جون ایلیا پرلکھنا آسان کام نہیں۔
میں ان سے کبھی ملا نہیں۔ ان کو دور سے دیکھا بھی نہیں، پھر بھی کراچی میں راحت سعید سے لے کر کینیڈا میں اقبال حیدر تک سے ان کی شخصیت و شاعری کو لے کر عجیب و غریب تذکرے اور چرچے سنے۔ ان کی شاعری کے الجھاوے ، تضادات ، تصادمات وغیره یہ سب کچھ خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
کچھ شاعروں کے معاملات عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسا شاعر جس نے ایک مخصوص و مضبوط علمی و تہذیبی پس منظر پایا ہو، طرح طرح کے علم حاصل کیے ہوں، حیات و کائنات کے تعلق سے ایک خوش گوار اور صحت مند تصور قائم کیا ہو، لیکن اگر دنیا اس کے مزاج و معیار کے برعکس، غلیظ ہو، تقلیب و تخریب کا شکار ہو تو آبگینوں میں ٹھیس لگ جانا اور بیزاریوں اور پیچیدگیوں کا پیدا ہو جانا عین فطری ہے۔
اسی لیے اکثر جون کو بیزاریوں اور نا آسودگیوں کا شاعر کہا گیا۔ یاسیت و قنوطیت کے آثار تلاش کیے گئے جو بڑی آسانی سے ان کی شاعری میں مل بھی جاتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ ان کی بیزاریوں اور نا آسودگیوں کو غالباً ایک خاص قربت اور فکری و نفسیاتی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی جیسا کہ ایک مختصر سے مضمون میں کمال احمد صدیقی نے محسوس کیا اور لکھا:
"ان کی نا آسودگی عام انسانوں کی زندگی اور نا آسودگیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔"
جون ایلیا ایک طرف یہ کہتے ہیں:
خواب و خیال و وہم و گماں کچھ نہیں بچا
کیا پوچھتے ہو دل کا زیاں کچھ نہیں بچا
اب کیا دکھاؤں فرد حساب نبود و بود
بس مختصر یہ ہے کہ میاں کچھ نہیں بچا
تو دوسری طرف اس تیور کے اشعار بھی جا بجا نظر آتے ہیں:
مر نہ جاتے تو اور کیا کرتے
بے تمنا جیا گیا ہی نہیں
جون گویائی میں ضرر تھا بہت
پر لبوں کو سیا گیا ہی نہیں
جون کی شاعری انہیں دونوں رنگوں کے درمیان کی شاعری ہے بقول کمال احمد صدیقی:
"قنوطیت اور رجائیت کا ایک عجیب سنگم ہے اور یہ سنگم ایک Paradox ہے۔"
جون کا یہ ایک فطری تخلیقی عمل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان رنگوں کے درمیان غالب رنگ کیا ہے۔ اس تلاش میں ان کی غزلوں سے زیادہ نظمیں معاونت کرتی ہیں۔
مجموعے کی ابتدا ہی نظم "شاید" سے ہوتی ہے:
میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں
شاید جان جاں شاید ۔۔۔
ان دو مصرعوں میں شاید کا لفظ تین بار آیا ہے، جو مصرعوں کے بہاؤ اور اسلوب کے لیے ضروری تو ہے ہی، محبت اور نفسیات کی تشکیلی امیج بھی ابھرتی ہے۔ چونکہ نظم خالص رومانی ہے، اس لیے اس کا لب و لہجہ یادوں سے پُر ایک ایسا عشقیہ لہجہ ہے جہاں بقول حسرت موہانی "بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں۔" والی کیفیت و روایت سے وابستہ ہو جاتا ہے لیکن نظم کے مصرعے:
متاع دل ، متاع جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
بہت کچھ بہہ گیا ہے سیل ماہ و سال میں اب تک
سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے
کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے
کچھ تو رہ جائے
رومانی نظم ایک سنجیدہ تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے جہاں وہ حیات و کائنات کے زیر و بم اور کیف و کم سے جوڑ کر اس کی معنویت کے دائرے کو وسیع تر کرتے ہیں۔ لیکن نظم میں بظاہر ہلکی سی ڈری ڈری سی فضا اسے نفی اور نا آسودگی کی پٹری پر ڈالے رکھتی ہے۔
اس کے فوراً بعد دوسری نظم "رمز" میں ان کی پیچیدگی اور الجھی ہوئی پریشان شخصیت کے بھید کھلتے نظر آتے ہیں کہ جہاں افکار اور ہجوم، ایمان و ایقان کبھی کبھی تصور و تخیل کی ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں شاعر کا ذہن مثالی دنیا اور مثالی معاشرے کی ایسی تصویر قائم کرتا ہے جو عملی اور حقیقی دنیا سے کافی دور اور ناممکن سی لگتی ہے۔ جس کی وجہ سے فکری ہجوم، کثرتِ موہوم کا شکار ہو کر کبھی کبھی Nihilism (فنایت، انکارِ کُل) کا شکار ہو جاتا ہے۔ تبھی تو شاعر کہتا ہے:
میرے کمروں میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے
جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
شاید جون کو کبھی آرام نہیں ملا۔ امروہہ ان کے سینے میں اور قدم کراچی کے زینے پر جہاں آدمیت ، شرافت سب ڈسٹرب کرتے ہیں۔ چناں چہ مثالیت کا محل ریت کی طرح بکھر جائے تو حساس شاعر کو چین کہاں سے آئے۔ تو اسی بےچینی کی زمین سے خیالات کے نئے نئے گل بوٹے نمودار ہوئے جسے عام و خاص نے طرح طرح کے نام دیے۔ لیکن روح کی گہرائی اور خیال کی مقدس بےچینی اور پاکیزہ اضطراب کو کوئی چھو نہ سکا جو جون ایلیا کے مذہبِ دل، تاریخ انسانیت، تہذیب نفس اور حسن معاشرت کے حوالے سے اس کو حیران و پریشان کیے ہوئے تھے، جس کے آڑے ترچھے عکس ان کی نظموں میں جلوہ گر ہیں۔
کم لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں کبھی آرام نہ پانے کا احساس دعوت عمل ہے اور دعوت فکر بھی اور حیات کے اس تسلسل و ارتقا کا اشاریہ بھی جس سے زندگی نمو پذیر ہوتی ہے، ہچکولے کھاتی ہے، تصادمات کا شکار ہوتی ہے اور اپنی بوقلمونی و رنگارنگی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔
اسے سود و زیاں اور روز و شبانہ سے اوپر اٹھ کر کس طرح محسوس کیا جا سکتا ہے، یہ ایک حساس سنجیده فلسفی و شاعر کے دل سے پوچھیے جو حیات و کائنات کو خارجی مظاہر میں کم، باطن کی لہروں میں زیادہ دیکھتا ہے اور باطن کی صدا اسے خارج کی تمام صداؤں سے بہتر لگتی ہے۔ تبھی تو وہ کہتا ہے:
جو تنفس سے خموشی کے سنا ہے میں نے
ایسا نغمہ کسی آواز کے جنگل میں نہیں
یہ سچ ہے کہ شاعری باطن کی نرم و نازک اور بے چین صدا ہوا کرتی ہے لیکن عموماً اس کے دباؤ خارجی ہوا کرتے ہیں۔ اسی لیے نظمیہ لہجہ اکثر خارجیت سے فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ فکر، بیان اور مزاحمت کا لہجہ اختیار کر کے ایک مخصوص فکری اور جمالیاتی پیکر اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن لہجہ مزاحمت کا ہو یا محبت کا، جون جیسا پختہ اور قادر الکلام شاعر اسی فطری رجحان اور وجدان کو ایک مخصوص تخلیقی و جمالیاتی پیکر میں ڈھال کر وہ ہئیت اور روپ عطا کرتا ہے جہاں صرف مزاحمت ہی نہیں بلکہ انسانی اور احتجاجی شاعری کے نئے نئے در وا ہوتے ہیں :
غرورِ جبہ و دستار کا زمانہ ہے
نشاطِ فکر و بساط ہنر ہوئی برباد
فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون
یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد
**
اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال
جو سوئے رنگ اٹھے اس نظر کو گل کر دیں
جو بس چلے کہیں ان کا تو یہ قضا بیزار
شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گل کر دیں
دس بندوں کی معیاری نظم "شہر آشوب" مزاحمت اور عہد حاضر کے کربناک اور عبرتناک صورتوں کا فکر انگیز اعلامیہ ہے جو نہ صرف روایتی شہر آشوب نگاری سے مختلف ہے بلکہ ایک نئے شعری ذہن اور وژن (vision) کی غماز بھی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس نظم میں ترقی پسند شاعری جیسی نشاطیہ کیفیت نہیں ہے۔ امید و آرزو کمی بھی کھٹکتی ہے۔ لیکن بے چینی و بے قراری کو نظمیت و شعریت کا روپ دینا، بڑی اور بامقصد شاعری کو جنم دینا اور تخلیق کی زیریں سطح سے انسانیت کا پیغام دینا، اپنے آپ میں غیر معمولی شاعرانہ و فن کارانہ عمل ہے، جس سے جون ایلیا بحسن و خوبی گزرے ہیں۔
ان کی ایک نظم ہے "سلسلہ تمنا کا" جو ان کی عمدہ نظموں میں ایک ہے۔
آرزو، تمنا، خواب، یہ سب وہ انسانی جذباتی اوصاف و عناصر ہیں جن پر انسان اور کائنات کی ترقی و تبدیلی کا انحصار ہوتا ہے۔ نیز انسان دوستی اور درد مندی کے عناصر بھی اسی راہ سے ہموار ہوتے ہیں۔ اسی لیے ارباب اقدار آرزوؤں، تمناؤں پر پہلے ضرب لگاتے ہیں، کیوں کہ نہ ہوگا خواب اور نہ ہوں گی اس کی تعبیریں! کیوں کہ خواب کی عدم تعبیر و عدم تکمیل ہی انسان کو بے چین کرتی ہے اور اضطراب و احتجاج کے راستے پر لے جاتی ہے۔ نظم کی شروعات اچھے ڈھنگ سے ہوتی ہے:
خیال و خواب کو اب مل نہیں رہی ہے اماں
نہ اب وہ مستیِ دل ہے نہ اب وہ نشۂ جاں
نہ ٹوٹ جائے کہیں سلسلہ تمنا کا
درد مند شاعر، آرزوؤں کا فن کار اس تمنا کو جگائے رکھتا ہے، خواہ وہ خون سے جاگے یا شراب سے۔
نہیں ہے گردشِ ساغر تو گردشِ خوں ہے
سو اپنی گردشِ خوں سے ہی کچھ سوال کرو
اور نظم کئی سوالوں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ لیکن شاعر نے سوال و جواب اور اس کے پیچ و خم کے مقابلے کیف و کم پر زیادہ توجہ دی ہے۔ فلسفیانہ طور پر الجھنے کے بجائے شعرانہ طور پر ترغیب دی ہے۔ جس سے فن اور جمال، حرکت و جلال کے ملے جلے عناصر کے ذریعے یہ نظم اقبال اور فیض کے رنگ میں ڈھل کر امید و نشاط اور جستجوئے حیات کا جامہ پہن لیتی ہے
کوئی امید دلاؤ کہ آرزو تو رہے
نظر اٹھے نہ اٹھے دل ہی کچھ ٹھہر جائے
قدم اٹھیں نہ اٹھیں کوئی جستجو تو رہے
ہو چارۂ غم جاں کیا یہ گفتگو تو رہے
چارۂ غم کی اصطلاح سے نظم انفرادیت و محدودیت کا شکار سی لگتی ہے۔ لیکن یہاں شاعر نے اس کو وسیع تناظر میں استعمال کر کے نظم کو بلندی اور وسعت عطا کی ہے۔ آخری حصے میں عاشقانہ جذبات کے ساتھ ختم ہوتی ہے، لیکن یہ آخری شعر:
سو زخمِ شوق کو جلتا ہوا تو رکھنا ہے
نہ ٹوٹ جائے کہیں سلسلہ تو رکھنا ہے
ترقی پسند احساس پر ختم ہوتا ہے جس کے جلال و جمال سے کہیں اقبال، کہیں فیض اور اکثر جون کا اپنا یاسیتی تحرک اور فلسفیانہ صحت کا برملا اظہار ملتا ہے۔
واضح تصورات میں ڈوبی یہ نظم اپنے مخصوص و منفرد اسلوب و آہنگ کے اعتبار سے اتنی ہی پاکیزہ اور متاثر کن ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عمدہ تخلیق کے لیے اور تنظیم کے لیے خیال کا واضح ہونا اور بڑا ہونا ضروری ہوا کرتا ہے۔ خیال کا ابہام نظم کو ژولیدگی سے بچا سکے ایسا کم ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ نظم اس کی عمدہ مثال ہے۔ فکر و خیال اور حرف و صوت میں ڈھلی ہوئی نظم بلا شک و شبہ اس عظیم اور مضبوط ترقی پسند روایت کو آگے بڑھاتی ہے جس کے سلسلے فیض، اقبال سے ہوتے ہوئے حالی اور غالب سے جا ملتے ہیں۔ لیکن کیا یہ شاعر کا غالب رجحان ہے؟
یہ سوال پریشان کرتا ہے اور دعوت فکر بھی دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کے فوراً بعد کی نظم اذیت کی یادداشت یا اس کے آگے پیچھے کی نظمیں "اجنبی شام"، "وصال"، "سزا" اور کسی حد تک "اعلان جنگ" میں بھی یاسیت و قنوطیت کا اثر زیادہ ہے۔ کہیں بھٹکنے کی بات ہے تو کہیں مر جانے کی :
موسمِ جسم و جاں رائگاں
دل زمستاں زدہ طائر بے اماں
جس میں اب گرمیِ خوابِ پرواز تک بھی نہیں
اسی طرح نظم "آسائش امروز" جس میں وقت کا تصور پیش کیا گیا ہے:
وقت گزرا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
سازِ امروز کا ہر تار بکھر جائے گا
یا
ہر نفس جاں کنی ہے جینے میں
اک جہنم ہے میرے سینے میں
(مفروضہ)
جہاں کچھ بھی نہیں تنہا خلا ہے
نظر کا سارا سرمایہ خلا ہے
(خواب)
لیکن یاسیت و قنوطیت عارضی ہے، لمحاتی ہے کہ اکثر اس مزاج کی نظموں کی انتہا جون کے اصل مزاج اور تیور پر ہی ختم ہوتی ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے :
ہم نے اپنے درشت لہجے سے
آمروں کا غرور توڑا ہے
ہم تو خاطر میں بھی نہیں لاتے
اہل دولت کو شہر یاروں کو
ہم نوا گر ترے عوام کے ہیں
دوست رکھتے ہیں تیرے پیاروں کو
یا ان کی ابتدائی نظموں میں "دو آواز یں" کا یہ بند دیکھیے :
سنو کہ فردوسی زمانہ پرکھ چکا ظرف غزنوی کو
جو فکر و فن کو ذلیل کر کے عزیز رکھتا ہے اشرفی کو
تقدسِ بت شکن میں دیکھا تکلفِ ذوقِ بت گری کو
اور پھر عام لوگوں کے لیے یہ پکار اور للکار:
یہ لوگ جمہور کی صدا ہیں یہ لوگ دنیا کے رہنما ہیں
جون کا اصل لہجہ یہی ہے جہاں نہ صرف وہ حقیقی جذبات میں ڈوبتے ہیں بلکہ فکر و نظر کی وحدت اور اس کا کھرا پن ان کی نظموں میں پورے تخلیقی جوہر اور توانائی کے ساتھ چھلکا پڑتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اکثر ان کا لہجہ ان کی پیچیدہ شخصیت اور بیزار طبیعت کے تلے دب سا جاتا ہے لیکن یہی وہ مقام مسرت و بصیرت ہے جہاں وہ فکری اور فطری طور پر کھلے ہیں اور پرواز کرتے ہیں۔ انھوں نے خود کلامی میں بھی جابجا یہ اعتراف کیا ہے کہ:
میرا خیال یہ تھا کہ میرے ہر وقت کے اشتعال، میری تلخ مزاجی، بے آرامی، بیزاری اور دل برداشتگی کا ایک اہم سبب سامراج کی غلامی ہے۔
جہاں تک کمیونزم کی سماجی سائنس کا تعلق ہے تو میں اس پر اپنی پوری استقلالی ، شاعرانہ اور اخلاقی حالتوں کے ساتھ یقین رکھتا ہوں۔
مزاحمت اور بغاوت کے بڑے روپ ہوا کرتے ہیں جتنے کہ ظلم و جبر کے روپ خارجی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ادب میں مزاحمت کے روپ اکثر باطنی لہروں میں ڈوب کر سر اٹھاتے ہیں۔ اظہار کے کئی وسائل اندرون میں جذب ہو کر، تحلیل ہو کر تخلیقی کرب کا حصہ بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔
جون ایلیا کی شاعری کچھ ایسی ہی نا آسودگیوں ، بیزاریوں اور بغاوتوں کی شاعری ہے جسے انقلاب کے خارجی مظاہر سے کم باطنی، بے چینیوں
سے آنکنے اور تخلیق کے بطن میں جھانکنے کے بعد ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ پابلو نرودا نے غالباً ایسے ہی شاعروں کے بارے میں دل لگتی بات کہی ہے:
"ادب تخلیق کرنا بذات خود ایک مزاحمتی عمل ہے، کیوں کہ ادیب اپنے گرد و پیش
سے conform نہیں کر پاتا اور اس کشمکش کی بنیاد پر وہ ادب تخلیق کرتا ہے۔ ایک طرح سے تو سارا ادب مزاحمتی ہے اور ہر ادیب باغی۔"
جون ایلیا نے اداسی، بیزاری کو مزاحمت کا جو رنگ و آہنگ دیا، فکر و فلسفہ کو جو روپ دیا، جو شاعری کی، جو زندگی گزاری وہ عام انسانوں ، تمام شاعروں کے مقدر میں نہیں ہوا کرتی۔ اس کے لیے آمریت کو ٹھوکر مارنا، عیش و آرام کو از خود آزار میں بدلنا اور در بدر ہونا پڑتا ہے اور پھر اعلانیہ یہ کہنا پڑتا ہے:
سہولت سے گزر جاؤ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو
سینہ دہک رہا ہو تو کیوں چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
اردو کے رسائل اور مسائل - از جون ایلیا
دنگل : جون ایلیاؤں کو دو وقت کی روٹی چاہیے - انشائیہ از جون ایلیا
ترتیب و انتخاب: نسیم سید۔ اکادمی بازیافت، کراچی۔ پہلی اشاعت: جون 2011ء
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںبہترین کوشش 🌹🌹🌹