"نشیان، اے صاحبِ وجد و وجدان، اے صاحبِ حجت و برہان! وہ کلام کیا تھا جو ہم کر رہے تھے؟"
"صاحبی! ہم ان پانچ جوہری بموں کے دھماکوں، جوہری بموں کے جہنمی دھماکوں کے بارے میں کلام کر رہے تھے جو پچھلے دنوں ہندوستان نے کیے اور گاندھی جی کی اہنسا، امن اور آشتی کے لیے اور زندگی کی نرمی، نمی، شادابی اور شادیانگی کو ننگے، بےڈھنگے اور لفنگے طعنے دیے اور پھر اس کلام میں برطانیہ کے سامراج کی سازشوں کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ کہا گیا تھا۔"
"ہاں نشیان! مجھے یاد آیا کہ اس کلام کا سلسلہ یہی تھا اور یہ بھی یاد آیا کہ پھر اس کے چند روز کے بعد ہم نے سرزمینِ خوش آب و شاداب کا رخ کیا تھا اور اپنے شجرے کے بزرگ سید وارث شاہ کے فیضان کے مہمان ہوئے تھے۔ ہم نے وہاں حقیقت کی حقیقت کے صحیفے سے اس کے مغز اور معنی کا رزق حاصل کیا تھا اور اس کی ہڈیوں کو کتوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔"
"حضرت صاحب، جونی جی! کچھ ایسی ہی بات فارسی کے کسی عالی مرتبہ شاعر نے بھی کہی ہے۔ یعنی یہ بات کہ ہم نے مغز کا عرفانِ عرفان اور فیضانِ فیضان تو کسب کر لیا۔ اب رہیں ہڈیاں تو وہ وقت کے برزنوں اور بازاروں میں پھیرے لگانے والے جانداروں کے تھوبڑوں کے آگے ڈال دی ہیں۔"
"تمہیں خوب یاد آیا نشیان!"
"سو تو ہے مرشدی۔ حضرت نے یہ جو فرمایا کہ تمہیں خوب یاد آیا تو وہ کیا نکتہ ہے جو مجھے خوب یاد آیا؟"
"ہاں مجھے یاد آیا اور وہ یہ کہ ہندوستان کے جوہری بموں کے دھماکوں کے بعد ہم دونوں پنجاب چلے گئے۔ کچھ دن بعد وہاں جو کچھ ہوا وہ تو بہت حیران کرنے والا تھا۔ یعنی مئی کے مہینے کی کسی تاریخ کو پاکستان نے بھی جوہری بم کے پانچ دھماکے منعقد کر دیے۔ اس دفاعی جہاد نے پنجاب کے خاص و عام کو پائے کوبی، دست افشانی اور وجد کے حال میں مست و بےخود کر دیا اور جب ان دھماکوں کے دوسرے دن پاکستان نے پانچ اور پانچ کا حساب برابر کر کے چھٹا دھماکہ کیا تو پنجاب کے لوگوں کو کچھ ایسے معجزاتی فیضان کی رسد نصیب ہوئی جو کسی کسی کو نصیب ہوئی ہوگی۔
تو بات یہ ہے کہ مجھے ان دنوں پنجاب کے شہروں میں نشاط و طرب کی وہ کیفیت کارفرما دکھائی دی جس کا مجھے آزادی کے بعد دو تین بار ہی تجربہ ہوا ہوگا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد پاکستان کے ماہر فوجی مبصرین نے جو خود نوشتیں رقم فرمائی تھیں ان میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا تھا کہ ہندوستان، پاکستان سے دس گنا طاقتور ہے۔
سالہا سال کی اس کیفیاتی صورتِ معاملہ کے ذہنوں میں نقش ہو جانے کے بعد جب پاکستان نے ہندوستان کے پانچ جوہری بموں کے دھماکوں کے بعد چھ جوہری بموں کے دھماکے کیے تو قوم جہاد کے سرورِ مقدس سے سرشار ہو گئی۔ اور کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک ایسی کیفیت تھی جس کو سمجھنے میں کسی دشواری کی گنجائش نہیں تھی۔ پھر یہ کہ پاکستان کے خواص اور عوام کو جو اخلاقی برتری حاصل تھی وہ یہ تھی کہ جوہری بموں کی ہلاکتیں برسانے میں ہندوستان نے پہل کی تھی، پاکستان نے نہیں۔
پنجاب کے اخباروں نے اس بارے میں میرے خیالات بھی اپنے پڑھنے والوں تک پہنچائے۔ میرے ان خیالات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستان کے شاعر وزیراعظم جناب اٹل بہاری باجپائی نے نہایت غیر شاعرانہ رویے کا ارتکاب کیا اور یہ کہ انہوں نے ہندوستان میں جوہری بموں کے پانچ دھماکے کیے اور پاکستان میں چھ دھماکے کرائے۔ جن کا حاصل جمع کیا ہوا؟ گیارہ دھماکے یعنی یہ گیارہ دھماکے میرے بزرگ محترم جناب اٹل بہاری باجپائی کا تاریخی کارنامہ ہیں۔ برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ۔
رہے پاکستان کے تازہ وارد سیاست داں اور ناقابل قبول حد تک خوش بخت وزیراعظم نواز شریف تو انہوں نے سچ مچ یعنی گویا سچ مچ ایک دھماکا بھی نہیں کیا۔ بھلا اس بات میں کیا شبہ ہے کہ اگر ہندوستان نے جوہری بموں کے دوزخی دھماکوں کا ہلاکت انگیز کھیل نہ کھیلا ہوتا تو پاکستان ایک پٹاخا بھی نہ چھوڑتا۔"
"نشیان! میں نے صورتِ معاملہ کے ایک رخ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ میرے گمان میں قابلِ لحاظ حد تک درست ہے۔ مگر جانا اور مانا جائے کہ اس کا ایک اور رخ بھی ہے اور اس کے باب میں پاکستان کے سب سے زیادہ توجہ طلب مسئلوں کے نہایت محترم اور معتبر ماہروں اور عالموں نے ہمیں بڑی دانش جوئی، دانش طلبی، دانش یاری اور دانش مندی کے ساتھ پُرزور اور ارجمند افادات سے نوازا ہے۔ ان کے افادات کا جوہر یہ ہے کہ ہم اپنے الجھے ہوئے معاملوں کو پہلوانوں اور جوابی کارروائی کے پرجوش اور جہاد پسند تنومندوں کی طرح طے کریں گے تو چاروں خانے چت ہوں گے اور حریف ہمیں تاریخ کے دنگل میں بری طرح گندہ کر کے مارے گا۔ مانا کہ زندگی ایک دنگل ہے مگر زندگی کی نسبت سے دنگل کے وہ معنی نہیں ہیں جن کی نسبت سے ہمیں گاما پہلوان اور امام بخش پہلوان کی یاد آتی ہے۔ چلیے مان لیا کہ زندگی ایک دنگل ہے جس میں کشتی لڑی جاتی ہے اور 'دھوبی پاٹ' اور 'لوگان' جیسے داؤ مارے جاتے ہیں۔ مگر زندگی دنگل کے علاوہ بھی کچھ ہے بلکہ اس کے علاوہ ہی سب کچھ ہے۔ وہ دانش، دلیل، محبت اور برہان کی ایک مباحثہ گاہ ہے جہاں قوموں کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ جہاں انسانوں کے حال اور مستقبل کے سب سے زیادہ مبہم اور اہم قضیوں کو طے کیا جاتا ہے۔ یہ دور دنگلوں اور 'میدان داریوں' کا دور نہیں ہے۔ یہ تفکر اور تدبر کا دور ہے۔ اس دور کا ہم سے جو سب سے زیادہ توجہ طلب تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے بالشتیہ وجود، شائستہ بقا اور اپنے ہمہ جہت ارتقا کے وسط اور گرد و پیش سے آگاہی حاصل کریں۔"
"ہم فاقہ کش اور فلاکت زدہ ڈھور ڈنگر ہیں۔ ہم جہل اور جنگلی پن کا ایک بےڈھنگا ریوڑ ہیں۔ ہماری آبادی کے سب سے بڑے گلے کو کسی طرح بھی 'حیوان ناطق' کے خانے میں مندرج نہیں کیا جا سکتا۔ ہم زیادہ سے زیادہ 'نیم انسان' ہیں۔
ہم نے ہندوستان کے پانچ جوہری بموں کے دھماکوں کے جواب میں یعنی 'جواب آں غزل' کے طور پر ایک رستمانہ کارنامہ انجام دیا ہے، لیکن ہمیں انسانیت عالیہ کی قسم کھا کر اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے نام نہاد دو تین برس بعد سے لے کر آج تک کیا ہم نے جمہوریت کا کوئی ایک دن بھی گزارا ہے؟ اس دوران ہم نے چھچورے، چھٹ بھیے اور لے چورے سربراہوں کی سڑی اور بھسی ہوئی غلامی میں گھناؤنی زندگی تیر نہیں کی؟"
"جان لیا جائے کہ میں یعنی جون ایلیا کسی بھی نسلی، لسانی اور مذہبی گروہ کی خوشنودی کمانے کی خاطر بےہودہ نگاری اور قلم دوات اور کاغذ کی فحاشی کا مجرم قرار پانے کے لیے اپنے آخری سانس تک تیار نہیں ہوں گا۔
سنا جائے اور سمجھا جائے کہ 'جون ایلیاؤں' کو دو وقت کی روٹی چاہیے۔ انہیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے چاہئیں۔ ان کے بیمار ڈھانچوں اور ڈھچروں کو دوائیں چاہئیں۔ ان ڈھور ڈنگروں کو کسی نہ کسی حد تک انسان کہلائے جانے کے لیے حرفوں کی شد بد چاہیے۔ یہ ذہن کی جولانی، جہد اور اجتہاد کا دور ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو ماننے میں الکساہٹ سے کام لے رہے ہیں انہیں اپنے جسد کے لیے کافور اور کفن کا بندوبست کر لینا چاہیے۔
وما علینا الا البلاغ۔"
***
بشکریہ:
سسپنس ڈائجسٹ، جولائی 1998ء
بشکریہ:
سسپنس ڈائجسٹ، جولائی 1998ء
Dangal, a thought provoking column by Jaun Elia.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں