاق میں ٹال کر چلا آیا لیکن دوسری شام کو سارے علاقے میں ایک قد آدم پوسٹر چسپاں پایا گیا کہ مہنت رنچھوڑ داس اور اس کے دو ہزار چار سو بیس عقیدت مند بھگتنیوں کی طرف سے شری تونسوی کو الیکشن میں کھڑا ہونے کی درخواست کی گئی جو انہوں نے منظور فرما لی ہے۔
کچھ لوگوں نے اسے مذاق سمجھا، میرے سسر نے میری بیوی کو ماتمی تار بھیجا، لیکن اس کے باوجود میری بیوی نے سارے محلے میں لڈو بانٹے۔ کیونکہ وہ بھی مہنت رنچھوڑ داس کی چیلی تھی۔ جب اپنی بیوی ہی مہنتوں کے بس میں ہو تو پولیٹکل سوجھ بوجھ بے معنی ہو جاتی ہے۔
جس دن کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ تھی، میں صبح ہی صبح باتھ روم میں جا چھپا۔ لیکن میری بیو ی اور احباب نے سپیشل پولس سکوئڈ کو بلایا اور اس کی مدد سے دروازہ توڑ کر مجھے باہر نکالا۔ باتھ روم کے باہر ہی ایک دوست نے الیکشن فنڈ کے لئے اپیل جاری کر دی اور گیارہ روپے بھی دے دئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو ہزار روپے اکٹھے ہو گئے جن میں پچانوے روپے نقد تھے اور باقی کے وعدے تھے۔ ان پچانوے روپیوں میں دو تین نوٹ پھٹے ہوئے تھے۔
اس پر پراپیگنڈہ مشنیری فوراً حرکت میں آ گئی اور ووٹوں میں کنوسینگ سے پہلے مجھے کنولسینگ کی گئی۔ ایک دوست نے کونے میں لے جاکر سمجھایا کہ کامیاب ہونے کے بعد تمہارے وزیر بننے کے چانس خاصے روشن ہیں۔ ایک جیوتشی کو بلایا گیا جس نے پانچ روپے لے کر زائچہ بنایاکہ قسمت کے ستارے میں ایک کار اور کوٹھی صاف بیٹھی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ڈیری اونرز یونین کے پریزیڈنٹ شری نیت رام نے پانی ملا ہوا دودھ کا گلاس میرے منہ سے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
"الیکشن میں دودھ کا سارا خرچہ میرے ذمہ!"
ایک اور صاحب نے وعدہ کیا کہ الیکشن آفس کے لئے میری کوٹھی حاضر ہے! ( یہ کہنے کے بعد وہ صاحب کبھی نظر نہ آئے!)
ان حوصلہ افزائیوں نے میرا ایمان متزلزل کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ الیکشن لڑنا شرفاء کا کام نہیں۔ لیکن اب خیال آیا کہ صرف شرفاء ہی کو الیکشن لڑنا چاہئے ورنہ ڈیمو کریسی غنڈہ گردی کا شکار ہوجائے گی۔۔ اس لئے جونہی میں نے ہامی بھری جمعے میں ایک عجیب سی احمقانہ طمانیت بھر گئی۔ اور ایک مشٹنڈے سے نوجوان نے جو رام لیلا میں راون کا پارٹ ادا کرتا تھا، مجھے پکڑ کر کندھے پر بٹھا لیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں رامائن کی ستیا ہوں اور ڈیمو کریسی کا راون مجھے اغوا کر کے لے جارہا ہے۔
دوسری رات کو احباب نے ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی۔ پچاس دوستوں نے وعدہ کیا تھا لیکن صرف پچیس شامل ہوئے۔ باقی پچیس میں سے کوئی خود بھاگ گیا تھا، کسی کی بیوی بھاگ گئی تھی اور کسی کی بھینس! ایک لیڈی ورکر جو ایک بار جوئے کے جرم میں گرفتار ہو چکی تھی، اس میٹنگ میں شامل ہوئی۔ ایک لیڈر ڈاکٹر جو فیملی پلاننگ اور اسقاط حمل دونوں کام ساتھ ساتھ کرتی تھی، میری مداح نکلی۔ الیکشن کے ایک گھاگ ماہر شری بدلی چند جی نے اس میٹنگ کی رہنمائی کی۔ یہ صاحب چار بار الیکشن لڑ چکے تھے جن میں سے تین بار ہار گئے تھے اور چوتھی بار ایک ٹکنیکل غلطی کی وجہ سے کامیاب ہو گئے تھے۔ بدلی چند جی نے ہتو اپدیش سے لے کر دیوان چرکیں تک کے حوالے دے دے کر بتایا کہ الیکشن میں کس قسم کی حکمت عملیوں سے کام لینا چاہئے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ہر الیکشن پر میری جیب سے صرف پچیس روپے خرچ ہوئے تھے باقی سبھی اخراجات ووٹروں نے برداشت کئے تھے۔ اس انکشاف کا میری الیکشن مہم پر بہت برا اثر پڑا۔ کیونکہ کئی دوستوں نے اپنے وعدے کے روپے دینے سے انکار کر دیا کہ ووٹر خود برداشت کریں گے اور ایک دوست نے تو اپنے دئے ہوئے پانچ روپوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کر دیا۔
اس میٹنگ میں ایک ہائی پاور الیکشن کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی کو تمام اختیارات سونپ دئے گئے کہ وہ جیسے چاہے الیکشن مہم چلائے۔ پوسٹر نکالے، نہ نکالے، جلسے کرے نہ کرے، مخالف کے جلسوں میں گڑ بڑ پھیلائے جلوس نکالے، کرائے پر مظاہرین حاصل کرے ، اپنے امید وارمیں وہ خوبیاں تلاش کرے جو اس میں موجود نہ ہوں اور مخالف امید وار کے لئے وہ خرابیاں ایجاد کرے جو اس میں موجود نہ ہوں۔ جعلی ووٹروں کی الگ فہرست تیار کرے۔ جوئے میں سزا یافتہ لیدی ورکر کو زنانہ ووٹروں کے محاذ کی انچارج بنا دیا گیا۔ میری ناکامی کی ایک اہم وجہ یہی جوئے باز محترمہ تھیں کیونکہ یہ جس عورت کے پاس بھی کنویسنگ کے لئے جاتی، وہ منہ پھیر لیتی اور مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ عورتیں، عورتوں سے کتنی نفرت کرتی ہیں۔
جب میرے الیکشن کا پہلا پوسٹر نکلا تو کھلبلی مچ گئی۔ کیونکہ وہ اشتہار نہیں تھا ایک ادب پارہ تھا۔ اس ادب پارے کو پانچ فی صد لوگ سمجھے پچانوے فیصد نہیں سمجھے، میر ی ضمانت ضبط ہونے کی ایک اور وجہ یہ پوسٹر تھا جس نے میرے ووٹروں کو پانچ اور پچانوے میں بانٹ دیا اور دونوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا۔ سمجھداروں نے اپنی سمجھ کے زعم میں اور ناسمجھوں نے "بے ادب" ہونے کے ناطے! اور جن چند عورتوں نے مجھے ووٹ دیا۔ ان کی زبانی پتہ چلا کہ انہوں نے مجھ پر رحم کھا کر ووٹ دیا، سچ مچ دنیا میں رحم دل انسان اب بھی موجود ہیں۔
میرا خاکہ اڑانے کے لئے نہیں بلکہ عادتاً مخالف امید وار نے بھی جوابی پوسٹر نکالا جس میں مجھ پرر کچھ الزامات لگائے۔ مثلاً:
1۔ میں کوٹ پتلون پہنتا ہوں۔
2۔ میری بینائی کمزور ہے۔
3۔ میں نے محلے کے ایک کتے کو زہر دلوایا تھا۔
4۔ میں نے مندر کی تعمیر کے لئے سوا روپیہ چند نہیں دیا تھا۔
5۔ میں دودھ میں ملاوٹ کا دشمن ہو کر اپنے بچوں کو دودھ میں پانی ملا کر پلاتا تھا۔
جب یہ پوسٹر شائع ہوا توپچانوے فی صدی ووٹروں کی سمجھ میں آسانی سے آگیا۔ اس پوسٹر نے ذہنی طور پر قریب قریب مجھے مفلوج کردیا۔ غصے اور اضطرابب سے نیند اڑ گئی۔ الزامات صحیح ضرور تھے لیکن معیاری نہ تھے۔ احباب نے مجھے مجبور کیا کہ میں بھی مخالف امیدوار پر جوابی الزامات لگاؤں۔ مثلاً یہ کہ اس نے مندر کے تہہ خانے میں ناجائز شراب کی بھٹی چلا رکھی ہے ، اس کے والد صاحب نائی تھے، اس کی موجود بیوی اغوا شدہ ہے ، اس کا دادا برٹش سرکار کا پٹھو تھا یعنی سرکار کا چپڑاسی تھا ، وغیرہ وغیرہ
یہ الزامات میرے الزامات سے بھی زیادہ گرے ہوئے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ الیکشن نہ لڑوں گا اور ٹانگا ٹیکا چلا جاؤں گا۔ جب میں نے بیوی سے اس کا ذکر کیا تو وہ بولی:
"میں بھی تمہارے ساتھ ٹانگا ٹیکا چلوں گی۔"
میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا: "تو محترمہ! الیکشن لڑنا کیا برا ہے ؟"
تیسرے دن ہمارا انتخابی جلوس نکالا گیا۔ میرا انتخابی نشان مرغا تھا۔ ایک صاحب نے تجویز کیا کہ ایک سو ایک ایک مرغے خریدے جائیں۔ ہر مرغے کو بائیسکل کی گدی پر بٹھا کر ان کا جلوس نکالاجائے۔ تجویز بہت اچھوتی تھی لیکن کسی ستم گر نے مرغی خانے کے مالکوں تک یہ اطلاع پہنچا دی تو مارکیٹ میں مرغوں کا نرخ سات روپے سے دس روپے ہو گیا۔ بیوی نے پیش کش کی کہ میرے طلائی زیور بیچ کر مرغے خرید کر لیجئے۔ میرا گلا بھر آیا۔ قربانی کی یہ مثال صرف انقلاب فرانس میں ملتی ہے۔ انقلابی سپرٹ کے تحت ایک سو ایک مرغوں کا جلوس بڑے کروفر سے نکلا۔ ایک سو ایک بائیسکلوں پر گدی نشین ایک سو ایک مرغے اور انہیں سنبھالنے کے لئے ایک سو ایک ورکر۔ اس جلوس پر مخالفوں نے پتھر اور حمائیتوں نے پھول برسائے۔ جلوس میں مرغ اور انسان دونوں شامل ہوئے۔ جلوس کے آگے ککڑوں کوں کا ایک ٹیپ ریکارڈ برابر بج رہا تھا اور عوام نعرے لگا رہے تھے۔
جیتے گا بھائی جیتے گا!
مرغے والا جیتے گا!!
جلوس کے خاتمے پر معلوم ہوا کہ دس بائیسکلیں اور پندرہ مرغے غائب ہیں۔ کچھ ورکروں نے بتایا کہ چار پانچ مرغے تو مرغیوں کے پیچھے بھاگ گئے۔ کچھ ورکر جو بے ایمان تھے، جلوس کے درمیان ہی سے کچھ بائیسکلیں لے کر کھسک گئے۔
تین دن بعد مخالف امیدوار نے بھی جلوس نکالا۔ اس کا انتخابی نشان بھینس تھا، انہوں نے بھی ایک سو ایک بھینسوں کا جلوس نکالا۔ عوام اس جلوس میں بھی ہزاروں کی تعداد میں شامل ہوئے۔ ان عوام کا کوئی اعتبار نہیں۔ مرغے اور بھینس دونوں سے یکساں عقیدت رکھتے ہیں۔ عوام کے اس دوغلے پن پر میں کباب ہو گیا۔ صرف ایک بات اطمینان بخش تھی کہ مخالف کی آٹھ بھینسیں غائب ہوئیں جن کی قیمت مرغوں سے سات سو گنا زیادہ تھی۔
اس کے بعد جلوس کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ امر تعجب خیز تھا کہ مرغوں کی طرح مقررین بھی کرائے پر مل جاتے تھے۔ شاعر اور موسیقار ایک جلسے سے فارغ ہو کر دوسرے جلسے میں پہنچ جاتے۔ صرف امید واروں کے نام بدل دیتے، مواد وہی رہنے دیتے۔ آرٹ اور آرٹسٹوں کی یہ "پیسہ پرستی" دیکھ کر کئی بار مجھے شرم آئی لیکن احباب نے سمجھایا کہ یہ صنعتی دور ہے یہاں آرٹ بھی بازار کی جنس ہو گیا ہے۔ ہلدی، آلو ٹماٹر، گڑ اور شعر۔۔۔ ان سب میں بھید بھاؤ مٹ گیا ہے۔
ہمارے حلقے میں چوبیس ہزار ووٹر تھے جن میں سے ڈھائی ہزار ووٹر جعلی تھے یعنی خدا کی طرح موجود تھے لیکن نظر نہیں آتے تھے۔ ایک صاحب میرے پاس آئے اور بولے:
"ان ڈھائی ہزار ووٹروں کا ٹھیکہ مجھے دے دیا جائے۔ ڈھائی ہزار روپیہ لے کر ووٹ بھگتا دوں گا۔" بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایسا ہی ٹھیکہ مخالف امید وار سے بھی کر چکا ہے اور ڈھائی ہزار روپے لے چکا ہے۔ میں نے اسے بلاکر شرمندہ کیا لیکن وہ شرمندہ نہ ہوا اور کہنے لگا:
" شرمندگی کیسی؟ یہ تو بزنس ہے۔"
ایک ہزار ووٹر رحلت فرما گئے تھے جس سے مجھے بہت تسکین ہوئی۔ کیونکہ ووٹر جتنے بھی کم ہوں اتنی زحمت کم ہوتی ہے۔ ہر ووٹر کے پاس جا جا کر ہاتھ جوڑنا پڑتے ہیں الیکشن کی اصطلاح میں اسے "ڈور ٹو ڈور کنویسنگ" یعنی دردر کی خاک چھاننا کہتے ہیں۔ میں نے کئی ایسے ووٹروں کے سامنے بھی ہاتھ جوڑے جو اندھے تھے۔ ایسے ووٹروں کو اپنا مینی فیسٹو سنایا جو بہرے تھے اس کنویسنگ میں محلے کے جو معززین ہمارے ساتھ چلتے وہ مخالف امیدوار کے ساتھ بھی چلا کرتے۔ ان میں سے ایک معزز نے مجھے کان میں بتایا کہ ہم صرف اخلاق اور تہذیب کی خاطر مخالف امیدوار کے ساتھ جاتے ہیں ورنہ ہم ووٹ آپ ہی کو دیں گے۔
اور ان میں سے اکثر معززین نے ہم دونوں میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دیا۔ پولنگ کے دن یا تو وہ باہر چلے گئے یا تاش کھیلتے رہے۔
پولنگ سے دو دن پہلے سرگرمیاں کچھ زیادہ تیز ہو گئیں۔ مثلاً مخالف امیدوار کے ایک خاص ایلچی نے رات کے دو بجے آکر میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔
میں نے پوچھا۔ "کیا چاہتے ہو؟"
وہ بولا۔"آپ کا ضمیر!"
میں نے کہا۔ "ذرا وضاحت فرمائیے۔"
اور اس نے بطور وضاحت پانچ ہزار روپے کے نوٹ میری جیب میں ڈال دئے۔ میں نے کلی کی طرح تبسم کیا اور کہا کہ نرخ بالا کن۔۔ وہ اداس ہوگیا بولا۔" مالک نے مجھے چھ ہزار روپے دئے ہیں، ایک ہزار روپے میں نے بطور کمیشن رکھ لیا ہے۔"
میں نے یہ سن کر اپنے کتے سے کہا۔ " ان صاحب کو گھر چھوڑ آؤ۔"
دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ تمام سبزی خوروں نے مندر میں جاکر قسم کھائی کہ مرغا ایک طرح کا مانس ہے۔ اس لئے کوئی سبزی خور مرغے کو ووٹ نہ دے گا۔ لیکن مندر کے ہیڈ پجاری نے پچاس روپے میں اپنا ضمیر بیچتے ہوئے بتایا کہ جب قسم کھائی گئی اس وقت بھگوان کی مورتی کو نہلایا نہیں گیا تھا، اس لئے قسم کا قبول ہونا مشکوک ہے۔
تیسرا انکشاف یہ ہوا کہ ووٹر کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہوتی بلکہ مختلف ٹولیوں، فرقوں اور برادریوں کی رائے ہی اس کی رائے ہوتی ہے۔ ترکھان برادری گوالا برادری، جوئے باز برادری، چڑی مار برادری ، گائے برادری، کبوتر برادری۔۔ !ٖ
غرض ان گنت برادریوں میں ووٹر حضرات کی تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے ، میں نے افراد کی بجائے برادریوں سے التجا کی کہ میں بھی آپ ہی کی برادری کا ممبر ہوں۔ ممبر بنانے کے بعد انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم آپ ہی کو ووٹ دیں گے۔ مخالف امیدوار سے بھی ایسا ہی برادرانہ وعدہ کیا گیا۔
اور سب سے آخری اور عظیم انکشاف یہ ہوا کہ جب پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کی گئی تو میری بیوی کے سوا کسی یقین نہ آیا کہ میری ضمانت ضبط ہو گئی ہے۔ لیکن مجھے برابر شک رہا کہ میری بیوی نے بھی مجھے ووٹ نہیں دیا۔ بدنیتی سے نہیں، لاعلمی سے!!
ماخوذ از کتاب: بدنام کتاب (انشائیے)
مصنف: فکر تونسوی۔ سن اشاعت: 1975ء۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں