نیا سال اور ادب کے نئے امکانات - اسلم جمشیدپوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-04

نیا سال اور ادب کے نئے امکانات - اسلم جمشیدپوری

نئی صدی نے ہمیں ہر شعبے میں ترقی عطا کی ہے،خاص کر اگر بات کی جائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اور ہندوستان کی، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہر شعبے میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ چنانچہ اردو نے بھی ہر شعبے میں نئے نئے سنگ میل عبور کئے ہیں، خواہ وہ کتابوں کی اشاعت کا معاملہ ہو یا اخبارات و رسائل کی طباعت و اشاعت ہو، ہم دوسری زبان کے مقابل آئے ہیں۔
اردو میں بھی اب بے شمار معیاری کتابیں شائع ہورہی ہیں جنہیں دوسری زبان سے بہتر نہیں تو کم تر بھی نہیں آنکا جا سکتا۔ یہ امید بےجا نہیں کہ 2022ء میں بھی یہ پیش رفت جاری رہے گی۔


روزناموں کی بات کی جائے تو اب اردو میں بھی ملٹی ایڈیشن اخبارات کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ انقلاب، راشٹریہ سہارا، صحافت، قومی تنظیم، اخبار مشرق، ہمارا سماج، نیا نظریہ جیسے درجنوں روزنامے اردو میں ایک سے زائد شہروں سے شائع ہوتے ہیں۔ یہ روز نامے خاص کر انقلاب، راشٹریہ سہارا وغیرہ کو ہم دوسری زبان کے کسی بھی روزنامے کے مقابل رکھ سکتے ہیں۔


اردو میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ نئے طور پر سوچنے کا بھی سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اب جدیدیت یا مابعد جدیدیت کی باتیں پرانی ہو گئیں۔ پچھلے برس جب اردو کے نامور ناقد شمس الرحمان فاروقی کا انتقال ہوا تو ایک بار پھر سے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی بحثیں شروع ہو گئیں۔ ذاتی طور پر میرا ماننا یہ ہے کہ اب ہم نئی صدی کے 21 سال گزار چکے ہیں۔ ایسے میں نہ تو جدیدیت ہمارے ساتھ ہے نہ مابعد جدیدیت بلکہ ادب میں نئے رجحان کی آمد آمد ہے۔ ہماری نئی نسل کے بہت سے افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، محقق اور ناقد اب نئے ڈھنگ سے سوچنے اور سمجھنے لگے ہیں۔


ادب میں اب بہت ساری چیزیں نئی آ گئی ہیں، ناول نئے طریقے سے لکھا جا رہا ہے۔ افسانے میں نئی تکنیک کا استعمال ہو رہا ہے اور ہمارے شاعر بھی نئی ترکیبیں وضع کر رہے ہیں۔ ہمارے ناقدین نئے رجحان کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں پروفیسر قدوس جاوید ( جموں ) نے جب اقلیتی ڈسکورس کی بات کی تو سبھی لوگ حیران تھے لیکن ان کے دلائل بہت پختہ ہیں۔
اردو میں دلت ڈسکورس بھی آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح 1992ء کے بعد ہمارے فکشن نگاروں کے یہاں بھی ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔ ایسی بہت سی تخلیقات سامنے آئی ہیں جن میں اقلیتوں کے تعلق سے تحفظ اور شناخت کے مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ اس میں خواہ حسین الحق ہوں، سید محمد اشرف ہوں، بیگ احساس ہوں یا پھر مشرف عالم ذوقی اور سلام بن رزاق، یا رحمن عباس ہوں یا اشتیاق سعید ہوں، سب کی تخلیقات میں اقلیتوں کے معاملات کو مضبوطی سے اٹھایا گیا ہے۔ یہ اقلیتی ڈسکورس کے تحت ہی آتا ہے۔


دلت ڈسکورس بھی اب اردو میں بہت دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سلسلے میں احمد صغیر اور نزہت پروین کی کتابوں میں دلت ڈسکورس پر تفصیل سے بحث ملتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اردو میں دلت افسانوں اور ناولوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب نئی صدی کی نئی سوچ کا نتیجہ ہے۔


کولاژ تکنیک میں افسانے اور ناول بھی لکھے جار ہے ہیں۔ اس تکنیک میں اب تک کئی موضوع منظر عام پر آ چکے ہیں۔ نور الحسنین کا تحریر کردہ ناول "چاند ہم سے باتیں کرتا ہے" اس تکنیک میں لکھا گیا پہلا ناول ہے۔ اختر آزاد کا ناول "کرونا 360/ ڈگری" اور راقم الحروف کا ناول "دھنورا" اسی تکنیک میں لکھا گیا ناول ہے۔
اس تکنیک میں، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، مختلف واقعات و حادثات کو ایک کڑی میں پرویا جاتا ہے۔ اس میں کوئی ایسا گوشت پوست کا مرکزی کردار نہیں ہوتا جو شروع سے آخر تک ناول پر اثر انداز ہو۔ اس میں زمانہ، وقت، چاند، عشق ، معاشرہ، گاؤں، بیماری وغیرہ مرکزی کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں جو ناول میں پیش ہوئے تمام واقعات و حادثات کو ایک بہت باریک دھاگے میں پرونے کا کام کرتے ہیں۔
اس تکنیک میں افسانے بھی خوب لکھے جا رہے ہیں۔ اختر آزاد، مشرف عالم ذوقی، شکیل افروز اور شوکت حیات وغیرہ کے بہت سے افسانے اس تکنیک پر مبنی ہیں۔ اس کے ڈانڈے شعوری اور لاشعوری طور پر عینی آپا سے ملتے ہیں۔ پروفیسر قدوس جاوید اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
"21/ویں صدی میں اردو ناول کا ایک اہم رجحان ضمنی اور ذیلی تہذیبوں، دلت طبقہ اور مسلم اقلیتی طبقے کے مسائل کی تہوں اور طرفوں کی زبان میں کھول کر بیان کرنا ہی ہے۔"


انہوں نے مزید لکھا:
"اماوس میں خواب (حسین الحق ) ، جہاں تیرا ہے (عبد الصمد )، لے سانس بھی آہستہ (مشرف عالم ذوقی ) ، تلک الایام (نور الحسنین )، ابلہا کہاں جانا میں کون ( ذکیہ مشہدی) اور ہجور آما ( شبیر احمد ) وغیرہ اپنے اپنے مخصوص ویژن کی وجہ سے بڑے ناول مانے جا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کے ان ناولوں میں وژن کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں دلتوں اور مسلم اقلیت کے درد کو بطور خاص بڑی جرات مندی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
[اردو ناول کا مزاج اکیسویں صدی میں ، پروفیسر قدوس جاوید؛ ہماری آواز : نئی صدی کی دو دہائیوں کا اردو فکشن نمبر؛ ص:18]


اکیسویں صدی میں ادب کے طالب علموں اور اسکالرز کے سامنے ایک بڑا سوال: "مابعد جدیدیت کے بعد کیا؟" ہے، جس کا جواب تلاش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
نئے نئے رجحان اور طریقے آ رہے ہیں جو فکشن ہی نہیں دیگر تحریروں میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کا نام ہم کچھ بھی دے سکتے ہیں۔ مثلاً اسے جدید ترقی پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے، جس میں مابعد جدیدیت ، حدیدیت اور ترقی پسندی کے بہتر اوصاف بھی نظر آتے ہیں اور واضح امتیازات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس جدید ترقی پسندی میں ترقی پسندی کی طرح کوئی نعرہ، پروپیگندہ یا کسی خاص جماعت سے وابستگی یا لال رنگ کا دور تک کوئی شائبہ نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے کی بات ہے تو فرد کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ جہاں پورے معاشرے کے مسائل ( دلت طبقہ اور دیگر اقلیتیں ) کو اہمیت دی جاتی ہے وہیں فرد کے سماجی رشتوں اور اس پر ہو رہے ظلم و ستم ( ماب لنچنگ ، آنر کلنگ اور اجتماعی جرم ) کی بہتر عکاسی اردو ادب میں ہو رہی ہے۔


جدید ترقی پسندی میں زمانے کی رفتار کے ساتھ ادب بھی ہم قدم ہے اور آنے والی تمام ترقیوں کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ گذشتہ برس 2021ء میں ہمارے نوجوانوں سے فرداً فرداً مختلف پلیٹ فارم سے اس بات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے کہ مابعد جدیدیت اب قصۂ پارینہ ہو گئی ہے اور نئی صدی میں نئے رجحان کی آمد آمد ہے۔


***
منقول بشکریہ: روزنامہ "انقلاب" (ممبئی ایڈیشن، 2/جنوری 2022ء)
بہ اجازت: پروفیسر اسلم جمشیدپوری

New Year and new possibilities in the field of literature. Article: Prof. Aslam Jamshedpuri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں