محبت کے حقیقی پھول - افسانہ از سمیہ بنت عامر خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-25

محبت کے حقیقی پھول - افسانہ از سمیہ بنت عامر خان

mohabbat-ke-phool-story-sumaiya-amer

غروب ہوتا سنہرا سورج بس کچھ لمحوں میں غروب ہی ہوا تھا لیکن یہ غروب ہوتا سورج پارس کی زندگی کا طلوع ہوتا سورج تھا۔ وہ شام اس کی زندگی کی بڑی یادگار شام تھی، کیوں کہ اس دن اس کی خوشیوں کا سورج اس غروب ہوتے سورج کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ ہر شام کی طرح اس سنہری شام بھی پارس بالکونی میں کھڑی چائے پی رہی تھی۔ موسم سہانا تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی۔۔۔ اتنے میں اسے فائزہ کی کال آئی۔


پارس اور فائزہ رشتے میں تو چچازاد بہنیں تھیں لیکن دونوں میں اس قدر قربت تھی جیسے سگی بہنیں ہوں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ دونوں کی شکلیں بھی قدرے ملتی جلتی تھیں۔
کال ریسیو کرتے ہی فائزہ گویا ہوئی۔۔۔۔"بھئی دل کی عمیق گہرائیوں سے اس نا چیز کی مبارکباد قبول ہو، پارس تم نے اسکالرشپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہو پارس تم واقعی میں پارس ہو۔۔۔۔ "
پارس خوشی سے پھولے نہ سمائی اور چائے اس کی پیالی سے چھلک پڑی۔ صرف پارس ہی نہیں گھر کا ہر فرد بے انتہا خوش تھا۔ واقعی میں یہ رواں دواں شام کا موسم پارس کی خوشیوں کا طلوع سورج تھا کیوں کہ اس اسکالرشپ سے اسے انگلینڈ کی مشہور یونیورسٹی آکسفورڈ یونیورسٹی (Oxford University ) میں داخلہ ملنے والا تھا۔۔۔ پارس کالج کی ایسی واحد طالبہ تھی جسے اتنی مشہور یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا موقع ملا۔۔۔


پارس ایک خاموش طبیعت ، ذہین ، باحجاب ، فرمانبردار ، اچھائی، خدا ترس، علم دوست اور خوش اخلاق خوبیوں‌ کی حامل لڑکی تھی۔ حجاب کی اس قدر پابند جیسے 'سیپی میں موتی'، فرمانبردار اس قدر جیسے کوئی پرندہ جو اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہو۔ والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت پر بھی پارس ہمیشہ لبیک کہتی۔۔۔ اس کی دوستی گویا 'پھول کے خوشبو' جیسی کہ جس طرح پھول خوشبو کے بغیر بے جان ہوتے ہیں اسی طرح اس کے دوست اس کے بغیر بے جان۔ کہیں اس کی دوستی 'نمک' جیسی، جیسے کھانا بنا نمک کے بے ذائقہ ہوتا ہے۔۔۔۔ ایسی ہی تھی اس کی دوستی کہ کہیں اس کی کمی سے خوشبو کم تو کہیں نمکینی۔۔۔۔ وہ گویا 'پارس' جیسی ہی تھی جو کسی بھی چیز کو سونا بنا دیتی ہے۔ اور پارسائی میں یوں جیسے 'فرشتہ' ہو ، متانت و سنجیدگی کے ساتھ رب کی صابر اور شاکر بندی۔


پارس نے فائزہ کی کال بند ہی کی تھی کہ پیچھے سے اس کی اماں فہمیدہ کی آواز آئی: "پارس بیٹی سنو، نیچے تمہاری بڑی امی تمہیں مبارکباد دینے آئی ہیں تم نیچے آ جاؤ۔"
اتنا کہہ کر وہ پلٹ گئیں، بڑی جلدی میں تھیں اماں۔ پارس کا جواب تک نہیں سنا۔ وہ بھی اماں کے پیچھے اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے نکل پڑی لیکن ڈرائینگ روم کے دروازے پر ہی رک گئی۔ لہراتے دوپٹے کو جلدی سے سر پر رکھ لیا اور نظریں جھکا لیں کیونکہ بڑی اماں اکیلی نہیں آئیں تھی ان کے ساتھ ان کا بیٹا کاشان بھی تھا۔ جو پارس سے کچھ سال بڑا ہی تھا۔ پارس دوپٹہ سنبھالتی نظریں نیچے جھکا کر متانت اور سنجیدگی سے سیدھی روش چلتی ہوئی بڑی اماں تک پہنچی اور سلام کیا۔
"السلام علیکم" نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھی۔ پارس کی آواز پر بڑی اماں نے اسے دیکھا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا۔ لیکن صوفے پر صرف وہ لوگ نہیں تھے سامنے بیٹھے کاشان کی وجہ سے اس کا نگاہ اٹھانا دشوار ہو گیا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے بڑی اماں سے نظریں ملاتی اور اگر ذرا بھی ادھر ادھر نگاہ ہوتی، نظریں کاشان سے ٹکرا جاتیں۔ وہ بہت سنبھل سنبھل کر باتیں کر رہی تھی اور پارس کی اسی عادت و احتیاط نے اسے خاص بنا رکھا تھا۔ اس نے کبھی کسی غیر مرد سے نظریں نہیں ملائی تھیں۔ پارس کی یہ ادا نہ کوئی دکھاوا تھا نہ کسی کا لحاظ بلکہ یہ اس کی فطرت میں شامل تھا۔


"وعلیکم السلام ، مبارک ہو بیٹی، دل کی گہرائیوں سے مبارک باد" بڑی اماں نے اسے بیٹھتے ہی گلے لگا لیا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
"بہت بہت مبارک باد پارس آپ کو، آپ نے تو ہمارے خاندان کا نام اونچا کر دیا، جو آج تک لڑکوں نے نہیں کر دکھایا آپ نے کر دیا، ماشااللہ۔" کاشان نے بھی ساتھ ساتھ مبارک باد دی۔
"جی شکریہ" نظریں اب بھی نہ اٹھیں۔
"ماشااللہ بڑی ہونہار ہے ہماری پارس۔ انگلینڈ کی اسکالرشپ جو حاصل کر لی ہے"۔ بڑی اماں پھر شروع ہوگئیں۔ کچھ دیر میں فہمیدہ کھانے کی چیزیں اور دیگر مشروبات لے آئیں۔
"ہے نا فہمیدہ !! ہماری پارس کا کوئی جواب نہیں۔" ٹرے سے چپس اٹھاتے ہوئے کہا۔
"کب جانا ہے بیٹی تم نے انگلینڈ؟" بڑی اماں نے دوسری پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا‌۔
"تین ہفتے بعد۔" جواب ملا۔
"اچھا تیاری مکمل ہو گئی؟"اب کی بار سوال کاشان کا تھا۔ "کچھ مدد کی ضرورت ہو تو بے جھجھک بتا دینا میں سارے انتظامات کرا دوں گا۔"
"جی نہیں شکریہ بس تیاری مکمل ہی ہو گئی ہے۔"جھکی ہوئی نظروں سے پارس نے کہا۔
پھر کچھ دیر سفر کی تفصیلات پوچھ کر اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرکے بڑی اماں اور کاشان رخصت ہوگئے۔
پارس بھی اپنے کمرے میں آ گئی کھڑکی میں دیکھا مغرب ڈھل رہی تھی۔ دور کہیں سے اذان کی آواز سنائی دی پارس جلدی سے نماز کی تیاری کرنے لگی بعد از نماز قرآن کی تلاوت اور ذکر واذکار میں مشغول ہو گئی۔ ان مشغولیات سے جیسے ہی پارس فارغ ہوئی لیپ ٹاپ پر یونیورسٹی کے متعلق معلومات دیکھنے لگی۔۔۔ نماز اور قرآن پارس کی زندگی کی ایسی اہم ترجیحات تھیں جنہیں وہ ہر چیز پر اولیت دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنی بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا جس کا وہ خود بھی حساب نہیں لگا سکتی تھی اور نہ کبھی کوشش کی تھی۔ لیکن اپنے رب کی ان عطا کی گئیں نعمتوں پر شکر ادا کرتی رہتی۔

اگلے دن اسے ٹریولنگ ایجنسی جاکر سفر سے متعلق ساری معلومات حاصل کرنا تھیں۔ صبح تقریباً آٹھ بجے پارس اپنے ابو کے ساتھ ایجنسی پہنچی تب متعلقہ آفیسر وہاں موجود نہ تھا لہذا انھیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ اطراف میں سبھی لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ مختلف لوگ مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ پارس کے والد اپنے اطراف کا جائزہ لیں رہے تھے۔ لڑکیوں کے لباس اور ان کی باتیں انہیں نظریں جھکانے پر مجبور کر رہی تھی۔ دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر ان کی پیشانی شکن آلود ہو گئی اور انہیں ایک نئی فکر ستانے لگی۔ اب تک پارس ان کی نظروں کے سامنے تھں، کبھی کسی غلطی یا گنجائش پیدا ہی نہیں ہوئی لیکن اب وہ جہاں وہ جانے والی تھی،جہاں رہ کر اسے آگے بڑھنا تھا وہ دنیا پارس کی اس سادہ دنیا سے بہت الگ تھی۔
اس قدر تیز رفتار زندگی تھی جیسے تیٖر سے نکلا کمان ہو، کسی کے پاس کسی کے لئے بھی وقت نہیں ہوگا، گرنا پڑے تو خود ہی سنبھلنا بھی ہوگا۔ "یا اللہ میری بچی کی حفاظت فرما۔" انہوں نے پارس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ وہ ساری دنیا کی سوچوں سے بےنیاز، اپنے والد کی فکروں سے بے خبر موبائل میں کچھ دیکھ رہی تھں۔ کچھ دیر بعد انہیں بلایا گیا۔جب وہ اپنا کام مکمل کرکے گھر لوٹے تو تقریباً ایک بج رہا تھا۔گھر میں داخل ہوتے ہی اماں اس کے پاس آئیں اور پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا:
" بیٹا پارس شام کو تیار رہنا ہم شاپنگ کے لیے جائیں گے۔"
"اماں آج میں بہت تھک چکی ہو کل چلتے ہیں نا۔"
پارس صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔ "صرف کچھ ہی دن باقی ہیں بیٹا اور تیاری کچھ نہیں ہوئی۔"
اماں فکرمند سی صوفے کے ایک جانب ٹک گئیں۔ پارس کے والد ان کی گفتگو کے دوران کب نامحسوس طریقے سے وہاں سے چلے گئے انہیں پتا نہ چلا۔
ہر گزرتے دنوں کے ساتھ پارس کے والد کی فکر بڑھتی جاتی۔ دن ورق کے مانند پلٹتے جا رہے تھے۔ روز کسی نہ کسی چیز کی خریدی کرنے کے لئے اماں اور پارس بازار جاتیں،روز کوئی نہ کوئی سہیلی اس سے ملنے آتی اسے مبارک باد اور تحفہ تحائف دیتی، اس کی زندگی پر رشک کرتی۔ پارس کی اماں کی تو خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا۔ جوتے، ملبوسات، گھڑیاں، برقعے غرض سب کچھ دو جوڑیوں میں دیا تھا اور اماں اسے روز تاکید کرتی رہتی کب ،کون سی چیز کیسے پہننا ہےاور پارس بس سر ہلا کر اماں کی باتوں کا جواب دیتی پھر مسکرا دیتی۔
یوں ہی دن گزرتے گئے اور آخر کار وہ دن آ ہی گیا جس کی صبح کے بعد پارس نے ہندوستان کو خیرباد کہنا تھا۔ شام کا نیلگوں آسمان پھیل رہا تھا۔ پارس اپنے کمرے میں کل کی تیاری کر رہی تھیی۔ دستک پر اس نے سر اٹھایا،دروازے پر اس کے والد کھڑے تھے،کمزور سے لگ رہے تھے۔
"ساری تیاری مکمل ہوگئ بیٹا؟" اس کے والد نے پوچھا۔
"جی ابا جان بس وہی چیک کر رہی ہوں کہ کوئی اہم چیز رہ نہ جائے۔" پارس نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
"بیٹی جس طرح تم نے یہ چیک کرلیا کہ کہیں اہم سامان نہ رہ جائے اسی طرح اپنے دل کے خانوں میں چیک کرلو کہ تمہارا ایمان مضبوط ہے نا۔۔۔ کہیں یہ دوسرے ملک جاکر بہک نہ جائے۔اس میں وہ روشنی جو ﷲ نے تمہیں دی ہے بیٹی کبھی اسے ماند نہ پڑنے دینا، اس روشنی کو کبھی مدھم نہیں پڑنے دینا۔ بیٹی تم چاہے کتنی بھی کامیاب کیوں نہ ہو جاؤ اور جہاں چاہو وہاں کیوں نہ چلی جاؤ، غرض تم کتنی ہی بلندیوں کو چھولوں اس روشنی کو کبھی مدھم نہ ہونے دینا ،کبھی اسے اپنے سے جدا نہ کرنا اور کبھی اس پر غرور نہ کرنا چاہے کتنی ہی اونچی اڑان کیوں نہ بھرلو یہ مت بھولنا کہ تم نے اترنا زمین پر ہی ہے۔ بس بیٹا یہی کہنے آیا تھا اپنا خیال رکھنا۔"
نم آنکھوں سے اس کے سر پر بوسہ دیا اور چلے گئے، پارس کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں۔


جس وقت اس نے انگلینڈ کی سرزمین پہ قدم رکھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ اسکالرشیپ کے ساتھ ساتھ اسے رہائش کی بھی سہولت حاصل تھی۔ جو ہاسٹل اسے بتایا گیا تھا اسے وہیں جانا تھا۔ اس کے ساتھ ہندوستان کے دوسرے شہروں سے آئی ہوئی اور بھی لڑکیاں تھیں۔ نیاملک، نیاشہر، نئےراستے، نیا موسم اور ساتھ ہی ساتھ نئے جذبات۔ پارس کو آج اپنا وجود بھی نیا لگ رہا تھا۔ انگلینڈ کو دیکھ کر اسے ایسا لگا جیسے وہ ایک نئی دنیا میں آگئی ہو، نئی دنیا میں اس نے جنم لیا ہو۔ ائیرپورٹ پر معمول کے مطابق بھیڑ تھی۔
دسمبر کا موسم تھا۔ ہوا میں خنکی تھی۔ پارس کے پورے وجود میں سردی جیسے بجلی کا کرنٹ بن کر دوڑنے لگی۔ جلدی سے اس نے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا کوٹ پہن لیا۔ اس کا ہوسٹل یونیورسٹی سے کچھ فاصلے کی مسافت تھا۔ ہاسٹل کے راستے میں یونیورسٹی کو دیکھتے ہی پارس کا دل مچل اٹھا۔ لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور اس کا وقت کل تھا۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔کل کس نے دیکھا ہے؟ کل کا کسے پتا تھا؟ کیوں کہ کل انسان کا ہوتا ہی نہیں ہے۔ کل تو صرف ایک دھوکا ہوتا ہے۔۔۔ کیا پارس کو بھی ایسے کسی دھوکے کا سامنا کرنا تھا؟


اس کے ہاسٹل کا کمرہ بہت نفیس اور صاف ستھرا تھا ایک کمرے میں دو لڑکیوں کے قیام کی ہدایت تھی۔ پارس کے ساتھ کسی دوسرے ملک کی لڑکی آن ٹھہری۔ کمرے کی کھڑکی سے ہاسٹل کا لان دکھائی دے رہا تھا۔ ہر طرف سبزہ تھا۔ طویل سفر کی وجہ سے پارس تھک چکی تھی، اس نے شاور لیا، عبادت کے بعد رب کا شکر ادا کیا پھر کھانا کھا کر سونے لگی۔ لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی کیونکہ پارس کی آنکھیں کل کے سپنے دیکھ رہی تھیں۔
اگلے صبح فجر کی نماز کے بعد وہ بڑے ہی پر جوش انداز میں تیار ہوئی۔ اس کے ساتھ اس کی روم میٹ ملیحہ بھی تیار ہوئی اور دونوں ساتھ ہی یونیورسٹی کے لئے نکلے۔ جیسے جیسے قدم یونیورسٹی کے قریب ہوئے اس کے دل میں ڈوبتا ابھرتا ایک جوش سا تمتمانے لگا۔ یونیورسٹی پہنچتے ہی ملیحہ اور پارس نے اپنی کلاس کو ڈھونڈا اور اپنی جماعت میں حاضری درج کروائی۔ دونوں کے سبجیکٹس (subjects) الگ تھے۔ کلاس شروع ہوئی۔ پروفیسر نے اپنا تعارف کروایا اور طلبہ کو خوش آمدید کہا۔ لیکن کلاس شروع ہو جانے کے باوجود طلبا کی آمد جاری تھی۔


کلاس روم تقریباً بھر چکا تھا۔ تبھی ایک طالب علم اندر داخل ہوا۔ پوری کلاس چونکہ بھر چکی تھی جبکہ پارس حجاب میں ہونے کے سبب سب سے پہلی بینچ پر اکیلے بیٹھی تھی۔ اس سے ابھی تک کوئی فری بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ کلاس میں واحد لڑکی تھی جو حجاب میں ملبوس تھی۔ آنے والے طالب علم لڑکے کا نام آزر تھا۔ دیکھنے میں خوب رو نوجوان تھا۔ اسے پارس کے بینچ پر جب خالی جگہ نظر آئی تو وہ وہیں بیٹھ گیا۔ پارس اس سچویشن کے لئے تیار نہ تھی۔ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن پروفیسر نے اسے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی آزر کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ کلاس کے دوران وہ خود کو غیر آرام دہ صورتحال میں محسوس کرتی رہی اور اس کا موڈ بھی آف ہی رہا۔
لیکن یہ صرف آج کی بات نہیں تھی۔ آزر ہر روز پارس کے پاس بیٹھتا۔ دھیرے دھیرے دونوں میں بات چیت شروع ہوئی۔ وہ پارس سے کبھی نوٹس یا دیگر اشیا مانگ لیتا۔ کبھی کینٹین میں بریک یا لنچ کے لئے آ جاتا۔ دھیرے دھیرے پارس کے اطراف کا خول بھی ٹوٹتا گیا اور وہ بھی آزر کے ساتھ فری ہو گئی اور شاید یہیں سے پارس کا "کل" شروع ہوا۔


اس خوب رو نوجوان کی دوستی سے سب کچھ روشن ہی تھا وہ شام ، وہ لمحہ ، ہاں کہیں نہ کہیں تو کچھ اندھیرا چھا گیا تھا۔ پارس کی زندگی ، اس کے ضمیر ، اس کی حیا، اور وجود کے ایک حصے پر گویا گھپ اندھیری چادر چھا گئی تھی۔ اس کی اس دوستی نے اسے اس طرح رنگ ڈالا کہ وہ اپنے خاص رنگ 'رب کی محبت کا رنگ' بھول چکی تھی وہ رنگ جو نماز ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن سے کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ پارس اپنی ان ترجیحات کو بھول چکی تھی جنہیں وہ ہر کام میں اولیت دیتی تھی۔ رب کے ذکر و اذکار کے بجائے سیر و تفریح اور نغموں میں کھو کر اپنوں کو بھول چکی تھی۔ یہ دوستی پارس کے لئے شاید کوئی آزمائش تھی۔ مگر کاش کہ وہ اس آزمائش کو پہچان لیتی۔۔۔ پارس کے تو اس خواب نگری میں ابھی قدم جمے ہی نہ تھے۔ وہ اس خواب نگری اور یہاں کے دلکش رنگ میں اس قدر کھو گئی کہ اپنی حیا و پاسداری کا لحاف دور پھینک چکی تھی۔


یہ دوستی اس قدر پھلنے پھولنے لگی کہ اب پارس اور اس خوب رو نوجوان آزر دونوں کا وقت کالج کے علاوہ شامیں بھی کینٹین اور شاپنگ میں گزرنے لگیں۔ پارس جو کبھی اپنے تایا زاد بھائی کاشان کے سامنے تک نہ آتی تھی، جو کاشان سے نظریں نہ ملاتی آج وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ تھی جس کے ساتھ ملاقات کا کچھ ہی عرصہ گزرا تھا اور اس اجنبی کے ساتھ وہ اتنی مانوس ہو گئی جیسے اسے برسوں سے جانتی ہو۔۔۔
لیکن یہ دوستی کیا واقعی میں دوستی تھی؟؟؟ یا فریب تھا، دھوکہ تھا۔۔۔ ؟
وہ خوب رو نوجوان تو پارس کے یقین تک رسائی حاصل کر چکا تھا۔ کئی مرتبہ پارس کی روم میٹ ملیحہ نے پارس کو اس دوستی کا انجام سمجھانے کی کوشش کی۔ ملیحہ کو ہمیشہ سے پارس کا دوست آزر برا ہی لگتا تھا وہ پارس سے ہر وقت کہتی کہ دیکھو پارس یہ ایسا نہیں ہے جیسا وہ تمہارے سامنے خود کو پیش کرتا ہے لیکن پارس یہ سب کچھ سمجھنے سے قاصر تھی اس پر دنیاوی محبت کا رنگ چڑھ گیا تھا اور وہ اپنی خودی اور اپنے پاکیزہ ضمیر تک کو اس دنیاوی محبت کی بھینٹ چڑھا چکی تھی۔۔۔۔


ملیحہ کی اکثر عادت تھی کہ شام کے وقت گارڈن میں ایک چکر لگا آئے۔ اس شام بھی ملیحہ گارڈن کی سیر میں مصروف تھی کہ اچانک اسے آزر نظر آیا جو اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر پارس کا مذاق اڑا رہا تھا۔ ملیحہ چونکہ ہمیشہ سے اسے برا ہی جانتی تھی آج اس نے اپنی آنکھوں سے اس بات کا ثبوت بھی دیکھ لیا۔۔۔ ملیحہ آج ایک ایسی حقیقت سے آشنا ہوئی جسے سن کر گویا اس کے پیر سے زمین اور سر سے آسمان ہٹ چکا تھا۔۔۔
"یار آزر تم نے تو شرط جیت لی اس نقاب پوش اور پارسا لڑکی سے ایسی دوستی کر چکے ہو کہ وہ اپنا سب کچھ تمہیں ہی مان چکی ہے، وہ تو تمہارے لئے اپنا حجاب اور اصولوں کا سودا کر چکی ہے۔" تابش نے آزر کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور زور سے قہقہے لگانے لگا۔۔۔۔
"شرط کیسی شرط یار؟ کس خوشی کا تم دونوں اکیلے جشن منا رہے ہو ذرا ہمیں بھی تو بتاو یار؟؟؟" پیچھے سے آزر کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے عاطف نے سوال کیا۔
"ارے کچھ نہیں عاطف، بس وہ اپنی حجابی میڈم پارس ہے ناں، اسی کی شخصیت کو جیت کر دکھانے کا ہم نے آزر سے شرط لگائی تھی۔ بڑی پارسائی اور مذہبی اصولوں کا شور مچا رکھا تھا محترمہ نے۔ آزر نے ایسا جادو چلایا کہ اب پارس اپنی پارسائی، خودی، ضمیر سب کچھ آزر کے نام کر چکی ہے۔" تابش اور آزر نے قہقہے لگاتے ہوئے کہا۔


یہ سب کچھ سن کر ملیحہ زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی اور وہاں سے چلنے ہی لگی تھی کہ اس نے اپنے ہی پیچھے پارس کو دیکھا۔ کانپتی ہوئی، آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی، حالت ایسی تھی کہ جیسے ابھی اس کا دم نکل رہا ہو۔ وہ ایسی ساکت کھڑی تھی جیسے زندہ لاش ہو اور شرمندگی سے زمین میں دھنستی جارہی ہو۔
"ملیحہ تم نے بالکل صحیح کہا تھا۔۔۔ کیوں میں یہ نہ سمجھ پائی، ملیحہ پلیز مجھے اس اندھیرے سے نکالو مجھے بتاؤ میں کیا کروں ؟؟؟ کیسے اپنی پارسائی اور خودی کو دوبارہ روشن کروں؟؟؟" پارس ہچکیوں سے رونے لگی۔
"پارس! سنو تم یہ رونا دھونا بند کرو اور ڈٹ کر اس آزمائش کا مقابلہ کرو، پارس ہمت مت ہارو تم تو بہت مضبوط لڑکی ہو۔" ملیحہ نے اس کی ڈھارس باندھی۔
پارس تو جیسے کہیں کھو گئی تھی اسے اپنے اماں ابا کی نصیحتیں یاد آنے لگیں۔


دوسرے دن کلاس میں سب کچھ اپنی جگہ رواں دواں تھا بس وقت تو شاید پارس کے لیے رک گیا تھا۔ لیکن آج جیسے ہی آزر ہمیشہ کی طرح پارس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا، پارس نے اپنی نشست چھوڑ ڈالی۔
میڈم نے اسے بیٹھنے کی ہدایت کی۔
"نہیں آج طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی میڈم میں چلتی ہوں۔" وہ جلدی سے بولی اور کلاس سے نکل پڑی۔
یہ پہلی دفعہ تھا جب اس نے آزر کو ایکدم نظرانداز کیا تھا۔ آزر سے رہا نہ گیا اور کلاس ختم ہوتے ہی کینٹین میں پارس سے ملنے چلا آیا۔
یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے پارس جہاں میں آتا ہوں وہاں سے تم جانا چاہتی ہو ورنہ تو ہمیشہ تم نے میرا ساتھ دیا ہے۔ آزر نے پارس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
"غلطی تھی میری! میں سراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی جو میرا مقدر نہیں تھا۔۔۔" اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
"آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا، میری انا کو برباد کیا، مجھے بےعزت کیا۔" اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
"کب؟" وہ گویا صورتحال جاننے کے لیے تمہید باندھ رہا تھا۔
"جب آپ نے میرے ساتھ یوں ہی ایک شرط کو جیتنے کے لئے دوستی کا ڈھونگ رچا، دوستوں کے سامنے میرا مذاق اڑایا ، میں تو آپ کے لئے محض ایک شرط تھی۔۔۔ آزر کیا کسی کی عزت نفس مجروح کرنا اور دل دکھانا بری بات نہیں ہے؟" پارس نے بے حد خفگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"مس پارس! تم میرے ہی عمل کو غلط کیوں کہتی ہو؟ کیا ساری لڑکیاں اتنی بے وقوفی ہوتی ہے کہ کسی لڑکے سے کوئی تعلق نہ ہونے پر محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں؟ کیا لڑکیاں اتنی کم عقل ہوتی ہیں کہ لڑکوں کے مزاج کو نہیں سمجھ پاتی؟ لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنا تو لڑکوں کی عام عادت ہوتی ہے۔ پھر لڑکیاں کیوں جذباتی ہو جاتی ہیں؟ کیوں لڑکوں سے امیدیں لگا بیٹھتی ہیں؟ کیوں یہ سمجھتی ہیں کہ لڑکے ان کی طرح کم عقل ہوتے ہیں؟ مگر ایمانداری سے بتاوں میں نے تم سے کبھی فلرٹ کیا؟ میں نے صرف تم سے دوستی کی تھی مس پارس۔"


یونیورسٹی امتحان کے دن قریب آئے تو سب طلبا مصروف ہو گئے اور امتحانات مکمل ہوتے ہی سب اپنے اپنے وطن کی طرف روانہ ہو گئے۔


"پارس۔۔۔ اوہ واووووو تم آ گئی مجھے یقین ہی نہیں آ رہا کہ تم آ چکی ہو۔۔۔ ویسے پارس تم نے کل ہی تو کال کی تھی، مگر بتایا نہیں مجھے کہ تم آ رہی ہو۔۔؟" فائزہ نے پارس کے کمرے میں قدم رکھتے ہی اس سے پوچھا تھا۔۔۔
"ہمممممم۔۔۔۔۔" پارس نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
"چلو کوئی نہیں پارس تم سے شام میں ملاقات ہوتی ہے ابھی شمیلہ کے ساتھ مارکیٹ جارہی ہو۔۔۔ تم بھی آرام کرو" فائزہ نے پارس کے بوجھل اور تھکے ہوئے پن کو محسوس کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے نکل پڑی۔
پارس ہمیشہ کی طرح بالکونی میں کھڑے غروب ہوتے سورج کو دیکھ رہی تھی کہ اسی لمحہ اسے انگلینڈ کا اس شام کا غروب ہوتا لمحہ یاد آگیا جس نے اسے "محبت کے حقیقی پھول" سے اس کی زندگی کو دوبارہ طلوع کیا تھا،جس نے پارس کو احساس دلایا کہ اس دنیا میں کوئی غروب آخری نہیں ہوتا ہر غروب کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے۔۔۔


کچھ دیر بعد فائزہ چائے کی ٹرے لئے پارس کے کمرے میں چلی آئی اور دونوں بالکونی میں کھڑے غروب ہوتے سورج کے ساتھ چائے نوشی سے لطف اندوز ہونے لگے۔
"پارس چلو بھئی اب اپنی تھکاوٹ سے باہر نکل آؤ اور ہمیں بھی تو انگلینڈ کے بارے میں کچھ بتاؤ ، اپنی یونیورسٹی کے متعلق بتاؤ، تم نے انگلینڈ میں کیا کیا دیکھا؟ وہاں کے دوستوں کے بارے میں بتاؤ۔"
پارس جیسے کہیں گم سم سی تھی اس کے ہر جواب پر بس 'اچھا' اور 'ہاں' کہے گئی۔
"پارس سنو۔۔۔! تم اتنی خاموش اور گم سم سی کہاں کھوئی ہوئی ہو؟؟؟" فائزہ نے اسے ٹوکا۔
"نہیں فائزہ کچھ نہیں بس سفر کی تکان ہے" پارس نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
"اچھا پارس تم نے میری دوری سے کیا سیکھا؟" فائزہ نے پارس کے موڈ کو ٹھیک کرنے کے لئے ہنستے ہوئے پوچھا۔
"اممممم۔۔۔ بہت کچھ۔۔۔۔" پارس نے سنجیدگی اور پرفکر انداز میں کہا۔
"ارے میری پارس آپا میں نے تو بس یوں ہی آپ سے مذاقاً کہا کہ میری دوری کیسی لگی، آپ یوں تو سنجیدہ نہ ہو جائیے " فائزہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
"نہیں جی فائزہ آپا ہم نے آپ کو سچ میں بہت یاد کیا " پارس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"چلو بھئی آپ مسکرائی تو سہی، ورنہ مجھے تو لگا تھا آپ محترمہ نے شاید اپنی ہنسی کو انگلینڈ میں ہی کہیں چھوڑ آیا ہو۔اچھا بتاؤ پھر کیسی لگی ہماری دوری۔۔۔" فائزہ نے دوبارہ مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"جیسے کہ اس جہاں میں تم سے اچھی سچی دوست کہیں نہیں ملے گی"۔ پارس نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"جانتی ہو یہ جو دنیا کی زندگی ہے نا یہ محض دھوکا و فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے فائزہ۔"


"جانتی ہو فائزہ، یہ لڑکیاں موتیوں اور ہیروں جیسی ہوتی ہے۔۔۔ یہ موتیوں کی لڑیاں ایک بار بکھر جائیں تو انہیں کتنا بھی پہلے جیسی خوبصورتی اور شادابی سے پرویا جائے۔۔۔۔ نہیں پرویا جا سکتا کیونکہ یہ پوری طرح سے ٹوٹ اور بکھر چکی ہوتی ہے۔۔۔ ٹھیک اسی طرح جب کوئی لڑکی اپنا ضمیر ، اپنی خودی ، کھو چکے تو وہ اپنے آپ کو دوبارہ نہیں جوڑ سکتی۔ لڑکیوں کی خودی ، ان کا ضمیر ہی ان کی 'لڑی'، ان کی موتیوں کی مالا ہوتی ہے۔۔۔۔ جب یہ مالا اور لڑی ناسمجھی ، نادانی اور خواہشات کی بھینٹ چڑھ جائے تو وہ لڑکی ہیرا اور موتیوں کی لڑیوں جیسی نازک ، متانت ، صبر و تحمل والی نہیں رہ پاتی۔ فائزے! وہاں میں نے خودی اور ضمیر کی اہمیت کو سمجھا وہاں میں نے فانی اور لافانی محبت ، محبت کے حقیقی پھول کو پہچانا ہے۔۔۔۔"
پارس نے ایک پر سکون سانس لیتے ہوئے کہا۔


"اوہہہہہہہ۔۔۔۔ہماری پارس تو انگلینڈ جاکر بڑی فلسفی ہو گئی ہے۔" فائزہ نے ہلکی سی مسکراہٹ اور تجسس سے کہا۔
"جانتی ہو فائزہ یہ جو اس جہاں میں دو محبت کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ناں وہ فانی محبت کرتے ہیں۔۔۔۔" گہری سانس بھرتے ہوئے پارس نے کہا۔
"پوچھو نا کیوں۔۔؟"
"کیوں"؟ فائزہ نے تجسس سے پوچھا۔۔۔۔
"کیوں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو گلاب کا پھول دیتے ہیں۔ اپنی محبت کی شہادت کے لئے ۔۔۔" پارس نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
"کیوں بھئی تم ایسا کیوں کہتی ہو ؟ گلاب کا پھول تو محبت کی نشانی ہوتا رہا ہے صدیوں سے"۔۔۔ فائزہ نے پارس کو ٹوکتے ہوئے کہا۔
"ہاں!!۔۔۔۔ مگر یہ فانی محبت کی نشانی ہے۔۔۔ کیوں کہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ اس محبت میں انھیں ناکامی ملے گی وہ اسی لئے تو کانٹے والے پھول کا انتخاب کرتے ہیں، وہ پہلے مرہم دیتے ہیں پھر زخم لیتے ہیں۔"


"تم کیا کہنا چاہتی ہو ؟ فانی محبت۔۔۔کیا ہے یہ ؟!" فائزہ نے پر تجسس انداز میں پوچھا۔
"ہاں فائزہ! فانی محبت۔۔۔۔ جس میں پہلے تو بہار کا موسم ہوتا ہے اور پھر خزاں کا موسم ، جس میں پہلے پھول ہوتے ہیں پھر کانٹے ہی کانٹے ، روشنی اور پھر اندھیرا ، اور زخم ہی زخم ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اس کے برعکس لا فانی محبت بہت ہی اچھی ہوتی ہے فائزہ"۔۔۔۔
"لافانی محبت !!!!؟ وہ کیا اور کیسی ہوتی ہے پارس؟؟؟؟؟" فائزہ نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں فائزے۔۔۔۔ لافانی محبت جو اس جہاں اور دوسرے جہاں دونوں کو سنوارتی ہے ، جس میں روشنی ہی روشنی ہوتی ہے ، جس میں بہار کا ہی موسم ہوتا ہے ، جس میں زخم نہیں ہوتے ، جو خالص اپنے رب کی رضا پر مبنی ہوتی ہے۔ اور جانتی ہو فائزہ اس محبت کی نشانی کیا ہوتی ہے؟" پارس نے فائزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں جانتی۔ تم ہی بتاؤ نا۔"
"نصیحتوں کے پھول ، تاکہ کبھی اس محبت میں زخم یا اداسی ملیں تو نصیحتوں کا مرہم لگا لیا جائے تاکہ غم اور اداسیاں طویل نہ ہو۔ اور اس محبت میں ایک دوسرے کے لیے دعاؤں میں جنت کا ابدی ساتھ مانگا جاتا ہے۔۔۔۔ یہ محبت جسے مل جائے وہ سچ میں بہت خوش نصیب ہوتا ہے ، رب کے قریب ہوتا ہے ، اور اپنے ہمسفر کا وفادار ، سچا اور خالص اپنے ہمسفر کا ساتھی ہوتا ہے ، اس کی دنیا بھی جنت کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔"
"فائزہ۔۔۔۔ یہ دو لافانی محبت کرنے والے، جانتی ہو ایک دوسرے کو کون سا پھول دیتے ہیں؟ ۔۔۔۔"
"کون سا ؟" فائزہ نے پوچھا۔
"نصیحتوں اور دعاؤں کا پھول تاکہ ایک دوسرے کی دنیا اور آخرت کو سنوارا جائے اور کامیابی حاصل کی جائے۔"
"فائزہ جب تم کبھی محبت کرو نا تو لافانی محبت اور خالص محبت کرنا۔ اپنے رب کی رضا کی خاطر کرنا محبت۔ تو رب اس محبت کو لا فانی محبت بنا دے گا اور تمہارا اور تمہارے ہمسفر کا ساتھ ابدی ہوگا ہمیشہ کا ساتھ، ختم نہ ہونے والا ساتھ اور یہی حقیقی محبت ہوگی جو تمہیں تمہارے رب سے قریب بھی کر دے گی۔۔۔۔۔"
پارس نے فائزہ کا ہاتھ تھام کر گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔


***
Email: ksum973[@]gmail.com

Mohabbat ke haqeeqi phool. Short Story by: Sumaiya Aamir Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں