ماہ لقا چندا کا دکنی عہد - از راحت عزمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-17

ماہ لقا چندا کا دکنی عہد - از راحت عزمی

Mah Laqa Chanda

ماہ لقا کے عہد کو سمجھنے کے لئے اس کو تاریخ کے جس تناظر میں دیکھنا ضروری ہے وہ 1098ھ سے شروع ہوتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے حملے اور سقوط حیدرآباد کے بعد یہاں کی سیاسی، تہذیبی اور ادبی زندگی میں جوہیجاں اور انتشار پیدا ہوا اس نے حیدرآبادی معاشرت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا شہر حیدرآباد کے چہرے پر ہیبت سی طاری تھی، ہر حیدرآبادی حیران و پریشان اپنی زندگی کو بے جادہ و منزل سمجھنے پر مجبور ہو گیا تھا ، امن و آسودگی کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی یہ ہمہ رخی انتشار لگبھگ 1137ء تک تو کسی نہ کسی شکل میں باقی رہا ، البتہ 137اء کے بعد وقت نے حیدرآبادی سماج پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں کو رفتہ رفتہ منتشر کرنا شروع کیا۔


1098ھ میں قطب شاہی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور آخری تاجدار ابو الحسن تاناشاہ دولت آباد میں قید کر دیا گیا۔ حیدرآباد پر مغل صوبہ دار مقرر کئے گئے، یہ صوبہ دار بھی بدلتے رہے ، ہر صوبہ دار حیدرآباد کے لئے ایک آفت بنارہا۔ نئی مصیبتیں آتی رہیں لوگ انہیں سہتے رہے ، ملک کا امن وسکون درہم و برہم ہو چکا تھا۔طوایف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ شہزادہ کا م بخش نے یہاں کے صوبہ دار رستم دل خاں کو اس کے رفقاء کے سات سخت اذیتیں دیکر قتل کروا ڈالا، کام بخش کو شاہ عالم بہادر شاہ نے شہر کے اندر قتل کروا ڈالا مبارزخاں کو آصفجاہ اول نے جنگ شکر کھیڑا میں شکست دیکر اس کا کام تمام کر دیا اس سیاسی افراتفری اور خلفشار میں شعروادب کی طرف کون متوجہ ہوتا حیدر آبادیوں کی جان کے لالے پڑے تھے ادھر مغل صوبہ دار شعر و ادب سے کوسوں دور تھے ایسے دور میں شاعروں اور ادیبوں کی سرپرستی کرنے والا کون رہ گیا تھا چنانچہ اس دور انتشار میں زبان کے مارے اور فلک کے ستائے ہوئے شاعروں نے مرثیے لکھ کر اپنے دل کو تسکین دینے کی راہ نکال لی۔ ان مرثیہ گویوں میں سنی شیعہ دونوں عقائد کے شعرا ہمیں ملتے ہیں جنہوں نے مرثیوں کے ذریعہ اپنے عہد کی بھرپور عکاسی کی ہے۔


آصف جاہ اول کے شکر کھیڑا کی جنگ میں فتح یاب ہونے کے بعد حیدرآباد نے سکون کے لیل و نہار دیکھے اور اطمینان کی سانس لی۔اس نئے دور کے آغاز کے ساتھ ساتھ امن و آشتی کی فضاؤں نے زندگی کی نئی بہاروں کا خیر مقدم کیا۔ آصف جاہ بڑے مدبر تھے۔ ویسے وہ مغل تہذیب کے آفریدہ تھے ان کی تہذیب دہلی کی تہذیب تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا وہ دکن میں قدم رکھتے ہی دہلی کے تمدن کو عام کرتے۔ کیونکہ تاریخ کی عام روایت یہی ہے کہ ہر فاتح مفتوح کے دور کے آثار ختم کر دینے کے درپے ہوتا ہے اور اپنے کلچر اور تمدن کو رواج دیتا ہے۔ آصف جاہ اول نے ایسا نہیں کیا انہوں نے حیدرآبادی تمدن و معاشرت کا بغور مطالعہ کیا ، انہوں نے دیکھا کہ قطب شاہی تمدن ایسا تمدن ہے جس میں محبت ہی محبت ہے، ہر مذہب اور ہر عقیدے کے سارے حیدرآبادی پیار کی ڈوری میں نتھی ہیں، میل جول دکھنی کلچر کی جان ہے۔
ان کی سیاسی بصیرت اور حسن تدبیر نے یہی فیصلہ کیا کہ اسی تمدن اور کلچر کو کسی ہلچل کے بغیر برقرار رکھا جائے، کیونکہ اس تہذیب میں انہوں نے قطب شاہوں کے بھرپور خلوص کو دیکھا اور اندازہ بھی لگایا تھا کے ان بادشاہوں نے اس تہذیب کو رائج کرنے میں کتنی جانفشانی کی ہوگی چنانچہ ہر حیدر آبادی نے محسوس کر لیا کہ آصفجاہ اول کے فکر و عمل کے باعث آہستہ آہستہ قطب شاہی تہذیب کی باز گشت ہورہی ہے یہ احساس ان حیدرآبادی ، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا تھا، جنہوں نے حیدرآباد کی تباہی کے بعد اورنگ آباد کا رخ کیا تھا کیونکہ اورنگ زیب نے گولکنڈہ فتح کرنےکے بعد اورنگ آباد کو حکومت کا مستقر بنایا تھا۔ اس طرح حیدرآباد کی رونق اورنگ آباد منتقل ہو گئی تھی شاعر ادیب اور فنکار اورنگ آباد میں آباد ہونے کو تر دجیح رہے تھے۔


آصف جاہ اول کے خود مختار ہونے کے بعد بھی حکومت کا مستقر اورنگ آباد ہی رہا اس مستقر میں بھی حیدرآبادی تمدن ہی غالب تھا، آصف جاہ نے اس تمدن کو جوں کا توں باقی رکھا ، ان کے ساتھ جو ہمراہیوں کی کھیپ آئی تھی ان میں تاجر۔ ساہو کارگوسائیں سنت صوفی ادیب شاعر اور فنون لطیفہ کے فنکار اور دوسرے فنون کے ماہرین تھے۔ ان کا مزاج بھی اور مذاق بھی آصفجاہی تھا۔ وہ اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اس لئے یہ لوگ بہت جلد دکنی عوام میں گھل مل کر باہم ایسے شیر و شکر ہوگئے کہ اجنبيت و غیرہ کا احساس جاتا رہا ، انہوں نے مقامی رہن سہن کو اپنانے میں فراخ دلی سے کام لیا، کسی تکلیف کے بغیرسماجی لین دین شروع کیا ، یہی سبب تھا کہ اورنگ آباد میں تیزی سے سماجی اور ادبی چہل پہل پیدا ہو گئی اور اورنگ آباد ادبی اور تمدنی مرکز بن گیا ، اور ادیبوں شاعروں ، اور فنکاروں کی سرپرستی بھی ہونے لگی تھی لیکن ابھی محمد قلی قطب شاہ کے حیدرآباد کی رونق بحال نہیں ہوئی تھی، بس رات کی تاریکی سپید ہسحر کے قریب آتی ہوئی معلوم ہونے لگی تھی۔


اورنگ آباد کا ادبی ماحول خوشگوار ہو گیا تھا ہر طرف شعر و شاعری کے چرچے تھے۔ ویسے سیاسی الجھنیں اپنی جگہ بہرحال برقرار تھیں جنگ و جدل سیاسی توڑجوڑاپنی رفتار سے گزر رہے تھے۔یہ سلسد آصفجاہ ثانی کے تخت نشین ہونے تک بلکہ اس کے بعد بھی چلتا رہا۔
رمن راج سکسینہ لکھتے ہیں:


" 1150ء سے 1200ء کے عرصہ میں غازیان آصفیہ کے تین حکمران گزرے ہیں نواب قمرالدین خاں آصفجاہ اول ، ناصرجنگ شہید اور نواب آصفجاہ ثانی یہ وہ زمانہ ہے جب کہ ایک نئی ریاست کی بنیاد ڈالی گئی اندرونی سازشوں اور سیاسی بے چینی کے باوجود علمی و ادبی سرگرمیاں حکومت کے ایوانوں اور امراء کے دیوان خانوں میں جاری تھیں یہی تینوں حکمران نہ صرف علم و فضل شعر و سخن کا ستھرا ذوق رکھتے تھے بلکہ ادیبوں اور شاعروں کی سرپرستی بھی کیا کرتے تھے۔۔۔۔


1164ء سے 1200ء تک کا دور نظام علی خاں آصف جاہ ثانی اور ان کے امراء و وزرا کی سیاسی علمی و ادبی سرگرمیوں سے عبارت ہے۔ اس دور کے پچاس (50) سے زاید دکھنی شعرا کا مختلف تذکروں میں ذکر ملتا ہے۔ ان شعرا میں اکثریت اورنگ آبادی شعرا کی ہے۔ اس دور میں شاہ سراج اورنگ آبادی مرزا علی نقی ایجاد، نوازش علی خاں شیدا ، شاہ تجلی علی تجلی، اور اورنگ آبادی بالاجی ترمبک نایک ذرہ مرزاجمال ، لالہ چند رنگین سرونجی راے لالہ موہن لعل مہتاب ، لالہ جے کشن بے جان چند قا بل شعرا ہیں ان تمام شعراء کا کلام گل عجائب،گلشن بے خار، گلزار آصفیہ ، چمنستاں شعرا، تذکرہ شعرا اورنگ آباد میں ملتا ہے۔"


آصف جاہ اول سے ناصرجنگ شہید کے عہد حکومت تک اورنگ آباد علمی مرکز رہا ناصر جنگ نے سیاسی مصلحتوں کے تحت حیدر آباد میں قیام کیا بادشاہ کے اس قیام کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ حیدرآباد میں تہذیبی اور ادبی سرگرمی شروع ہوئی اور اورنگ آباد کی ادبی چہل پہل رفتہ رفتہ حیدرآباد میں منتقل ہونے لگی۔ اگرچیکہ شمالی ہند کی تہذیب اور وہاں کے ادبی رجحانات اورنگ آباد پر اثرانداز ہورہے تھے لیکن ان کی رفتار کچھ زیادہ تیز نہیں تھی اورنگ آباد کا اپنا دکھنی لب و لہجہ ابھی اسی آن بان سے باتی تھا۔ البتہ لسانی لین دین کا عمل شروع ہو چکا تھا مگر دکھنی اردو نے اپنی شناخت نہیں کھوئی تھی عہد قطب شاہی کی زبان باقی تھی ناصر جنگ کے حیدرآباد میں مختصر قیام سے یہ شہر ایک بار پھر آباد ہو گیا اور وہ رونق جو یہاں سے اورنگ آباد منتقل ہوئی تھی اپنے وطن لوٹ آئی۔


1184ء میں نواب نظام علی خان آصفجاہ ثانی نے بعض مصلحتوں کے تحت حیدر آباد کو اپنا مستقل پائے تخت بنایا اس کے ساتھ قطب شاہی تہذیب کے چہرے پر بحالی آئی اور اس نے پھر اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا۔ جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے ناصرجنگ کے زمانے ہی سے اورنگ آباد میں بیرونی شعرا کی آمد کے باعث دکنی زبان متاثر ہونے لگی تھی ، مقامی شعرا محسوس کر رہے تھے کہ اب دکنی زبان کو اپنی روش بدلنی ہوگی۔ بقول ڈاکٹرز ور مرحوم:


"جس وقت نظام الملک آصفجاہ کا نیر اقبال دکن کے کوہساروں میں طلوع ہوا تھا اس زمانے میں یہاں کے شاعر و ادیب اس زبان میں لکھتے تھے جو عہد قطب شاہیہ میں رائج تھی اور جس میںفعل مفعول کے مطابق نہیں بلکہ فاعل کے مطابق استعمال کیا جاتا تھا ، اور ہندی الفاظ کی کثرت قابل فخر سمجھی جاتی تھی صرف اورنگ آباد ایک ایسا شہر تھا۔ جہاںمغل ارباب اقتدار کے طویل قیام اور مغلیہ فوجوں کا مرکز ہونے کے باعث زبان میں تھوڑا بہت فرق ہوا تھا۔ لیکن جنوبی ہند کے دوسرے شہروں مثلا، گلبرگہ، بیجاپور، بیدر، حیدرآباد ، کر نول اور مدراس وغیرہ کے اردو داں اسی قدیم اردو میں بات چیت کرتے اور نثر و نظم لکھتے تھے جو عادل شاہوں اور قطب شاہوں کے زمانے میں ایک معیاری زبان کی حیثیت سے مقبول خواص و عوام بن چکی تھی"۔


اورنگ آباد میں دکنی اردو نے شمالی ہند کی اردو کی تقلید ابھی شروع نہیں کی تھی۔ البتہ مقامی شعراء میں یہ رجحان پیدا ہوتا جا رہا تھا کہ انہیں اپنی زبان میں تبدیلی کرنی ہوگی اس سلسلہ میں ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی ، اور دوسرے اساتذہ فن زبان کو اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق بنانے کی طرف مائل ہوئے اور زبان کو سادہ شیریں اور سلیسں بنانے کے سلسلہ میں اہم خد متیں انجام دیں۔ ادھر تہذیبی سطح پر پچھلی تمدنی فضا کو عام کرنے کا خیال عوام و خواص میں پیدا ہو گیا تھا۔ حکمران وقت کا یہی منشا بھی ان کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر زور مرحوم نے لکھا ہے کہ:


"آصف جاہ ثانی یوں تو نظام الملک کے فرزند اور آصفی حکمران تھے لیکن شہر حیدرآباد کے لئے صحیح معنوں میں قطب شاہوں کے جانشین ثابت ہوئے کیونکہ انہوں نے نہ صرف قطب شاہوں کے پیارے شہر حیدر آباد کو پھر سے آباد کیا بلکہ ان کی بہت سی خوبیوں کا احیا کیا۔ جو گولکنڈہ کے زوال کے بعد سے معدوم سی ہو چکی تھیں اس عہد میں دکن کی قد یم بین قومی فضا خوشگوار ہو گئی اور حیدرآباد کی ہمہ جہت ترقی میں سنی شیعہ اور ہندو مساوی حصہ لینے لگے۔"


حیدرآباد سے ترک وطن کرنے والے ادیبوں، شاعروں اور ماہرین فنون کا قافلے جب اپنے وطن لوٹا تو اس کے ہمراہ وہ دانشور ، علماء فضلا شاعروادیب بھی اورنگ آباد سے حیدرآباد آگئے جو دہلی سے آئے تھے یا اورنگ آباد کے متوطن تھے۔ ان قد آور شخصیتوں میں قابل ذکر چند نام یہ ہیں - غلام علی آزاد بلگرامی ، منارام، پیشکار ،لچھمی نارائن شفیق ، عبدالحئی صارم، منعم خاں قدر ، میر عبدالولی عزلت نجم الدین پنچھی ، گردھاری لعل احقر، علی مرداں خاں یک دل ، جمال اللہ خاں عشق نوازش علی خاں شیدا، شاہ تجلی علی، اسد علی خاں تمنا، شیر محمد خاں ایمان، وغیرہ یہ سب یا تو صاحبان تصنیف و تالیف ہیں یا صاحبان دیوان ہیں۔


حیدرآباد میں شعر و ادب کو فروغ دینے میں جہاں علمی شخصیتوں ادیبوں اور شاعروں کی پر خلوص مساعی کو دخل ہے۔ اس سے کہیں زیادہ اس سرپرستی کو دخل ہے جو انہیں حاصل ہوئی۔ علوم و فنون ہمیشہ سرپرستوں کے زیر سایہ ہی معراج کمال پر پہنچے ہیں۔ حیدرآباد میں علم و ادب کو شاہی سرپرستی کے علاوہ امراء کے سرپرستیاں بھی ملتی رہیں۔ نواب آصف جاہ ثانی کی علمی و ادبی سرپرستی کے پہلو بہ پہلو نواب ارسطوجاہ کی سرپرستی بھی رہی۔ انہوں نے اہل علم کو دل کھول کر نوازا،دیڑھ سو سے زیادہ شعرا کی کفالت کی۔


قطب شاہوں کے دور حکومت ہی سے یہاں کے حکمرانوں کی یہ امتیازی خصوصیت رہی ہے کہ انہوں نے سیاسی الجھنوں، اندرونی سازشوں ، جنگوں اور اس نوعیت کے تمام جھگڑوں کو اپنی عام رعایا سے دور رکھا۔ ان کی روز مرہ کی زندگی میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہونے دی۔ ان کی آسودہ زندگی میں ناآسودگی کو آنے نہیں دیا۔ ارباب سیاست - عمایدین و مدیران مملکت بادشاہ وقت کی الجھنوں کو دور کرنے میں مصروف رہتے۔ ملک کا امن و امان برقرار رکھنے میں بادشاہ کے دست و بازوبنے رہتے تھے۔ عام رعایا کو ان مسائل سے کوئی سروکار نہ رہتا۔ وہ چین سے کھاتی اور میٹھی نیند سوتی تھی۔ عوام بس اتنا ہی جانتے تھے کہ:
"امور مملکت خویش خسرداں دانند"


چنانچہ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزوں کی ریشہ دوانیاں اور سیاسی - اتار چڑھاؤ اپنی جگہ رہے، ملک کی خوشحالی اپنی جگہ بحال رہی۔ رمن راج سکسینہ لکھتے ہیں:


"آصف جاہ ثانی نواب میر نظام علی خاں کے عہد میں ہر روز عید اور ہر شب شب برات ہوا کرتی تھی۔۔۔ چھوٹی چھوٹی تقاریب میں بھی عیش و عشرت کا بڑا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ان تقاریب میں امرا۔۔۔ مناصب و خطابات سے سرفراز کئے جاتے تھے۔ قوال اور طایفے انعام و اکرام سے مالا مال کر دیے جاتے تھے ، علماء کی قدر دانی میں کمی نہ ہوتی تھی ، غربا اور مساکین میں بہت کچھ مال و زر تقسیم ہوتا اور وہ ایک عرصہ تک فکر فردا سے نجات پاتے۔۔۔ ہر سال جشن سالگرہ بھی دھوم دھام سے منایا جاتا اور ہر خاص و عام شاہی جود و کرم سے بہرہ مند ہوتا تھا۔"


سیاسی، تہذیبی اور مالی نقطہ نظر سے یہ عہد نواب نظام علی خاں آصفجاہ ثانی کا عہد ہے لیکن شعری، ادبی اور علمی اعتبار سے ڈاکٹر زور مرحوم اس عہد کو ارسطو جاہ کا عہد کہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہیکہ "فرزند ارجمند ارسطو جا" نے ادیبوں اور شاعروں کی دل کھول کر سرپرستی کی وہ کوئی ڈیڑھ سو شعراء کے مربی تھے۔ اہل علم کی بے حد قدر و منزلت کرتے تھے۔
ڈاکٹر زور مرحوم نے اس عہد کے شعراء اور ادباء کا ذکر کرتے ہوئے اس دور کے ادبی ماحول کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے:


"عہد ارسطو جاہ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس دور سے حیدرآباد کے اردو شاعر اپنی زبان کو (جو تین سو سال تک معیاری اردو رہ چکی تھی اور جس میں اب تک سینکڑوں اعلی پایہ کی کتابیں لکھی جا چکی تھیں اور جن کو دیکھ کر دہلی کے صاحبان ذوق نے فارسی ترک کر کے اردو میں لکھنا شروع کیا تھا) متروک سمجھنے لگے کیونکہ اس وقت دہلی میں مرزا مظہر جان جاناں کی یہ تحریک کامیاب ہو چکی تھی کہ اب شمال کے اردو شاعروں کو دکنی زبان کی پیروی ترک کر کے اردو معلی شاہجہاں آباد کا محاورہ اور روزمرہ اورفارسی ترکیبوں کو استعمال کرنا چاہئے وہ یہی زمانہ ہے جب سے حیدرآباد میں شمالی ہند کے شاعروں کی آمد کا تانتا بندھ گیا۔ مقامی شاعروں کے مقابلے میں بیرونی شعراء کی قدر و منزلت زیادہ ہونے لگی اور حیدرآبادی شاعر یہ سمجھنے لگے کہ ہم جو زبان بولتے ہیں وہ معیاری نہیں ہے اور اب ہمیں شمال کے اردو شاعروں کی زبان کا اتباع کرنا چاہئے۔"


چنانچہ ارسطو جاہ کے دور سے یہاں کے مقامی شعرا کی تخلیقات میں شمالی ہند کا اثر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ دکن شعراء نے خاص طور پر"نے" کا استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ ویسے ان کے کلام میں اکثر مقامات پر متعدی افعال کے سابق علامت فاعل"نے" کا استعمال نہیں ہے جو دکنی اردو کی خاص شناخت ہے۔


بہت نعت کو توں قصاید کہا
معطر دماغ سخن کو کیا
نوازش علی خاں شیدا


میں پوچھا دل سے اپنے اب بھلا تو یار کس کا ہے
کہا اس دور میں کہہ رونق بازار کس کا ہے
(ماہ لقا چندا)


عہد چندو لال میں اردو زیادہ نکھرنے سنوارنے لگی تھی۔ علامت فاعل "نے" کے استعمال میں مقامی شعراء نے شمال کی تقلید کرنا شروع کر دی تھی لیکن متعدی افعال میں " نے" کے استعمال کا رواج ابھی عام نہیں ہوا تھا۔ دکن "نے" کے استعمال میں ابھی سنجیدہ نہیں بنا تھا۔ جیسا کہ ماہ لقا کے مندرجہ بالا مطلع سے واضح ہوتا ہے۔ چندولال کے زمانے میں شمالی ہند کے کافی دانشور اور اورنگ آباد کو ترک کر کے حیدرآباد آ چکے تھے۔
ڈاکٹر زور کے کہنے کے مطابق چند ولال کا
"یہ عہد اصل میں اردو شعر و سخن کا عہدِ ترقی تھا۔"


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماہ لقا چندا - خطۂ دکن میں فن موسیقی کی باوقار فنکارہ
ماہ لقا بائی چندا - آصف جاہی دور سلطنت کی با اثر خاتون
***
ماخوذ از کتاب: ماہِ لِقا (حالات زندگی مع دیوان)
مولف: راحت عزمی۔ مطبوعہ: بزم گلستاں اردو، حیدرآباد (سن اشاعت: دسمبر 1998ء)

The Deccani period of Mah Laqa. Article by: Rahat Azmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں