آپ نے پہاڑ تو دیکھے ہوں گے لیکن ایسے پہاڑ بہت کم ہیں جن کے اندر انہیں سے تراشی ہوئی مورتیاں ہوں اور چاروں طرف تصویریں بھی بنی ہوں اور ان کی شکل بھی غار کی سی ہو۔ مہاراشٹر میں شہر اورنگ آباد کے قریب اجتنا اور ایلورا کے غار ایسے ہی ہیں۔ یہ غار قدرتی نہیں بلکہ چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے ہیں۔ یہ غار بہت پرانے ہیں لیکن دیکھئے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آج ہی بنایا گیا ہے۔
اجتنا کے غار بڑی خوبصورت جگہ پر ہیں یہاں قدرتی آبشار ہیں۔ یہیں پر ایک پر فضا وادی میںیہ غار چٹانوں کو تراش کر بنائے گئے ہیں۔ ان علاقوںں کے قدیم راجاؤں نے اس کام کے لئے بہترین فنکاروں کو جمع کیا۔ یہ غار بدھ مت کے ماننے والوں ہی بنائے تھے۔ انہیں اپنے مذہب سے سچی محبت تھی اور انہوں نے یہ کام دل و جان سے کیا۔
اجتنا میں سب سے پرانے غار تو وہ ہیں جو آج سے تقریبا بائیس سو سال پہلے بنائے گئے تھے۔ پھر آخری غار وہ ہیں جو چھٹی صدی عیسوی میں بنے تھے۔ اس طرح یہ غار تقریباً آٹھ سو سال میں بنے ہیں۔ ان غاروں کے بنانے میں کئی نسلوں نے حصہ لیا۔
ایک وسیع ہال میں مہاتما بدھ کا ایک بڑا مجسمہ بنا ہوا ہے۔ دیواروں پر مہاتما بدھ کے پچھلے جنموں کی کہانیاں تصویروں کی زبانی بیان کی گئی ہیں۔چھتوں پر نازک نازک بیک بوٹوں کے نقش و نگار ہیں۔ یہاں ایک استوپ ہے جس میں مہاتما بدھ کا مقدس بال اور چتا کی راکھ محفوظ ہے۔ یہاں بھکشو عبادت کیاکرتے تھے۔ یہ لوگ عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ تصویریں بنانے کا کام بھی کرتے رہتے تھے۔ غاروں میں اندھیرا تو تھا ہی۔ اس لئے تصویریں بنانے میں خاصی مشکل پیش آتی تھی۔ چنانچہ غار کے منہ پر فولاد پر صیقل کئے ہوئے بڑے بڑے آئینے رکھ دئے جاتے۔ جب ان پر سورج کی کرنیں پڑتیں تو ان کا عکس غاروں کے اندر پڑتا۔ اور یہی نہیں بلکہ غار کے اندر بھی اس طرح اور آئینے رکھ دئے جاتے پھر ان پر باہر کے آئینوں کا عکس پڑتا اور یوں غار میں ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو جاتی تھی۔ یوں تو مشعل جلاکر بھی روشنی کی جا سکتی تھی۔ لیکن مشعل کا دھواں نئی نئی بنی ہوئی تصویروں پر بیٹھ جاتا۔ اس لئے انہوں نے مشعلیں استعمال نہیں کیں۔
اجتنا میں تقریباً ایک ہزار برس تک بڑی پر سکون زندگی رہی۔ بھکشوؤں کی کئی نسلیں آئیں اور گزر گئیں۔ اجتنا میں غار بنتے گئے۔ مشہور چینی سیاح بلوین سانگ ساتویں صدی عیسوی میں یہاں آیا تھا۔ اس نے ان غاروں کی بہت تعریف کی ہے۔
زمانہ سدا ایک حال پر نہیں رہتا۔ دھیرے دھیرے ہندوستان سے بدھ مت کا خاتمہ ہونے لگا اور اس کے نا م لیوا بھی باقی نہیں رہے۔ یہاں تک کہ اجتنا میں بھی کوئی باقی نہیں رہا۔ لوگوں کے دلوں سے بھی آہستہ آہستہ اس کی یاد مٹ گئی اور سینکڑوں برس تک لوگوں کو ان غاروں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ چل سکا۔
جب انگریز ہندوستان آئے اور 1819ء میں انگریزوں اور مرہٹوں کے درمیان انہیں پہاڑیوں کے آس پاس لڑائی چھڑی تو انگریزی فوج کے سپاہی اس وادی کو ایک اچھا مورچہ جان کر اس کے اندر اتر گئے۔ یہاں پہنچے تو انہیں غاروں کا بیرونی حصہ نظر آیا۔ یہ غار مٹی سے اٹے پڑے تھے ، کچھ سپاہی ان غاروں میں گھس گئے اور ان کے اندر تصویریں دیکھ کر حیران ہوئے اور پھر جلد ہی ان کی شہرت پھیل گئی۔ بڑے بڑے مصوروں نے ان کی تصویریں تیار کیں۔ ان تصویروں کی لندن اور پیرس میں نمائش ہوئی۔ غاروں کو صاف کیا گیا تاکہ ان کو دیکھنے کے لئے آ سکیں۔
ایلورا کے غار بنانے والوں کو اجتنا کے غاروں جیسا دلکش منظر تو نہ مل سکا۔ تاہم قدرتی مناظر کے لحاظ سے یہ مقام بھی اچھا ہے۔ ایلورا میں کل ملاکر 34 غار ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایلورا کے غار بنانے والوں کے ہاتھ میں پتھر بھی موم ہوگیا تھا۔ پتھر کو انہوں نے جس طرح چاہا تراشا بنایا سنوارا اور اپنے جذبے کی آنچ اس میں شامل کردی۔ کیلاش کا مندر ایلورا کے غاروں کی جان ہے۔ یہ مندر راشٹر کوٹ کے راجا کرشنا کی سرپرستی میں بنا تھا۔ اس کے پرکھوں نے یہاں ایک مندر بنایا تھا۔ راجا کرشنا کو یہ بہت پسند آیا۔ اس نے حکم دیا کہ ایسا ہی مندر بنایاجائے۔ چنانچہ ایک بہٹ بڑی چٹان کاٹ کر اس میں کیلاش کے مندر کو بنانے میں کوئی دو لاکھ ٹن پتھر باہر نکالنا پڑا۔
ایلورا کے مندر بھی کئی سو برس میں بن پائے۔ یہ غار اجتنا کی طرح نظروں سے اوجھل تو نہیں ہوئے لیکن ان کی اہمیت ختم ہو گئی تھی۔ جگہ جگہ مورتیاں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔ لیکن محکمہ آثار قدیمہ نے ان کی طرف توجہ کی اور اب اس جگہ کی رونق بھی بڑھ گئی ہے۔
ماخوذ از کتاب: اردو میں بچوں کے ادب کی اینتھولوجی
مرتب: مناظر عاشق ہرگانوی۔ ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی۔ سن اشاعت: 2002ء۔
اجنتا پر اردو میں تحقیقی مواد کی ضرورت ہے
جواب دیںحذف کریں