دھماکہ - ابن صفی کی عمران سیریز کے کرداروں پر بننے والی فلم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-05

دھماکہ - ابن صفی کی عمران سیریز کے کرداروں پر بننے والی فلم

عمران سیریز کے کرداروں پر بننے والی فلم 'دھماکہ' کی کہانی پہلی بار پیش کی جا رہی ہے۔ اُس وقت کی عام فلموں سے مختلف ایک جاسوسی فلم۔
ایشیا کے عظیم ترین جاسوسی ناول نگار ابن صفی کی کہانی پر مبنی فلم دھماکہ نہایت پراسرار اور چونکا دینے والے ڈرامائی واقعات سے بھرپور ایک ایسی عظیم تصویر ہے جو فلم بینوں کے دِلوں میں احساسِ فرض اور جذبہْ حب الوطنی کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔


فلم کی کہانی

سیکرٹ سروس تک کیس پہنچنے سے قبل واقعات کچھ یوں تھے کہ مُلکی دفاع کے چند اہم راز حاصل کرنے کے لیے دشمن مُلک کا ایک غیر مُلکی ایجنٹ/بلیک میلر، اسمگلروں کے ساتھ (پاکستان) آتا ہے۔ وہ اپنے کارندوں کے توسط سے مُلک کی اہم شخصیتوں کے خاندانی راز وغیرہ حاصل کر کے پہلے تو اپنے دام تزویر میں لاتا اور پھر انہیں بلیک میل کرتا ہے۔ تاکہ اُن سے اَہم نقشے اور راز حاصل کر کے مُلک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا جا سکے۔ سمگلر تو مارے گئے مگر وہ بچ گیا۔ اس شخص کو بلیک میلنگ کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ چنانچہ وہ پاکستان میں آکر معززین اور لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ پسِ پردہ رہ کر کام کرنے والا یہ شخص کارکنوں کی حیثیت سے بھی ایسے لوگوں کو استعمال کرتا ہے جن کے راز اُس کے پاس ہیں۔ کچھ لوگ جان کے خوف سے اس کے آلہ کار بننے پر مجبور ہیں اور کچھ اس لیے کام کرتے ہیں کہ ان کے مقابل کوئی نہیں ہے ورنہ شاید ایسے لوگ وطن کے نام پرقربان ہو جانے ہی کو ترجیح دیتے۔


بلیک میلر کا ایک کارندہ راشد (اداکار حنیف) جو اکثر وبیشتر ایک غیر ملکی سفارتخانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی رینا کے ساتھ گھومتا رہتا ہے، راشد جو سیٹھ صمدانی کا بھتیجا ہے انسپکٹر نجمی (اداکار انور) کی نگاہوں میں آ جاتا ہے۔ راشد کی حرکات و سکنات نجمی کو کچھ مشکوک سی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ راشد کا پیچھا کرتا ہے مگر اس سے پیشتر کہ وہ راشد سے کوئی پوچھ گچھ کرے، راشد کے ہاتھوں میں ایک بلی دھماکے کے ساتھ پھٹتی ہے اور وہ مر جاتا ہے (بلی کے جسم میں ٹائم بم پوشیدہ تھا)۔ اب نجمی، راشد کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی غرض سے غیر ملکی لڑکی رینا کی رہائش گاہ پر پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اُسے بھی تھوڑی دیر پہلے موت کی میٹھی نیند سُلا دیا گیا ہے۔قتل کی پراسرار وارداتیں پولیس کے لیے معمہ بن جاتی ہیں اور جب کافی تشویش کے باوجود کوئی سراغ نہیں ملتا تو یہ کیس سیکرٹ سروس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔


سیکرٹ سروس کا سربراہ 'ایکس ٹو' اِن وارداتوں کا کھوج لگانے کے لیے ظفر الملک (اداکار جاوید اقبال جن کا مشہور نام جاوید شیخ ہے) اور جیمسن (مولانا ہپی) کو مامور کرتا ہے۔ اداکار جاوید شیخ کی یہ پہلی فلم تھی۔ فلم میں ایکسٹو کی پسِ پردہ آواز ابن صفی صاحب نے خود ریکارڈ کی تھی۔


ظفر الملک اور جیمسن بڑی دشواریوں اور عجیب سے چونکا دینے والے ڈرامائی واقعات سے دو چار ہوتے ہوئے ایک اعلی عہدے پر فائز وزارتِ خارجہ کے ڈپٹی سکریٹری سلمان صاحب کی بیٹی صبیحہ (اداکارہ شبنم) تک جا پہونچتے ہیں۔صبیحہ، محکمہ انہار کے ایک انجنیئر قدرت اللہ (اداکار لہری، اصل نام سفیر اللہ صدیقی) کی منگیتر ہے۔ اب اسے قدرت کی ستم ظریفی ہی کہیئے کہ قدرت اللہ، صبیحہ سے جتنی محبت کرتا ہے، وہ اُس سے اتنی ہی نفرت کرتی ہے اور اپنادِل ظفرالملک کو دے بیٹھتی ہے۔


محبت اور نفرت کی اس جنگ میں قدرت اللہ کسی طرح بھی اپنی ہار قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ ہر قیمت پر صبیحہ کو اپنانا چاہتا ہے اور اِس مقصد کے حصول کی خاطر اپنے فرض سے منہ موڑ کر ملک و قوم سے غداری پر تیار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب اس غیر ملکی ایجنٹ/بلیک میلر نے قدرت اللہ کو نہری نقشے فراہم کرنے کے لیے کہا تو قدرت اللہ یہ شرط عائد کرتا ہے کہ اگر کسی طرح صبیحہ اُس تک پہنچا دی جائے تو وہ مطلوبہ نقشے بلیک میلر کے حوالے کر دے گا۔


کہانی کی تفصیل کچھ اس طرح ہیکہ آغاز ہی میں اس ذہین مجرم سے ایک غلطی سرزد ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں سیٹھ صمدانی کا بھتیجا راشد ہلاک ہو جاتا ہے۔ راشد کی ہلاکت کا سبب یہ تھا کہ وہ بلیک میلر کی مرضی سے رینا نامی لڑکی کے پاس کوئی پیغام لے کر گیا تھا۔ لیکن بعد میں اپنی مرضی سے اُس سے ملنے گیا۔ وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا۔


رینا اور راشد کے ہلاک ہونے کی خبر اخبار کے ذریعے جمیل (ادکار قربان جیلانی) کو ملی تو وہ اضطرابی کیفیت میں ایک پروفیسر کے پاس پہنچتا ہے۔ کیونکہ جمیل خود بھی پروفیسر کے ذریعہ بلیک میلر کی ہدایات پر اس کے لیے کام کرتا رہا تھا۔ لیکن پروفیسر نے اس کو اپنی مجبوریوں کی داستان سنا کر خاموش کر دیا اور ایک نیا کام سپرد کر دیا۔ بلیک میلر کی ہدایت کے مطابق جمیل کو صبیحہ (اداکارہ شبنم) کی قربت اور دوستی حاصل کرنی تھی جس کے لیے جمیل نے فلمی طریقہ استعمال کیا۔ صبیحہ کو صبح کے وقت ہوا خوری اور چہل قدمی کی عادت تھی، جمیل نے کرائے کے غنڈوں کو صبیحہ کے فرضی اغوا کا فرض ادا کرنے کا کردار سونپا، ظاہر ہے کہ فرضی اغوا کے دوران غنڈوں کی مرمت کے بعد جمیل کے لیے صبیحہ کا قرب اور دوستی حاصل کرنا کچھ دشوار نہ تھا۔ لیکن ظفرالملک کو اس سازش کی خبر عین موقع پر مل گئی۔ اور اس نے جمیل کے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ ظفر الملک، صبیحہ کو بچا لیتا ہے، اس طرح دونوں میں تعارف ہوجاتا ہے۔ لڑائی میں صبیحہ کا لاکٹ گِر جاتا ہے اور ظفر الملک لاکٹ دینے صبیحہ کے گھر جاتا ہے۔ جہاں وہ مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے مگر صبیحہ اسے بچا لیتی ہے۔ دونوں کی ملاقاتیں کلچر سینٹر میں ہوتی ہیں جس کا مالک خاور جمال (اداکار رحمٰن) ہے۔


نقاب پوش، جمیل کو صبیحہ سے تعلقات بڑھانے کے لیے کہتا ہے مگر جب وہ اسے بتاتا ہے کہ ظفر الملک میں صبیحہ زیادہ دلچسپی لے رہی ہے تو بلیک میلر، جمیل کو محتاط رہنے کی ہدایات جاری کرتا ہے۔ ایک موقع پر ظفرالملک اور جیمسن، جمیل کو قابو میں کر لیتے ہیں۔ ظفر الملک اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ ان کے لیے اطلاعات بہم پہنچائے۔ جمیل سب راز اُگل دیتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اصل سرغنہ کو کسی نے نہیں دیکھا۔ بہرحال وہ اُس کو چھوڑ دیتے ہیں۔


صبیحہ جو وزارتِ خارجہ کی ڈپٹی سکریٹری سلمان صاحب کی لڑکی ہے اور بیگم صمدانی (اداکارہ نینی) کی بھانجی ہے جو اپنی سوتیلی ماں (اداکارہ تمنا بیگم) اور نانی (اداکارہ عرش منیر) کے ساتھ رہتی ہے۔ صبیحہ آہستہ آہستہ ظفرالملک سے محبت کرنے لگتی ہے۔ بیگم صمدانی (نینی) سے اسکی دوستی بھی تھی۔ سیٹھ صمدانی نے یہ شادی چونکہ بڑھاپے میں کی تھی لہذا اب پروفیسر کے ذریعہ جمیل کو ایک تصویر بیگم صمدانی تک پہنچانے کی ہدایت کی گئی، بیگم صمدانی کو ایک نقاب پوش بلیک میل کرتا ہے۔ بیگم صمدانی کو انجکشن لگا کر بے ہوش کرکے اس کے بھتیجے راشد کے ساتھ تصویر کھنچوا لیتا ہے۔ یہ کام وہ جمیل (قربان جیلانی) کے ذریعہ کرتا ہے جو خود اس کی بلیک میلنگ کا شکار ہے۔ اس تصویر میں بیگم صمدانی اپنے بھتیجے راشد کی آغوش میں تھیں۔ ظاہر ہے کہ صمدانی کی وفات کے بعد ان کا بھتیجا راشد ہی انکی تمام جائیداد کا وارث ہوتا۔ لہذا پہلے راشد کو اسی تصویر کے ذریعہ بلیک میل کیا جاتا رہا اور جب اس کے انتقال کے بعد ایک ہیرہ ہاتھ سے جاتا رہا تو بیگم صمدانی پر نظر پڑی۔


جمیل کو دی ہوئی تصویر دیکھ کر پہلے تو بیگم صمدانی چراغ پا ہوئیں۔ لیکن جب جمیل نے انہیں تصویر کے تاریک رُخ اور نقاب پوش کے بارے میں اس کے لیے کام کرنے والوں کی مجبوریاں جتائیں تو وہ بھی اپنے خاندان کو ذِلت اور رسوائی سے بچانے کے لیے کام پر آمادہ ہو گئیں۔ ادھر ظفرا لملک اور صبیحہ کے تعلقات بڑھے تو بلیک میلر کو تشویش ہوئی اور اس نے لوسی نامی لڑکی کو اس کے سر پر مسلط کر دیا۔ لوسی (غیر مُلکی اداکارہ شرلے)، ظفر الملک کے قریب آئی تو ظفر نے یہ جاننے کے لیے کہ وہ کیوں آئی ہے ایک چال چلی اور تصویروں کا ایک البم لوسی کو دِکھایا، لوسی اس قدر جَلد کامیابی پر بڑی شاداں تھی۔ دوسرے دِن ظفرالملک اور اس کے ساتھی جیمسن نے ایک منصوبہ مرتب کیا، لوسی ان کے فریب میں گھر تک آگئی، دونوں نے شرابیوں کے کردار ادا کیے اور لوسی کو آزاد چھوڑ دیا۔ وہ ان کے چکر میں آگئی اور لوسی نے ظفرالملک کے البم سے اس کی ایک لڑکی کے ساتھ کھینچی ہوئی تصویر چُرا لی اوروہ تصویر صبیحہ تک پہونچا دی جسے دیکھ کر صبیحہ ظفرالملک سے بدظن ہو جاتی ہے۔


محکمہ انہار کے انجنیئر قدرت اللہ (لہری) نے نقاب پوش سے بلیک میل ہونے کی قیمت یہ طلب کی تھی کہ وہ ظفر الملک کو اس کے اور صبیحہ کے درمیان سے ہٹا دے۔ ظفر الملک اس نتیجہ پر پہنچا کہ لوسی بلیک میلر ہی کے گروہ کے لیے کام کر رہی ہے، ادھر ظفر الملک پہلے ہی جمیل کے ذریعہ اصل حقائق جان چکا تھا، لہذا ایک دِن اس کی ملاقات ایک ایسے انجنیئر سے ہوئی جسے بلیک میلر نے دفاعی تعمیرات کے چند نقشوں کی فراہمی کے لیے مجبور کیاتھا، یہ انجنیئر قدرت اللہ (لہری) تھے۔


ظفر الملک کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ قدرت اللہ نے دو دِن کی مہلت مانگی ہے۔ لہذا اس نے سوچا کہ مطلوبہ بلیک میلر، قدرت اللہ سے نقشے حاصل کرنے ضرور آئے گا۔ اور اسی سوچ نے اسے قدرت اللہ کے کمرہ میں ڈکٹا فون لگانے پر مجبور کر دیا۔ ڈکٹو فون کے ذریعے قدرت اللہ کے گھر میں ہونے والی تمام باتیں ظفر الملک اور جیمسن سنتے رہے۔
صبیحہ، قدرت اللہ سے شادی کے حق میں نہیں تھی۔ لہذا اس نے قدرت اللہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے ظفر کے ساتھ محبت کے چند سین پلے کر ڈالے، مگر قدرت اللہ بڑے ڈھیٹ قسم کے انسان تھے، وہ آسانی سے منگیتر کے عہدہ سے مستعفی ہونے پر تیار نہ ہوئے، اور جب بلیک میلر ان سے نقشے لینے کیلئے آیا تو انہوں نے ظفر کو راستے سے ہٹانے کی شرط پیش کر دی۔


پروفیسر خود بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ظالم نقاب پوش نے اُسے کوڑوں سے مارا ہے۔ نقاب پوش ایک مرتبہ کوڑوں سے جمیل کی بھی پٹائی کرتا ہے۔ اب کہانی کلائیمکس کی طرف پہنچتی ہے۔ بیگم صمدانی نقاب پوش کے کہنے پر صبیحہ کو لے کر کیماڑی میں واقع قدرت اللہ (لہری) کے گھر پہنچتی ہے جہاں نقاب پوش اس کی قدرت اللہ کے ساتھ ایک قابلِ اعتراض حالت میں تصویر کھینچنا چاہتا ہے مگر وہاں ظفر الملک اور جیمسن پولیس کو لے کر پہنچ جاتے ہیں اور صدیقی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مگر نقاب پوش فرار ہو جاتا ہے۔
اس طرح نقاب پوش بلیک میلر، قدرت اللہ کو مزید مہلت دینے کے بعد جیمسن اور ظفرالملک دونوں کو جل دے کر نکل گیا۔ لیکن اب فرار کا راستہ بھی ان دونوں کی نظروں میں آ چکا تھا۔ لہذا جب وقتِ مقررہ پر نقاب پوش، قدرت اللہ کے پاس پہنچا تو ڈرامہ ختم ہونے کے قریب تھا۔ ظفر الملک اور جیمسن نے ان کو گرفتار کرنے کے لیے گھیر لیا۔ لیکن نقاب پوش نے دھوئیں کا بم استعمال کیا۔ اور ایک بار پھر راہِ فرار اختیار کی، دونوں نے تعاقب کیا۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔

جیمسن اور ظفر الملک کار میں تھے اور نقاب پوش موٹر سائیکل پر، ایک خطرناک تعاقب کے بعد یہ دوڑ بھاگ پروفیسر سجاد کی کوٹھی پر ختم ہوئی۔ دروازہ اندر سے بند تھا، ظفرالملک اور جیمسن نے دستک دی تو دروازہ کھل گیا۔ اپاہچ پروفیسر، مووِنگ چیئر پر اُن کے سامنے موجود تھا اور نقاب پوش غائب تھا۔ اب ظفرالملک کے دماغ میں ایک بات نے جنم لیا۔ اس نے سوچا کہ اگر پروفیسر کے بیان کو سچ مان لیا جائے تو دروازہ کھلا ہونا چاہیے تھا کیونکہ پروفیسر کا بیان یہ تھا کہ نقاب پوش صدر دروازے سے آیا تھا اور عقبی دروازے سے نکل گیا تھا۔ اس نے ذہن پر ذرا سا زور دیا تو بات سمجھ میں آ گئی۔ کیا معذور پروفیسر نے خود ٹانگوں سے دروازہ بند کیا ہے۔ لیکن وہ اس نکتہ پر زیادہ زور نہ دے سکا۔ بہت ممکن ہے کہ نقاب پوش ہی نے دروازہ بند کیا ہو اور وہ خود بھی یہیں موجود ہو۔ اور پروفیسر نے جان کے خوف سے یا رُسوائی سے بچنے کے لیے یہ بات دانستہ اس سے چھپائی ہو۔ لہذا اس نے خانہ تلاشی پر زور دیا۔ لیکن وہ جیسے ہی بند دروازے کی جانب مُڑا، بوڑھے پروفیسر نے اس پر حملہ کر دیا۔ خود جیمسن بھی ٹھیک اسی لمحے موونگ چیئر پر پروفیسر کی سِیٹ کے نیچے دَبی ہوئی نقاب کو دیکھ چکا تھا۔ لیکن اچانک نگاہوں کے سامنے تارے ناچ گئے اور وہ بے ہوش ہو گیا۔


اب اصل مقابلہ پروفیسر اور ظفر الملک کے درمیان تھا۔ دونوں بڑے خوفناک انداز میں ٹکرائے، مقابلہ دیر تک جاری رہا اور آخر کار پروفیسر، ظفرالملک کی گردن پر اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بہت ممکن تھا کہ وہ ظفر کا گلا دبانے میں بھی کامیاب ہو جاتا کہ جیمسن کو ہوش آ گیا۔ اس نے گیسر (زہریلی گیس خارج کرنے والی ڈبیہ) کے ذریعہ پروفیسر کو بے ہوش کر دیا۔ اس کے بعد میک اپ اُتارا گیا تو یہ دیکھ کر سب کو حیرت ہوئی کہ نقاب پوش کوئی اور نہیں بلکہ شہر کے مشہور کلب کا مالک خاور جمال (اداکار رحمٰن) تھا۔ اس کے بعد بیگم صمدانی کو وہ تصویریں اور نیگیٹو واپس کر دیا گیا جس کے ذریعہ وہ بلیک میل کی جا رہی تھیں۔


فلمی کردار اور تخلیق کار: وہ لوگ جنھوں نے دھماکہ فلم میں کام کیا

فلمی ستارے: شبنم، جاوید اقبال، رحمٰن، مولانا ہپی، نینی، تمنابیگم، قربان جیلانی، نغمہ، لوسی، عرش منیر، لہری، وارث، نہال
مہمان فنکار: راشد، نعیمہ، شائستہ قیصر
نئی دریافت: اداکار انور اور اداکارہ شرلے
ہدایت کار: قمر زیدی
مصنف: ابن صفی بی اے
فلمساز: مولانا ہپی
نغمہ نگار: میر تقی میرؔ، ابن صفیؔ، سرور بارہ بنکوی اور وِلیم شیکسپیئر
موسیقار: لعل محمد اقبال
عکاسی/فوٹوگرافی: مدد علی مدن ، رشید چوہدری اور شفّن مرزا
تدوین: اے سعید، ظہیر مہدی
عمل کیمیائی: تصویر احمد
صدا بندی: ہاشم قریشی
فائیٹ: زبیر
گلوکار: حبیب ولی محمد، شہناز بیگم، رُونا لیلیٰ اور سلیم شہزاد


حوالہ جات:
  • ہفت روزہ نورجہاں، کراچی۔ عید الضحیٰ ایڈیشن، دسمبر 1974ء
  • ہفت روزہ نگار، کراچی، بدھ، 25 دسمبر 1974ء، عید الاضحیٰ ایڈیشن
  • ابن صفی صاحب کی آفیشل ویب سائیٹ ابن صفی ڈاٹ انفو (تخلیق کار: محمد حنیف صاحب)
  • دی گریٹ ابن صفی فینز کلب (فیس بک گروپ) میں بھی یہ کہانی شیئر کی گئی ہے اور کالم: "ابن صفی ایک عہد ساز شخصیت" میں پہلی بار اس انداز سے شیئر کی گئی۔
  • بشکریہ: راشد اشرف صاحب، احمد صفی صاحب، ابرار صفی صاحب

***
تحقیق و تحریر: سید فہد حسینی ترمذی
ایم اے۔ آئی آر۔ مانسہرہ، ہزارہ پاکستان۔

First Urdu spy film based on Ibn-e-Safi's Imran series characters, written by Ibn-e-Safi and released in 1974.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں