یہ محبتوں کے رویے یہ شفقتوں کی کہانیاں - انشائیہ از حمنہ کبیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-28

یہ محبتوں کے رویے یہ شفقتوں کی کہانیاں - انشائیہ از حمنہ کبیر

family-love-and-care

کبھی کبھی سوچتی ہوں ، والدین میری اتنی فکر نہ کرتے۔ سب سے چھوٹی ہوں، اسی لئے زیادہ فکر کرتے ہیں سبھی (ماشاءاللہ ۔۔۔ الحمداللہ)۔ ویسے سب کے والدین ہی اپنی اولاد کی فکر کرتے ہیں۔
آج بارش ہو رہی تھی، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ مجھ سے لحاف میں دبکے رہا نہیں گیا۔ گھر والوں سے کہہ کر کہ ابھی آتی ہوں، ایئر فون لیا اور بالکنی میں آ گئی۔ گانا ایپ پر ارجیت سنگھ کا گانا "خیریت پوچھو۔۔۔۔ " لگایا اور سننے لگی۔ ذرا دیر بعد ابو جی میری "خیریت" پوچھنے آ گئے۔
"اتنی ٹھنڈ ہے۔۔ ننگے سر ادھر ٹہل رہی ہو؟"
میں نے جلدی سے اسکارف کانوں پر لپیٹتے ہوئے جواب دیا: " ابو جی ابھی ہٹایا تھا اسکارف ، بس آ رہی ہوں"
ابو نے تھوڑا ناراض ہو کر کہا: "کہاں لپیٹا تھا۔ ٹھنڈی ہوا میں یوں سر کھولا ہے۔ جاؤ کمرے میں"۔


ایک دفعہ آدھی رات گزرنے پر بھی نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ فیس بک ، وہاٹس ایپ پر کچھ وقت ضائع کیا، پھر بھی نیند نہیں آئی۔ چپکے سے اٹھی اور رات کی خاموشی کا لطف اٹھانے کمرے سے باہر نکل آئی۔ رات کی گہری خاموشی میں وقت گزارنا مجھے بہت پسند ہے۔ جب کچھ دیر بعد واپس آئی تو امی کو اپنا منتظر پایا۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا٫
"میں سوچ رہی تھی میرا بچہ کہاں چلا گیا"
بے تحاشہ پیار آیا امی جان پر۔ ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا:
" کہاں جائے گا آپ کا یہ بچہ آپ کو چھوڑ کر"
اللہ پاک سب کے والدین کو خیر و عافیت سے رکھے۔
اب سوچتی ہوں اگر گھر والے فکر نہ کرتے ، میرے لئے ہلکان ہی نہ ہوتے تو کچھ ایسا حال ہوتا۔
سردی میں بالکنی میں ٹہلتے ہوئے دیکھ کر ابو جی کہتے:
"ٹھنڈی ہوا میں ادھر گھوم رہی ہو۔ کوئی بات نہیں۔۔ ٹہلو۔۔ میری بلا سے بھاڑ میں جاؤ"
یا میں ناراض ہوکر اگر کھانا کھانا چھوڑ دوں تو امی کہتیں۔۔
"اوہ منھ بنا ہوا ہے۔ کھانا نہیں کھانا ہے۔ اوکے مت کھاؤ مرو بھوکی۔"


یہ الگ بات ہے کہ ناراضگی میں گھر والوں سے چھپ کر کھا لیتی تھی۔ والدین سمیت بھائی بہن کھانے کے لئے منا منا کر تھک جاتے تھے۔ سامنے بیٹھ کر کھاتے تھے اور مجھے چڑھانے کے لئے کہتے تھے۔
"اوہ۔۔ حمنہ تو آج روزہ ہے۔ واہ امی کتنا لذیذ بنایا ہے۔ "
"یہ ہم نے بنایا نوالہ اور یہ گیا ہمارے منھ میں"
جی تو بہت چاہتا تھا کہ جلدی سے کوئی میرے منھ میں بھی نوالہ ٹھونس دے۔ لیکن۔۔۔۔۔بعد میں عقل آئی کہ غصہ میں کھانا نہیں کھانا سراسر بیوقوفی تھی۔ غصہ کی حالت میں تو ڈٹ کر کھانا چاہئے تاکہ انرجی باقی رہے۔


بچپن میں جب کزنز چھپا چھپی یا پولس چور کا کھیل کھیلا کرتے تھے تب میں اکثر چھپنے اور پولس سے بچنے کے لئے دائیں بائیں دیکھے بغیر منھ اٹھائے سیدھا دادا جان کے کمرے کا رخ کرتی تھی۔ دادا جان ہم لوگوں پر جان چھڑکتے تھے۔ کھیل میں اکثر شامل ہو جایا کرتے تھے۔ مجھے اشارے سے بتاتے تھے یہاں چھپ جاؤ۔ کمبل سے مجھے اچھی طرح ڈھانپ بھی دیا کرتے تھے تاکہ نظر نا آ سکوں۔ اور چور کو ڈھونڈھتے ہوئے پولس جب دادا جان کے کمرے میں داخل ہو جاتا تھا تو اشارے سے اسے بتا دیتے تھے کہ میں کہاں چھپی ہوئی ہوں۔ میں دیکھ لیتی تھی تو منھ بنا کر کہتی تھی ،
"یہ کیا دادا جان۔ آپ نے بتا دیا؟"
تب ان کے ہونٹوں پر بڑی گہری مسکان آ جاتی تھی۔ دادا جان اس وقت میرے سوال کا جواب نہیں دیتے تھے۔ لیکن ان کی مسکراہٹ مجھ سے کہتی تھی اس لئے کہ انہیں تو اپنے " پولس" سے بھی پیار تھا اور اپنے " چور" سے بھی بے انتہا محبت تھی۔
اب سوچتی ہوں دادا جان کیوں اس قدر محبت کرتے تھے ، کیوں نہیں جھڑک دیتے تھے یہ کہہ کر کہ:
"جاؤ دفع ہو جاؤ۔۔۔ میرے سر پر کیوں شور مچا رہے ہو۔ "


ایسی ہی محبتوں اور شفقتوں سے لبریز میری دادی جان بھی تھیں۔ ان کے پاس میں جب بھی سوتی تو وہ اپنے نرم گداز ہاتھوں سے مجھے سہلایا کرتی تھیں۔ آج بھی جب ان کا خیال کرکے آنکھیں بند کروں تو ان کے ہاتھوں کا محبت بھرا لمس محسوس ہونے لگتا ہے۔ سردیوں میں لحاف اوڑھے جب مجھے کچھ گرمی لگتی تو لحاف سے باہر پاؤں نکال لیتی تھی۔ لیکن جب بھی آنکھیں کھلتیں اپنے پاؤں لحاف کے اندر ہی پاتی تھی۔ ایسا کئی دفعہ ہوتا تھا۔ میں بےچینی سے لحاف ہٹاتی مگر تھوڑی ہی دیر بعد دادی جان مجھے لحاف میں دوبارہ چھپا دیتی تھیں۔ صبح اٹھتی تو ان کا ہاتھ تھام کر کہتی تھی:
"آپ سوئی نہیں ساری رات مجھے لحاف میں چھپاتی رہیں جب کہ مجھے گرمی لگتی ہے تو ہٹا لیتی ہوں۔"
ہنستے ہوئے وہ کہتی تھیں: "میں نے سوچا کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے۔"
ان کی مسکان میں کبھی بھول نہیں پائی۔


کچھ ایسا ہی میری بڑی پھوپھی بھی کرتی ہیں۔ دادی جان کی ہی طرح محبت اور فکر کرنے والی۔ ان کے پاس کبھی سوتی ہوں اور اگر رات میں لحاف ہتا دیتی ہوں تو صبح خود کو لحاف میں ہی پاتی ہوں۔ لیکن اب میں اس جادو کا راز جان چکی ہوں۔ جان کر بھی انجان بنی رہتی ہوں۔ جی چاہتا ہے بار بار لحاف ہٹاؤں اور بار بار مجھے پھوپھی لحاف میں چھپائیں اور میں لحاف کے اندر آنکھیں بند کئے اس محبت سے محظوظ ہوتی رہوں۔


اب سوچتی ہوں کیوں دادی اور پھوپھی جان ہم سب کے لئے خود کو اتنا پریشان کر لیتی تھیں۔
بچپن میں بڑے چچا جب کھانا کھاتے تھے ہم سب ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ "مجھے بھی کھلائیے"
"مجھے بھی کھانا ہے"
ہم جتنی دفعہ کھانے کے لئے منھ کھولتے تھے اتنی ہی دفعہ چچا بخوشی ہمارے منھ میں نوالہ ڈالتے جاتے تھے۔ بلکہ میری باری پر کسی اور کو کھلا کر تنگ بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن پیشانی پر ذرا بھی شکن نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کبھی ایسا کہا کہ: "جاؤ بابا تم لوگ خود سے کھاؤ ، مجھے چین سے کھانے دو ، کیوں ہر کھانے پر آ جاتے ہو تنگ کرنے۔"
اب سوچتی ہوں کیوں ہر فرمائش پر چھوٹے چچا اسے پورا کرنے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردیتے تھے۔ یہ کیوں نہیں کہتے تھے کہ:
" موقع نہیں ہے ، جی نہیں چاہتا کہیں جانے کا"
اور کبھی ایسی سوچیں ذہن میں چلی آتی ہیں کہ کیوں چھوٹی پھوپھی اور خالہ کے گھر ہمارے چلے جانے پر وہ خود کو ہلکان کرتی ہیں۔ کیوں نہیں اپنے آرام کا سوچتیں کہ جو کھانا بنا ہوا ہے وہی مجھے بھی کھلا دیں۔ کیوں خود کو پریشان کرکے طرح طرح کے پکوان بناتی ہیں اور مجھے کھلاتی ہیں۔


مولا کریم نے ان خوبصورت رشتوں کو مٹی سے بنایا ہے یا محبت اور شفقت سے بھرے جذبات سے؟ اتنا پیار کہ جس کی حد نہیں، جس کا کبھی زوال نہیں۔ اب وہی محبت اور فکر اپنے بھائیوں اور بہنوں میں پاتی ہوں۔ اور یقیناً اس وقت تو بہت خوشی ہوتی ہے جب کہیں نا کہیں خود میں بھی کچھ ایسی ہی محبت اور فکر کے اثرات ملتے ہیں۔

***
Email: hamnaahvazi[@]gmail.com

Yeh mohabbaton ke rawayye. Light Essay by: Hamna Kabir

1 تبصرہ:

  1. اسے آپ مضمون کی کوئ شکل دے دیں لیکن کم از کم انشائیہ تو نہ کہیں۔ انشائیہ بڑی ہی مختلف چیز ہے۔

    جواب دیںحذف کریں