جس طرح مولانا ابوالکلام آزاد (1888 - 1958) ایک ہمہ جہت اور منفرد شخصیت کے مالک تھے، اسی طرح ان کا مشہور زمانہ ہفت روزہ اخبار "الہلال" بھی تنوع اور انفرادیت کا حامل تھا۔ حیات و کائنات کا شاید ہی کوئی ایسا اہم پہلو ہو جو الہلال کا موضوع نہ بنا ہو۔ اس میں علمی، ادبی، تہذیبی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، سائنسی، تاریخی غرض ہر قسم کی خبریں اور مضامین ہوتے تھے۔ دراصل الہلال ایک اخبار نہیں ایک مشن تھا، اس کی حیثیت ایک تحریک کی تھی۔ مولانا آزاد نے الہلال سے اصلاح و تبلیغ کا زبردست کام لیا۔ انہوں نے حب الوطنی، قوم پرستی اور قومی یکجہتی کے جذبے کو بیدار کیا۔ شمع آزادی کی لو تیز کی، سیاست اور مذہب کے حقیقی پہلوؤں سے عوام و خواص کو روشناس کرایا۔
مولانا آزاد کسی ایک صنف کے پابند نہیں تھے، وہ شعر و ادب کی ہر صنف کو پسند کرتے تھے بشرطیکہ وہ قومی ترقی کا وسیلہ ثابت ہو۔ مولانا آزاد کو دوسرے متعدد موضوعات کی طرح افسانوی ادب کا بھی ذوق تھا۔ اس لیے الہلال میں دوسرے اہم مضامین کی صف میں افسانوی حصہ بھی ملتا ہے۔ جب 1927ء میں مولانا نے "الہلال" کی دوبارہ اشاعت شروع کی تو اس میں "افسانہ" کو ایک مستقبل باب کا درجہ دیا گیا۔ اور اس کی اکثر اشاعتوں میں کسی افسانے کا ترجمہ شامل کیا جاتا تھا جو اصلاً کسی غیرملکی زبان میں لکھا گیا تھا۔ مولانا آزاد نے تراجم کے ذریعہ اردو علم و ادب کو مالا مال کرنے کی ہمیشہ کوشش بھی کی اور تلقین بھی۔ الہلال میں مترجمہ افسانوں کی اشاعت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مولانا آزاد نے ترجمے کے لیے بڑی سخت شرط عائد کر رکھی تھی۔ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ اردو عبارت کو شگفتہ بنانے کے لیے انگریزی انشا پردازی و بلاغت کا خون کیا جائے۔ مولانا آزاد نے الہلال میں جن مترجمہ افسانوں کو جگہ دی ہے، ان میں مصنفانہ شگفتگی کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور غیرملکی زبانوں کی انشا پردازی و بلاغت کو بھی بڑی حد تک قائم رکھا گیا ہے۔
میکسم گورکی کے افسانے "ماں" کے ترجمے کو اختر شیرانی کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اس کے آخر میں جو نظم ہے جو اختر شیرانی کی کلیات میں موجود ہے۔
وکٹر ہیوگو کا افسانہ "بشپ" اور تاریخ اسلام کا "بغدادی" ۔۔۔ مولانا آزاد کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اس میں ضمیر متکلم کا جو استعمال ہوا ہے اسے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ افسانہ دو قسطوں میں ہے۔ پہلی قسط کے آخر میں یہ عبارت ملتی ہے:
"ابن ساباط کی سرگزشت کے لیے آئیندہ مجلسِ افسانہ سرائی کا انتظار کیجیے : وصاف۔"
یہ حیرت کی بات نہیں کہ مولانا آزاد نے اپنا نام ظاہر کرنے کے بجائے ایک فرضی نام "وصاف" لکھنا مناسب سمجھا ہو۔ الہلال کی جو منظومات مولانا شبلی کی طرف منسوب ہیں، ان میں اکثر شبلی کے نام کی وضاحت نہیں ہوتی تھی بلکہ کشاف، نقاد، وصاف کا فرضی نام لکھا جاتا تھا۔ بہرحال اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ مولانا آزاد اردو قارئین کو صنفِ افسانہ کے مغربی نمونوں سے آشنا کرانا چاہتے تھے اور الہلال کو اس کا ایک ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔
الہلال کے مترجمہ افسانے اردو افسانہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ الہلال اور مولانا آزاد پر تحقیق کرنے والا انہیں کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کر سکتا۔
اترپردیش اردو اکادمی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی صدی تقریبات (1988ء) کے ضمن میں الہلال کے گیارہ (11) منتخب افسانوں کے مجموعہ کی اشاعت عمل میں لائی تھی جسے ایم۔کوٹھیاوی راہی نے مرتب کیا تھا۔
مولانا آزاد کے فن اور الہلال میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کی خدمت میں یہ نادر کتاب، تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
***
نام کتاب: الہلال کے منتخب افسانے
مرتب: ایم۔ کوٹھیاوی راہی۔ ناشر: اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ۔ سن اشاعت: 1988ء
تعداد صفحات: 130
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
AlHilal ke muntakhab Afsane.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | پیش لفظ (محمود الہی) | 4 |
ب | مقدمہ (ایم۔ کوٹھیاوی راہی) | 8 |
1 | محبت اور قربانی (یا سزا اور انتقام) قسط اول | 13 |
2 | محبت اور قربانی (یا سزا اور انتقام) قسط دوم | 23 |
3 | حقیقت کہاں ہے؟ | 45 |
4 | نپولین پر قاتلانہ حملے | 54 |
5 | نپولین پر قاتلانہ حملہ | 58 |
6 | ماں کی محبت | 62 |
7 | ترکی تاریخ کا ایک مجہول صفحہ | 69 |
8 | غضب ناک محبوبہ | 79 |
9 | روحانیت کی مجلس | 103 |
10 | فرانس کا آخری مقبول ڈراما | 112 |
11 | خط استوا کے افریقی قبائل | 122 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں