ہندوستان میں اسلاموفوبیا یا ہندو فوبیا؟ - مضمون از سرفراز احمد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-28

ہندوستان میں اسلاموفوبیا یا ہندو فوبیا؟ - مضمون از سرفراز احمد

islamophobia-or-hinduphobia-india

اسلامو فوبیا مرض غالباً عالمی سطح کی ایک متعدی بیماری بن چکا ہے جو آئے دن دنیا کے کونے کونے سے اسلام مخالف سازشیں رچی جاتی ہیں اور کسی بھی طرح اسلام کو بدنام کرنے کی منظم کوشش بھی کی جاتی ہے۔ بالخصوص وہ ممالک جہاں اقلیت میں مسلمان پائے جاتے ہیں ان ممالک میں نہ صرف اسلام کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ کبھی قرآن مجید سے گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی شانِ رسولؑ میں یا کبھی مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے ہمارا ملک ہندوستان بھی مستثنی نہیں ہے۔
چونکہ ہندوستان میں چند اسلام مخالف شدت پسند تنظیمیں ہمیشہ سے مسلمانوں کو اور اسلام کو مختلف سازشوں کے تحت ہراساں کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں اور اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کا کام بھی کیا ہے تاکہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف اکثریت کو اکھٹا کیا جا سکے۔


اسلامو فوبیا کا مرض عالمی سطح سے لے کر ہندوستان تک کسی زنجیر کی منظم کڑیوں کی طرح ایک دوسرے میں پیوست ہے۔ مغربی ممالک کا جو منشاء اور مقصد ہیکہ اسلام کو نشانے پر رکھا جائے، وہی منشاء اور ہدف ہندوستان کی ہندوتوا تنظیموں کا ہے۔ کیونکہ ہندوستان کی موجودہ حکومت جو ملک کو ہندو راشٹر میں بدلنے کا خواب رکھتی ہے وہ اسلام اور مسلمان کٹر مخالف اسرائیل کو اپنا رہنما مانتی ہے۔ اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہندوستان کے مسلمانوں کی زمین مسلمانوں کے خلاف تنگ کرنا چاہتی ہے بعینہ ویسے ہی جیسے اسرائیل فلسطین کے مسلمانوں سے چاہتا ہے۔
لیکن ہندوستان میں پچھلے سات سالوں میں اسلامو فوبیا کا مرض جتنی تیزی سے بڑھتا گیا ہے اتنی تیزی سے تو کورونا وائرس بھی نہیں پھیلا۔ ہندوستان کی حکومت کو ملک کے مسلمانوں کی اور نہ ان کے مذہب اسلام کی فکر ہے بلکہ انہیں صرف خود کی فکر ہے۔ ایک سیکولر ملک میں صرف ایک مذہب کی خاطر فکر مند ہونا سیکولر لفظ کو داغدار بنانے کے مترادف ہے۔ اس وقت ملک میں ایک ایسےجھوٹے پروپیگنڈے کو ہوا دی جا رہی ہے جو صرف فرضی ہے اور جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس فرضی جھوٹ سے یہ عیاں ہوتا ہیکہ ہندوستان کی جمہوریت ان دنوں صرف برائے نام باقی رہ گئی ہےـ


جس ملک میں اکثریت ہندو مذہب کی ہو، مرکزی و صوبائی حکومتیں ہندو توا کی ہوں، اقلیتوں پر تقریباً روز ظلم ہو جہاں بیس لاکھ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی کھلے عام بیان بازی کی جائے، اس ملک میں ہندو فوبیا ہونا ایک مضحکہ خیز بات کی مانند ہے۔
جی ہاں ہندوستانی سفیر ٹی ایس تریمورتی نے 20/جنوری کو اقوام متحدہ کی جانب سے منعقد کردہ ورچوئل کانفرنس انسداد دہشت گردی کے پروگرام کے ذریعہ دہلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہندو فوبیا کو بھی اسلاموفوبیا کی طرح بین الاقوامی سطح پر پالیسی بنانے کی اپیل کی اور زور دے کر کہا کہ ہندو فوبیا کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مذہبی خوف کی موجودہ شکلوں کا ابھرنا خاص طور ہندو مخالف،سکھ مخالف،بدھ مخالف خوف کو تشویشناک بتایا انھوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ نے اسلام، یہودیت،اور عیسائی جیسے مذاہب پر خاصا کام کیا ہے لیکن دیگر مذاہب کو نظر انداز کیا ہے۔ جبکہ دیگر مذاہب کے خلاف بھی فوبیا کی شکل میں تعصب پھیل رہا ہے لہذا عالمی سطح پر ہندو سمیت دیگر مذاہب کے بھی فوبیا کو قبول کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔


ہندوستانی سفیر تریمورتی کا یہ بیان کیا سچائی پر مبنی ہے؟ کیا ہندوستان میں ہندو مذہب غیر محفوظ ہے؟ بالکل نہیں! بلکہ ہندوستانی سفیر کا یہ بیان ایسے وقت میں دیا جا رہا ہے جب گذشتہ دنوں ہندوتوا کے مذہبی رہنماؤں نے ہردوار میں دھرم سنسد کے ذریعہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی کھلے عام زہر افشانی کی ہے۔ اور یہ معاملہ عالمی سطح پر موضوع بحث بن گیا ہے۔ اسی سچائی کا رخ پھیرنے اور زہر افشانی کرنے والے ہندو مذہبی رہنماؤں کا دفاع کرنے کیلئے یہ بیان دیا گیا۔ اس کے علاوہ عالمی میڈیا بالخصوص مغربی ممالک کی نمایاں تنظیموں نے ہندو توا آئیڈیا لوجی رکھنے والے مسلم مخالف کٹر و شدت پسند ہندوستانی گروہوں کے خلاف اپنی آواز کو بلند کیا تھا۔ ان تنظیموں نے سچائی و حقائق کو منظر عام پر لاتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ظلم کے خلاف ان شدت پسند ہندو توا جماعتوں پر شدید نکتہ چینی بھی کی۔
شاید اسی آواز کو مدہم کرنے کیلئے ہندوستانی سفیر نے ہندوفوبیا کو تسلیم کروانے کی پہل کی ہے جو کہیں نہ کہیں حکومت اور سفیر کی آنکھ مچولی کا ایک منصوبہ بند کھیل ہے۔ لیکن ہندوستانی سفیر کو یہ نظر نہیں آیا کہ ملک کے اندر مسلم اقلیتوں کے خلاف کس طرح سے زہر افشانی کی جا رہی ہے؟
کاش کہ تریمورتی ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت میں کچھ بولتے، دھرم سنسد میں ہوئے مسلم مخالف واقعہ کو پیش کرتے لیکن ان کا ضمیر سچائی کو پیش کرنے کی شاید جرات نہیں کر سکا۔

تریمورتی جی، ہندوستان میں کوئی ہندو فوبیا کا نہ شکار ہوا نہ ہوگا کیوں جس ہندوفوبیا کا پروپیگنڈہ پھیلایا جا رہا ہے اگر تریمورتی جی کو ہندوستان کے اندر ہندو فوبیا کے متعلق ایک بھی واقعہ نظر آیا تو انہوں نے کوئی مثال کیوں پیش نہیں کی؟ دراصل یہ سب سیاسی حربے ہیں حکومت سے لے کر ہر میدان اور ہر شعبہ میں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا وہ مناظر تریمورتی کو یاد نہیں ہیں کہ کس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کی لنچنگ کی گئی ۔۔۔ گائے کے نام پر قتل کیا گیا۔۔۔ لَوجہاد میں کئی مسلم نوجوانوں کو جیل بھیجا گیا۔۔۔ مسلم علماء پر تبدیلی مذہب کا فرضی مقدمہ چلا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا ۔۔۔ سی اے اے مخالفین کے پر امن احتجاجیوں پر مقدمات چلائے گئے، جو آج بھی جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
کبھی مسلم یونیورسٹیوں میں اسلام مخالف سازشیں کی جاتی ہیں تو کبھی مساجد اور کبھی اسلام کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے تو کبھی رسولؑ کی گستاخی کا ہنگامہ برپا کیا جاتا ہے۔
تریمورتی جی، یہ ہے اسلاموفوبیا کی مثالیں! اگر ملک میں ہندو فوبیا ہوتا تو آپ خود مثالوں کی جھڑی لگا دیتے لیکن ایسا کوئی بھی ہندو فوبیا ہندوستان میں نہیں ہے بس یہ ایک تیاری ہیکہ کہ کسی بھی طرح شدت پسند ہندو تنظیموں کو بچایا جائے، ان کا دفاع کیا جائے تاکہ ان کی عالمی سطح پر متاثرہ شبیہ کو واپس لایا جا سکے اور ہندوتوا اپنے مقصد کے تیئں ہندو راشٹر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ اسی باعث ہی تو ہندو فوبیا کا شور مچاکر بچنے اور بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔


ہندوستان میں اگر کوئی فوبیا سب سے تیزی بڑھتا جا رہا ہے تو وہ ہے اسلامو فوبیا جس کی روک تھام انتہائی ناگزیر ہے کیونکہ ہندوستان میں ہندوتوا تنظیمیں ہندوستان کو مسلمان مکت بھارت بنانے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہر روز ملک کے اندر کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے یا انہیں جسمانی ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں بلکہ زہر افشانی و قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بھی حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جس سے یہ واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہیکہ شدت پسند تنظیموں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔


حال ہی میں جینو سائڈ واچ کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ مسلمانوں کی نسل کشی کے دس مراحل میں سے آٹھویں مراحل میں ہندوستان پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ نے ابتدائی علامات کے بطور کشمیر اور آسام میں ہو رہے مسلمانوں پر مظالم کو پیش کیا ہے۔ لیکن ایک سوال مسلمانوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ رہا ہیکہ:
اگر بیس لاکھ مسلمانوں کی نسل کشی کی جائے تو باقی 21 کروڑ سے زائد مسلمان کیا خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ یا پھر خوف کے سایہ میں اکھنڈ ہندو راشٹر کو تسلیم کرلیں گے؟


بالکل نہیں! ایک مسلمان کا ایمان اتنا کمزور ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ چپ چاپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنا، ہندو راشٹر بنانا، یہ سب ہوا میں اڑ جانے والے پرخچے ہیں۔
جو خواب ہندوتوا کےسجائے جا رہے ہیں وہ خواب ہی بن کر رہ جائیں گے کیونکہ ہندوتوا کو اب اکثریتی طبقہ بھی تسلیم نہیں کر رہا ہے جن کے زوال کا آغاز اترپردیش سے ہونا متوقع ہے۔ اور جن کا آگے چل کر لوک سبھا میں مکمل صفایا ہو سکتا ہے، جس کی پیشن گوئی متعدد سیاسی مبصرین نے کی ہے۔


لیکن مسلمان بھی خواب غفلت میں نہ رہیں، حالات پر نظر رکھیں ہندوتوا کو اقتدار سے محروم کرنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے بڑی دانشمندی سے اپنے فیصلہ کن ووٹ کا استعمال کریں۔ یہ حق رائے دہی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے ہندوتوا کو اپنی آئیڈیالوجی پر عمل کرنے سے دور رکھا جا سکتا ہے۔ اور جس کے ذریعے بڑھتے اسلاموفوبیا کا سدباب بھی کیا جا سکتا ہے۔ لہذا ہم اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچائیں اور ہندوتوا کو اقتدار سے بے دخل کریں۔ کیونکہ یہی ایک واحد راستہ ہے جس سے ہندو توا اور اس کی شدت پسند تنظیموں کے بڑھتے قدم اور ان کے حوصلوں کو توڑا جا سکتا ہے۔


***
Email: saffusio34[@]gmail.com ; Mob.: 09014820913

Islamophobia or Hinduphobia in India. Essay by: Sarfaraz Ahmed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں