یہ بحث بہت پہلے چھڑی تھی کہ ادب زندہ ہے یا مر گیا ، اور آئندہ اس کے کیا امکانات ہیں۔ مولانا سلیم احمد نے اپنے استاد محترم مرحوم حسن عسکری کی زبانی یہ سن کر ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ ادب بیچارہ تو انتقال کر گیا ، اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
لہٰذا فلم ایکٹرز، کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑی سن لیں، خوش ہو جائیں کہ ادب مر چکا ہے، ادیب اب چھولے بیچیں گے ، چنے کھائیں گے اور لڑکیوں کے خوابوں کے دروازے اور آٹو گراف بک کے چور دروازے شاعروں اور ادیبوں کے لئے بند ہو چکے ہیں ، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔
بحث چلتی رہی ، ادبی رسائل بدستور نکلتے رہے ، ردی کے بھاؤ بیچے جاتے رہے ، علامتی افسانے اور پروز پوئم پڑھ پڑھ کر لوگ سر کے بل کھڑے ہوتے رہے ، دماغ کے ریشے اور پٹھے مضبوط کرتے رہے ، کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔ یہاں تک کہ جاسوسی ڈائجسٹ، سب رنگ ڈائجسٹ کا دور آ گیا، جنس و جرم اور دیو مالائی کہانیوں کی دھند میں تخلیقی ادیبوں کے چہرے غروب ہوتے چلے گئے۔
ایک صبح چائے کی پیالی کو ہاتھوں میں تھامے اخبار پر سرسری نگاہ دوڑاتے ہوئے ایک خبر پر آنکھیں رک گئیں۔ جسٹس ایم بی احمد نے جامعہ کراچی کی ادبی عدالت کی طرف سے ادب کو قومی ملزم ٹھہراتے ہوئے اسے سمن جاری کر دیا تھا اور اس کے گواہ کے طور پر مشہور جاسوسی ناول نگار ابن صفی۔۔۔ شاعرہ پروین شاکر، مدیر سب رنگ شکیل عادل زادہ، شاعر انجم اعظمی اور محقق و استاد ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔
انہی گرمیوں کی دوپہر کا ذکر ہے ، جب جامعہ کراچی کے کنویکیشن گراؤنڈ میں وسیع و عریض پنڈال کے ٹھیک سامنے مختلف تعلیمی اداروں کے پرچم لہرا رہے تھے۔ یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیوں کا جھنڈ در جھنڈ پنڈال میں داخل ہو رہا تھا اور لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کرنے والے کی آواز گونج رہی تھی کہ:
اس ادبی عدالت کے وکیل استغاثہ ہیں حسین حقانی اور طاہر مسعود (عقاب) جب کہ وکیل صفائی کے طور پر پیش ہو رہے ہیں، صحافی سجاد میر اور شوکت عابد۔
سب سے پہلے آنے والے گواہان میں ابن صفی تھے ، اس کے بعد پروین شاکر اپنی ساڑھی کے پلو سنبھالے ہوئے آئی، ابوالخیر کشفی تو یونیورسٹی ہی سے متعلق تھے ، البتہ جسٹس ایم بی احمد نے پابندی وقت کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھا ، شکیل عادل زادہ اور انجم اعظمی فرار تھے۔
ساڑھے گیارہ بجے موکل طالب علم کی جانب سے عطا محمد تبسم نے استغاثہ پیش کیا، جس کے تحت ملزم ادب پر یہ الزام تھا کہ اس نے ایک ایسا ادب پیش کیا جو بے معنی و بے مقصد تھا ، جس نے جنس و جرم کو فروغ دیا، عریانی و فحاشی کو پروان چڑھایا ، اقتدار کے آگے سر جھکایا اور عوام دشمن طاقتوں کا ساتھ دیا۔ طالب علم کو گمراہ کیا اور ادب کے نام پر بے ادبی اور شاعری کے نام پر بد ذوقی کا پرچم بلند کیا۔
پیش کار عدالت نے جب استغاثہ پڑھ کر سناتے ہوئے دو بار درج ذیل کو زیر سے پڑھا۔ تو سامنے بیٹھی ہوئی لڑکیوں نے باآواز بلند پیش کار عدالت کی تصحیح کی اور کہا:
"جی نہیں درج ذیل"۔
استغاثہ پڑھنے کے بعد جج جسٹس ایم بی احمد نے حکم صادر فرمایا کہ:
"ہم اس ادبی عدالت میں حقیقی عدالتی کارروائیوں کا طریقہ کار اپناتے ہیں تاکہ طلبا و طالبات بھی قانونی طریقوں سے واقف ہو جائیں۔۔۔ اور اس طرح سے میں وکلاء استغاثہ سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے گواہ پیش کریں۔"
جس پر وکیل استغاثہ حسین حقانی نے کہا کہ: "ادبی عدالتوں کی اپنی روایات ہوتی ہیں۔۔۔ اگر یور آنر آپ آج کی اس عدالت کو بالکل ہی قانونی انداز میں چلانا چاہتے ہیں تو پھر حکم دیجئے کہ ادبی عدالتوں کی اپنی روایات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔۔۔
جیوری دو ارکان پر مشتمل تھی ، صدر یونین محمود احمد اللہ والا اور شعبہ اردو کے استاد جمیل اختر۔۔۔ محمود اللہ والا نے اس پر عدالت عظمیٰ سے سفارش کی کہ آن کی ادبی عدالت کو ادبی روایات کے مطابق ہی چلایا جائے۔
سب سے پہلے وکیل استغاثہ حسین حقانی نے اپنی تقریرکی ابتدا کرتے ہوئے کہا۔
"یور آنر۔۔۔ محترم وکیل صفائی (سجاد میر) میرے استاد ہیں اور استاد بہر حال استاد ہوتا ہے۔ گوکہ انہوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ بلی نے شیر کو سب کچھ سیکھا دیا تھا۔ لیکن درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ آج کی یہ عدالت درخت پر چڑھنے کی کوشش ہی نہ بن جائے۔"
جسٹس ایم بی احمد نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے وقار کا خیال رکھا جائے اور اس کے بارے میں کسی قسم کے ریمارکس پاس نہ کئے جائیں۔ حسین حقانی نے اس پر معذرت کرتے ہوئے اپنی بات مزید آگے بڑھائی۔ اسٹیج پر وکلائے استغاثہ کی جانب ادبی رسائل اور جرائد اور اخبارات کے ایڈیشنز کی بھرمار تھی۔۔ جو عدالت کے سامنے بطور ثبوت پیش کرنے کے لئے لائے گئے تھے۔۔۔ وکیل استغاثہ نے کہا:
"ہمارے جتنے الزامات ہیں وہ زندہ اور موجودہ ادب پر ہیں اور اس معاملے میں اگر وکلائے صفائی کی جانب سے کلاسیکی ادب کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسی کوشش قابل قبول نہیں ہوگی۔
ملزم ادب نے موجودہ معاشرے کو صرف اپنی بے مغز تحریروں سے خراب ہی نہیں کیا بلکہ اس نے اقتدار کے قدم بھی چومے ہیں۔ اور اس وقت جب کہ پوری قوم ایک آمر سے لڑ رہی تھی، گولیاں کھا رہی تھی، ملک کے چالیس ادیبوں نے اپنے دستخط سے ایک بیان جاری کیا، جس میں بھٹو حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے عزائم کا اظہار کیا گیا، یہ چالیس ادیب نہیں چالیس چور تھے، جنہیں اپنے علی بابا کی تلاش تھی۔۔ (پنڈال سے بھرپور تالیاں)"
وکیل استغاثہ حسین حقانی نے ملزام ادب کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ:
"اس کے نام نہاد ادیبوں نے میرے ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی۔"
ثبوت کے طور پر ایک افسانے کا حوالہ دیا گیا۔۔۔ یہ افسانہ تیس برس قبل کا تھا۔ جسے ابراہیم جلیس نے لکھا تھا، افسانے کا عنوان تھا "دو ملک ایک کہانی" جس میں روس کی بے انتہا تعریفیں کی گئی تھیں اور لکھا گیا تھا کہ اب پاکستان میں روسی مصنوعات فروغ پائیں گی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسانہ بے حد پرانا ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ اگر وکیل استغاثہ آج کے افسانوں کا حوالہ دیں۔
وکیل صفائی سجاد میر نے اسی بات کو مزید ہوا دیتے ہوئے کہا کہ وکیل استغاثہ کا اپنا بیان تضاد سے بھرپور ہے۔ تقریر کی ابتداء میں انہوں نے کہا استغاثہ زندہ، موجود اور آج کے ادب پر دائر کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ خود ہی تیس سالہ پرانے افسانے کو رد کر رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ادب کو وقت کی چار دیواری میں قید نہیں کیا جا سکتا ، ادب آفاقی ہے اور سارے زمانوں پر محیط ہے۔
حسین حقانی نے اس بات کے جواب میں کئی باتیں اور کہیں مگر بے اثر گئیں۔۔۔ تقریر کے اختتام پر فاضل وکیل استغاثہ نے ایک گواہ کو جرح کے لئے طلب کرنے کی اجازت چاہی اور کہا:
"معزز عدالت کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ گواہ اپنی چند ناگزیر وجوہات کے سبب اس کھلی عدالت میں اپنا نام نہیں بتائے گا۔ بلکہ وہ عدالت کو خفیہ طور پر اپنا نام اور اپنی ولدیت بتائے گا"۔
اس پر عدالت نے کہا کہ: "بغیر ولدیت بتائے تو گواہ پر جرح نہیں کی جا سکتی۔"
وکیل استغاثہ کے زیادہ اصرار پر عدالت نے گواہ پیش کرنے کی اجازت دے دی اس کے بعد وکیل استغاثہ نے باقاعدہ ایک اعلان کیا کہ: "ہمارا گواہ اس پنڈل میں جہاں کہیں بھی ہے قومی ضرورت کے تحت فوری طور پر عدالت کے رو برو حاضر ہو جائے۔"
اسٹیج کے پیچھے سے ایک شخص برآمد ہوا۔ بڑھے ہوئے بال ، بکھری ہوئی داڑھی ، عجیب و غریب لباس، سر پر ایک کیپ اور انگلیوں میں ایک تسبیح جسے وہ انگلیوں کے درمیان گھما رہا تھا۔ خالص بدمعاشوں کی طرح۔۔۔
جسٹس ایم بی احمد نے کہا : گواہ کو چاہئے کہ وہ عدالت کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھے۔۔ اور انگلیوں سے تسبیح گھمانے کا کام بند کر دے۔
نامعلوم گواہ نے کیپ اتار کر میز پر رکھ دیا اور خاموشی سے بیٹھ گیا ، اس کے باوجود وہ پنڈال میں بیٹھے ہوئے لڑکے لڑکیوں کو یوں گھور رہا تھا جیسے ابھی مجمعے پر چھلانگ لگا دے گا اور دس بارہ کو قتل کرکے ایک آدھ کو اغوا کر لے جائے گا۔
وکیل استغاثہ: مسٹر گواہ! یہ تم نے اپنا کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟
گواہ: حلیہ؟ ہم تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔
وکیل استغاثہ: تم ٹھیک ٹھاک نہیں ہو، عدالت کو سچ سچ بتاؤ کہ تمہاری یہ گت کیسے بنی؟
گواہ: جناب بات یہ ہے کہ ہم جاسوسی قسم کے ڈائجسٹ پڑھتا تھا۔
وکیل استغاثہ: کون سا جاسوسی ڈائجسٹ؟
گواہ:ارے جاسوسی ڈائجسٹ کیا کم ہے؟
سب رنگ، گل رنگ ڈائجسٹ، عمران ڈائجسٹ، کامران ڈائجسٹ اور یہ جو اپنا ابن صفی ہے نا۔۔۔ اس سالا کی رائٹنگ تو ایسا ہے۔۔۔ ہم تم کو ایک بات بتائے، ہم ایکسٹو ہے ، بالکل اے ون ایکسٹو۔۔۔
(ابن صفی سینے پر ہاتھ باندھ کر زور زور سے ہنسنے لگتے ہیں)
وکیل استغاثہ: تمہیں یہ ڈائجسٹ اور جاسوسی ناول پڑھنے کے لئے کہاں سے ملے؟
گواہ: اماں تم کو نہیں معلوم ادھر سڑک کے کنارے پر محلہ میں دو دو آنے پر ایک ناول ڈیلی ملتا ہے۔ ہم نے ادھر ہی سے پڑھا۔
وکیل استغاثہ: ناول پڑھ کر تم پر کیا اثر ہوا؟
گواہ: اثر وغیرہ کیا ہونا تھا۔۔ ہم نے ہوائی جہاز اغوا کرنے کا پروگرام بنایا۔ اور بہت سی چیزیں اغوا کرنا تھا۔۔۔ مگر ہم نے اغوا نہیں کیا۔۔۔ البتہ ہم نے کئی جگہ ڈاکے مارے اور جیل بھی کاٹا۔
اس موقع پر سجاد میر۔۔۔ اٹھ کر جسٹس صاحب کے سامنے پہنچ گئے۔
"جناب یہ کیا مذاق ہے؟ ہمیں گواہوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا اب ہم اپنے گواہ کیسے پیش کریں۔"
جیوری کے اراکین نے انہیں بے حد سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی اگر گواہ نہ پیش کئے جائیں تو کیا حرج ہے؟ ادھر یہ بحث چل رہی تھی اور دوسری طرف عدالت کے احاطے میں موجود سامعین بور ہو کر مڑ مڑ کر پیچھے دیکھنے لگے جب بد نظمی کی یہ صورت پیدا ہوئی تو مجبوراً سجاد میر کو واپس بیٹھنا پڑا۔
وکیل استغاثہ نے گواہ پر اپنے جرح کو مکمل کرلیا تو عدالت نے وکلا صفائی سے کہا کہ اگر آپ گواہ پر جرح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
معاون وکیل صفائی شوکت عابد نے نہایت ہی سنجیدگی سے کہا کہ:
"یور آنر ہم اس آئٹم کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں اس لئے ہم گواہ پر کوئی جرح نہیں کریں گے۔"
اس کے بعد دوسرا گواہ پیش کیا گیا جو ایک ناکام عاشق تھا، لیکن وکیل استغاثہ کی جرح کے دوران وہ خاصا نروس ہو گیا۔
جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ: "یور آنر اصل میں یہ بیچارہ گواہ وکیل استغاثہ کے رٹے ہوئے مکالمے بھول گیا ہے۔"
دونوں گواہوں کی پیشی کے بعد وکیل صفائی کو دعوت دی گئی کہ وہ عدالت کے روبرو اپنے دلائل پیش کریں۔۔۔ سجاد میر نے کہا۔
"یور آنر۔۔۔ بنیادی طور پر یہ استغاثہ غلط ہے ، ادب، ملزم ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ادب تو مسیح ہے ، ادب ابن آدم ہے، ادب خلیل ہے، ادب موسی کی لاٹھی ہے۔" (وغیرہ وغیرہ)
وکیل استغاثہ نے ایک ادیب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ادیب نے لکھا ہے ادب میں طاعون پھیل رہا ہے ، میں کہتا ہوں کہ ادب میں طاعون وکیل استغاثہ کا نام ہے۔ وکیل استغاثہ تو ادب کو سمجھتے ہی نہیں وہ ادب کے خلاف مقدمہ کیا دائر کریں گے۔ اور مقدمہ؟ اس ملک میں مقدمہ تو منٹو جیسے ادیب پر چلا ہے۔ عصمت پر مقدمہ چلا ہے ، لیکن بعد میں یہی ادیب اردو کے عظیم ادیب ثابت ہوئے۔ اس کے باوجود یور آنر میں کہتا ہوں کہ ادیب تو غلط ہو سکتے ہیں، ادب غلط نہیں ہو سکتا۔ مسلمان تو گمراہ ہو سکتے ہیں لیکن اسلام کیسے گمراہ کن مذہب ہو سکتا ہے؟ آج یہاں ادیبوں کے نمائندے کے طور پر شکیل عادل زادہ کو بلایا گیا جو کہ سرے سے ادیب ہی نہیں ہے۔
اس موقع پر وکیل استغاثہ 'عقاب' کے طاہر مسعود نے اعتراض کیاکہ وکیل صفائی جوش خطابت میں خود ان کے خلاف دلائل دے رہے ہیں جن کا انہیں دفاع کرنا ہے۔"
سجاد میرے اتنے جذباتی انداز میں تقرر کررہے تھے کہ ان پر تقریر کرنے سے زیادہ تقریر جھاڑنے کا گمان گزر رہا تھا۔۔۔ دوران تقریر جذبات میں الفاظ گم ہو جاتے اور زبان لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو جاتی تو مجمعے میں سے ایک شور بلند ہوتا۔۔۔!
سجاد میر نے تقریر کے دوران ایک سادہ کاغذ عدالت کی خدمت میں پیش کیا کہ اس کاغذ پر دنیا کا اعلیٰ ادب لکھا ہے اور اسے صرف وہی پڑھ سکتا ہے جو پڑھنا جانتا ہے۔ وکیل استغاثہ حسین حقانی نے جواب میں کہا کہ ہم نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی بادشاہ ننگا ہے کیونکہ اس کے خیال میں وہ ایک ایسا لباس پہنے ہوئے تھا جو صرف با صلاحیت افراد ہی کو نظر آ سکتا تھا۔ تو اس کاغذ کا بھی اسی لباس جیسا حال ہے۔
سجاد میر کی تقریر کے خاتمے کے بعد جیوری کے رکن محمود احمد اللہ والا نے کہا کہ:
"اب بزم کے گواہان پر جرح کی جائے گی لہٰذا میں سب سے پہلے ڈاکٹر ابوالخیر کشفی سے درخواست کروں گا کہ وہ جو کچھ بیان دینا چاہتے ہیں بیان دیں۔"
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی پر جرح کرتے ہوئے وکیل استغاثہ طاہر مسعود نے سوال کیا:
"کیا آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ملزم ادب نے جہاں تفریح کے نام پر جنس و جرم کی ترغیب دی وہیں ادب میں جدت اور جدیدیت کے بہانے بے سروپا اور بے معنی تخلیقات پیش کی ہیں؟"
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے اس الزام کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ جس پر طاہر مسعود نے ثبوت کے طور پر ماہنامہ "سیپ" کے ایک شمارے سے ایک نظم سنائی۔ نظم کے کچھ مصرعے یوں تھے۔
"منافقوں کے پھیلاؤ میں دن کا گھوڑا
روح کے بدن پر سورج بیمار کا آئینہ جسم
آدھے پناہ گاہ میں وقت کدھر ہے؟"
وکیل استغاثہ نے ادب کے نمائندے سے دریافت کیا کہ کیا یہ بے سروپا ادب نہیں ہے؟
ڈاکٹر کشفی نے جواب میں کہا کہ بھئی ہر عہد کی اپنی علامتیں اور استعارے ہوتے ہیں۔ جب غالب نے بھی غزلیں کہی تھیں تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے اور ان سے پوچھتے کہ آپ کی غزل ہے:
ع روغن گل سے انڈا نکال
اس کے کیا معنی ہیں؟
وکیل استغاثہ نے کہا کہ غالب نے ایسی کوئی غزل نہیں کہی تھی ، لیکن آج کے شاعر ایسی نظمیں کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کا کوئی مفہوم ہے تو وہ بیان کیوں نہیں کیا جاتا۔۔۔؟ ڈاکٹر ابو الخیر کشفی نے جواباً کہا کہ اتنے مختصر وقت میں کسی نظم کی تفہیم بہت ہی مشکل کام ہے۔ وکیل صفائی شوکت عابد نے سوال اٹھایا کہ اگر فاضل وکیل استغاثہ کی سمجھ میں یہ نظم نہیں آ رہی ہے تو اس میں نظم کا کیا قصور ہے؟
وکیل استغاثہ طاہر مسعود نے جواب دیا کہ قصور نظم کا نہیں شاعر کا ہے کہ اس نے ادب کی آڑ لے کر اوندھے سیدھے خیالات کا اظہار کر کے نہ صرف قاری کو پریشان کیا بلکہ ہمارے موکل طالب علم کا وقت بھی ضائع کیا۔
وکیل صفائی سجاد میر نے جرح کرتے ہوئے گواہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے خیال میں ان وکلاء کو حامد عزیز مدنی جیسے خوبصورت شاعر کے بھی کچھ شعر یاد ہوں گے؟ ڈاکٹر کشفی نے کہا کہ شاعری اور ادب کا ذوق گھر بیٹھے بیٹھے نہیں آ سکتا، اس کے لئے موسیقی اور دیگر فنون کی طرح ریاض کرنا پڑتا ہے۔
جب وکیل استغاثہ طاہر مسعود نے "سیپ" کا شمارہ پیش کیا تو وکیل صفائی سجاد میر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ:
"یور آنر، فاضل وکیل شروع ہی سے اس رسالے میں چھپنے کے خواہشمند رہے ہیں چونکہ اس رسالے میں وہ نہیں چھپ سکے۔ اس لئے اس کے خلاف بول رہے ہیں"۔
وکیل استغاثہ نے جواباً کہا کہ: "میں اس میں چھپ چکا ہوں۔"
وکیل صفائی نے کہا کہ یور آنر میں یہی ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ فاضل وکیل ان رسالوں میں خود بھی چھپتے رہے ہیں خود انہوں نے وہ ادب لکھا ہے جس کے خلاف آج یہ بول رہے ہیں۔ جس پر وکیل استغاثہ طاہر مسعود نے کہا کہ : "جی ہاں میں گندگی کے ڈھیر پر گلاب کے پھول کھلاتا رہا ہوں۔"
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے بعد "خوشبو" کی شاعرہ پروین شاکرکٹہرے میں آئیں۔ پروین نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ استغاثہ میں ملزم ادب کے عمر کی وضاحت نہیں کی گئی ہے جو کہ بہت ضروری تھا۔
پروین شاکر پر جرح کرتے ہوئے وکیل استغاثہ طاہر مسعود نے دریافت کیا۔
وکیل استغاثہ : آپ کی شاعری کے مجموعہ کا نام "خوشبو" ہے جو کہ یقیناً پٹا پٹایا اور گھسا ہوا لفظ ہے آپ نے اس مجموعے کا نام "بدبو" کیوں نہیں رکھا، جب کہ اس میں نیاپن بھی ہے جدت بھی؟
پروین شاکر: میں جدت کو معیار نہیں سمجھتی۔ اصل اہمیت خوبصورتی اور حسن کو حاصل ہے۔
وکیل استغاثہ: تو کیا خیال ہے بد صورتی میں حسن نہیں ہوتا؟
پروین شاکر: جی نہیں بد صورتی بدصورتی ہوتی ہے۔
وکیل استغاثہ: آپ کی ایک نظم ہے "ضد" چند لائنوں کی اس نظم میں صرف اتنی سی بات ہے کہ آپ کسی لڑکے کو فون پر یہ بتانا چاہتیں تھیں کہ کل موسم کی پہلی بارش تھی۔ سوال یہ ہے کہ آپ فون کر لیتیں ، نظم کہنے کی کیا ضرورت تھی؟
پروین شاکر: ابھی آپ کچی عمر کے ہیں، اس لئے ان باتوں کو نہیں سمجھ سکیں گے۔
(پنڈال میں شور بلند ہوا)
مائیک پر جرح کرنے حسین حقانی آئے انہوں نے پوچھا۔
وکیل استغاثہ: آپ کی شاعری کا کیا مقصد ہے؟
پروین شاکر: آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟
جسٹس ایم بی احمدـ: گواہ صرف جرح کے جواب دے سکتی ہیں خود سوال نہیں کر سکتیں۔
وکیل استغاثہ: تو پھر آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کی شاعری کا کیا مقصد ہے؟
پروین شاکر: اگر آپ کی زندگی کا کوئی مقصد ہے تو پھر شاعری کا بھی یقیناً کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوگا۔
وکیل استغاثہ: وہی مقصد تو دریافت کر رہا ہوں کہ وہ کیا ہے؟
اس موقع پر وکیل صفائی اعتراض کرنے کھڑے ہوئے۔ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حسین حقانی نے پوچھا۔
وکیل استغاثہ: یور آنر، ان سے پوچھا جائے کہ ان کے کھڑے ہونے کا کیا مقصد ہے؟
پروین شاکر: میری شاعری کا مقصد نیکی، خیر اور حسن کا فروغ ہے۔
وکیل استغاثہ: اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی شاعری میں نیکی اور خیر کا فقدان ہے۔
پروین شاکر کے بعد ملزم ادب کے تیسرے گواہ ابن صفی مائیک پر آئے ، انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ سب سے پہلے تو میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے بحیثیت ادیب کے یہاں پر بلایا۔ (سجاد میر نے اپنی تقریر کے دوران جاسوسی ناول نگاروں کو تخلیقی ادیب کے زمرے سے نکال باہر کیا تھا) ابن صفی کی چند ابتدائی باتوں کے بعد ان پر بھی سوال و جواب کے پتھر برسنے شروع ہوئے۔
وکیل استغاثہ طاہر مسعود نے جرح کا آغاز کیا۔
وکیل استغاثہ: کیا آپ اس الزام سے انکار کرتے ہیں کہ آپ نے ایک ایسا تفریحی لٹریچر فراہم کیا جسے پڑھ کر لوگ جرم کی طرف مائل ہوئے۔
ابن صفی: جی ہاں، میں نے اس قسم کا ادب نہیں لکھا ہے۔
وکیل استغاثہ: آج سے چند ماہ پیشتر پی آئی اے کا ایک نوکر طیارہ اغوا کیا گیا جس کے ہائی جیکر نذیر نے اپنے بیان میں دنیا والوں کو یہ بتایا کہ اس کے دل میں طیارے کو اغوا کرنے کی خواہش جاسوسی ناول پڑھ کر پیدا ہوئی۔ ملاحظہ ہو یہ اخبار اور یہ اس کا بیان۔
وکیل استغاثہ نے روزنامہ "جنگ" کا شمارہ ابن صفی کی خدمت میں پیش کیا۔
ابن صفی: جی میں نے یہ بیان پڑھا تھا۔ لیکن آپ اس کیس میں یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اگر نذیر نے مجرم کا کردار ادا کیا تو نور خان نے کرنل فریدی کا رول انجام دیا۔
وکیل استغاثہ: لیکن جناب نور خان نے آپ کے جاسوسی ناول ہی نہیں پڑھے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کرنل فریدی کے کردار سے متاثر تھے۔
ابن صفی: آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے میرے ناول نہیں پڑھے!
وکیل استغاثہ: وہ اردو پڑھنا نہیں جانتے۔
ابن صفی: یہ غلط فہمی ہے آپ کی، نور خان اردو نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ بولتے اور لکھتے بھی ہیں۔
وکیل استغاثہ: اگر فرض کرلیں کہ وہ اردو جانتے بھی ہیں تو یہ بہرحال حقیقت ہے کہ وہ آپ کے جاسوسی ناول نہیں پڑھتے ، اس پر مجھے صد فی صد یقین ہے۔
ابن صفی: یہ یقین کیسے ہے آپ کو؟
وکیل استغاثہ: کیوں کہ میں نے پچھلے دنوں ان سے انٹرویو کیا تھا۔
ابن صفی: انٹرویو کہاں ہے انٹرویو دکھائیے!
وکیل استغاثہ: انٹرویو ابھی چھپا نہیں ہے۔
ابن صفی: جب چھپ جائے تو دکھا دیجئے گا۔
وکیل استغاثہ: آپ کے ناول کا ہیرو عموماً پہاڑ سے چھلانگ لگا دیتا ہے اور زندہ رہتا ہے دریا میں ڈوب جاتا ہے اور مرتا نہیں آخر یہ کس مشین کا بنا ہوتا ہے؟
ابن صفی: یہ مشین کا نہیں گوشت پوست کا ہوتا ہے۔
وکیل استغاثہ: آپ کے جاسوسی ناول کا ہیرو عمران اپنی ناک میں ایک اسپرنگ لگا کر اپنی شکل بدل لیتا ہے۔ یہاں پنڈال میں ہمارے کسی ساتھی کے پاس یقیناً ایسی اسپرنگ موجود ہوگی کیا آ پ اسے اپنی ناک میں لگا کر اپنی شکل بدل سکتے ہیں؟
ابن صفی: آج سے ایک دو برس قبل اسی جامعہ کراچی میں مجھ پر مقدمہ چلا تھا جس میں ایک وکیل صاحب نے ایک اسپرنگ مجھے دیا اور یہی بات کہی لیکن افسوس کہ سائیکل کی اسپرنگ تھی۔
وکیل استغاثہ: تو پھر وہ اسپرنگ کہاں ہے؟ جسے لگا کر آپ اپنی شکل بدل سکتے ہیں۔
ابن صفی: میری تجربہ گاہ میں تشریف لائیں پھر میں ایسا کر کے دکھاؤں گا۔
اس طرح سے ہنستے کھیلتے جرح کا اختتام ہوتا ہے اس عرصے میں پنڈال میں وقفے وقفے سے شور تالیوں کی گونج اور ہوٹنگ کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔
جیوری کے اراکین اور عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔
چیف جسٹس: ملزم ادب کو کسی قسم کا ثبوت نہ ملنے کی بنا پر با عزت طور پر بری کیا جاتا ہے!
چلتے چلتے سن لیجئے کہ جیوری کے اراکین اس فیصلے سے قطعی خوش نہیں تھے وہ چاہتے تھے کہ ادیبوں کو کچھ تو نصیحتوں اور وصیتوں کے جھنڈے تھماکر رخصت کیا جاتا۔ مگر یہ نہیں ہو سکا۔ موکل طالب علم نے مقدمہ ہارنے پر وکلائے استغاثہ کو کمزور استغاثہ کے نام سے نوازا اور خوب خوب تفریح لی۔ اور سجاد میر شہر بھر میں کالر اکڑاتے پھرے: "جی مقدمہ جیت کے آئے ہیں، ویسے مقابلے پر تھے بچے بچے!"
طالب علم ہار گیا ، ادب جیت گیا اور ادب کو جیتنا ہی تھا کہ ادب تو پوری زندگی ہے اور طالب علم تو اس زندگی کا بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے بہت ہی محدود سا۔
یہ بھی پڑھیے:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں