انگریزی الفاظ اردو میں - از شمس الرحمن فاروقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-12

انگریزی الفاظ اردو میں - از شمس الرحمن فاروقی

english-words-in-urdu

اردو میں بہت سے انگریزی (یا مغربی زبانوں کے) الفاظ مستعمل ہیں۔ ان کو حسب ذیل گروہوں میں رکھا جا سکتا ہے:
(1)
وہ الفاظ جو پوری طرح کھپ گئے ہیں اور ان پر غیرزبان ہونے کا گمان نہیں گذرتا۔
مثلاً ٹکٹ، اسٹیشن، ڈالر، پارٹی، واٹ (watt)، انسپکٹر، بجٹ، ٹیکس، ہال، پروفیسر، لیکچرر۔ لیمپ، بلب وغیرہ۔
ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا تلفظ ہم لوگوں نے بدل لیا ہے، جیسے پاؤنڈ (Pound) کی جگہ 'پونڈ'، پینٹلونس (Pantaloons) کی جگہ 'پتلون' وغیرہ۔ اس گروہ میں جو الفاظ ہیں، ان کے مرادف اردو میں عام طور پر نہیں ہیں۔


(2)
وہ الفاظ جن کے اردو مرادف ہیں، لیکن وہ اب کم بولے جاتے ہیں۔ مثلاً ٹمپریچر بجائے درجۂ حرارت، ایر پورٹ بجائے ہوائی اڈا ، والو (valve) بجائے کھلمندن، کلاس بجائے درجہ، پنسل بجائے قلم سرمہ، ٹی کوزی بجائے چائے پوشی ، وغیرہ۔


(3)
وہ الفاظ جن کے اردو مرادف موجود ہیں، لیکن انہیں زیادہ تر تحریر ہی میں برتا جاتا ہے۔ عام بول چال میں انگریزی لفظ سننے میں آتا ہے۔ مثلاً الکشن (Election) بجائے انتخاب یا چناؤ، میجارٹی (Majority) بجائے اکثریت، فلائٹ (Flight) بجائے اڑان، ڈیماکریسی (Democracy) بجائے جمہوریت، پنشن (Pension) بجائے وظیفہ، فارن ایکسچنج (Foreign Exchange) بجائے زر مبادلہ، پاورٹی لائن (Poverty Line) بجائے خط افلاس، وغیرہ۔


(4)
کمپیوٹر اور دوسرے جدید سائنسی علوم سے متعلق الفاظ، جن کے اردو مرادف بن سکتے ہیں، یا تجویز کئے جا سکتے ہیں لیکن ابھی انگریزی اصطلاح ہی قائم رکھی گئی ہے، یا قائم رکھی جا رہی ہے۔


مندرجہ بالا طرح کے تمام الفاظ میں سے کچھ تو اردو میں دخیل ہیں، اور کچھ بھی دخیل ہونے کے مختلف مراحل میں ہیں، اور ہمیں ان سے کچھ نہیں کہنا ہے۔ مشکل وہاں آ پڑتی ہے جہاں اردو کے اچھے خاصے الفاظ موجود ہیں، اور وہ مستعمل بھی ہیں لیکن پھر بھی ان کو ہٹا کر انگریزی لفظ لایا جارہا ہے۔
مثلاً ۔۔۔ غلط : صحیح
سیریز : سلسلہ
لیکچر : خطبہ / تقریر
گروپ : گروہ / جرگہ / طبقہ
ورکر : کارکن
والنٹیر : رضاکار
ٹیچر : استاد / استانی / معلم / معلمہ
اس سے بدتر یہ ہے کہ ان لفظوں کی جمع بھی انگریزی لکھی جائے۔


غلط اور قبیح:
لکچرس / لکچرز، گروپس، ورکرز / ورکرس، والنٹیرز / والنٹیرس، ٹیچرز / ٹیچرس


جاننا چاہیے کہ غیرزبان کے وہ الفاظ، جو ہماری زبان میں پوری طرح دخیل ہو گئے ہیں اور وہ بھی ، جو ابھی پوری طرت دخیل نہیں ہوئے، جب جمع کی شکل میں آئیں گے تو ان کی جمع اردو قاعدے سے بنے گی۔
عربی فارسی الفاظ کی بات اور ہے۔ ہم نے بہت سے عربی فارسی الفاظ ان زبانوں سے مع جمع اٹھا لیے ہیں، بلکہ یوں کہیں کہ جب ہم نے ایک لفظ لیا تو کبھی کبھی اس کے ساتھ اس کی جمعیں بھی حاصل کر لیں۔ یعنی ایک کی جگہ دو یا تین لفظ لے لیے۔ کبھی کبھی برعکس بھی کیا، کہ لفظ لے لیا لیکن جمع نہیں لی۔ اور کبھی کبھی صرف جمع لے لی، اصل (واحد) لفظ نہیں لیا۔
بعض اوقات یہ ہوا کہ عربی جمع کے ساتھ فارسی جمع بھی لے لی، یا لفظ عربی کا لیا اور اس کی جمع فارسی کے اعتبار سے بنائی یا فارسی لفظ کی جمع عربی قاعدے سے بنائی۔
علاوہ بریں، اکثر و بیشتر ہم نے عربی فارسی الفاظ کی عربی فارسی جمع اپنے ہی قاعدے سے بنائی۔ یہ سب پیچیدہ عمل ہماری زبان میں مدتوں سے ہوتے رہے ہیں اور ان کی نہج قائم ہو چکی ہے۔


انگریزی الفاظ کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اردو میں انگریزی لفظ کثرت سے آئے ، اور آمد کی یہ لے انیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے بہت تیز ہو گئی۔ اب کم ہے، لیکن آج کی بول چال میں انگریزی کے الفاظ اواخر انیسویں صدی کے مقابلے میں بہت زیادہ رائج ہیں۔
لیکن انگریزی الفاظ کو ان کی جمع کے ساتھ کبھی نہیں لیا گیا۔ اب بھی یہی اصول برقرار ہے۔ جو لوگ اس کے خلاف کرتے ہیں وہ زبان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔
انگریزی الفاظ کی جمع انگریزی ہی کے قاعدے سے بنانا انگریزی کو ایک طرح کی مراعات (Privilege) دینا ہے۔ اس کی وہ کسی بھی طرح مستحق نہیں ہے۔
علامہ کیفی نے عمدہ بات کہی ہے کہ:
اول تو یہی کیا کم زیادتی ہے کہ انگریزی کا لفظ اردو میں لایا جائے ، چہ جائے کہ اس کی جمع بھی بدیسی قاعدے سے بنائی جائے۔


"دخیل" الفاظ - ماخوذ از کتاب: لغات روز مرہ (تیسرا ایڈیشن)
درج ذیل متن شکریہ کے ساتھ نقل کیا گیا: نیا سویرا ڈاٹ نیٹ، نئی دہلی

غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں "دخیل" کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔


جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ اردو میں عملاً اس اصول کی پابندی تقریباً ہمیشہ ہو ئی ہے۔ لیکن شاعری میں اکثر اس اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف و نحو کی کتابوں میں بھی بعض اوقات اس اصول کے خلاف قاعدے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط اور افسوسناک ہیں۔ نحوی کا کام یہ ہے کہ وہ رواج عام کی روشنی میں قاعدے مستنبط کرے، نہ کہ رواج عام پر اپنی ترجیحات جاری کرنا چاہے۔ شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ حتی الامکان رواج عام کی پابندی کرتے ہوئے زبان کی توسیع کرے، اس میں لچک پیدا کرے نہ کہ وہ رواج عام کے خلاف جا کر خود کو غلط یا غیر ضروری اصولوں اور قاعدوں کا پابند بنائے۔


اردو میں دخیل الفاظ بہت ہیں اور دخیل الفاظ کے ذخیرے سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایسے الفاظ کا ہے جو دخیل الفاظ پر تصرف کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ یہ تصرف کئی طرح کا ہو سکتا ہے۔


(1) غیر زبان کے لفظ پر کسی اور زبان کے قاعدے سے تصرف کر کے نیا لفظ بنانا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* فارسی لفظ "رنگ" پر عربی کی تاے صفت لگا کر "رنگت" بنا لیا گیا۔
* فارسی "نازک" پر عربی قاعدے سے تاے مصدر لگا کر "نزاکت" بنا لیا گیا۔
* عربی لفظ "طرفہ" پر فارسی کی علامت فاعلی لگا کر "طرفگی" بنایا گیا۔
* فارسی لفظ "دہ /دیہہ" پر عربی جمع لگا کر "دیہات" بنایا اور اسے واحد قرار دیا۔
* عربی لفظ "شان" کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقۂ کیفیت لگایا اور "شاندار" بنا لیا۔
* عربی لفظ "نقش" پر خلاف قاعدہ تاے وحدت لگا کر "نقشہ" بنا یا، اس کے معنی بدل دیے، اور اس پر فارسی لاحقے لگا کر "نقشہ کش/نقش کشی؛ نقشہ نویس/ نقشہ نویسی؛ نقشہ باز" وغیر بنا لیے۔
* عربی لفظ "تابع" پر فارسی لاحقہ "دار" لگا لیا اور لطف یہ ہے معنی اب بھی وہی رکھے کیوں کہ "تابع" اور "تابع دار" ہم معنی ہیں۔


(2) غیر زبان کے لفظ پر اپنی زبان کے قاعدے سے تصرف کرنا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* عربی "حد" پر اپنا لفظ "چو" بمعنی "چار" اضافہ کیا ، پھر اس پر یاے نسبتی لگا کر "چو حدی" بنا لیا۔
* عربی لفظ "جعل" کے معنی تھوڑا بدل کے اس پر اردو کی علامت فاعلی لگا کر "جعلیا" بنایا گیا۔ فارسی کی علامت فارعلی لگا کر "جعل ساز" بھی بنا لیا گیا۔
* عربی لفظ "دوا" کو "دوائی" میں تبدیل کر کے اس کی جمع اردو قاعدے سے "دوائیاں" بنی۔
* فارسی لفظ "شرم" پر اپنا لاحقۂ صفت بڑھا کر "شرمیلا" بنا لیا۔
* فارسی لفظ "بازار" پر اردو لفظ "بھاؤ" لگا کر اردو قاعدے کی اضافت بنا لی گئی؛ "بازار بھاؤ"۔


(3) اپنی زبان کے لفظ پر غیر زبان کا قاعدہ جاری کر کے نیا لفظ بنا لینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* "اپنا" میں عربی کی تاے مصدری اور اس پر ہمزہ لگا کر "اپنائیت" بنایا گیا۔ لکھنؤ میں "اپنایت" بولتے تھے لیکن بعد میں وہاں بھی "اپنائیت" رائج ہوگیا۔ "آصفیہ" میں "اپنائیت" ہی درج ہے۔
* اردو کے لفظ پر "دار" کا فارسی لاحقہ لگا کر متعدد لفظ بنائے گئے؛ "سمجھ دار، چوکیدار، پہرے دار" وغیرہ۔
* اردو کے لفظ "دان" کا لاحقہ لگا کر بہت سے لفظ بنا لیے گئے ، جیسے:" اگردان، پیک دان، پان دان " وغیرہ۔


(4) غیر زبان کے لفظ سے اپنے لفظ وضع کرلینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* مصدر "گرم" سے "گرمانا"؛"شرم" سے "شرمانا" وغیرہ۔
* اسم "نالہ" سے "نالش"؛ "چشم" سے "چشمہ(بمعنی عینک)" وغیرہ۔
* صفت "خاک" سے "خاکی" (رنگ، انگریزی میں Khaki کا تلفظ "کھیکی")


(5) غیر زبان کے طرز پر نئے لفظ بنا لینا۔ مثلاً حسب ذیل لفظ فارسی / عربی میں نہیں ہیں، اردو والوں نے وضع کیے ہیں:
* بکر قصاب؛ دل لگی؛ دیدہ دلیل؛ ظریف الطبع؛ قابو پرست؛ قصائی؛ ہر جانہ؛ یگانگت وغیرہ۔


(6) اپنا اور غیر زبان کا لفظ ملا کر، یا غیر زبان کے دو لفظ ملا کر اپنا لفظ بنا لینا، مثلاً:
آنسو گیس (اردو، انگریزی)؛ بھنڈے بازار (اردو، فارسی)؛ خچر یاتری (اردو ، انگریزی)؛ خود غرض (فارسی، عربی)؛ گربہ قدم (فارسی، عربی) وغیرہ


جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے، دخیل الفاظ ، چاہے وہ براہ راست دخیل ہوئے ہوں یا ان کے زیر اثر مزید لفظ بنے ہوں، سب ہمارے لیے محترم ہیں۔ کسی دخیل لفظ، کلمے یا ترکیب کو، یا اس کے رائج تلفظ یا املا کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جس زبان سے یہ لیا گیا ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو اس کے غلط یا درست ہونے کا معیار ہماری زبان،اس کے قاعدے، اور اس کا روز مرہ ہوں گے نہ کہ کسی غیر زبان کے۔


ہمارے یہاں یہ طریقہ عام ہے کہ کسی لفظ یا ترکیب یا اس کے معنی کے لیے فارسی سے سند لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ فارسی میں ایسا ہے، اس لیے اردو میں بھی ٹھیک ہے۔ یہ طریقہ صرف اس حد تک درست ہے جب تک فارسی کی سند ہمارے روزمرہ یا ہمارے رواج عام کے خلاف نہ پڑتی ہو۔
"فارسی میں صحیح ہے اس لیے اردو میں صحیح ہے"، یہ اصول بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ اصول کہ "فارسی [یا عربی] میں غلط ہے، اس لیے اردو میں بھی غلط ہے۔"
مثال کے طور پر "مضبوط" کو جدید فارسی میں "مخزون" کے معنی میں بولتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مثلاً "یہ کتاب نیشنل لائبریری میں مخزون ہے"۔ یہاں فارسی والا "مضبوط" کہے گا۔ ظاہر ہے کہ فارسی کی یہ سند اردو کے لیے بے معنی ہے۔


یہ بات صحیح ہے کہ اردو نے فارسی /عربی سے بے شمار الفاظ ، محاورات اور تراکیب حاصل کیے ہیں۔
لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر اردو میں کسی عربی/فارسی لفظ کے بارے میں کوئی بحث ہو تو ہم عربی/فارسی کی سند لا کر جھگڑا فیصل کرلیں۔ لیکن شرط یہی ہوگی کہ عربی /فارسی کی سند ہمارے رواج عام یا روزمرہ کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً لفظ "کتاب" کی جنس کے بارے میں اختلاف ہو تو یہ سند فضول ہوگی کہ عربی میں "کتاب"مذکر ہے، لہٰذا اردو میں بھی یہ لفظ مذکر ہوگا/ہونا چاہیے۔ اسی طرح، اگر یہ سوال اٹھے کہ "طشت از بام ہونا" صحیح ہے کہ نہیں، تو یہ استدلال فضول ہوگا کہ فارسی میں "طشت از بام افتادن" ہے، لہٰذا اردو میں بھی "طشت از بام گر پڑنا" ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں یوں بولتے ہیں، "سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا"، جب کہ فارسی میں یہ محاورہ "طشت" کے حوالے سے بولتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں:"طشت از بام افتاد"۔ ظاہر ہے کہ یہ ضد کرنا بھی غلط ہے کہ اردو میں بھی یوں ہی بولنا چاہیے۔


یا مثلاً اردو میں "لطیفہ" کے معنی ہیں، "کوئی خندہ آور چھوٹی سی کہانی یا چٹکلا"۔
یہ معنی نہ فارسی میں ہیں نہ عربی میں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اردو میں رائج معنی کو اس بنا پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کوئی شخص "لطیفہ" کو اردو میں "سخن خوب و نیکو" ، یا "اچھی چیز، اچھائی" کے معنی میں استعمال کرے اور کہے کہ (مثلاً) "مقدمہ شعر و شاعری لطیفوں [یا لطائف] سے بھری ہوئی ہے" درست استعمال ہے ، کیوں کہ فارسی میں "لطیفہ"بمعنی "سخن خوب" اور عربی میں بمعنی "اچھی چیز" وغیرہ ہے، تو اس کی بات قطعی غلط قرار دی جائے گی۔
لہٰذا بنیادی بات یہی ہے کہ جو استعمال، لفظ ، ترکیب، کلمہ ، اردو کے قاعدے یا رواج کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو پر غیر زبانوں، خاص کر عربی /فارسی کے قاعدے جاری کرنا درست نہیں ہے، اس لے کو جتنا دھیما کیا جائے ، اچھا ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: لغات روز مرہ (چوتھا ایڈیشن)
تصنیف: شمس الرحمٰن فاروقی۔ سنہ اشاعت چہارم: 2012

English words in Urdu language. Article: Shamsur Rahman Faruqi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں