نظیر اکبر آبادی - ہندوستان کی دھنک رنگ تہذیب کا عکاس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-27

نظیر اکبر آبادی - ہندوستان کی دھنک رنگ تہذیب کا عکاس

Nazeer Akbarabadi

نظیر اکبر آبادی ۔۔۔
اس نام سے پہلے پہل شناسائی بچپن میں اس وقت ہوئی جب ہم خان صاحب مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی "اردو کی دوسری کتاب" پڑھتے تھے۔ اس کتاب میں بنجارہ نامہ کے تین بند شامل ہیں۔۔۔ ناپختہ شعور کے اس دور میں بھی اس نظم کے الفاظ اور زبان کا الہڑپن ہمیں خوشگوار حیرت میں ڈال دیتا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ شاعر کا نام تو ہم بھول بھال گئے۔ مگر بنجارہ نامہ کے وہ اشعار دھیرے دھیرے ہمارے کچے ذہن پر نقش ہو گئے۔
اس بات سے قطعی بے خبر کہ اس نظم میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو کس خلاقانہ ہنرمندی کے ساتھ تمثیلی پیرائے میں بیان کیا ہے، ہم محض الفاظ کی نغمگی اور فطری پن سے محفوظ ہوتے ہوئے کورس کے انداز میں اشعار پڑھتے جاتے اور ہنستے جاتے ؂

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجاکر نقارا
کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شتر، کیا گوئیں پلّا سر بھارا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

نظیر اکبرآبادی کا اصل نام شیخ ولی محمد تھا، ان کی ولادت بالاختلاف سن 1735ء، 1739ء یا 1746ء میں بتائی جاتی ہے۔
ان کے والد محمد فاروق عظیم آباد کی سرکار میں ملازم تھے، نظیر دہلی میں پیدا ہوئے۔ مگر دہلی پر احمد شاہ ابدالی کے حملوں کے دوران سن 1757ء میں ہجرت کرکے بمع خاندان آگرہ میں مقیم ہو گئے اور پھر ساری زندگی یہیں کے ہو رہے۔
ایسے دور میں بھی جب درباروں اور سرکاروں سے انسلاک اور وظیفہ خوری کو شعراء کے لیے کامیاب زندگی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، نظیر اکبرآبادی اپنی سادگی، قناعت پسند طبیعت اور منکسرالمزاجی کے سبب کسی دربار سے منسلک نہ ہوئے اورپوری زندگی معلمی کے باوقار پیشے کو اپنے لیے غنیمت جانا۔


گو اردو کے علاوہ نظیر کو پنجابی، ہندی، مارواڑی اور فارسی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ مگر نظم نگاری کے لیے انھوں نے اپنے ہم عصر شعراء میر و سودا وغیرہ کی تقلید میں نہ تو فارسی آمیز زبان کے استعمال کو ضروری سمجھا اور نہ ہی دبستان لکھنؤ کی لسانی عشوہ طرازیوں کو بروئے کار لانے کی حاجت محسوس کی۔ بلکہ ایسے وقت میں جب شاعری کے لیے عمومی طور پر حسن و عشق، گل و بلبل، کاکل و عارض، وصل و فراق اور ہجر و ملال کو ہی اہم موضوعات گردانا جاتا تھا، نظیر نے حیات انسانی کے روزمرہ کے مشاہدات و تجربات، حاجات و ضروریات، اخلاق و طرز معاشرت اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی ہمہ رنگی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔۔۔ اور اس کے لیے انھوں نے صنف نظم کی آزادی، ماجرہ سازی، بیانیہ تکنیک اور وسعت تخیل سے کماحقۂ فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے شاہکار شعری فن پارے خلق کیے جو اردو کے قاری کو زمین سے وابستہ حقیقتوں، اخلاقی قدروں اور بالخصوص ہندوستانی تہذیب وثقافت کے خوبصورت رنگوں سے روشناس کرانے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔


اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نظیر اکبر آبادی اپنی شاعری بالخصوص نظم گوئی کے حوالے سے اردو میں جدید شعری رجحان کے اوّلین بنیاد گزار تسلیم کیے جانے چاہئیں۔
شروعات میں نظیر کی شاعری کو بازاری اور معمولی کہہ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان کی شاعری میں موجود فنی خوبیوں اور شعری جواہرات کو پہچان کر ان کی قدر کا تعین کرنے والوں کی بھی کمی نہیں رہی۔


چنانچہ اگر شمس الرحمن فاروقی صاحب نے کہا کہ:
"نظیر کا دماغ چھوٹا اور تجربہ محدود ہے "
تو وہیں احتشام حسین رضوی نے تسلیم کیا کہ:
"نظیر اکبر آبادی نے اردو شاعری کے محل میں چور دروازے کی بنیاد ڈالی اور پہلی مرتبہ ہم بادشاہوں، نوابوں اور وزیروں کے ساتھ اردو شاعری کی بساط پر عام انسانوں کو بھی دیکھتے ہیں"۔
نیاز فتح پوری اگر ایک جگہ نظیر کو چٹکلے باز شاعر کہتے ہیں تو دوسری جگہ وہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ:
"نظیر اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ہندوستان کا عجیب و غریب شاعر تھا، جس میں کبیر کے اخلاق اور خسرو کی ذہانت کا نہایت دلکش امتزاج پایا جاتا ہے۔"
اسی طرح ایک جانب جہاں کلیم الدین احمد نے کہا کہ:
"نظیر کا وجود ہی اردو شاعری کی بے نظیر تنقید ہے"
تو وہیں دوسری جانب مجنوں گورکھپوری نے نظیر کی نظم "کلجگ" کو روسو کے معاشرتی عہدنامہ کے مماثل قرار دیا۔
ایک طرف کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر نظیر کی شاعری کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ مکھی، مچھر، آٹا، دال جیسی معمولی اور غیر جمالیاتی اشیاء کو شاعری بناتا ہے، تو وہیں سجاد باقر رضوی جیسے نقادکہتے ہیں کہ:
"نظیر فطری نقطۂ نگاہ سے انسان کو نہیں، بلکہ وہ انسان نقطۂ نگاہ سے فطرت کو دیکھتے ہیں۔"


نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظموں کے لیے فارسی یا عربی سے تصورات وخیالات مستعار نہیں لیے۔ بلکہ خالص ہندوستانی ثقافت، قدرتی مناظر یہاں کے موسم، تہوار اور گنگاجمنی تہذیبی ورثے کو اس طور شعری پیکر میں ڈھالا ہے کہ ان کی شاعری بجا طور پر اور بلامبالغہ ہندوستانی تہذیب وثقافت کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔


نظیر نے غزلیں بھی کہیں اور اس دور کے مروجہ اسلوب و آہنگ میں بھی شاعری کی۔ مگر ان کو ہندوستان کے عوامی شاعر کا خطاب بخشنے ولی ان کی وہ نظمیہ شاعری ہے جس میں حب الوطنی، تصوف، موسموں، تہواروں، میلوں ٹھیلوں، کھیل تماشوں، غرض کہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی رنگارنگی کا غیرمصنوعی اور فطری بیان ہے۔
ان کی مشہور نظموں میں ۔۔۔
ہولی، دوالی، عید، شب برأت، روٹیاں، آدمی نامہ، بنجارہ نامہ، مفلسی، کورابرتن، بانسری، گلہری کا بچہ، آگرے کی ککڑی، برسات کی بہاریں، درگا کے درشن، مہادیو کا بیاہ اور آگرے کی تیراکی ۔۔۔
وغیرہ ایسی شاہکار نظمیں ہیں جو زبان وبیان کے خالص اور فطری استعمال کی مظہر تو ہیں ہی، ساتھ ہی ہندوستانی کلچر، تہذیب وتمدن اور یہاں کے ثقافتی ماحول کا خوبصورت شعری اعلامیہ بھی ہیں۔


وہ جب ہند کے تہواروں عید، دوالی، ہولی، شب برأت وغیرہ کو اپنے شعری بیانیہ کا حصہ بناتے ہیں تو ہندوستانی تمدن، طرز معاشرت اور عوامی بود و باش کے فطری رنگ کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ اک ذرا ان کی نظم "ہولی" کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں ؂

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم، شیشے، جام چھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
محبوب نشے میں چھکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

اسی طرح جب وہ یہاں کے موسموں کو اپنے شعری اظہار کا جامہ پہناتے ہیں تو لفظوں سے قدرتی مناظر اور فطرت کے حسن کا ایسا جمالیاتی نقشہ کھینچتے ہیں کہ تمام منظر اپنے حقیقی اور فطری حسن کے ساتھ نگاہوں میں زندہ ہو اٹھتے ہیں۔ نظم "برسات کی بہاریں" کا یہ بند شاید میرے خیال کی تصدیق کے لیے کافی ہو ؂

بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

نظیر اکبرآبادی راست معنوں میں عوامی شاعر تھے۔ ان کے یہاں ہندوستان کی تہذیب وتمدن اور یہاں کے مکینوں کی زندگی اور معاشرت کا ایسا مشاہدہ اور تجربہ پایا جاتا ہے جو ان کی شاعری کو مخصوص ومحدود اور مختصر تعلیم یافتہ طبقے سے نکال کر ایک بڑے عوامی حلقے میں مقبولیت فراہم کرنے کا باعث بنتا ہے۔


ان کی شاعری کا بیشتر حصہ ہندوستانی ثقافت اور تہذیب کا ایسا نقشہ پیش کرتا ہے جس میں ایک طرف یہاں کی تہذیب کے یادگار اور مثالی کردار شیخ سلیم چشتی، گرونانک اور شری کرشن وغیرہ کی ذات و صفات اور ان کی عظمت کا بیان نہایت خوبصورتی اور عقیدت مندانہ جذبات کے ساتھ کیا گیا ہے، وہیں دوسری جانب اس دور کے ہندوستان کی تہذیبی، ثقافتی، مذہبی اور مسلکی اقدار۔ نیز عوام کی بود و باش اور طرز معاشرت کی ایسی فطری اور دلکش طرز پر تصویر گری کی گئی ہے کہ ان کی شاعری محض زبانی بیانیہ بن کر نہیں رہ جاتی۔ بلکہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا ایک دھنک رنگ تصویری کولاژ بن جاتی ہے۔


نظیر کا مشاہدہ وسیع اور کثیرالجہتی ہے، وہ کسی شے، کیفیت یا منظر کو صرف یک رخی سطح پر نہیں دیکھتے۔ ان کا فکری تنوع ہر موضوع کو مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے برتنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ بایں وجہ ان کے یہاں ایک ہی عنوان یا موضوع پر کئی کئی نظمیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ عید، دوالی، شب برأت، ہولی، برسات وغیرہ عنوانات کے تحت انھوں نے ایک سے زائد نظمیں لکھیں، اور یہ ان کی مشاہداتی نظر وفکر کا کمال ہے کہ ایک ہی موضوع یا عنوان پر ہونے کے باوجود ان کی نظمیں ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ جذبات واحساسات اور طرزاظہار کی حامل ہیں۔ ان نظموں میں نظیر نے لوگوں کے معاشی حالات اورطبقاتی تفاوت کا جس طرح خیال رکھا ہے، اور امیر وغریب کے حالات وجذبات کو جس طرح الگ الگ بیان کیا ہے، اس سے نظیر اکبرآبادی کے طبقاتی شعور وادراک کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نظم "شب برات" کا یہ بند دیکھیں ؂

شکر کا جن کے حلوہ ہوا وہ تو پورے ہیں
گڑ کا ہوا ہے جن کے وہ ان سے ادھورے ہیں
شکر نہ گڑ کا جن کے وہ پر کٹ لنڈورے ہیں
اوروں کے میٹھے حلوے چپاتی کو گھورے ہیں
ان کی نہ آدھی پاؤ نہ کچھ ساری شب برات

نظیر کی شاعری راست معنوں میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کے اس رخ کا حقیقی اور فطری منظرنامہ پیش کرتی ہے، جس میں محبت، خلوص، قومی یکجہتی، انسانی ہمدردی اور خیرسگالی کا جذبہ پورے ہندوستانی تمدن کو ایک خوبصورت لڑی میں پروتا ہے۔ ان کے یہاں عوامی تہذیب وثقافت کے رنگ نمایاں طور پر ایک فنکارانہ شعری اظہار میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔


بہرکیف نظیر اکبرآبادی کی شاعری کو ملنے والی عوامی مقبولیت اس خیال کی توثیق کرتی ہے کہ محض مبہم تشبیہات و استعارات اور مصنوعی خیالات وتصورات کی شعربندی ہی اعلیٰ شاعری کی معراج نہیں۔ بلکہ عوامی زندگی، روئے زمین، فطرت کی کاری گری، قدرتی مناظر اور انسانی تہذیب وثقافت کا وجودی اور فطری بیان بھی شاعری کو فن کی بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔


***
وسیم احمد فدا
موبائل : 09027374558

2114, Sikandar gate, new bhanda patti-4, Hapur (U.P)

وسیم احمد فدا

Nazeer Akbarabadi, a literary reflection of India's multi culture. - Article: Waseem Ahmad Fida

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں