حیدرآباد دکن کی عزاداری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-17

حیدرآباد دکن کی عزاداری

azadari-in-hyderabad-deccan

ریاست حیدرآباد دکن میں عزاداری کا بانی قطب شاہیہ کا پہلا تاجدار سلطان قلی ہمدانی تھا جو ابتدائی سلاطین بہمینیۂ دکن کی جانب سے سمت تلنگانہ کا طرفدار (صوبہ دار) اور سلطان محمود شاہ بہمنی (887ھ ، 924ء) کی وفات کے بعد 924ھ سے 950ھ تک سرحد گولکنڈہ سے دریائے شور تک کے علاقہ کا خود مختار بادشاہ رہا تھا۔ اگرچہ سلطان قلی شاہان صفویہ ایران کا ہم عصر تھا۔ لیکن شاہ اسماعیل صفوی کے ایران میں مذہب امامیہ کی ترویج سے قبل ہی دکن کے علاقہ تلنگانہ میں خطبۂ اثنا عشری 918ھ سے اس بادشاہ نے رائج کر دیا تھا چنانچہ 'تاریخ مرغوب القلوب' میں 'صدر جہاں' نے سلطان قلی کی زبانی حسب ذیل عبارت نقل کی ہے :


"الحال قریب شصت سال باشد کہ شب و روز با کافران غزانمودہ بہ توفیق اللہ تعالیٰ از سرحد ورنگل تا بندر مچھلی پٹن و راجبندری قریب شصت ہفتاد قلعہ رفیعہ بضرب شمشیر آبدار بتصرف اولیائے دولت ابد پیوند در آوردہ ام و ایں فتوحات از برکت آنست کہ روز یکہ ابتدائی تسخیر ممالک کفار نمودہم باخود نذر شرعی کردم کہ اگر حق تعالیٰ مارا بخدمت توتی الملک من تشاء مشرف گرداند خطبہ والارتبہ دروازہ امام علیہم السلام در تمام قلمرو و خود اجرانمودہ مذہب حق اثنا عشرہ دریں مملکت رواج دہم۔ وقوع ایں حال قبل از ظہور شاہ اسماعیل و رواج مذہب جعفری در مملکت ایران است تا کسے را بخاطر نرسد کہ من تقلید آن شاہ غفران پناہ کردہ ام بلکہ در زماں سلطنت سلطان یعقوب صفحہ خاطر را بمہر مہر ائمہ اثنا عشر ملوک گردانیدہ ام و مذہب شیعہ و مذہب آبا و اجداد عظام ماست۔"


پہلے سلطنت قطب شاہی کا پایہ تخت قلعہ گولکنڈہ (محمد نگر) میں تھا جہاں سلطان قلی( 849۔ 950ھ) نے پہلا عاشورہ خانہ بنوایا تھا اس کے بعد سلطان ابراہیم قطب شاہ (957ھ - 988ھ) نے لنگر دوازدہ امام گولکنڈہ میں بنوایا جس میں غرباء کو کھانا تقسیم ہوتا تھا۔


کوہ مولی علیؓ

سلطان ابراہیم قطب شاہ کے عہد سے 17/رجب کو عرس کوہ مولی علی کا آغاز ہوا۔ جہاں پر پنجشنبہ اور شب جمعہ کو باوجود شہر حیدرآباد سے نو میل دور ہونے کے، مجالس عزا منعقد ہوا کرتی ہیں۔ تزک قطب شاہی میں اس پہاڑ کا واقعہ اس طرح مندرج ہے کہ:
ایک شب کو یاقوت حبشی خواجہ سرائے سلطان ابراہیم قطب شاہ نے جب کہ وہ نواح کوہ مولی کے ایک باغ میں مقیم تھا، یہ خواب دیکھا کہ ایک عرب سبز لباس پہنے ہوئے اس سے کہہ رہا کہ تجھے جناب امیرؑ نے یاد کیا ہے۔ یاقوت اس عرب کے ایک پہاڑ پر جاکر جناب امیرؑ کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ صبح کو اسی پہاڑ پر گیا تو جس مقام پر اس نے جناب امیرؑ کو تشریف فرما دیکھا تھا وہاں دست مبارک کا نقش موجود تھا۔ یاقوت نے پتھر کے اس حصہ کو ترشوا کر ایک رواق تعمیر کرا کر اس کے طاق میں اس کو نصب کرا دیا اور سترہویں رجب کو حضرت کی نیاز کرائی۔
اسی طرح ہر سال عرس ہونے لگا۔ اس واقعہ کی شہرت ہوئی تو سلطان ابراہیم قطب شاہ نے زیارت کر کے مسجد و عمارات تعمیر کرائیں۔ شاہان آصفی ہی کے دور میں ہندو مسلم امرائے ملک نے بالائے کوہ اور دامن کوہ میں متعدد عمارتیں بنوائیں اور یہاں کی رونق میں اضافہ ہوتا رہا۔ حضرت آصفجاہ ثانی غفران مآب نے اس پہاڑ کے مصارف عود و گل و نقار خانہ و خادمین کے لئے ایک موضع بعنوان جاگیر مقرر فرمایا۔


اعلیحضرت آصفجاہ سابع نے بصرف زر کثیر پہاڑ پر زائرین کی سہولت کے لئے نفیس سیڑھیاں بنوائیں اور برقی روشنی کا انتظام فرمایا اور باوصف پیرانہ سالی ہر سال 13/ رجب کو بہ نفس نفیس پہاڑ پر زیارت کو تشریف لاتے ہیں۔


کوہ امام ضامنؓ

یہ پہاڑ شہر سے 11/ میل کے فاصلہ پر واقع اور امام رضا علیہ السلام سے منسوب ہے یہاں کے مصارف کے لئے شاہان آصفیہ نے انعامی اراضیات عطا کی ہیں۔


عاشور خانہ شاہی

سلطان محمد قلی قب شاہ (988ھ - 1030ھ) نے گولکنڈہ کی آبادی گنجان ہوجانے کی وجہ سے شہر حیدرآباد کو متعدد شاہی محلات، عمارات، مساجد و حمام بنوا کر آباد کیا۔ چار مینار جو وسط شہر میں ہے اس کی تعمیر کی تاریخ یا حافظ (1000ھ) ہے۔
دولتخانہ شاہی کے متصل سلطان محمد قلی قطب شاہ نے 1003ھ میں بصرفہ ساٹھ ہزار روپیہ عاشور خانہ تعمیر کرایا تھا۔ اس کی چھت اور دیواروں پر سبز و سیاہ مخمل کے پردے آویزاں رہتے تھے اور امام باڑہ میں (14) طلائی علم مرصع بجواہر استاد ہوا کرتے تھے۔
قطب شاہی عہد میں عشرہ محرم میں عوام کو دو وقتہ کھانا تقسیم ہوتا تھا اور بارہ شربت روزانہ پلایا جاتا تھا اور سالانہ عشرہ محرم میں بارہ ہزار ہون ( سکہ طلائی) جس کو (زر عاشوروی) کہتے تھے بطور خیرات تقسیم ہوا کرتے تھے۔
سلطان عبداللہ قطب شاہ (1035ھ - 1083ھ) نے اس عاشور خانہ کی دیواروں پر کارکاشی کرایا تھا جو ہنوز محفوظ حالت میں ہے۔ دور قطب شاہی میں محرم کا چاند دیکھ کر بادشاہ اور درباری بارہ روز تک سیاہ لباس میں ملبوس ہوا کرتے تھے اور بازار میں گوشت اور پان کی فروخت بالاعلان نہیں ہوا کرتی تھی اور نوبت نوازی بھی موقوف رہا کرتی تھی۔ نواب آصف جاہ نے اس عاشور خانہ کے مصارف کے لئے بارہ ہزار روپیہ سالانہ کی جاگیر مقرر فرمائی تھی۔ عشرہ محرم میں یہاں علم اب بھی استادہ ہوتے ہیں اور زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔


عاشور خانہ حسینی علم

سلطان محمد قلی قطب شاہ کے عہد میں علی آقا نامی ایک علم دیار عربب سے لے کر آئے تھے۔ یہ علم دو رخی سیف کی وضع کا ہے جس میں بجائے زبان علم کے امام جعفر صادقؓ کی سیف دستی نصب ہے۔ سلطان وقت نے بڑی عقیدت سے اس کا استقبال کرکے جس مکان میں اس وقت یہ علم استادہ ہوتا ہے وہ علی آقا کو عطا کر کے اس علم کی خدمت گزاری بھی انہی کے سپرد کی اور مصارف عشرہ کے لئے ماہوار مقرر کردی چنانچہ انہی کے ورثا یہاں کے خادم ہیں۔


عاشور خانہ الاوہ یتیمان

محلہ دبیر پورہ میں یہ عاشور خانہ واقع ہے جہاں عشرہ محرم میں علم استادہ ہوا کرتے ہیں۔


الاوہ بی بی

حیات بخشی بیگم مادر سلطان عبداللہ قطب شاہ نے اس علم کو محرم میں استادہ کرنا شروع کیا تھا اور روز عاشورہ اس علم کو ہاتھی پر سوار کر کے ماتمی گروہوں کے ساتھ گشت کرا کر بوقت عصر موسی ندی میں اس کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔


الاوہ سرطوق

عمارت دارالشفا کے ایک حجرہ میں یہ غیر معمولی بڑا علم سال بھر استادہ رہا کرتا ہے۔ اس کو عہد قطب شاہ میں آقا محسن ایرانی دمشق سے لائے تھے اس علم کے وسط میں امام زین العابدینؓ کے طوق سلاسل کا ایک ٹکڑا نصب ہے۔ اعلیحضرت آصف جاہ سابع نے عمارت دارالشفا کے وسط میں ایک جدید عمارت تعمیر کرا دی ہے جس میں اب یہ علم استادہ رہتا ہے۔


نعل صاحب

عہد سلطان ابراہیم قطب شاہ میں بیجا پور سے یہ علم لایا گیا تھا اس میں امام حسینؓ کے خود کا ہلال جو بشکل نعل ہے اس کا ایک ٹکڑا نصب ہے۔ پہلے یہ قلعہ گولکنڈہ میں بزمانہ محرم استادہ کیا جاتا تھا۔ نواب آصف جاہ ثانی کے عہد سے پتھر گٹہی کے پاس سرکاری عمارت میں استادہ ہوا کرتا ہے۔ اس پر صندل چڑھا ہوا ہے۔ شب عاشور اس علم کی سواری تزک و احتشام کے ساتھ شہر میں گشت کرائی جاتی ہے۔


پنجۂ شاہ

اسی نام کے محلہ میں یہ پنجہ جو غیر معمولی طور پر بڑا ہے استادہ ہوا کرتا ہے اور عاشورہ کے دن شہر میں اس کو گشت کرایا جاتا ہے۔


درگاہ حضرت عباسؓ

نواب سالار جنگ مرحوم کی ڈیوڑھی کے ایک حصہ مین یہ علم جس پر صندل چڑھا ہوا ہے استادہ ہوا کرتا ہے۔ ہر پنجشنبہ و جمعہ کو عقیدت مند کثرت سے زیارت کا آیا کرتے ہیں۔ بروز عاشور صبح کے وقت اس کو ڈیوڑھی کے صحن میں گشت کرایا جاتا ہے۔


عزاخانہ زہراؑ

1361ھ میں اعلیحضرت آصف جاہ سابع نے یہ عالیشان عاشور خانہ تعمیر کرایا ہے جس میں طلائی علم استادہ ہوا کرتے ہیں اور اعلیحضرت بڑی عقیدت کے ساتھ یہاں کی مجالس عشرہ میں شرکت فرماتے ہیں۔


شہر حیدرآباد کی مجالس عشرہ میں اہل تسنن و برادران ہنود بھی عقیدت کے ساتھ شریک ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ چند سال قبل تک راجہ رادر نبھا کی ڈیوڑھی میں اہتمام کے ساتھ علم استادہ ہوا کرتے تھے۔ فی زمانہ نواب عنایت جنگ بہادر کے حسینہ ، نواب شمشیر جنگ مرحوم کی ڈیوڑھی، مسجد جعفری اور مسجد اثنا عشری میں عشرہ محرم اور نواب تراب یار جنگ بہادر کی ڈیوڑھی میں عشرۂ صفر خاص اہتمام کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ محلہ دارالشفا و ایرانی گلی و بازار نور خاں و حسینی محلہ میں متعدد مجالس مردانہ اور یادگار حسینی کی عمارت میں زنانہ مجالس منعقد ہوا کرتی ہیں۔


***
ماخوذ از رسالہ: سرفراز (لکھنؤ) - تاریخ عزاداری نمبر (مارچ 1969)
مدیر: مصطفیٰ حسن رضوی

The Muharram mournings in erstwhile Hyderabad State.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں