بیگم صالحہ عابد حسین جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ادیبوں میں سے ایک اہم نام ہے۔ انہوں نے شفیق الرحمن صاحب قدوائی اور ان کی شریک حیات صدیقہ قدوائی کا طویل خاکہ لکھا۔ یہ خاکہ بیس (20) صفحات پر مشتمل ہے۔ یروفیسر شمیم حنفی کے انتخاب "آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ" میں یہ بھی شامل ہے۔ اس پورے خاکے میں جامعہ کی دو اہم ہستیوں کا ارتباط و تعلق پذیری کے ماحول میں تصویر کشی ملتی ہے۔ ان کی زندگی کے بعض گوشے ان دونوں کی جامعہ کے لیے قربانیوں کو نمایاں کرتی ہیں۔ ایک جگہ صدیقہ قدوائی کے بارے میں بیگم صالحہ عابد حسین لکھتی ہیں:
1939ء میں صدیقہ پہلی بار قرول باغ میں چند مہینے آ کر رہیں ، اس زمانے میں پہلی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی ، وہ میرے تصور سے بالکل ہی برعکس نکلیں۔ رات کا وقت تھا جب میں ان کے گھر ملنے پہنچی۔ شفیق صاحب مسکراتے، تمسخر کے انداز سے میری طرف دیکھتے ، باہر عابد صاحب کے پاس چلے گئے اور ذرا آگے بڑھی تو میری ہی ایک ہم سن خاتون نے جس کے چہرے پر بلا کی دلکشی اور معصومیت تھی ، میری پیشوائی کی ! ریشمی غرارہ، چکن کی قمیص، کامدانی کا دوپٹہ ان کے حسن میں چار چاند لگا رہا تھا۔ یہ صدیقہ تھیں۔
صالحہ عابد حسین نے دونوں کرداروں کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کی قربت اور ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے کے واقعات کو بھی بڑی خوبی اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے خامۂ تر نے دونوں شخصیتوں کے راہی عقبیٰ ہونے کے باوجود مردہ جسموں میں جان سی ڈال دی ہے۔ شفیق صاحب کا ہر سانس، ہر لمحہ قومی خدمت اور جامعہ کی بہبود اور ترقی کی کوشش میں صرف ہوتا رہا۔
صالحہ عابد حسین کہتی ہیں:
کسی کی مجال تھی کہ شفیق صاحب کے سامنے جامعہ یا جامعہ کے سردار اور خادموں کو ایک لفظ تو کہہ سکے!
صدیقہ قدوائی اپنے شوہر کی قومی اور سیاسی تحریکوں میں دلچسپی سے بڑی متاثر تھیں۔ انھیں اپنے شوہر پر بڑا ناز تھا ، اس لیے وہ ناز و نعم میں پلنے اور ایک متمول گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود پچاس یا ساٹھ روپے تنخواہ والے شوہر کے ساتھ خوشی خوشی رہتی تھیں۔ بلکہ ضیافت اور تعلق داری و دوستی کے رشتے و تقاضے نبھانے میں کافی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتیں ،اخراجات اپنے گھر سے منگالیا کرتیں۔
اس خاکے میں تاثرات و واقعات کا وہ حسین امتزاج ہے جو دو شخصیتوں کا مشترکہ خاکہ نہایت خوب خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کرتا ہے۔ ان کی قربانیاں اور میدان عمل میں اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرنے میں میاں بیوی کے مثالی کردار کو جیتی جاگتی شکل میں پیش کر دیا ہے۔
زبان اور آہنگ میں طمطراق اور تڑک بھڑک نہیں ہے ، تاہم اسلوب کی سلاست و روانی کسی کمزوری کی غمازی بھی نہیں کرتی بلکہ خوب صورت اسلوب میں خوبصورت زندگی کا نہایت خوبصورت مرقع پیش کر دیا گیا ہے۔
ماخوذ از مقالہ: جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اردو خدمات (ابتدا تا 1980ء)
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ از: محمد اسلم (زیر نگرانی: پروفیسر شہزاد انجم)
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔ (شعبۂ اردو ، 2019)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں