ہندوستان کی عالمی شبیہ داغدار؟ آپ نے ٹھیک کہا مسٹر پرائم منسٹر! - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-23

ہندوستان کی عالمی شبیہ داغدار؟ آپ نے ٹھیک کہا مسٹر پرائم منسٹر!

pm-modi-concern-on-india-tarnishing-global-image

20 جنوری کو سر تا پا سفید کپڑوں میں ملبوس ہندوستانی خواتین کی ہمالیائی تنظیم 'برہما کماریز' کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹھیک ہی کہا کہ:
"ہندوستان کی عالمی شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔"


انہوں نے کہا کہ اس (بات) کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے کہ یہ تو محض سیاست ہے۔ یہ سیاست نہیں بلکہ ملک کے وقار کا سوال ہے۔ انہوں نے (اپنی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے) یہ بھی کہا کہ ایک ایسا نظام تیار کیا جا رہا ہے کہ جہاں تعصب کی کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کی ترقی ملک کی ترقی سے وابستہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ملک کی ترقی کے لئے لوگوں کو اپنے فرائض بھی ادا کرنے چاہئیں۔۔


برہما کماریز کے پروگرام 'آزادی کے امرت مہوتسو سے سورنم بھارت کی طرف' کے افتتاح کی تقریب سے راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے بھی خطاب کیا۔۔۔ اگلے ایک سال تک دنیا بھر میں اس کے تحت 15 ہزار سے زیادہ مقامات پر تقریبات منعقد کی جائیں گی۔۔۔ وزیر اعظم کو متوجہ کرتے ہوئے راجستھان کے وزیر اعلی نے کہا کہ: امن اور بھائی چارہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کیونکہ ملک میں اس وقت تشدد کا ماحول قائم ہے۔


شاید اسی کے ضمن میں وزیر اعظم نے یہ بات کہی کہ آزادی کے بعد سے ہی حقوق کو تو ترجیح دی گئی لیکن فرائض کو فراموش کر دیا گیا۔ برہما کماریز کا دعوی ہے کہ 100 ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہیں۔ وزیر اعظم نے تنظیم کی ذمہ دار وں سے کہا کہ وہ عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کریں اور اپنی ہر شاخ سے کم سے کم 500 غیر ملکیوں کو بلا کر دکھائیں کہ ہندوستان کیسا ہے۔ وہ یہاں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔


لندن میں واقع ایک عالمی فلاحی تنظیم 'تھامسن روئٹرس فاؤنڈیشن' نے 2011 میں اپنے ایک عالمی سروے میں ہندوستان کو خواتین اور دیگر طبقات (غالباً اقلیتی طبقات) کے خلاف جرائم کے معاملہ میں سات انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست میں افغانستان، کانگو اور پاکستان کے بعد چوتھے نمبر پر پایا تھا۔ اس وقت تک ہندوستان میں کانگریس کی حکومت تھی۔ لیکن 2018 میں کئے جانے والے سروے میں صورتحال یکسر بدل گئی۔خواتین اور دیگر طبقات (یقینی طورپر اقلیتی طبقات) کے خلاف جرائم کے معاملہ میں ہندوستان سات انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گیا اور اس نے افغانستان، کانگو اور پاکستان جیسے ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔


مسٹر پرائم منسٹر!
ان سات برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ جرائم کے معاملہ میں ہم نے افغانستان، پاکستان اور کانگو تک کو پیچھے چھوڑ دیا؟
2014 کے وسط تک تو کانگریس کی ہی حکومت رہی۔ آپ کی حکومت کے محض چار سال میں ہی ہم نے بدنامی کی اعلی سطح کو پا لیا۔ آخر یہ کس کی سازش تھی؟
انڈیا ٹوڈے جیسے ادارہ کے تمام میڈیا ہاؤس تو آپ کے ہی قصیدے پڑھتے ہیں۔ لیکن 27 جون 2018 کو دن کے ایک بج کر 39 منٹ پر انڈیا ٹوڈے کی ویب ڈیسک نے تھامسن روئٹرس فاؤنڈیشن کی مذکورہ رپورٹ کی شہ سرخی لگانے کے بعد ضمنی سرخی یہ لگائی تھی کہ:
اگر آپ شرمندہ ہیں تو یہ اسٹوری ضرور پڑھیے۔


اگر صرف خواتین کے خلاف جرائم کا ہی جائزہ لیا جائے تو کیا آپ کے دور میں بڑے بڑے اور مشہور دھرم گرو خواتین کے جنسی استحصال اور اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے میں ملوث نہیں پائے گئے؟ کیا ایسے ایسے گرو جیلوں میں نہیں ہیں جن کا آپ یا آپ کے لوگ 'آشیرواد' لیتے رہے؟ دادری کے محمد اخلاق، راجستھان کے پہلو خان اور بہار کے تبریز انصاری کی 'ماب لنچنگ' کس نے کی؟ اور ان 'ماب لنچنگ' کرنے والوں کے گلوں میں پھولوں کے ہار کس نے ڈالے؟


کیا آپ کی کابینہ میں شامل گری راج سنگھ اور جینت سنہا نے بے قصور لوگوں کے ان قاتلوں کو اعزاز سے نہیں نوازا؟ کیا ان واقعات سے ہندوستان کی عالمی شبیہ خراب نہیں ہوئی؟ ایک سرسری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ماب لنچنگ کے واقعات پر بین الاقوامی میڈیا میں بڑے پیمانے پر لکھا گیا۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر درجنوں ممالک کے عوام نے زبردست مذمت کی۔ آخر آپ نے اس صورتحال سے نپٹنے کیلئے کیا کیا؟


آپ نے راجیہ سبھا میں 26 جون 2019 کو تبریز انصاری کی ماب لنچنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ: "مجھے بہت تکلیف پہنچی ہے اور قصورواروں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے، لیکن پورے جھارکھنڈ کو اس کی وجہ سے بدنام نہیں کیا جانا چاہئے"۔
اس سلسلہ کا یہ آپ کا پہلا اور آخری بیان تھا۔ اس بیان کا آخری حصہ اس لئے تھا کہ اس وقت جھارکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ کیا اس سے پہلے اور اس کے بعد پھر کسی کی ماب لنچنگ نہیں ہوئی؟ اور کیا قصورواروں کو سخت سے سخت سزا دی گئی؟ کیا ان قصورواروں کے گلوں میں ہار ڈالنے والے آپ کے وزراء بھی برابر کے قصور وار نہیں تھے؟ کیا آپٖ نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی؟

ایک تکلیف دہ نکتہ یہ ہے کہ جھارکھنڈ اسمبلی میں دو ہفتوں پہلے جیسے ہی حکومت نے ماب لنچنگ کے خلاف بل پیش کیا اور جس کی بی جے پی نے مخالفت کی، ویسے ہی بی جے پی کے کارکنوں نے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ پی این سنگھ کی موجودگی میں ایک مسلم نوجوان کو نہ صرف زدوکوب کیا بلکہ اس سے بالجبر جے شری رام کے نعرے بھی لگوائے۔ گوکہ اس نوجوان نے کسی طرح جان بچالی لیکن کیا اس سے ملک کی شبیہ خراب نہیں ہوئی؟ اس واقعہ کو بھی بین الاقوامی میڈیا میں کوریج دی گئی۔


نسل کشی کے واقعات پر نظر رکھنے والی امریکہ کی عالمی تنظیم 'جینوسائڈ واچ' کے چیرمین گریگوری اسٹیٹن نے 'دی وائر' کیلئے کرن تھاپر کو دئے گئے 28 منٹ کے ایک انٹرویو میں جو خدشہ ظاہر کیا ہے وہ بے بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلی نسل کشی بڑے پیمانے پر ہندوستان میں ہو سکتی ہے۔ ایک ہفتہ پہلے ہی گریگوری نے کانگریس (امریکی پارلیمنٹ) کو اس مسئلہ پر بہ نفس نفیس تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا تھا۔
اب اس پر امریکی کانگریس میں بحث ہو سکتی ہے لیکن عالمی سطح پر اس پر عمومی بحث شروع ہو گئی ہے۔ امریکہ کے ہولوکاسٹ میوزیم کو یقین ہے کہ ہندوستان میں نسل کشی ہو کر رہے گی۔


گریگوری نے بہت دلچسپ مگر تشویشناک نکتے بتائے۔ انہوں نے بتایا کہ نسل کشی کے دس مرحلوں میں سے پانچ مرحلے ہندوستان میں عبور کئے جا چکے ہیں۔
ان میں (1) لوگوں کے درمیان 'ہم' اور 'وہ' کی زمرہ بندی (2) کپڑوں سے لوگوں کی شناخت (3) شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک والے قوانین، سی اے اے وغیرہ- (4) انہیں غیر انسان سمجھنا (دیمک قرار دینا، پاکستان جانے کی دھمکیاں دینا) اور (5) پولرائزیشن، لَوجہاد وغیرہ کے الزامات۔۔


گریگوری کہتے ہیں کہ باقی رہ جانے والے پانچ مراحل میں سب سے آخری مرحلہ نسل کشی کا اعلان ہے جو فی الواقع ہندوستان میں واقع ہو چکا ہے۔ یہ دراصل دھرم سنسد میں دی جانے والی دھمکیوں کی طرف اشارہ ہے۔ گریگوری کہتے ہیں کہ 'جینوسائڈ کنونشن' کے تحت نسل کشی کی دھمکی بھی نسل کشی کے ہی زمرہ میں ہے اور اس کنونشن پر ہندوستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔
تو وزیر اعظم صاحب! ہم نے جس کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں اس کے مطابق ہندوستان میں نسل کشی کا آغاز ہو چکا ہے۔ آپ نے اس نسل کشی کو روکنے کیلئے کوئی اقدام کیا؟ اقدام تو بہت دور آپ نے تو دھرم سنسد میں دی جانے والی کھلی دھمکیوں اور شر انگیزی کی مذمت تک نہیں کی۔


یہ بہت تفصیل طلب اور بڑا طویل موضوع ہے۔
وزیر اعظم نے آزادی کے فوراً بعد حقوق کو ترجیح دینے اور فرائض سے غفلت برتنے کا ذکر کیا ہے۔ ہم آزادی کے بعد سے آج تک کے عرصہ کو دو ادوار میں تقسیم کر لیتے ہیں:

  • تین دہائیوں تک فرقہ وارانہ فسادات کا دور
  • اور پھر بابری مسجد کی شہادت سے آج تک کا دور۔

شروع کی تین دہائیوں میں ایک محتاط اندازے اور جائزے کے مطابق 70 ہزار سے زائد بڑے مسلم مخالف فسادات ہوئے۔ دلتوں اور غیرمسلم پسماندہ طبقات کے شہری، سماجی اور سیاسی حقوق کو تو آئین میں تحفظ دے دیا گیا لیکن مسلمانوں کو کیا دیا گیا؟ انہیں فسادات دئے گئے۔ ان فسادات کے مجرموں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ جب مسلمان مادی اعتبار سے ٹوٹ گئے تو پھر ان کے عقائد اور مذہبی شعائر پر حملہ کیا گیا۔ رام مندر کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا۔ اگر کانگریس کے دور میں مسلمانوں پر فسادات کا حربہ آزمایا گیا تو بی جے پی کے دور میں مندر کا حربہ آزمایا گیا۔ ان دونوں محاذ پر جب مسلمانوں کو توڑ دیا گیا تو پھر ہجومی تشدد اور نفرت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔


جو کچھ ہو رہا ہے کیا آپ اسے جھٹلا سکتے ہیں؟
نہیں جھٹلا سکتے!
پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اگر آپ ہندوستان کے جمہوری اور سیکولر دامن پر لگنے والے ان خونی دھبوں کو اقوام عالم کے سامنے برہما کماریز کی سفیدی میں ڈھانپنا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کی عملی حرکتیں ہندوستان کے اندر ہوئی ہیں۔ اس شبیہ کو درست کرنے کیلئے آپ کو عملی اقدام بھی ہندوستان کے اندر ہی کرنا ہوگا۔ ہم سے اگر آپ پوچھتے ہیں تو دھرم سنسد کے یہ فتنہ ساز اور شرپسند خود آپ کی شبیہ خراب کر رہے ہیں۔ کم سے کم آپ اپنی ہی شبیہ کی فکر کر کے اسے درست کر لیجئے وزیر اعظم صاحب!

***
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 23 جنوری 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

PM Modi's concern on India's tarnishing global image - Column: M. Wadood Sajid.
'Attempts being made to tarnish India's global image': PM Modi at Brahma Kumaris event.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں