ماہ لقا بائی چندا - آصف جاہی دور سلطنت کی با اثر خاتون - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-30

ماہ لقا بائی چندا - آصف جاہی دور سلطنت کی با اثر خاتون

mahlaqa-chanda-bai-maqbara
ماہ لقا بائی چندا - آصف جاہی دور سلطنت کی با اثر خاتون اور اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ
دکن کی مشہور خاتون ماہ لقا بائی چندا (پیدائش 20/ذی قعدہ 1181ھ ۔4/ اپریل 1768ء وفات 19/محرم 1207ھ۔ ستمبر 1792ء) کا شمار آصف جاہی دور سلطنت میں بااثر خواتین میں ہوتا تھا۔ سنہ 1802 میں حیدرآباد کے دوسرے آصف جاہی سلطان میر نظام علی خان کے دربار میں فارس کے نئے برس کی تقریب کے دوران فوجیوں اور درباریوں کو تحائف، القاب اور گرانٹ کے ساتھ اعزاز سے نوازنے کے لئے ایک خاص پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس میں متعدد مردوں کے علاوہ ایک 34 سالہ خاتون چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کو ان کی نمایاں خصوصیات اور صلاحیتوں کی بنا پر "ماہ لقا" کے شاہی خطاب سے نواز کیا گیا۔ ماہ لقا بائی دکن کی سب سے زیادہ بااثر خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعرہ، سیاسی مشیر، کامیاب سپاہی، گھوڑ سوار اور تعلیم نسواں کی علم بردار تھی۔

ماہ لقا کی پیدائش کے بعد ان کے والد نے انھیں بے گھردیا تھا، اسی دوران میر نظام علی خان آصف جاہ دوم کے وزیراعظم میر موسی خان شہید المعروف رکن الدولہ نے ان کی پرورش کی۔ ماہ لقا نے فن موسیقی و رقص اکبراعظم کے دربار کے مشہور موسیقار تان سین کے پوترے خوش حال خان سے سیکھا اور ان میں انتہا درجہ کی مہارت حاصل کی۔ خوش حال خاں کے بارے میں ماہ لقا کے سوانح نگار راحت عزمی نے اپنی تحقیقی کتاب "ماہِ لقا - حالاتِ زندگی مع دیوان" (سن اشاعت: دسمبر-1998ء) میں لکھا ہے کہ:
"یہ وہی خوش حال خان ہیں، جنہوں نے حیدرآباد کے کوہ مولا علی پر کمان، مقبرہ، عاشور خانہ اور آبدار خانہ بنوایا تھا۔ ماہ لقا کو دھرپد، خیال اور ٹپہ میں بڑا کمال حاصل تھا جس میں اس نے کئی اضافے بھی کیے تھے"۔

آصف جاہی دور سلطنت میں ماہ لقا کو امرائے عظام کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ شاہی دربار میں رقص و سرود کی محفلوں میں سب کا دل جیت لیا کرتی۔ ماہ لقا کا جب بھی تذکرہ کیا جاتا ہے تو اکثر "طوائف" کے لفظ کے ساتھ ان کا نام چوڑا جاتا ہے۔ اس ضمن میں موصوفہ کے سوانح نگار راحت بزمی نے لکھا ہے کہ :
"ماہ لقا ء کی شہرت امرا اور دربار آصفی تک پہنچ چکی تھی۔ دوسری طرف چندا اور اس کا خاندان ناسازگار حالات کا شکار ہو چلا تھا۔ ماہ لقا نے چار و ناچار شاہی دربار اور امرا کی مہذب محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ اس طرح داد اور دولت حاصل کی۔ اس زمانے میں خواتین کا گانا بجانا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چندا کے ساتھ طوائف کا تمغہ لگ گیا حالانکہ وہ شوقین اور باکمال فنکار تھی نہ کہ کسبی اور پیشہ ور"۔
بحوالہ: "ماہِ لقا - حالاتِ زندگی مع دیوان" (سن اشاعت: دسمبر-1998ء)
ماہ لقا بائی کو شاہی دربار کی جانب سے حفاظتی دستے کے طور پر کئی باڈی گارڈس فراہم کیے گئے تھے۔ ان کی والدہ کانام راج کنور بائی تھا۔ راج کنور بائی کے شوہر آصف جاہی دور سلطنت میں خاصی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہنشاہ محمد شاہ کے دور میں ان کے نانا احمد آباد میں مغلیہ دور میں ایک بہترین منتظم تھے۔

ماہ لقا بائی چندا کو اردو شاعری میں پہلی خاتون صاحبِ دیوان شاعرہ کا اعزار حاصل ہے۔ ماہ لقا کی وفات کے بعد "گلزارِ مہ لقا" کے عنوان سے ان کا دیوان شائع کیا گیا۔ ان کی شاعری میں محبت اور وفاداری کے کئی موضوعات شامل ہیں۔
سید حسن علی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:
"ماہ لقا بائی چندا اپنے عہد کی ایک اچھی شاعرہ تھی۔ اس کی شاعری کے استاد نواب میر ابوالقاسم موسوی المخاطب بہ میر عالم تھے۔ چندا بی بی غزل کی شاعرہ تھی۔اس کی غزل پانچ مصرعوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ہر غزل کے آخری مصرعہ میں حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہ کی مداح سرائی کرتی تھی اور ان سے استعنات طلب کرتی تھی۔ اسے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت و مودت تھی‘۔
(روزنامہ سیاست۔ حیدرآباد29/مئی 2015)۔

ان کی شاعری کے ضمن میں ڈاکٹر راحت سلطانہ نے اپنے ایک مضمون "ماہ لقا بائی چندا : اردو کی پہلی نسائی آواز" میں لکھا ہے کہ :
"ماہ لقا بائی چندا صنف غزل کی رسیا تھی۔ اس کے دیوان میں غزل کے علاوہ کوئی اور صنف نہیں ملتی۔ ہر غزل میں اس نے پانچ شعر کا التزام روا رکھا ہے اس کی وجہ غالباً پنج تن سے عقیدت ہے۔ اس کے دیوان میں جملہ 125 غزلیں ہیں۔ چندا کا کلام اس کے مشاہدات، تجرباتِ زندگی اور قلمی واردات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سادگی بیان، لطافت زبان اور نغمگی و موسیقیت اس کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں"۔
چند شعر ملاحظہ ہوں:
عالم تری نگہ سے ہے سرشار دیکھنا
میری طرف بھی ٹک تو بھلا یار دیکھنا
خورشید رو قسم ہے یہ زلفوں کی تونے کل
وعدہ کیا تھا دن کا مگر رات ہوگئی
ہماری چشم نے ایسا کمال پایا ہے
جدھر کو دیکھئے آتا ہے تو نظر ہم کو

چندا نے اپنے تجربات زندگی اور مشاہدات کو نسوانی زبان میں بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ درجِ ذیل اشعار کی نسائیت اور داخلی رنگ قابل داد ہے:
جو پوچھے ہجر کی حالت مری وہ بے وفا ہنس کر
تصدق ہوکے کہہ باآہِ سرد و چشم تر قاصد
سوجان سے ہوگی وہ تصدق مرے مولا
چندا کی جوکونین میں امداد کرو گے
مری نازک مزاجی کی خبر رکھتا نہیں ہرگز
وہ سنگیں دل نہیں ممکن کسی کا ہو کبھی عاشق
سرفرو ہرگز نہ ہوچندا کسی سے دہر میں
یہ جناب مرتضیٰ کی ہے کنیزی کا غرور
شاہ و گدا تو دنگ ہوے رقص پر ترے
عاشق ہے نیم جان، نئی لئے میں تان بھر
حسن کے شعلے سے تیرے جب کہ ٹپکے ہے عرق
شرم سے بس ابر کے دامن میں ہے تر آفتاب
(بحوالہ: ماہنامہ سب رس،حیدرآباد۔ ستمبر۔2012)

میر نظام علی خان آصف جاہ دوم جب بھی سفر کرتے ماہ لقا کو بھی اپنے قافلہ میں خصوصیت کے ساتھ شریک سفر کرتے تھے۔ اس دور میں ماہ لقا کا ایک گھر ’حسہ رنگ محل‘ نامپلی میں بھی تھا، جہاں آج لڑکیوں کا کالج واقع ہے۔ انھیں ایڈیک منٹ کی جائیدادیں شاہی دربار کی طرف سے عطا کی گئی تھی۔ جس جگہ پر آج ایشیا کی عظیم و شان علمی دانش گاہ عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہے، یہ سب جائیداد ماہ لقا کی تھی۔موجودہ انگلش اینڈ فارن لینجویجس یونیورسٹی (EFLU) کے کیمپس میں ماہ لقا کے نام سے ایک باؤلی بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ ماہ لقا بائی کے نام سے یونیورسٹی کیمپس میں ایک وسیع و عریض ہاسٹل بھی ہے۔ ماہ لقا ء بائی کی آخری آرام گاہ کوہِ مولا علی کے دامن میں اپنی والدہ راج کنوار بائی کی قبر کے قریب واقع ہے۔ ان کی مزار نہایت ہی خوب صورت، نقش و نگار سے مزین اور نفیس تعمیری شاہکار کا اعلی نمونہ ہے۔

مشہور محقق اور ماہر دکنیات و لسانیات نے چندا کی فیاضی اور جود و سخا کے بارے میں لکھا ہے کہ:
ماہ لقا چندا عالموں، شاعروں اور مشائخ کی ہر وقت امداد اور دستگیری کرتی رہتی تھی۔ ہر سال مختلف تقریبوں کے علاوہ کٹھ درسن کا ایک میلہ منعقد کرتی جس میں پہلے دن فقرا، حفاظ، قرا اور مشائخین کو دعوت دیتی اور تمام مشائخین شہر کے گھروں میں نام بنام ہر فرد خاندان کو ایک ایک سیر مٹھائی روانہ کرتی۔ دوسرے دن تمام قرائے آزاد و مداری و قادری و چشتی و رفاعی و چاردہ خانوادہ و گرزوالہ و بابا پیاری کا میلہ جمتا۔ ہر ایک کے لیے اکل و شرب کا انتظام ہوتا اور شیرینی وغیرہ سے تواضع کی جاتی۔ اس روز سو سو کوس کے فقرا جمع ہو جاتے تھے۔ تیسرے دن مساکین، غربا اور معذورین حاضر ہوتے جن کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی اور چوتھے روز جوگی اور بیراگی جمع ہوتے، ان کو بھی اچھی طرح پوری کچوری کھلائی جاتی تھی۔
بحوالہ: افادات زور (شخصیات)، جلد چہارم، صفحہ نمبر:63
چند دن قبل حیدرآباد کے مشہور ادارہ دکن آرکائیو deccanarchive نے دکن کی اس بااثر خاتون سے متعلق "ہیریٹیج واک" کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں شہر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہ ایک خوش گوار بات ہے کہ اس ہیریٹیج واک میں برادران وطن کی اکثریت تھی۔ جنھیں حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب، تاریخ و ثقافت اور شعر و شاعری سے بہت لگاؤ ہے۔
دکن آرکائیو کے ذمہ دار اعلی اور نوجوان مورخ جناب صبغت خان Sibghat اور ان کی ٹیم بڑی خوش اسلوبی سے دکن کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت سے متعلق بے مثال خدمات انجام دے رہی ہے۔ دکن آرکائیو کی جانب سے منعقدہ "ہیریٹیج واک" کے دوران انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (INTACH) حیدرآباد INTACH Hyderabad چیاپٹر کی کنوینر محترمہ انورادھا ریڈی نے اپنی گفتگو کے دوران کئی تاریخی حقائق سے واقف کروایا۔

دکن آرکائیو حیدرآباد کے چند متحرک نوجوانوں کا ایسا گروپ ہے، جس کا مقصد دکن سے متعلق تاریخی حقائق کو عام کرنا ہے۔ اس کے ذریعے دکن کی درست معلومات اور تاریخی واقعات سے واقف کرایا جاتا ہے اور اسے عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ گروپ دکن کے متنوع تاریخی ورثے کو ڈیجیٹل طور پر محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ نایاب مخطوطات، قدیم تصاویر اور آرکائیو کو محفوظ کیا جا رہا ہے۔ سماجی رابطہ کے مختلف ذرائع فیس بک، انسٹاگرام کے علاوہ ویب سائٹ https://thedeccanarchive.in پر دکن آرکائیو سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماہ لقا چندا - خطۂ دکن میں فن موسیقی کی باوقار فنکارہ
***
AbdurRahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.
mrpasha1994[@]gmail.com
موبائل : 09014430815
محمد رحمٰن پاشا

Mah Laqa Bai Chanda. Article: AbdurRahman Pasha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں