ماہ لقا بائی چندا کو عموماً گذشتہ ادوار کے محققین و مصنفین نے طوائف کے حقیر نام سے متعارف کروایا تھا۔ لیکن اپنی تحقیقی کتاب "ماہِ لقا - حالاتِ زندگی مع دیوان" (سن اشاعت: دسمبر-1998ء) میں راحت عزمی نے اردو کی دوسری صاحبِ دیوان شاعرہ ثابت کرتے ہوئے انہیں ایک ماہر موسیقی کے ساتھ سماجی، ادبی اور دینی جذبہ کی حامل خاتون کے روپ میں پیش کیا ہے اور جس کے لیے تاریخی شواہد، محققین کی آرا اور داخلی شہادتوں کا سہارا لیا ہے۔ماہ لقا کی پیدائش 20/ذی قعدہ 1181ھ (اپریل 1768ء) اور وفات 19/محرم 1207ھ (ستمبر 1792ء) کو ہوئی تھی۔ ماہ لقا کے والد کا نام بہادر خاں اور خطاب بسالت خاں تھا۔
یہ مختصر تعارف دراصل تعمیرنیوز کی جانب سے اسی کتاب سے اخذ شدہ مواد پر مبنی ہے۔
ماہ لقا کا نام اس کی نانی کے نام پر چندا بی بی رکھا گیا تھا۔ یہی نام اس کے مقبرے کے کتبہ پر کندہ ہے۔ چندا تخلص تھا۔ نظام علی خاں آصف جاہ ثانی نے 1217ھ م 1815ء میں "ماہ لقا" کا خطاب عطا کیا تھا۔ ماہ لقا کی ماہ میدا بی بی گجرات کے ایک مرشد گھرانے کی صاحبزادی تھیں۔ اس کے والد بہادر خاں ترکی النسل بلخ کے معزز گھرانے کے فرد تھے جن کے دادا محمد یار بلخ سے ہندوستان آئے اور شاہ جہاں کے دربار سے وابستہ ہو گئے تھے۔
ماہ لقا کے دادا مرزا سلطان نظر عالمگیر کے دربار میں شہزادہ معظم کے وکیل تھے۔ خاندانی روایت کے مطابق ماہ لقا کی تعلیم و تربیت نہایت اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تھی۔ وہ بہترین شہسوار اور تیرانداز تھی۔ فارسی زبان و ادب پر گہری نظر تھی۔ شاعری کے میدان میں وہ اپنے جوہر منوا چکی تھی۔ 1213ھ میں اس کا دیوان مرتب ہو چکا تھا۔
فنِ موسیقی میں اسے کمال حاصل تھا۔ وقت کے مشہور موسیقار خوشحال خاں کی وہ شاگرد تھی جو ایک اچھے قوال بھی تھے۔ یہ وہی خوشحال خاں ہیں جنہوں نے حیدرآباد کے کوہ مولا علی پر کمان، مقبرہ، عاشور خانہ اور آبدار خانہ بنوایا تھا۔ ماہ لقا کو دھرپد، خیال اور ٹپہ میں بڑا کمال حاصل تھا جس میں اس نے کئی اضافے بھی کیے تھے۔
ماہ لقا کی شہرت امرا اور دربار آصفی تک پہنچ چکی تھی۔ دوسری طرف چندا اور اس کا خاندان ناسازگار حالات کا شکار ہو چلا تھا۔ ماہ لقا نے چار و ناچار شاہی دربار اور امرا کی مہذب محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ اس طرح داد اور دولت حاصل کی۔ اس زمانے میں خواتین کا گانا بجانا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چندا کے ساتھ طوائف کا تمغہ لگ گیا حالانکہ وہ شوقین اور باکمال فنکار تھی نہ کہ کسبی اور پیشہ ور۔
ماہ لقا کے خاندانی حالات خواجہ غلام حسین جوہر کی مرتبہ تاریخ ماہنامہ اور صمصام الدولہ شاہنواز خاں کے تذکرہ مآثر الامرا میں ملتے ہیں۔ ان حالات سے اس کی خاندانی عظمت و وجاہت پر روشنی پڑتی ہے اور آسانی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ماہ لقا کوئی معمولی گھرانے کی خاتون نہیں تھی بلکہ وہ ددھیال اور ننھیال دونوں طرف سے اعلیٰ خاندان کی چشم و چراغ تھی۔
ماہ لقا کے دادا، والد اور والدہ سبھی متقی و پرہیزگار تھے، اس کی رگوں میں ان ہی کا خون دوڑ رہا تھا۔ زندگی کے دوسرے میدانوں میں بھی اس کو ددھیال اور ننھیال کی اعلیٰ صلاحیتیں وراثت میں ملی تھیں۔ قدرت بھی اس پر بہت فیاض تھی، یوں وہ حسن صورت و حسن سیرت میں اپنی مثال آپ تھی۔ اس کے خد و خال غیرمعمولی پر کشش تھے۔ وہ ایک پاکیزہ قلب و عالی دماغ خاتون تھی۔ بچپن ہی سے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کا مصداق تھی۔
غلام حسین جوہر نے، جنہیں علم نجوم سے خاص لگاؤ تھا، بچپن میں ایک مرتبہ ماہ لقا کو دیکھا تھا اور پیشین گوئی کی تھی کہ وہ بڑی ہو کر بہت نامور خاتون بنے گی۔
چندا کی ابتدائی تعلیم نواب رکن الدولہ مدار المہام سلطنت آصفیہ کی زیرنگرانی ہوئی۔ ابھی وہ آٹھ/نو سال کی تھی کہ رکن الدولہ کہ 1189ھ میں شہادت واقع ہو گئی اور اس کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری صاحب بی صاحبہ نے اپنے ذمہ لے لی۔ انہوں نے اس پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھی۔ چندا بی بی بھی فہیم و فریس تھی لہذا دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ شباب کی حدوں میں داخل ہونے تک اس نے مختلف علوم و فنون میں اتنا کچھ سیکھ لیا تھا جس کا عام طور پر کم امکان رہتا ہے۔ مختلف علوم و فنون کی تعلیم کے لیے اسے اساتذہ بھی کامل الفن ملے تھے جنہوں نے اس کی خداداد صلاحیتوں کو خوب چمکا دیا۔
چندا بی بی کو علوم مروجہ میں کافی دستگاہ حاصل تھی۔ وہ فارسی سے کماحقہ واقف تھی، اس نے فارسی میں شاعری کی تھی اور حسب ضرورت عربی سیکھ لی تھی۔ برج بھاشا سے بھی خوب واقف تھی۔ اردو تو اس کی اپنی مادری زبان تھی جس پر اسے کامل عبور تھا۔ اس کا دیوان اس دعویٰ کا واضح ثبوت ہے۔ ماہ لقا کو تاریخ اور شاعری سے فطری لگاؤ تھا۔ اس کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ اپنا کافی وقت کتب بینی میں صرف کرتی تھی۔
رمن راج سکسینہ لکھتے ہیں:
ماہ لقا ہمیشہ مکلف لباس سے آراستہ و پیراستہ رہتی تھی۔ بہ وقت بارگاہ خسروی میں حاضر ہوتی تھی۔ باقی اوقات کتب کے مطالعے میں گذارتی تھی۔ اس کا کتب خانہ ہر علم و فن کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔
چندا کے علمی شغف کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ اس نے اپنے یہاں کئی کاتب ملازم رکھے تھے۔ جب کسی نئی کتاب کا علم ہوتا، اس کو فراہم کرتی اور کاتبین اس کی نقل کر لیا کرتے تھے۔ علم سے اسی رغبت نے اس کے مطالعہ کو بہت گہرا کر دیا تھا۔ چونکہ تاریخ سے اس کو فطری دلچسپی تھی، اس لیے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ زیادہ رہتا۔ روضۃ الاولیا اور حبیب السیر جیسی کتابیں اسے زیادہ مرغوب تھیں اور اپنی علمی تشنگی کو بجھانے وہ ہر وقت مختلف علوم کے علما سے استفادہ کرتی تھی۔
اس کے کتب خانے کے قیمتی ذخیرہ کا اندازہ ان کتب کی موجودگی سے ہوتا ہے جن کی مدد سے غلام حسین جوہر نے "ماہنامہ" جیسی تاریخ مرتب کر لی۔ اس تاریخ کی تیاری کے لیے انہیں کسی دوسرے کتب خانے تک جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ ان میں سے چند اہم کتابیں یہ تھیں جو چندا کے کتب خانے کی زینت بنی ہوئی تھیں:
روضۃ الاولیا، روضۃ الاحباب، نورس نامہ، تاریخ فرشتہ، تاریخ مراۃ العالم، اقبال نامہ جہانگیری، اکبر نامہ، مآثر الامرا، تاریخ ہفت اقلیم، شاہ نامہ، توزک تیموری، تاریخ بہمنی، تاریخ قطب شاہی، زبدۃ التواریخ، حبیب السیر، شاہ جہاں نامہ وغیرہ۔
چندا بی بی کو فن موسیقی سے بھی دلچسپی تھی۔ اسی کے ساتھ قدرت نے اس کو سریلا گلا بھی عطا کیا تھا اور رقص کے لیے اس کا قد موزوں بھی تھا، یہ بھی قدرت ہی کی دین تھی۔ اس کی ذہانت و فطانت بھی خداداد تھی۔ شاعری اس کی فطرت میں رچی بسی تھی جیسا کہ اس کے کلام سے ظاہر ہے کہ ہر شعر میں آمد ہی آمد ہے، آورد کا کہیں احساس نہیں ہوتا۔
اس نے دھرپد، خیال ٹپہ میں کمال حاصل کیا تھا۔ رقص میں بھی وہ اس درجہ پر پہنچ گئی تھی کہ دوسرے فنکار اس کا نام سن کر ادب سے کان پکڑتے تھے۔ اس دور کی مشہور رقاصائیں نبوجی، واکھن جی، بہتور اور کنور وغیرہ نے ماہ لقا کے آگے اپنے گھنگرو کھول دئے تھے۔ فن حرب و ضرب میں بھی اس نے مہارت حاصل کی تھی۔ تیراندازی اور نیزہ بازی اسے بہت محبوب تھی۔ وہ مردوں کی طرح ورزش کرتی تھی اور بہت اچھی شہسوار بھی تھی۔
صداقت پسند تذکرہ نگاروں اور حقائق آگاہ قلمکاروں نے کھلے دل سے ماہ لقا کی صلاحیتوں کی تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ اس نے خدا کی دی ہوئی ان نعمتوں اور اپنے مضبوط کردار کی بنیاد پر نام کمایا اور ہر محفل میں محترم و مقبول رہی۔
***
ماخوذ از کتاب: ماہِ لقا - حالاتِ زندگی مع دیوان ، سن اشاعت: دسمبر-1998
مصنف: راحت عزمی
ماخوذ از کتاب: ماہِ لقا - حالاتِ زندگی مع دیوان ، سن اشاعت: دسمبر-1998
مصنف: راحت عزمی
Mah Laqa Chanda, a renown poet and music artist of Deccan. Article by: Rahat Azmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں