ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 09 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-30

ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 09

neeli-dunya-siraj-anwar-09

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
اچانک ان لوگوں کا راکٹ کسی نامعلوم سیارے کی کشش میں داخل ہو گیا۔ جان اور والٹر نے راکٹ کو کامیابی سے سیارے پر اتار لیا۔ سب سے پہلے سوامی اس سیارے کی زمین پر اتارا گیا اور پتا چلا کہ سیارے کی زمین ایکدم ربر جیسی لچکیلی ہے۔ پھر جیک کو راکٹ کی حفاظت کی خاطر وہیں چھوڑ کر وہ سب آگے بڑھے تو ایک نئی اور خوفناک دنیا اور مکڑی جیسے آدمیوں کی مخلوق سے ان کا سابقہ پڑا اور وہ سب گرفتار کر لیے گئے۔ ۔۔۔۔
اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔

کسی نہ کسی طرح مکڑ آدمیوں نے اس پر قابو پا لیا تھا اور اسے گرفتار کرکے ہمارے سامنے لے آئے تھے۔ ایک بات بہت زیادہ تعجب خیز تھی اور وہ یہ کہ جیک نے ہمیں دیکھ کر بھی خوشی یا جوش کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی پیشانی پر ایک سفید پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس پٹی کے بالکل بیچ میں ویسا ہی سنہرا گولا لگا ہوا تھا جیسا کہ کراما کے تاج میں تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس گولے میں سے کوئی شعاع نہیں نکل رہی تھی اور نہ ہی وہ چکر لگا رہا تھا۔ مجھے یہ سفید پٹی دیکھتے ہی احساس ہوا کہ مکڑ آدمیوں کی فوج جب اندر داخل ہوئی تھی تو ان میں سے کچھ کی چونچوں میں ایسی ہی سفید پٹیاں لٹک رہی تھیں۔ تو کیا ہمیں گرفتار کرنے کے لئے محض یہ سفید پٹیاں ہی کافی ہوں گی!


جیک کو اس بھیانک قوم کے پھندے میں پھنسا ہوا دیکھ کر ہم خاموش ہو گئے اور ہم نے جان کے کہنے پر اپنے ریوالوار جیبوں میں واپس رکھ لئے پیلے رنگ والا مکڑ آدمی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہماری طرف بڑھنے لگا۔ پھر اس نے جیک سے نہ جانے کیا کہا کہ وہ مکڑ آدمیوں سے سفید پٹیاں لے کر ہماری طرف بڑھا اور پھر اس نے باری باری وہ سفید پٹی ہم میں سے ہر ایک کی پیشانی پر باندھ دی۔ دوسروں کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جیسے ہی وہ پٹی میری پیشانی پر بندھی مجھے یوں محسوس ہوا گویا اندھیرے کی دلدل میں دھنسا جا رہا ہوں۔۔۔ اندھیرا۔۔۔ اندھیرا۔۔ اور پھر اچانک چمکیلی سی تیز روشنی۔۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اس روشنی سے گہری محبت کرتا ہوں۔ روشنی کے اندر مجھے کراما نظر آیا اور میرا دل بے اختیار اس کی طرف کھنچنے لگا۔ جی چاہتا تھا کہ دوڑ کر جاؤں اور اس کا جو بھی حکم ہو فوراً بجا لاؤں۔


کراما مجھے اپنا آقا اور مالک نظر آتا تھا۔ میرا دل کہتا تھا کہ کراما ہی سب کچھ ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور سب اس کے حکم کے بندے ہیں۔ کراما جیسا خونخوار اور خوفناک جاندار اب مجھے اپنی ہر شے سے بھی عزیز محسوس ہوتا تھا۔ زرینہ حالانکہ میرے قریب کھڑی ہوئی تھی مگر اب مجھے اس کی ذرا سی بھی پرواہ نہیں تھی۔ اسی کی کیا کسی کی بھی پرواہ نہیں تھی جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ ہم سب کراما کے خادم بن چکے تھے اور اس کے ذرا سے اشارے پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے بالکل تیار تھے۔
میرا دماغ اپنے آس پاس کی چیزوں کو پہچان سکتا تھا۔ البتہ میرا مشن کیا تھا ، میں آئندہ کیا کرنے والا تھا۔ میرے دشمن کون تھے؟ یہ سب باتیں میرے ذہن سے مٹ گئی تھیں۔ میرے ساتھیوں کی بھی وہی حالت تھی جو میری تھی ، میں ان کے لئے اجنبی تھا اور وہ میرے لئے غیر۔۔ ہمارے دماغوں پر خونخوار کراما کی حکومت تھی اور ہم بے بس و لاچار اس کا ہر معمولی سے معمولی حکم پورا کرنے کے لئے مجبور تھے۔


"دیکھی تم نے میرے کتاک کی کرامت" کراما سیٹی والی آواز میں ہنسا۔ اس کے تاج کے سنہرے گولے میں سے ہلکی سنہری شعاع نکل کر میرے کتاک کے سنہری گولے پر پڑ رہی تھی۔ اور جیسا کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ کتاک اسی سفید پٹی کو کہا گیا تھا جو میرے اور میرے ساتھیوں کی پیشانی پر باندھی گئی تھی۔


"تم لوگ اب میرے غلام ہو۔۔۔" کراما نے کہا: "تم میرے لئے زمین کھود کر کاگی نکالو گے۔ تمہاری مدد کچھ اور قیدی بھی کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی تم شیفاؤں کو تباہ کرنے کا طریقہ بھی سوچو گے۔ شیفا ہمارے دشمن ہیں۔ تمہیں بتا دیا جائے گا کہ تم ان سے کس طرح لڑو گے۔۔۔ اب تم جاؤ اور جاکر ہماری قوم کے لئے کاگی کھو دو۔"
سیٹی نما ہنسی پھر سنائی دی اور ہم لوگ بڑے ادب کے ساتھ کراما کے سامنے جھک گئے میرا دل چاہتا تھا کہ میرے پر لگ جائیں ، میں اڑ جاؤں اور کسی بھی طرح کراما کے لئے کاگی نکال لاؤں۔۔ مگر یہ کاگی کیا چیز تھی؟ افسوس یہ اس وقت تک مجھے معلوم نہ تھا۔


بھیڑ بکریوں کی طرح سے ہانکنے کے بعد مکڑ آدمیوں کی فوج ہمیں اس غار سے باہر لے آئی۔( میں ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتا کہ ہم لوگ کتنی دور چلے ہوں گے۔ کیوں کہ اتنی بہت سی باتیں بھی میں نے اپنی یادداشت کے بل بوتے پر لکھی ہیں۔ بہت سی باتیں تو مجھے بھی یاد نہیں رہیں۔ میرا دماغ میرا اپنا کہاں تھا جو مجھے کچھ یاد رہتا) نہ جانے ہم لوگ کتنی دور چلے۔۔۔ فاصلہ بے شک لمبا تھا مگر تھکن ہمیں بالکل بھی محسوس نہیں ہوئی۔ ہم بڑے آرام سے اس خوفناک قوم کے ساتھ کسی نامعلوم سمت کی طرف لگاتار چلتے رہے۔


کافی دور چلنے کے بعد مجھے اودے رنگ کی کچھ پہاڑیان دکھائی دیں۔ ان پہاڑیوں میں سے نیلے رنگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں مکڑ آدمیوں نے پہاڑیوں کے قریب پہنچ کر ہمیں حکم دیاکہ ہم نیچے کھڈ میں دیکھیں۔۔۔ ان کا حکم مانتے ہوئے جب نے نیچے کھڈ میں دیکھا تو کوئی خاص بات مجھے اس کے سوا محسوس نہیں ہوئی کہ کئی سو فٹ گہرے کھڈوں میں ہمارے جیسے کچھ انسان ہاتھوں میں عجیب قسم کی درانتی نما ہتھوڑے لئے ہوئے چٹانوں میں سے کوئی چیز توڑ رہے ہیں، ان سب کی پیشانیوں پر بھی کتاک بندھا ہوا تھا۔ ہمیں اتنی بلندی پر کھڑے دیکھ کر نہ تو انہوں نے کسی جوش کا اظہار کیا اور نہ ہم نے، ہمیں جب یہ حکم ملا کہ ہم بھی خاموشی سے نیچے جاکر ان لوگوں میں شامل ہوجائیں تو پھر ہم آہستہ آہستہ اس ٹیڑھی میڑھی اور پتھریلی پگڈنڈی کی طرف بڑھے ، جو بل کھاتی ہوئی نیچے کھڈ میں جا رہی تھی۔


زرینہ مجھ سے آگے تھی مگر اس وقت نہ تو میں اسے پہچانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتی تھی۔ گو بعد میں مجھے یہ علم ضرور ہوا تھا کہ اس پگڈنڈی پر سے اترتے وقت زرینہ کے پیر زخمی ہو گئے تھے۔ مگر اس وقت مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی۔ میں تو بس کراما کے حکم کا غلام تھا اور ایک معمول کی طرح اس کا ہر کہنا مان رہا تھا۔ ہمارے محافظ مکڑ آدمیوں نے جب یہ دیکھ لیا کہ ہم پگڈنڈی پر چل پڑے تو وہ اپنی آٹھ ٹانگوں پر چلتے ہوئے واپس کراما کے غار کی طرف چلے گئے۔


ہم بالکل مسمریزم کے معمول کی طرح سیدھا مونہہ اٹھائے ہوئے اونچے نیچے پاؤں رکھتے ، گھاٹی میں اتر رہے تھے۔ میرے دماغ میں صرف ایک ہی حکم تھا اور بار بار کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا۔
"جاؤ۔۔۔ نیچے جاکر کاگی کھودنا شروع کر دو۔۔۔ جلدی جلدی!"


میں اس حکم کو پورا کرنے کی خاطر بڑی تیزی سے نیچے اترا جا رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ جلد سے جلد اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کر لوں اور پھر اس کے سامنے سرخرو پہونچوں اور کہوں کہ اے میرے آقا، میرے مالک۔۔ دیکھ میں نے تیرا حکم پورا کر دیا ہے۔ لیکن جلدی کا کام ہمیشہ شیطان کا کام مانا گیا ہے۔۔۔۔۔ میں نے بغیر نیچے دیکھے جب ایک بار اپنا دم بڑھایا، راستے کی ایک چھوٹی سی چٹان اپنی جگہ سے لڑھک گئی ، میرا توازن برقرار نہ رہا اور میں اچانک پھسل گیا۔


میں کافی بلندی سے نیچے گرا تھا، مگر جس جگہ گرا تھا وہ زمین نسبتاً نرم تھی اور وہاں ریت جیسی کسی چیز کے ٹیلے تھے ، لہذا مجھے چوٹ تو بالکل نہیں آئی۔ البتہ یہ دیکھ کر میں حیرت زدہ ضرور ہوا کہ اوپر سے آنے والے میری پارٹی کے لوگوں نے نہ تو مجھے دیکھنے کی کوشش کی اور نہ ہی وہ میری مدد کو آئے۔۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ وہ تو سب معمول ہیں۔ ان کے دماغ کراما نے خالی کر دئے ہیں اور وہ اب اس کے حکم کے غلام بن چکے ہیں۔


اختر اور زرینہ کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ زرینہ نے ایک بار جب اپنا قدم بڑھایا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پیروں میں سے خون نکل رہا ہے ، کمزوری اور خوف کے باعث اس کا چہرہ پیلا پڑا ہوا ہے اور تقریباً یہی حالت اختر کی بھی ہے۔ غصے کے باعث میری مٹھیاں بھنچ گئیں، مونہہ سے کف جاری ہو گئے اور میرا دل چاہنے لگا کہ ابھی دوڑتا ہوا جاؤں اور خونخوار و ظالم کراما کے ٹکڑے کر ڈالوں۔۔ مگر پھر فوراً ہی میرا دل لرز کر رہ گیا ، میں یہ کیا سوچ رہا ہوں؟ جو کراما کا غلام ہوں، اس کے قتل کے بارے میں کس طرح سوچ سکتا ہوں۔۔؟ کیا میرا دماغ اب میرا اپنا ہے یا پھر میرے اپنے دماغ پر سے کراما نے اپنا دباؤ ہٹا لیا ہے ؟


اس کا جواب مجھے فوراً ہی مل گیا ، حیرت اور خوشی کے باعث میری ایک دبی ہوئی چیخ نکل گئی ، کیوں کہ میں نے اب اس کتاک کو دیکھ لیا تھا جو پہلے میری پیشانی پر ضرور بندھا ہوا تھا لیکن اب میرے گرنے کی وجہ سے سر سے کھل کر وہیں اس نرم زمین پر گر پڑا تھا۔۔ کتاک کے کھلتے ہی میں اب پھر سے فیروز بن گیا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے کراما کا غلام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب میرے دل میں کراما کے خلاف نفرت اور غصے کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ میرے لئے یہ بڑا سنہرا موقع تھا اور میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے اھر اُدھر دیکھا اور پھر کتاک کو اٹھا کر اس کے بیچ میں لگے ہوئے سنہری گولے کو غور سے دیکھا۔ یہ گولا سنہرے رنگ کے ایک پاؤڈر سے بھرا ہوا تھا۔ اور تو کچھ میری سمجھ میں آیا نہیں، بس میں نے فوراً سنہری گولے کو پٹی سے علیحدہ کرلیا۔ ایسا کرتے ہی سنہری پاؤڈر گولے میں سے نکل کر ریت میں گر گیا۔ اب مجھے یہ فکر ہوئی کہ گولے میں ایسی کون سی چیز بھروں جو سنہری معلوم ہو اور جس سے میرا راز نہ کھلے۔ مجھے جو کچھ بھی کرنا تھا فوراً کرنا تھا کیوں کہ میرے ساتھی اب نیچے آنے ہی والے تھے۔


اچانک مجھے یاد آیا کہ دواؤں کے بکس میں ایک سنہری پنی کا ہوا بند پیکٹ ہے ، اس پیکٹ میں چکر دور کرنے والی گولیاں بھری ہوئی ہیں۔ اگر میں اس پنی کو کام میں لے آؤں تو کیسا رہے۔۔۔؟ یہ سوچنے کی دیر تھی کہ میں نے فوراً اس پر عمل کیا، پنی کا سہرا رخ میں نے گولے کے اندر اس خوبصورتی سے لگادیا کہ وہ دور سے پاؤڈر جیسا ہی نظر آتا تھا۔ گولا دوبارہ میں نے سفید پٹی میں جڑ دیا اور پھر یہ کتاک خود ہی اپنی پیشانی پر باندھ لیا۔
مجھے کچھ بھی محسوس نہ ہوا۔ کتاک بندھے ہونے کے باوجود میں اپنے ساتھیوں کو پہچان سکتا تھا، ان کے اور اپنے بارے میں سوچ سکتا تھا اور کراما کے خلاف بغاوت بھی کر سکتا تھا۔


مجھے ایک احتیاط ضرور کرنی تھی اور وہ یہ کہ کسی بھی حالت میں مجھے مکڑ آدمیوں کے قریب نہیں پہنچنا تھا ، وہ چونکہ خیالات پڑھ لیتے تھے اس لئے میرے بارے میں یقیناً جان سکتے تھے۔ میں یہ تہیہ کرکے ان سے دور ہی دور رہوں گا فوراً کھڑا ہو گیا اور پھر اپنے ساتھیوں کی طرف چل پڑا جو اب قریب ہی آ چکے تھے۔ ان کے ساتھ میں گھاٹی کی ان چٹانوں کی طرف بڑھا جہاں مجھ جیسے ہی دس پندرہ انسان درانتی نما ہتھوڑوں سے چٹانیں توڑ رہے تھے۔


ان میں ایک لڑکی بھی تھی جس کی پشت میری طرف تھی۔ میں نے دیکھا کہ اپنے قد سے ذرا اونچی ایک چٹان تک پہنچنے کے لئے وہ ایک پتھر پر چڑھ رہی تھی کہ پتھر کے ہلتے ہی وہ لڑکھڑائی اور پھر زمین پر گر پڑی۔ میں انسانی ہمدردی سے مجبور ہو کر اس کی طرف بڑھا اور جلدی سے اسے اٹھایا۔ لڑکی نے کراہ کر اپنی آنکھیں کھولیں اور ایک بار مجھے دیکھا۔
ہائے۔۔۔۔ میرا کلیجہ مونہہ کو آتا ہے جب میں وہ وقت یاد کرتا ہوں! میں نے چیخ مار کر اس لڑکی کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ بڑی بے تابی سے اس کے الجھے ہوئے اور میلے بالوں کو سنوارنے لگا اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ کیوں کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنی ہوئی وہ لڑکی اور کوئی نہیں ، میری دل و جان سے پیاری بیٹی نجمہ تھی۔


توقع کے مطابق نجمہ نے مجھے دیکھ کر کسی بھی جوش یا حیرت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ اپنی خاموش اور اداس نگاہوں سے مجھے دیکھتی رہی اور میں بدستور روتا رہا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ امجد بھی یہیں کہیں ہوگا، مجھے اسے بھی تلاش کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں اپنے تمام ساتھیوں کے کتاک اتار لوں اور ان کے ذہنوں کو کراما کی گرفت سے آزاد کرا لوں تو یہ بات ہم سب کے حق میں بہت مفید ثابت ہوگی۔ رہے دوسرے قیدی تو ان کے لئے کوئی اور طریقہ سوچا جائے گا۔ میرا یہ خیال مجھے بھی معقول لگا لیکن مشکل یہ تھی کہ میرے پاس وقت بالکل نہ تھا۔
اس گھاٹی میں چار مکڑ آدمی پہرے کے لئے موجود تھے اور ان کی اگلی دو ٹانگوں میں ایک عجیب سی لکڑی نظر آ رہی تھی جس کے سرے پر سرخ رنگ کی کوئی چیز جل اور بجھ رہی تھی۔ میں ان مکڑ آدمیوں کو ہوشیار کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے مجھے یہی مناسب معلوم ہوا کہ یہ موقع جو خدا نے مجھے دیا ہے اس سے نہایت عقل مندی اور سوچ بچار کے بعد فائدہ اٹھاؤں۔ خدا کا خیال آتے ہی اچانک میرے جسم میں حیرت انگیز قوت پیدا ہو گئی ، میں نے اپنے آنسو خشک کئے اور پھر نجمہ کو سہارا دے کر کھڑا کیا وہ مجھے ابھی تک حیرت اور تعجب سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے اس کا ہتھوڑا اسے دے دیا اور پھر یہ کہتا ہوا کہ: "معاف کرنا بیٹی، تمہیں دیکھ کر میرا دل قابو میں نہیں رہا تھا" آگے بڑھ گیا۔


ہمیں اس سیارے پر آئے ہوئے اپنے دنیا کے حساب سے تقریباً آٹھ گھنٹے ہوگئے تھے۔ لہذا اب یہاں شام ہو رہی تھی ، سورج کا بہت بڑا اور سرخ گولہ آہستہ آہستہ شمال میں ڈوبتا جارہا تھا۔ (سورج وہاں اسی سمت میں ڈوبتا تھا) مجھے اب معلوم ہوا کہ یہ سیارہ کافی چھوٹا ہے اور اس کا دن صرف نو گھنٹے کا ہوتا ہے۔ سورج کی نارنجی شعاعیں سبز آسمان سے گزرتی ہوئی جب اس گھاٹی میں پڑ رہی تھیں۔ تو ایک عجیب لیکن خوفناک منظر دکھائی دے رہا تھا ، کیوں کہ سورج کی ڈوبتی ہوئی کرنوں کا رنگ بے حد بھیانک ہوگیا تھا۔ عجیب سا رنگ جسے میں شاید اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ جیسے ہی سورج ڈوبا جنوب کی سمت سے تین کی ٹکڑی والے چاند نمودار ہوئے اور سبز روشنی بکھیرتے ہوئے شمال کی سمت چلے گئے۔ میں سمجھ گیا کہ اب ہر تین گھنٹیے کے بعد یہ چاند روشنی پیدا کرتے ہوئے ادھر سے گزریں گے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کب اور کون سے وقت میں اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنچاؤں؟


یکایک سائرن کی سی ایک ہیبت ناک آواز سنائی دی۔ اس آواز کو سن کر سب قیدیوں نے کام چھوڑ دیا اور پھر کاگی سے بھری ہوئی ٹوکریاں اپنے سروں پر رکھ کر اس ٹیڑھے میڑھے راستے کی طرف بڑھنے لگے جو اونچائی تک جاتا تھا۔ ہمیں چونکہ آج پہلی بار یہ مقام دکھایا گیا تھا اس لئے ہماری ٹوکریوں میں کاگی کم تھی یہ ٹوکریاں کافی تعداد میں وہاں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ میں نے دیکھا کہ میری پارٹی کے لوگوں نے کاگی بالکل نہیں توڑی البتہ دوسرے قیدیوں کی ٹوکریاں بھری ہوئی تھیں۔ میں تیزی سے آگے بڑھا کیوںکہ میں نے ان چاروں مکڑ آدمیوں کو دیکھ لیا تھا جو اب اپنی آٹھ ٹانگوں سے رینگے ہوئے ہماری طرف آ رہے تھے۔ میں نے بھی جلدی سے ایک ٹوکری اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی اور پھر قطار میں سب سے آگے جانے والے قیدیوں میں شامل ہو گیا۔ ٹوکری چونکہ خالی تھی اس لئے وہ آگے والے آدمی کی ٹوکری سے ٹکرا کر نیچے گرنے لگی۔ میں نے جلدی سے اسے سنبھالا اور پھر اتفاقیہ اس آدمی کو دیکھا، حیرت اور خوشی کے ساتھ ہی مجھے یہ دیکھ کر اطمینان بھی بہت ہوا کہ وہ آدمی امجد کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔


امجد کے جسم پر چیتھڑے جھول رہے تھے ، اور اس کی کھال جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔۔ میرا دل خون کے آنسو رونے لگا ، مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا ، بس میں نے محبت سے اس کے شانے کو تھپتھپایا اور پھر اسے سہارا دیتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔ زرینہ مجھ سے کچھ پیچھے تھی ، میں بار بار مڑ کر اسے اور نجمہ کو دیکھ لیتا تھا کہ کہیں راستے کے پتھر انہیں زیادہ نقصان تو نہیں پہنچا رہے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ وہ دونوں بغیر کسی مشکل کے اوپر چڑھ رہی تھیں۔ راستہ کی باتیں میں کیا بیان کروں ، خواہ مخواہ داستان لمبی ہوتی ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ ہمیں بعد ایک تنگ سے غار کے اندر دھکیل کر مکڑ آدمیوں نے ایک بہت بڑا پتھر غار کے مونہہ پر لگا دیا تاکہ ہم باہر نہ نکل سکیں۔
غار میں نارنجی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور دور تک ایک ایک چیز اس روشنی میں بالکل صاف نظر آرہی تھی۔ اسے آپ ایک بہت بڑا غار کہہ لیجئے۔ قید کانہ کہہ لیجئے یا پھر ہمارا گھر۔ سب قیدی یہاں آکر جلدی سے لیٹ گئے اور پھر تھکن کے باعث لمبے لمبے سانس لی نے لگے۔ غار کی ناہموار زمین پر لیٹنے کے باوجود انہیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی، ان کا احساس ہی فنا ہوکا تھا۔ کاگی سے بھری ہوئی ٹوکریاں ہم سے باہر ہی رکھوالی گئی تھیں۔ اور ہمارے چاروں محافظ بھی وہیں رہ گئے تھے۔ اس غار میں اب ہم بالکل اکیلے تھے۔ میں اسی وقت کے انتظار میں تھا۔ لہٰذا میں نے پہلے تو چاروں طرف گھوم پھر کر اپنا اطمینان کرلیا کہ کوئی کھڑکی یا سوراخ اس غار میں ایسا نہیں ہے جس کے ذریعہ باہر کے مکڑ آدمی ہماری باتیں سن سکیں۔ اس کے بعد اس مقام کو دیکھا جہاں سے نارنجی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ یہ ایک چوکور سا خانہ تھا جس میں خود بخود دھواں پیدا ہورہا تھا اور بعد میں یہی دھواں اوپر اٹھ کر روشنی بن جاتا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر اس خانے کے اندر ہاتھ بڑھایا ، مگر روشنی ، تپش یا جلن محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایک خدشہ مجھے یہ بھی تھا کہ ہوسکتا ہے یہ روشنی کاخانہ مکڑ آدمیوں کے لئے کسی ٹرانسمیٹر کا کام بھی دیتا ہو! اگر واقعی ایسا ہوا تو پھر کچھ ہی لمحوں بعد کے کسی نہ کسی مکڑ آدمی کو غار کے اندر ضرور آنا چاہئے۔۔۔مگر خدا کا شکر ہے میرا یہ خدشہ بے بنیاد ثابت ہوا اور غار کا دہانہ اسی طرح بند رہا۔


سب طرف سے اطمینان کر لینے کے بعد اب میں اپنے ساتھیوں اور قیدیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ نجمہ اور امجد کے علاوہ قیدی تعداد میں کل دس تھے اور اپنی دہشت کے باعث پھٹی ہوئی بالکل سپاٹ سی آنکھوں سے لگاتار ایک ہی سمت میں گھورے جا رہے تھے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں خوش قسمتی سے ہمارا سامان ابھی تک ہمارے کاندھوں سے بندھا ہوا تھا۔ مکڑ آدمیوں نے ہمیں مجبور اور بے کس سمجھ کر اسے ہماری پیٹھ سے الگ نہیں کیا تھا۔ میں نے فوراً آگے بڑھ کر اپنے ساتھیوں کے تھیلوں کو ٹٹولا۔ وہ بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ نہ انہوں نے مجھے دیکھا اور نہ ہی میری اس حرکت کا برا مانا۔ میں نے وہ پیکٹ نکال لئے جن کی پنی میں پہلے ہی اپنے کتاک میں لگا چکا تھا۔ پھر میں نے پیکٹ کی گولیاں نکال کر سنہری پنی الگ کرلی اور سب سے پہلے جان کی پیشانی سے اس کا کتاک اتار لیا۔ کتاک کے الگ ہوتے جانے ایک جھرجھری لی ، پہلے اپنی آنکھیں بند کیں اور پھر انہیں دوبارہ کھول کر مجھے غور سے دیکھا۔ مجھے پہچانتے ہی وہ کچھ کہنے والا تھا کہ میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ جان فوراً چپ ہو گیا اور حیرت اور تعجب سے میری اس کارروائی کو دیکھنے لگا جو میں کتاک کے ساتھ کر رہا تھا۔ یعنی وہی سنہرا پاؤڈر نکالنے اور پھر سنہری پنی لگانے والا کام!


ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا۔ اس طرح میں سب کو کراما کی گرفت سے آزاد کرتا چلا گیا ، وہ منظر بڑا رقت انگیز تھا جب کہ میں اور زرینہ، امجد اور نجمہ سے گلے مل رہے تھے۔ خوشی کے باعث نجمہ کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔ میں اس وقت کی تفصیل بیان کرکے خواہ مخواہ اس کہانی کو لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ بس یہ سمجھئے کہ وہ وقت بڑا دردناک تھا، ہمارے علاوہ جو دس قیدی تھے وہ بھی ہمیں تعجب سے دیکھ رہے تھے۔ کیوں کہ ان کی سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آ سکی تھی کہ وہ واقعی آزاد ہو گئے ہیں، اختر کی حالت بدستور وہی تھی وہ ابھی تک خود کو جرمی کہہ رہا تھا۔ نجمہ جب بھی میرے بھیا کہہ کر اس سے لپٹنے کی کوشش کرتی وہ اسے ڈانٹ کر دور رہنے کی تاکید کرتا۔ میں نے اس عرصے میں نجمہ اور امجد کو اختر کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ اس لئے وہ دونوں اس کی ناز برداری میں لگے ہوئے تھے۔


کافی دیر تک ہم لوگ آپس میں باتیں کرتے رہے، امجد سے یہ پوچھنے پر کہ آخر وہ اور نجمہ کس طرح کار سمیت غائب ہو گئے تھے۔ اس نے مختصراً مجھے اتنا بتایا کہ جب وہ دونوں بمبئی سے آسٹریلیا جانے کے لئے میرے محل سے روانہ ہوئے تو اچانک سڑک پر پہنچتے ہی ایک چمکیلی سبز روشنی آسمان سے ان کی کار پر پڑی اور پھر وہ کار آہستہ آہستہ اس روشنی کے دائرے میں آسمان کی طرف اٹھنے لگی۔ انہوں نے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر دروازے بالکل جام ہو گئے ، کار پھر بڑی تیزی سے خلاء کی طرف جانے لگی، انہیں ایسا لگا جیسے کہ وہ راکٹ میں بیٹھے ہوئے پرواز کر رہے ہوں۔ جب کار زمین کی کشش سے نکل گئی تو انہیں ایک قہقہہ سنائی دیا، کوئی ان سے کہہ رہا تھا کہ اب وہ بے بس ہیں اور سیارہ زہرہ کی طرف جا رہے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ خود کو سیارہ زہرہ کے ڈکٹیٹر شاکا کا قیدی سمجھیں۔ آواز جب سنائی دینی بند ہو گئی تو اچانک کار کو ایک جھٹکا لگا اور وہ بڑی تیزی سے اس سبز سیارے کی طرف جانے لگی ، ان دونوں کو بڑا ڈر لگا اور وہ سوچنے لگے کہ شاید کار سیارے کی زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گی ، مگر ایسا نہ ہوا ، کسی خاص قوت نے کار کو بڑی آہستگی سے سیارے پر اتار لیا۔ جس مقام پر کار اتری اس سے کچھ ہی فاصلے پر مکڑ آدمیوں کی خوفناک اور بھیانک قوم انہیں گرفتا کرنے کے لئے موجود تھی۔ وہ قیدی بناکر کاگی کھودنے پر مامور کردئے گئے اور اس دن سے لے کر آج تک وہ برابر یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔


اختر یہ کہانی بڑے شوق سے سن رہا تھا، اس کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا آخر کار اس نے غصیلی آواز میں کہا۔
"میں ان لوگوں سے ٹکر لوں گا، بھلا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میرے عظیم آقا کا مشن فیل ہو جائے ! جرمی قوم زوک کی مایہ ناز بیٹی ژاما کا بیٹا اور یوں چوہوں کی طرح ان مکڑیوں کے چنگل میں پھنس جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا ، ہرگز نہیں ہو سکتا۔"


"تم ہمیں کس طرح آزاد کراؤ گے مسٹر جرمی!" جیک نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھا۔
"میرا مشن ان مکڑیوں کی وجہ سے ہی پورا نہیں ہو سکا ہے۔" اختر نے جواب دیا۔ "درمیان ہی میں سے اس قوم نے ہمارے راکٹ کو اچک لیا ہے۔ ژاما کی قسم میں انہیں اس حرکت کا مزا چکھاؤں گا۔۔ ضرور چکھاؤں گا۔"


اختر تو نہ جانے کیا اول فول بکتا رہا۔ مگر اب میں قیدیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ان سے گفتگو کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ہماری دنیا کے مختلف ممالک کے سائنس داں ہیں۔ انہیں ان کی کاروں سمیت اغوا کر لیا گیا تھا۔ طریقہ وہی تھا جو امجد اور نجمہ کے ساتھ برتا گیا۔ ان سب کی کاریں اس سبز سیارے پر ابھی تک موجود ہیں۔ لیکن چونکہ یہاں پٹرول موجود نہیں ہے اس لئے کاریں چل نہیں سکتیں۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے انہیں مستقل بے ہوشی سے نجات دلائی ہے۔ قیدیوں میں سے جیکسن نامی ایک آدمی زیادہ سمجھدار اور معقول تھا ، میں نے جب اس سے کاگی کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے جواب دیا۔


"دراصل کاگی ایک قسم کا چقماق نما پتھر ہے۔ اس پتھر سے مکڑ آدمیوں کی قوم ایندھن کا کام لیتی ہے۔ کراما کے تاج میں اسی پتھر کا جوہر لگا ہوا ہے۔ اس لئے کراما زیادہ طاقت ور مانا جاتا ہے۔ کاگی سے یہاں روشنی پیدا کی جاتی ہے۔ اور اسے ایک خاص قسم کی گھاس میں ملاکر یہ قوم اس سے اپنی غذا بھی بناتی ہے۔ اس پتھر میں سے ہلکی ہلکی لپٹیں نکلتی ہیں ، مگر ان میں تپش بالکل نہیں ہوتی۔"
"لیکن کیا آپ بتا سکیں گے کہ یہاں سے کافی دور اسی قسم کے پتھر کی کچھ اور چٹانیں بھی ہیں جو غالباً چلتی بھی ہیں۔ کیا وہ بھی کاگی ہی سے بنی ہیں؟" جان نے پوچھا۔
"کاگی ان میں زیادہ مقدار میں موجود ہے۔ اسی لئے ان چٹانوں میں حرکت کرنے کی قوت پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے قریب جانے یا انہیں چھونے سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ آپ لوگ خوش قسمت تھے جو ان سے بچ کر نکل آئے۔"
"مگر وہ چٹانیں ایک خاص حد کے اندر کیوں رہتی ہیں؟" میں نے پوچھا۔ " آگے کیوں نہیں آتیں؟"
"سنگ مرمر جیسی ایک خاص مادے کی زمین ان مکڑ آدمیوں نے اپنے مونہہ سے نکلنے والے لعاب کی مدد سے تیار کی ہے۔ کاگی کی زندہ چٹانیں اس لعاب والے پتھر پر نہیں آ سکتیں۔ آئیں گی تو وہ خود بخود پگھلنے لگیں گی۔ اور ان کا پگھلنا ان کی موت کے برابر ہے۔"
"آپ نے بہت کام کی باتیں بتائی ہیں۔ مسٹر جیکسن۔۔۔"جان نے اسے تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ "مگر یہ بتائیے کہ جب آپ کی پیشانی پر کتاک بندھا ہوا تھا تو پھر آپ نے یہ سب چھان بین کس طرح کی؟"
"جب میں یہاں آیا تھا اور ان مکڑ آدمیوں نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی تھی تو میں فوراً ان کے قابو میں نہیں آیا تھا بلکہ زمینی وقت کے لحاظ سے ایک ہفتے تک ان سے بچتا پھرا تھا اور اس عرصے میں مجھے یہ سب واقفیت حاصل ہوگئی تھی۔ میرے اس اقدام کے باعث ہی آپ لوگوں کے یہاں آتے ہی گرفتار کرکے آپ کی پیشانی پر کتاک باندھ دیا گیا تھا۔"


"بہت عمدہ۔۔ بہت خوب!" والٹر نے اسے شاباشی دے اور پھر کہا ، "اچھا یہ بتائیے کہ اگر کاگی کی زندہ چٹانیں کسی طرح اس قوم کے پاس آ جائیں تو کیا ہوگا؟"
"چونکہ مکڑ آدمیوں کے جسموں میں کاگی کافی مقدار میں ہے اس لئے چٹانوں کے آتے ہی ان کے جسم بھڑک اٹھیں گے۔" جیکسن نے ایک عجیب بات بتانی شروع کی۔"اسے یوں سمجھئے کہ بجلی کے دو تار جس طرح مل کر شعلہ پیدا کرتے ہیں ہوبہو وہی معاملہ ہے، مکڑ آدمیوں کے جسم نیگیٹیو ہیں اور زندہ چٹانیں پوزیٹو۔ جیسے ہی دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں گے زبردست شعلہ پیدا ہوگا اور دونوں فنا ہو جائیں گے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ زندہ چٹانوں کو نقصان کم پہنچے اور مکڑ آدمیوں کو زیادہ۔ رہی یہ بات کہ چٹانیں خود بخود کس طرح مکڑ آدمیوں کے قریب آجائیں گی تو یہ ایک قسم کی مقناطیسی کشش ہے۔ جب بھی کوئی زندہ چٹان مکڑ آدمی کو دیکھے یا محسوس کرے گی، وہ اپنے آپ ہی اس کی طرف چلنے لگی گی۔ میں یہ بات دعوے سے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اپنی روپوشی کے زمانے میں، میں نے اسی طرح ایک مکڑ آدمی کو مرتے دیکھا ہے۔"
"شاید ہمارے جسموں میں بھی کوئی چیز ہے ، جسے محسوس کر کے زندہ چٹانیں ہمارا تعاقب کرنے لگی تھیں۔" زرینہ نے خوف زدہ آواز میں پچھلی باتیں یاد کرتے ہوئے کہا۔
"آپ درست سمجھتی ہیں۔" جیکسن نے تسلیم کیا۔ "ابھی تک میں نے کسی زندہ چٹان کو چھو کر نہیں دیکھا اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ ہم سے ٹکرائے گی تو ہمارا کیا حشر ہوگا ؟ ویسے یہ بات ٹھیک ہے کہ چٹانوں کے لئے ہم میں بھی کوئی مقناطیسی کشش ضرور ہے۔"


"اچھا یہ فرمائیے کہ اگر کسی طرح ہم چٹانوں کو اور مکڑ آدمیوں کو آپس میں ٹکرا دیں تو کیا یہ قوم ختم ہو جائے گی۔" جان نے دریافت کیا۔
"یقیناً ہو جائے گی۔۔؟ مگر ان دونوں کو قریب لانا بے حد مشکل ہے۔ زندہ چٹانوں پر مکڑ آدمی اپنی چونچ کا لعاب پھینکتے ہیں اور یہ چٹانیں اس لعاب سے ڈرتی ہیں۔"
میں یہ باتیں سن کر بہت دیر تک سوچتا رہا۔ اچانک مجھے ایک ترکیب سوجھی اور میں نے فوراً جیکسن سے کہا۔
"مکڑ آدمیوں کی چونچ سے لعاب نہ نکلے اس کا انتظام میں کرلوں گا۔"
"کیسے۔۔۔۔؟" سب نے اشتیاق بھرے لہجے میں دریافت کیا۔
"یہ میں بعد میں ، یعنی جب وقت آئے گا تب بتا سکتا ہوں۔"


جیکسن سے ملاقات کرنے پر بہت سی کام کی باتیں معلوم ہو چکی تھیں۔ ہم اس غار میں بہت دیر تک آپس میں صلاح مشورے کرتے رہے۔ پچھلی باتیں دہراتے رہے اور آئندہ کے لئے پروگرام بناتے رہے۔ کتاکوں کے اندر ہم نے پنی لگا دی تھی اور اب یہ کتاک سب نے اپنے اپنے سروں پر باندھ لئے تھے۔ طے یہ پایا کہ تھا کہ جب غار کا پتھر ہٹایا جائے تو ہم مکڑ آدمیوں سے دور ہی دور رہیں اور یہی ادکاری کرتے رہیں کہ ہم ابھی تک کراما کے خادم ہیں۔ اپنے دماغوں سے۔۔ ہم یہی سوچتے رہیں۔ ہم نے اگر کوئی اور بات سوچی تو ہمارا بھید کھل سکتا ہے اور پھر کوئی نہ کوئی پریشانی یا مصیبت نازل ہوسکتی ہے !


سات گھنٹے کے بعد ہمارے غار کی روشنی اچانگ نارنجی سے اودی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی مندر میں بجنے والے گھنٹے سے ملتی جلتی ایک آواز آئی۔ آواز کے بعد ہی غار کے دہانے کا پتھر آہستہ آہستہ ایک طرف کھسکنے لگا۔ ہمارے محافظ مکڑ آدمی باہر کھڑے ہوئے اپنی بھیانک آنکھوں سے ہمیں گھور رہے تھے۔ چونکہ اب ہم لوگ پوری طرح سوچ اور سمجھ چکے تھے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ، لہذا اس اسکیم کے تحت ہم جلدی سے کھڑے ہوگئے اور پھر مسمریزم کے معمول کی طرح باہر نکلنے لگے ، امجد اور نجمہ کو میں نے درمیان میں رکھا تھا۔ مکڑ آدمیوں کی بھیانک آنکھیں ہمارے دلوں کو ٹٹولنے کے لئے ہماری نگاہوں سے ملی ہوئی تھیں۔ ہم اداکاری کر رہے تھے اور ہماری زبان اور دماغ میں صرف ایک ہی فقرہ بار بار گونج رہا تھا:
"میں کراما کا غلام ہوں، کراما میرا آقا ہے ، میں اس کا حکم بجا لاؤں گا۔"


غار سے نکلنے کے بعد ہم کھلے میدان میں آئے۔ یہاں ہمارے لئے پپیتے جیسے پھلوں کا ایک ڈھیر لگا تھا۔ جیکسن مجھے بتا ہی چکا تھا کہ اس موقع پر ہمیں دیوانوں کی طرح پھلوں پر ٹوٹ پڑنا ہے۔ لہٰذا ہم نے ایسا ہی کیا۔ اختر چونکہ خود کو ژاما کا بیٹا سمجھتا تھا اور خود کو ہم سے زیادہ بڑا اور افضل محسوس کرتا تھا اس لئے وہ اپنے مقام پر ہی کھڑا رہا۔ ہمارا بھید کھلنے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ مگر خدا بھلا کرے سوامی کا اس نے جلدی سے اختر کو شانے سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا پھلوں کے ڈھیر تک لے آیا۔ مکڑ آدمی اس موقع پر ہم سے بیس فٹ دور کھڑے تھے اس لئے انہوں نے نہ تو سوامی کی حرکت دیکھی اور نہ ہی ہمارے ذہنوں کو پڑھنے کی کوشش کی، کنگلوں کی طرح پھیل کھانے کے بعد ہم لوگ ایک قطار کے اندر اسی گھاٹی کی طرف چلنے لگے جہاں پہنچ کر ہمیں کاگی کھودنی تھی۔ ہمارے ہاتھوں میں خالی ٹوکریاں اور درانتی نما ہتھوڑے تھے اور ہم نہایت خاموشی کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔


یکایک ہمیں ایک زبردست پھینکار سنائی دی۔ ایسی پھنکار جیسے کروڑوں اژدہے ایک ساتھ مل کر سانس لے رہے ہوں۔ یہ آواز ایسی تھی کہ ہمیں اپنے دل ڈوبتے ہوئے محسوس ہوئے۔ پھنکار کی آواز کے ساتھ ہی ہمیں جھٹکا سا لگا اور پیروں کے نیچے کی زمین کپکپائی۔ چونکہ یہ پہلے ہی سے طے ہو چکا تھا کہ خواہ کوئی واقعہ یا حادثہ ہی کیوں نہ پیش آ جائے، ہم میں سے کوئی چونکے گا نہیں، اس لئے ہم پروگرام کے مطابق سامنے ہی دیکھتے ہوئے چلتے رہے۔ البتہ ہم نے محسوس کیا کہ مکڑ آدمی اس پھنکار کو سن کر اچانک گھبرا گئے اور زمین سے دبک گئے۔ ان کی بھیانک آنکھیں خوفزدہ انداز میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔ پھنکار کی آواز کچھ دیر تک ہمیں سنائی دیتی رہی اور پھر فوراً ہی ختم ہو گئی۔ کچھ ہی دیر بعد ہم گھاٹی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ میں یہ جاننے کے لئے بہت بے تاب تھا کہ یہ پھنکار کیسی ہے؟ صرف جیکسن ہی میرے اس سوال کا جواب دے سکتا تھا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اس گھاٹی میں کام کرتے وقت ہی میں اس سے کچھ دریافت کر سکتا تھا۔ اس سے پہلے نہیں۔


جب ہم کاگی چٹانوں سے کھود کھود کر نکال رہے تھے تو میں نے جیکسن سے یہ راز جاننے کی کوشش کی، مگر مجھے بڑا تعجب ہوا جب اس نے یہ بتایا کہ ایسی پھنکار کبھی کبھار سنائی ضرور دیتی ہے، مگر وہ کس کی آواز ہے ! افسوس یہ وہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ کیوں کہ اس نے آج تک اس چیز کو نہیں دیکھا ہے جو یہ آواز نکالتی ہے میں یہ جواب سن کر مطمئن نہیں ہوا اور میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ میں اپنے طور پر اس حقیقت کو معلوم کروں گا۔ زرینہ اور نجمہ کے حصے کی کاگی بھی ہم سب مل کر ہی نکالتے رہے اور ان دونوں کی ٹوکریاں بھرتے رہے۔ کبھی کبھار ہم ایک دوسرے بات کرلیا کرتے تھے۔ ورنہ زیادہ تر خاموش ہی رہتے۔ ہمیں ہر ہر قدم پر یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں محافظ مکڑ آدمی ہمارا راز نہ جان جائیں۔ اس لئے یہ احتیاط بہت ضروری تھی۔


شام ہو گئی اور ہم پھر پہلے کی طرح واپس اپنے قید خانے میں آگئے۔ اس قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہئے ہمار اگلا قدم اب کیا ہونا چاہئے۔ بس اسی قسم کی باتیں ہم بیٹھ کر سوچتے رہے۔ پھنکار کی آواز کے بارے میں ایک قیدی نے مجھے یہ بتایا کہ ایک بار چٹان سے ٹکرا کر اس کے سر کا کتاک کھل گیا تھا اور وہ اچانک ہوش میں آ گیا تھا ، تب اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ مکڑ آدمی قیدیوں کو دھکیلتے ہوئے تیزی سے ایک غار میں داخل ہو رہے تھے اور پھنکار والی آواز بہت قریب سے آرہی تھی، مکڑ آدمی اس آواز سے بری طرح ڈر رہے تھے اور انہیں اپنی جانیں بچانے کی بڑی فکر تھی۔ ایک مکڑ آدمی کی نظر اس کے گرے ہوئے کتاک پر پڑ گئی اور اس نے جلدی سے اسے اٹھا کر اپنی اگلی دو ٹانگوں سے اس کی پیشانی پر باندھ دیا اور پھر فوراً ہی وہ اس ماحول سے بے خبر ہوگیا اسے بالکل معلوم نہ ہو سکا کہ پھر کیا واقعہ پیش آیا؟


اگلے دن کاگی کھودتے وقت میں نے والٹر، جان اور سوامی سے مشورہ کیا کہ اگر ہم اس جگہ سے بھاگ نکلیں تو کیسا رہے۔ مکڑ آدمیوں کی فوج ہمیں اگر گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی تو ہم اپنے ریوالور سے اس وقت تک کام لیتے رہین گے جب تک کہ ہمارے پاس گولیاں موجود ہیں۔
جیکسن نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔ " آپ ایسا نہیں کر سکتے اس سیارے میں عجیب و غریب جانور اور پرندے بھی موجود ہیں ، چند پرندے تو ایسے ہی جن کی چونچیں تلوار جتنی لمبی ہیں اور وہ اپنے شکار کے جسم میں چونچ گھسا کر اس کا خون پی لیتے ہیں۔ درندے اس قسم کے ہیں کہ ان کے ناخن زہریلے ہیں۔ جس کے بھی یہ ناخن لگ جاتا ہے ، وہ فوراً دم توڑ دیتا ہے۔ اگر ہم بھاگ کر کہیں چلے بھی گئے تو ان بلاؤں سے کس طرح محفوظ رہیں گے؟"


جیکسن ٹھیک کہہ رہا تھا ، میں نے جب جان سے مشورہ کیا تو اس نے بھی جیکسن کی بات کی تائید کی۔ آخر طے یہ پایا کہ کچھ دن اس قید میں گزار کر دیکھ لیتے ہیں۔ جلد بازی اچھی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں بعد میں اپنے آزاد ہونے کا کوئی طریقہ سوجھ ہی جائے۔ شام ہونے سے پہلے اختر کی حالت بہت غیر ہونے لگی۔ کیوں کہ وہ کتاک ہٹنے کے بعد اب پھر پہلا جیسا اختر یعنی جرمی بن چکا تھا۔ وہ اپنے آقا کے گن گا رہا تھا اور بار بار ہمیں دھمکی دے رہا تھا کہ اگر ہم نے چاروں محافظوں کو جان سے نہیں مار دیا تو وہ شور مچانا شروع کر دے گا۔ اور ہمارے راز پر سے پردہ اٹھا دے گا۔ میرے ساتھ زرینہ اور نجمہ نے بھی اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر سب بے کار ، یوں لگتا تھا گویا وہ اپنے آپے میں نہیں رہا ہے۔ اس نے پہلے ہی کی طرح زرینہ کو دھکا دے یا اور نجمہ کا ہاتھ جھٹک کر مکڑ آدمیوں کی طرف بھاگا۔


ہم غصے سے دیوانے ہو رہے تھے کیوں کہ اختر ہمارے سب پروگرام برباد کرنے پر تلا ہوا تھا۔ میں نے فوراً سوامی کو اشارہ کیا کہ وہ اختر کو پکڑ لے سوامی کے ساتھ ہی جیک نے بھی ایک جست لگائی اور پھر اختر ان کے قابو میں تھا۔اس نے چلانے کی کوشش کی تو میں نے جلدی سے اپنی جیب میں پڑی ہوئی ایک شیشی نکالی ، اس میں وہی سنہری پاؤڈر بھرا ہوا تھا جو پہلے اصلی کتاکوں میں موجود تھا۔ میں نے سوامی کو حکم دیا کہ وہ اختر کی پیشانی کا کتاک کھول کر فوراً مجھے دے دے۔ سوامی نے ایسا ہی کیا۔ تب میں نے جلدی سے کتاک کے درمیانی گولے میں سے پنی نکال کر وہ پاؤڈر بھردیا اور پھر یہ کتاک دوبارہ اختر کی پیشانی پر باندھ دیا۔ کتاک کے لگتے ہی اختر اچانک خاموش ہو گیا اور پھر سے کراما کی گرفت میں آ گیا۔ اب وہ خالی خالی نظروں سے ایک ہی سمت میں دیکھ رہا تھا۔


خلاف توقع تب یکایک ایک عجیب بات ہوئی۔ چاروں مکڑ آدمیوں نے جلدی سے ان لکڑیوں کا رخ ہماری طرف کر دیا۔ جن کے سروں پر سرخ رنگ کی کوئی چیز جل اور بجھ رہی تھی۔ اس کے بعد وہ رینگتے ہوئے ہماری طرف بڑھنے لگے۔ حالانکہ وہ ابھی ہم سے کافی دور تھے لیکن میں اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ اچانک وہ چاروں کیوں ہوشیار ہو گئے تھے؟ ہم لوگوں کو دراصل مسمریزم کے معمولوں کی طرح رہنا تھا۔ (ہم یہ اداکاری کر بھی رہے تھے) غلطی یہ ہوئی کہ ہمیں تو اپنے کاموں میں مصروف رہنا چاہئے تھا۔ جب کہ اختر نے چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا اور سوامی اسے پکڑنے دوڑا تھا۔ معمول سے یہ توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسی چیخنے چلانے یا بھاگ دوڑ والی حرکت کر سکتا ہے! بس اسی لئے مکڑ آدمی ہوشیار اور چوکنے ہوگئے تھے، میں یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ جب وہ ہمارے قریب آجائیں گے تو ہمارے دماغ پڑھ لیں گے اور تب ہمارا بھید یقیناً کھل جائے گا۔


یہ حالت دیکھ کر جان نے فوراً گولی چلانے کا حکم دیا۔ مگر جیکسن نے چلا کر کہا کہ خبردار ایسا مت کیجئے گا۔ ان کے ہتھیاروں کی شعاعیں ہمیں پلک جھپکتے میں جلا کر بھسم کر ڈالیں گی۔ یہ گھاٹی بھی ایک طرح کا قید خانہ ہے۔ ہر طرف اونچی اونچی چٹانیں ہیں۔ ہم بھاگ بھی نہیں سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں میں نے اور میرے ساتھیوں نے تو اس کی یہ بات مان لی مگر ایک قیدی نے ڈر کر بھاگنا چاہا تھا کہ اچانک ایک محافظ کے ہتھیار سے سرخ رنگ کی شعاع نکلی اور پھر وہ قیدی ایک سیکنڈ میں جل کر ختم ہو گیا۔ جس مقام پر وہ کھڑا تھا وہاں اس کی راکھ بھی باقی نہ رہی۔۔ یہ دیکھ کر ہم بری طرح سہم گئے اور پھر ہم نے مکڑ آدمیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئے۔


مکڑ آدمی ہمیں اپنے نرغے میں لئے ہوئے واپس کراما کے غار میں لائے۔ شاید اسے کسی طرح پتہ چل گیا تھا کہ کچھ دیر پہلے کیا واقعات پیش آئے ہیں۔ اسی لئے وہ درخت کے نچلے پتے پر بڑی بے قراری سے پھر رہا تھا۔ اس کے چونچ نما مونہہ سے بدبودار لعاب ٹپک رہا تھا اور آنکھیں غصے کے باعث چنگاریاں اگل رہی تھیں۔۔ چند لمحوں تک وہ ہمیں حقارت بھری نظروں سے گھورتا رہا۔ اس کے دربار کے مکڑ آدمی سہمے ہوئے ایک طرف کھڑے تھے۔ اس کی چونچ کھلی اور پھر تیز سیٹی جیسی آواز ہمیں سنائی دی۔
"حکم عدولی کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔"
اس نے اپنی اگلی دو ٹانگیں تالی بجانے کے انداز میں پیٹیں، اس آواز کو سن کر زرد مکڑ آدمی آگے بڑھے اور پھر کراما نے ان سے کہا۔ " ان بدبختوں کو شیفاؤں کے علاقے میں ان کی خوراک بننے کے لئے چھوڑ دو۔"



Novel "Neeli Dunya" by: Siraj Anwar - episode:9

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں