ادب ہمیں موجود سے ممکن کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مستقبل کا معاشرہ، حقیقت اور آگہی ، واقعہ اور تخیل، فکر اور تصور، تجربہ اور تجزیہ، روایت اور تخلیق ، جمود اور حرکت ، نیکی اور بدی کے امتزاج سے تشکیل پاتا ہے۔ کیوں کہ یہ سب معاشرے کے اجزائے ترکیبی میں شمار ہوتے ہیں۔ یوں ادب، ادیب اور ادب پارہ معاشرے کے اہم عناصر میں شمار ہوتے ہیں۔ لہذا ادب ناممکن اور موجود سے ممکن کی جانب سفر کرتے ہوئے حقیقت اور تخیل کو تخلیقی اظہار کے حسین امتزاج سے افسانوی رنگ میں پیش کرتا ہے۔ یہ افسانونی رنگ اور ادبی امتزاج ہمیں اردو سفر نامے میں بھی نظر آتا ہے۔
اردو کے افسانوی ادب کی اہم اصناف (داستان ، ناول، افسانہ، ڈراما) کی ساخت ، بناوٹ ، اجزائے ترکیبی اور بئیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو مسلمہ اور طے شدہ صنفی انفرادیت اور حیثیت کے باوجود فکشن اور سفر نامے میں مشترک خصوصیات اور عناصر تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم ان مشترک خصوصیات میں مذکورہ افسانوی اصناف کی فنی ضروریات کے اعتبار سے طوالت اور اختصار، کمی اور بیشی ، کردار اور واقعات ،حقیقت اور تخیل، مافوق الفطرت رنگ اور سائنسی طرز فکر، منظر اور پس منظر، اسلوب اور بئیت کا فرق ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن پلاٹ ،قصہ، واقعات ، کردار، کردار کی خوبیاں خامیاں، عشق و محبت، مہم جوئی ، نیکی اور بدی کا ازلی ٹکراؤ ، اخلاقیات، رومانیت ،حقیقت نگاری ، معاشرتی رسم و رواج ،عقائد و مسلمات ، تاریخی اور علمی حقائق ، انداز بیان، روز مرہ اور محاورہ، تشہیہ اور استعارات ضرب الامثال کا استعمال ، سادگی و سلاست، پر تکلف انداز تحریر، مکالمہ نگاری ، منظر نگاری ، زبان و بیان کے فنی محاسن ، ادبی مقصدیت اور فلسفہ حیات جیسی خوبیاں افسانوی ادب میں ہمیں کسی نہ کسی رنگ اور انداز میں ہئیتی ضرورتوں کے فرق کے ساتھ یا ایک آدھ عنصر کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت مل جاتی ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افسانوی ادب کے یہ مشترکہ عناصر اور خصوصیات کیا اردو سفر نامے میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں؟ تو اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ ہاں یہ ممکن ہے۔ تاہم ادبی تحقیق کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر کا قدرے تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے کہ افسانوی ادب کی جملہ اصناف ( داستان ، ناول، افسانہ، ڈراما ) کا انفرادی یا اجتماعی اثر اردو سفر نامے پر کیوں کر اور کس قدر پڑا ہے۔
افسانوی ادب میں داستان کی ساخت میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ پوری داستان پڑھے سنے بغیر چین نہیں آتا۔ قصہ طویل اور دیگر ضمنی قصوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ محیر العقول واقعات اور سنسنی خیز مہمات اس کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔ کردار اچھے برے یا مثالی ہوتے ہیں۔ حسن و عشق اور اس کے متعلقات کہانی کا بنیادی محرک محسوس ہوتے ہیں۔ داستان میں الجھنیں رکاوٹیں ، نیکی ، بدی ، مشکلات کا اتار چڑھاؤ اور پھر سب ٹھیک ہو جانا۔ معاشرتی رسم و رواج ، تہذیب وثقافت ، تاریخی اور علمی حقائق کا اظہار اور عکاسی داستان نگاری کا اہم جزو ہوتی ہیں۔ بیانیہ اور خطابیہ انداز بیان ، زبان بیان کے فطری محاسن ، روز مرہ محاورے کا دلکش استعمال اور شگفتہ اندازِ انشا ، کہانی کو پرکشش بنا دیتا ہے۔
ناول کی ساخت اور بناوٹ کے "بنیادی اجزاء" کا جائزہ لیں تو ہمیں قصہ، واقعات ، کردار نگاری ،منظر نگاری ، مکالمہ نگاری اور مخصوص فلسفہ حیات کہ جس کو مقصدیت بھی کہا جا تا ہے ، نظر آتے ہیں۔ ناول کا پلاٹ واقعات کے اعتبار سے اکہرا یا مرکب ہوتا ہے تاہم لازمی امر یہ ہے کہ کہانی کے تمام اجزا منطقی لحاظ سے مربوط ہوں نیز واقعات کا نشو و نما اور پھیلاؤ فطری ہو۔
کرداروں کے متعلق ضروری ہے کہ ان کا تعلق حقیقی زندگی سے ہو۔ انسانی نفسیات کے لحاظ سے ان میں خوبیاں اور خامیاں موجود ہوں، لیکن حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے۔ قصہ کہانی میں کردار نگاری کے حوالے سے مکالموں کی اہمیت سے انکار نہیں۔ لہذا کردار نگاری مکالموں سے بھی ہوتی ہے اور ناول نگار بیانیہ سے بھی یہ کام لیتا ہے۔ ان کرداروں میں فطری ارتقاء بھی ہوتا ہے۔ اخلاقی بلندی اور پستی بھی واقع ہوتی ہے۔ مکالمہ کردار کے مزاج ، مذاق ، احساسات اور جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ مرد و زن اور بچوں بزرگوں کی تفریق و افتاد کا پتہ چلتا ہے۔
نفسیاتی کیفیتوں کا یہ اظہار کہانی کے ارتقا پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ منظر کشی ، منظر اور پس منظر یعنی مقام اور وقت کا تعین کرتی ہے جس سے ماحول اور فضا کی ترتیب میں آسانی ہوتی ہے۔ ناول میں پیش کردہ معاشرہ اور معاشرتی طبقات صحیح تناظر میں نظر آتے ہیں۔ قوت تخیلہ اور قوت انشا کے امتزاج سے منظر نگاری میں مدد ملتی ہے۔ جہاں تک مقصدیت، نصب العین ، نظریہ یا فلسفہ حیات کا تعلق ہے اس کو اچھا ناول نگار ڈھنڈورا پیٹے بغیر چیکے سے کرداروں کے پردے میں قصے کے فطری ارتقا میں چھپا کر رکھتا ہے اور ادب پارے کے اختتام پر اس کا انکشاف ہوتا ہے۔
افسانہ ہمارے عہد اور دور کی مقبول و معروف صنف نثر ہے جس نے کہانی کے مقام اور معیار کو بڑھایا ہے۔ اس کی ساخت اور اجزائے ترکیبی میں موضوع کا انتخاب، عنوان کا تعین، تمہید، قصہ کہانی کا پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ، منظر کشی، مقصدیت، وحدت زمان و مکان اور نقطہ عروج کو اہمیت حاصل ہے۔ افسانہ اگرچہ زندگی کے کسی ایک جزو کا احاطہ کرتا ہے لیکن اس پہلو سے متعلق دیگر پہلوؤں کو اس طرح واضح کرتا ہے کہ کہانی کی تمام پرتیں ایک دوسرے سے گندھی ہوئی ہوتی ہیں۔ موضوع کا جاندار ہونا، متنوع اور تازہ ہونے سے قارئین کی دلچسپی بڑھتی ہے۔ گرد و پیش کی فضا کا احوال اور معاشرتی مسائل کا سچائی اور حقیقت نگاری کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اظہار کرنا چاہیے۔ اس طرح حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے میں قاری کو مدد ملتی ہے۔ طرز بیان اور طرز اظہار میں ادبی شان سے قصے کی تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ محاکات کا استعمال، اشارے، کنائے، بلاغت، جامعیت، سادگی اور بےتکلف انداز بیان خوبصورتی کا مظہر ہوتے ہیں۔ تحریر میں مشاہدے، تجربے اور علمی گہرائی کے تمام پہلوؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
انسانی زندگی میں عمومی طور پر اور ادب میں بالخصوص داستان، قصہ یا کہانی کی کیا اہمیت ہے۔ نیز افسانوی ادب ہماری روزمرہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کو کس طرح متاثر کرتا ہے، اس کے حوالے سے ڈاکٹر آغا سہیل لکھتے ہیں:
"کہا جاتا ہے کہ جب سے انسان روئے زمین پر آیا ہے اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی کہانی بھی لایا ہے۔ یہ کہانی آدم وحوا کی کہانی بھی ہے اور اگر ادیان عالم کے مختلف النوع مدرسہ ہائے فکر کو ملحوظ رکھئے تو قصۂ آدم میں رنگینی پیدا کر نے والا اس میں ابلیس کا لہو بھی شامل ہے اور زمین پر حضرت انسان کے ورود مسعود کے ساتھ ہی ساتھ ہابیل اور قابیل کا خونیں المیہ بھی وجود میں آ جاتا ہے۔ لہذا کہانی، قصے، داستان اور افسانے کا انسان سے وہی رشتہ ہے جو اس کے سائے کا اس سے وابستہ ہے۔ کہانی انسان کا خمیر ہے، اس کی فطرت ثانیہ ہے اور اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ کہانی سے انسان کو مطلقاً مفر نہیں۔ کبھی وہ کہانی سنتا ہے اور کبھی بنتا ہے۔ مہد سے لہد تک کہانیاں ہی کہانیاں، ازل سے ابد تک تمام محیط عالم میں کہانیاں رچی بسی ہوئی ہیں اور کائنات کے رگ و پے میں دوڑتی ہوئی اور سمائی ہوئی ہیں۔ البتہ زمانوں کے لحاظ سے کہانیوں کے مزاج کی افتاد بدلتی رہی ہے۔ معاشرتی عوامل اور محرکات ، کہانی سننے اور کہانی بننے والوں کو متاثر کرتے رہے ہیں۔ ملکوں ملکوں کے جغرافیائی اور تاریخی تقاضے انسانی فطرت پر بالواسطہ اور بلا واسطہ اثر انداز ہوتے رہے ہیں، جو کہانی کے مزاج کو بدلتے رہے اور اس کی بنت پر بھی اثر ڈالتے رہے۔ چنانچہ بابل ، چین ، ہندوستان ، عرب، ایران ، مغربی یورپ اور انگلستان جہاں جہاں سے بھی داستانی یا افسانوی روایتیں اکٹھا ہوتی ہیں ان پر اپنے اپنے زمانوں کی گہری چھاپ لگی ہوئی ہے۔"
مذکورہ بالا مختصر پس منظر کی روشنی میں جب اردو کے بالخصوص قیام پاکستان کے بعد کے جدید سفر ناموں کا فنی اور فکری جائزہ لیا جائے تو افسانوی ادب کے اثرات کے نقوش کی تلاش قدرے آسان ہو جاتی ہے۔ اردو سفرنامے کی غیر معمولی ترقی اور افسانوی ادب سے اس صنف نثر کے تعلق کے حوالے سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں :
آزادی کے بعد اس صنف میں غیر معمولی دل چسپی لی گئی۔ اس عرصے میں غیر ممالک نے آغوش ضرورت کو وا رکھا۔ سفر کو وسیلہ حیات بنایا گیا اور سہولتوں کی جلو میں مہم جوئی کو عام معمول کی حیثیت مل گئی۔ زیادہ لوگوں نے بیرونی دنیا کو دیکھا تو سفر کے احوال بھی زیادہ لکھے گئے۔ اس دور میں افسانے میں علامت اور تجرید کے تجربے کئے جا رہے تھے اور افسانے سے 'کہانی پن' معدوم ہو رہا تھا۔ سفر نامہ نگاروں نے کہانی کے اس خلا کو بڑی خوبی سے پر کیا اور تحیر کی افزائش کے لئے تخیلہ کو افراط سے استعمال کیا۔ آپ بیتی میں جگ بیتی شامل کرنے کے لئے کرداروں سے بھی معاونت حاصل کی گئی"۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ سفرنامے کے فن پر بحث کرتے ہوئے انگریزی ادب سے حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
"پھر چوسر کی 'کنٹر بری ٹیل' ہے جس میں کنٹر بری سینٹ بیکٹ کے مزار پر جانے والا مسیحی قافلہ، ہیری بیلی کو میر کارواں چنتا ہے اور یہ طے پاتا ہے کہ وقت گزارنے کے لئے زائرین میں سے ہر فرد کوئی نہ کوئی کہانی ضرور سنائے گا، جو نہیں سنائے گا اسے جرمانہ ہوگا۔۔۔ انگریزی کے ابتدائی سفرناموں میں چوسر کی یہ سفری روداد ناول کے فن سے قریب تر ہے۔"
آگے چل کر ڈاکٹر موصوف مزید لکھتے ہیں:
خارج سے متعلق بیانیہ اصناف ادب میں سفرنامہ سرفہرست ہے لیکن شاید سفرنامہ واحد نثری صنف اظہار ہے جس کی تکنیکی تعریف کا تعین تاحال ممکن نہیں ہو سکا۔ کچھ یہی سبب سے کہ سفرنامہ کبھی روزنامچے کے رنگ میں لکھا گیا اور کبھی خطوط کی شکل میں۔ اس میں مکالمے کی شمولیت بھی ممکن ہے اور اس میں خبر پہنچانے کا انداز بھی کھپ جاتا ہے۔ پیش منظر کا سفرنامہ اسلوبی سطح پر "نان فکشن" رہتے ہوئے بھی فکشن کا انداز اختیار کر گیا ہے۔ البتہ سفرنامے میں پیش آنے والے واقعات فکشن کی طرح ترتیب نو کے متحمل نہیں ہوتے اور جہاں کہیں بھی ایسا کیا گیا ہے سفرنامہ، ناول یا افسانہ بن گیا ہے۔
جبکہ ڈاکٹر غفور شاہ قاسم سفرنامے اور افسانوی ادب کے تعلق کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"سفرنامے میں چونکہ رپورتاژ، افسانے، روزنامچے، خطوط اور داستان جیسی اصناف کا تھوڑا تھوڑا ذائقہ موجود رہتا ہے اس لیے کچھ ناقدین نے سفرنامے کو 'ام الاصناف' قرار دیا ہے۔"
ماخوذ از ایم۔فل مقالہ: اردو سفرنامے میں فکشن کے عناصر (قیام پاکستان کے بعد) (علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد۔ سنہ 2010ء)
مقالہ نگار: ظفر عباس (شعبۂ اردو، گورنمنٹ ٹی۔آئی کالج، چینوٹ)۔ نگراں: ڈاکٹر محسنہ نقوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں