کتب خانہ کا وجود - تاریخی مطالعہ کی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-24

کتب خانہ کا وجود - تاریخی مطالعہ کی ضرورت

existence-of-library-need-for-study-of-history

کتب خانے آج کے متمدن سماج میں ایک مسلم حیثیت رکھتے ہیں، ان کی تاریخ تنظیم اور ان کا دائرہ کار ، ان سے استفادہ کے امکانات اور ان امکانات میں وسعت کی گنجائش، ان سب کا مطالعہ نہ صرف علم کتب خانہ داری کے طالب علم کے لئے ضروری ہے بلکہ ایک عام تعلیم یافتہ فرد کے لئے بھی کتب خانہ کے جملہ پہلوؤں کی جانکاری نہایت ضروری ہے بغیر اس علم کے وہ سماج کے اس اہم ادارہ سے کماحقہ مستفید نہیں ہو سکتا۔


کتب خانہ کی تاریخ کا ابتدائی سرا فن تحریر کے مختلف مراحل سے گزرنے کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ بنی نوع انسان کی دانش وری کا کارواں ہزاروں سال تک زبانی دہرائی جانے والی روایتوں کے سہارے آگے بڑھتا رہا ہے۔ روایتوں کے یہ سلسلے ہمیں دنیا کی کم و بیش تمام تہذیبوں میں ملتے ہیں۔ قدیم ہندوستان میں ویدوں میں محفوظ علوم عرصہ دراز تک گرو سے چیلے تک محض حافظہ کے سہارے منتقل ہوتے رہے ہیں۔ یونان کے کلاسیکی ادب کا بڑا حصہ اپنی تصنیف کے بہت برسوں بعد ہی ضبط تحریر میں آ سکا تھا۔
یونانی شہری سوسائٹی میں اعلیٰ مقام کے اسی وقت مستحق قرار پاتے تھے جب وہ ان قصوں کو یاد کرلیتے تاکہ دعوت کے بعد بے تکلف محفلوں میں وہ ان قصوں میں سے موزوں حوالے موقع و محل کی مناسبت سے زبانی سنا سکیں۔ یونانی قصوں اور ڈراموں کو زبانی یاد کر کے سنانے والوں کا ایک مخصوص طبقہ بھی وجود میں آ گیا تھا۔ ہندوستان میں انہیں "بھاٹ" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ یونان میں ان اففراد کو ایڈوس Aedos کے نام سے پکارا جاتا۔


اکثر امیر زادے جو ان قصوں اور داستانوں کو خود نہیں یاد کر پاتے اپنے غلاموں کو پوری تصنیف یاد کرا دیتے۔ ایک غلام جس کتاب کو یاد کرتا تھا اس کا نام اسی کتاب پر رکھا جاتا۔
ایک ایسے ہی امیر زادے کا قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن شام کی ضیافت کے بعد جب گفتگو کا دور شروع ہوا تو ہومر کی تصنیف ایلیڈ کے حوالے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ امیر زادے نے داروغہ کو حکم دیا کہ ایلیڈ حاضر کیا جائے۔ بد قسمتی سے ایلیڈ وہاں موجود نہیں تھا۔ داروغہ آگے بڑھا اور ہاتھ باندھ کر نہایت سادگی سے بولا:
"حضور آج ایلیڈ کے پیٹ میں درد ہے اور وہ حاضر ہونے سے معذور ہے۔"
علم کے دامن میں بتدریج وسعت نے جلدی ہی حافظہ کی تہی دامنی کا احساس دلایا۔ اور انسان نے یادداشت کے لئے سہارے ڈھونڈنے شروع کئے۔ اس سمت میں پہلی کوشش گرہوں کے استعمال کی شکل میں ہوئی۔
چین، ایران اور میکسیکو کے قدیم باشندے بہت سے واقعات اور معاملات کو یاد رکھنے میں گرہ کا سہارا لیتے تھے۔ یاد رکھے جانے والے واقعات اور معاملات کی نوعیت میں اختلاف کے پیش نظر گرہ لگانے کا ڈھنگ ، گرہوں کے درمیان فاصلہ، اور گرہ لگانے کے لئے استعمال کئے جانے والے دھاگے میں رنگوں کا اختلاف رکھا جاتا تھا۔ گرہ کے علاوہ موتیوں کی لڑیاں اور مختلف رنگ کے کپڑے بھی ذرائع ابلاغ کے طور پر استعمال کئے گئے۔ یہ تمام طریقے آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ترسیل پیغام کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ جہاز راں سمندر میں سفر کے دوران ایک جہاز سے دوسرے جہاز کو اکثر کپڑے کی جھنڈیوں کی مدد سے پیغام بھیجتے ہیں۔


حروف تہجی کی بنیادوں پر قائم تحریر کے فن کے حصول سے پہلے خیالات کی ترسیل کے لئے مختلف اشیاء کی شکل کو بھی استعمال کیا گیا۔ اس تصویری خط کی دلچسپ مثال وہ خط ہے جسے روس کے جنوبی علاقہ میں بسی ہوئی اسکانتھی قوم نے اپنی ہمسایہ قوم کے پاس بھیجا تھا۔ یہ خط چند تصویروں پر مبنی ہے جس میں ایک تصویر چوہے کی، ایک پرند کی اور ایک مینڈک کی ہے، ساتھ ہی پانچ تیر بھی بنے ہوئے ہیں۔
ماہرین نے خط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایرانی پرند کی طرح آسمان میں اڑتے، چوہوں کی طرح بل میں چھپنے اور مینڈک کی طرح پانی میں چھپنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں تو بھی وہ ہمارے تیروں کی زد سے نہیں بچ سکتے۔ اس لئے انہیں ہمارے ملک کی جانب نظر بد اٹھانے کی ہمت نہیں کرنی چاہئے۔


خیالات کی ترسیل کا ذریعہ ڈھونڈنے کی کوشش بالآخر ایک منضبط نظام تحریر کو جنم دینے میں کامیاب ہو گئی، کامیابی کا یہ سہرا سمیری قوم کے سر بندھا۔ آج سے تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح سمیریوں نے تصویری خط یا پکٹو گرافی Pictography ایجاد کیا۔ تحریر کا فن اپنے ایام طفلی سے سن بلوغت تک کیونکر پہنچا اس کی تاریخ کو تسلسل کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
حروف ملک در ملک پھرتے رہے۔ اور اس صحرا نوری کے درمیان اپنی شکل و ہیئت میں تبدیلی قبول کرتے رہے۔ ان کی ہیئت و شکل میں تبدیلی میں جہاں انسانی کوششوں کو دخل تھا وہاں ان وسیلوں کو بھی دخل تھاجن پر تحریر لکھی ہوئی تھی۔ پتھر کی سلوں سے مٹی کی تختی، پائپرس ، پارچہ موم کی تختیاں اور آخر میں کاغذ، تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ جملہ اشیاء عبارت لکھے جانے کے لئے استعمال میں رہیں۔ ان کے علاوہ دھات کے پتر، جانوروں کی ہڈیاں، درخت کے تنے، ان سب کو کاغذ کی طرح استعمال کیا گیا۔ وسیلہ کی نوعیت کے مطابق حروف نوکیلے، گہرے یا بیضاوی شکل کے ہوتے تھے۔


تہذیب کے کارواں کو آگے بڑھانے میں تحریر کی دریافت نے نہایت اہم رواں ادا کیا ہے۔ ابراہیم لنکن کے مطابق تحریر میں ہم ان تمام لوگوں سے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں، جو آج ہمارے درمیان ہیں یا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں، ہم کلام ہونے کا ایک وسیلہ پاتے ہیں۔ انسانی خیالات کو دوام اور کائناتی شہرت تحریر کے سہارے سے ہی حاصل ہوئی ہے۔


تحریر کی تاریخ کی طرح کتاب کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے اور بہت سے ملکوں اور قوموں کی مشترک مساعی کا نتیجہ ہے۔ اپنے وسیع مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ رکھی گئی ہے، کتاب ہے۔
کتاب مٹی کی تختی، درخت کی چھال، بھوج پتر، تاڑ کے پتے یائپرس، کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے۔ خیالات تحریر میں آکر دوام حاصل کرتے ہیں اور تحریر کتابی شکل میں محفوظ کی جاتی ہے۔ اس طرح کتابیں ایک وسیلہ بن جاتی ہیں جن کے ذریعہ علم کا وہ خزانہ جو انسان نے سخت محنت کے بعد صدیوں میں اکٹھا کیا ہے، دوامی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ ثقافت اور فہم و دانش کی ٹھوس بنیادیں ثبات حاصل کرتی ہیں اور بنی نوع انسانی نے اب تک ترقی کی جو منزلیں طے کی ہیں اس کا دستاویزی ثبوت مہیا کرتا ہے۔ قوموں کا تہذیبی سرمایہ کتابوں کے سہارے سے ہی آئندہ نسلوں کی میراث قرار پاتا ہے۔


فکر انسانی کو تحریر کا جامہ دینے کے ساتھ ہی انسان کو اپنے تحریر ی سرمایہ کو محفوظ رکھنے کا خیال آیا۔ یہی خیال کتب خانہ کے قیام کا محرک بنا۔ اب تک کی معلومات کے مطابق دنیا کا قدیم ترین کتب خانہ اشوریانی پال کا تھا۔ یہ کتب خانہ تیس ہزار کتابوں پر مشتمل تھا۔ کتابیں مٹی کی تختیوں پر کندہ تحریر کی شکل میں تھیں اور ہر کتاب پر کتب خانے کی مہر تھی۔


کتب خانے اپنے ابتدائی دور میں ایک سادے ادارے کی شکل میں ہوتے تھے ، جہاں ضرورت کی کتابیں مناسب ترتیب میں محفوظ رکھی جاتی تھیں۔ ان کے فرائض اور ان کی ذمہ داریاں اتنی سیدھی اور سپاٹ ہوتی تھیں کہ سترھویں صدی کے ایک انگریز پادری ولیم ڈائر نے ان کی تشبیہ کپڑے رکھنے کی الماری سے دی تھی۔ ایک ایسی الماری جس کے اندر سے واقف کار افراد چند کتابیں محض اپنی زیبائش کے لئے نکالتے ہیں۔ چند دوسرے افراد کتابیں اپنے جذبہ جستجو کی تسکین کی خاطر لیتے ہیں اور مزید دوسرے افراد اپنی علمی ضرورت کے پیش نظر لیتے ہیں۔
آج کا کتب خانہ عہد وسطی کے کتب خانوں کے مقابلہ میں ایک بہت پیچیدہ ادارہ ہے جہاں نہ صرف کتابیں ہوتی ہیں بلکہ بڑی تعداد غیر کتابی صورت کے علمی مواد مثلاً مائیکرو فلم، ٹیپ، فوٹو گراف، موسیقی علامات وغیرہ کی ہوتی ہے اور جہاں خدمات کی انجام دہی انسانی ہاتھوں کے ساتھ ساتھ مشینوں کے ذریعہ بھی ہوتی ہے۔ آج کے کتب خانے تعلیمی اور سائنسی تحقیق کے عمل کا ناگزیر عنصر بن چکے ہیں۔ لیکن سادگی سے پرکاری کی جانب کتب خانوں کے قدم بتدریج بڑھے ہیں۔


علم کی ذخیرہ کاری، علمی مواد کی ترتیب و تنظیم اور زمانے کی دست برد سے ان کا تحفظ نیز موقع و محل کی مناسبت سے ان کی فراہمی، قوموں کی تہذیبی پیش رفت میں ان سب کا بہت اہم مقام ہے۔ قوموں کے تہذیبی ورثے آئندہ نسلوں تک کتب خانوں کے واسطے سے ہی منتقل ہوتے ہیں۔ کتب خانوں کی اہمیت کے اس پس منظر میں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تہذیبوں کی داستان بیان کرنے والی کتابیں کتب خانے کے بارے میں خاموش ہیں تو ہمیں سخت تعجب ہوتا ہے۔ تاریخ کی اکثر کتابوں میں کتب خانوں کا ذکر ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو ضمناً کسی واقعہ کے ذیل میں آ جاتا ہے۔ چنانچہ ہمایوں کے کتب خانے کا ذکر ہمیں اس کے کتب خانے کے زینہ سے پھسل کر فوت ہو جانے کے سلسلے میں ملتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ کتب خانہ کے بتدریج ارتقاء کی ایک مربوط کہانی کہی جائے۔ سماج کی بدلتی ہوئی تہذیبی قدریں کتب خانہ کے نظام اور ان کے فرائض پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر لائبریرین اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کے خواہشمند ہیں تو انہیں تاریخ تہذیب کا مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ وہ سماج کے ان عوامل کی نشاندہی کر سکیں جو کتب خانے کے دائرہ کار، ان کی تنظیم اور ان میں محفوظ مواد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اپنے فرائض کما حقہ ادا کرنے کے لئے انہیں اپنے تاریخی شعور کو مسلسل مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے تیزی سے تغیر پذیر دور میں سماجی زندگی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ کتب خانے کے پیشہ میں مصروف افراد کو سماجی تصورات اور انسانوں کے باہمی رشتوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے بھی کتب خانہ کی تاریخ کا مطالعہ ناگزیر ہے ، کتب خانے کی تاریخ پر نظر ڈالنے پر جو حقائق بار بار ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں درج ذیل خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔


  1. کتب خانے ایک مہذب سماج کا لازمی عنصر ہیں۔
  2. یہ چند مسلمہ ضرورتوں کی تکمیل کے لئے وجود میں آتے ہیں اور ان کی ہیئت، مقاصد، دائرہ عمل، منصوبے اور ان کی خدمات سب انہیں ضرورتوں کے تابع ہوتے ہیں۔
  3. کتب خانے ایک خاص ماحول میں پنپتے ہیں اور ا س کی عدم موجودگی میں فنا ہو جاتے ہیں۔ یہ ماحول معاشی، تکنیکی، سائنسی، جغرافیائی، تہذیبی اور سماجی عوامل سے تشکیل پاتا ہے۔
***
ماخوذ از کتاب: کتب خانہ داری - ایک تعارف
مصنف: شہاب الدین انصاری۔ ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔ سن اشاعت: 1984ء۔

The existence of the library, the need for study of history. Article by: Shahabuddin Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں