افسانہ اور حقیقت - از وقار عظیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-25

افسانہ اور حقیقت - از وقار عظیم

afsana-aur-haqeeqat-waqar-azeem

دنیا نے عموماً افسانہ کو حقیقت اور صداقت کے منافی سمجھ رکھا ہے۔
افسانہ کی طرح شاعری کو بھی لوگ نہایت بے باکی کے ساتھ کذب اور غلط بیانی پر مبنی سمجھتے ہیں۔ شعر اور افسانہ فنون لطیفہ کی قریب قریب ایک ہی سی کڑی ہیں۔ دونوں انسان کی ایک ہی رگ کے لئے نشتر بنتے ہیں ، دونوں میں چند مخصوص اثرات کی بنا پر برابر کا اثر ہے۔ افسانویت اور شعریت، جذبات اور احساسات کا جن گوشوں پر حکمراں ہے ، وہاں تک اس صداقت اور حقیقت کا گزر بالکل ایسا ہی ہے جیسا رندوں کی محفل میں کسی زاہد خشک کا، جو غنچوں کے حسن دل آرام کے سامنے اپنی حقیقت طراز ریش کے جلوے دکھاکر لوگوں کو ان کی حقیقتوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔


افسانہ، شعر، مصوری، بت تراشی اور اس قسم کی ہر لطیف چیز کی بنیاد فطرت انسانی کے کسی نہ کسی پہلو پر رکھی جاتی ہے۔ جو لوگ ان چیزوںمیں صداقت تلاش کرتے ہیں ان کا یہ مقولہ ہے کہ یہ پہلو ہر ممکن طریقہ سے حقیقی و اقعات کا پورا پورا عکس ہونا چاہئے۔ اس میں ذرہ برابر بھی کوئی اور چیز شامل نہ کی جائے۔ شامل کرنے کا تو کیا ذکر اس میں سے کچھ کم کرنا بھی ان لوگوں کے نزدیک ایک بڑا گناہ ہے۔
حقیقت پسندوں کا دوسرا مقولہ یہ ہے کہ افسانہ میں روزانہ زندگی کی عام باتیں بیان کرنی چاہئیں۔ ان میں رومانی، تخئیلی اور دور ازکار چیزوں کا ذکر بالکل فضول اور بے معنی ہے۔ ہر وہ چیز جسے ہم اپنی روزانہ زندگی میں دیکھتے ہیں ، جو دوسرے ہمارے سامنے کرتے ہیں، سوسائٹی کا نظام جس طرح برابر چلتا ہے ، اس کے جو مخصوص اثرات اس کے گرد و پیش کی چیزوں پر پڑتے ہیں ، افسانہ نگار کو چاہئے کہ صرف انہیں چیزوں کو اپنے افسانہ کا موضوع بنائے۔ اسے اس کا بالکل اختیار نہیں کہ وہ ان چیزوں میں سے کچھ کم کردے یا اپنی خوشی سے اس میں کچھ شامل کردے۔
مختصر طور پر یہ ہے حقیقت اور صداقت کے حامیوں کا نقطہ نظر جس پر وہ ہر دوسری چیز کو قربان کرنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک حقیقت اور صداقت کے علاوہ ہر دوسری چیز بے معنی ہے۔


لیکن حقیقت اور صداقت کو اس قدر اہمیت دینے کے باجود بھی فن کے دلدادگان، اس کی لطافتوں اور نزاکتوں پر جان دینے والے انسان، صداقت کے اس تلخ اور غیر شاعرانہ نظریہ کو قطعی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ وہ ہر ادبی اور فنی تخلیق میں تخئیل کی کارفرمائیاں دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ تجربہ کو اس قدر محدود معنوں میں سمجھنے کے لئے ہر گز آمادہ نہیں ہو سکتے۔ انہیں غیر شاعرانہ اور حقیقی تفصیلات سے زیادہ تصور آفرینی سے لگاؤ اور محبت ہے۔ وہ حقیقت کو مثالیت اور رومان کی چاشنی کے بغیر ایک فضول سی چیز جانتے ہیں۔ وہ ہر چیز کو تاویل کا محتاج سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مصنف کے مخصوص نقطہ نظر کی رنگ آمیزی کے بغیر کسی ادبی یا فنی تخلیق میں روح کا پیدا ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ قریب قریب غیر ممکن ہے۔ مختصر طور پر یہ کہ وہ اپنی ہر ادبی کوشش کو صرف”حقیقت شعری” کا پابند سمجھ کر خوش رہنا چاہتے ہیں ، اور حقیقت پسندیا صداقت کے حامی ان میں سے کسی چیز کو ضروری اور اہم نہیں سمجھتے۔


ادب میں ہم ہر اس چیز کو شامل کر سکتے ہیں جو ہمارے تجربہ کی بنا پر ہمیں حقیقی معلوم ہو۔ تجربہ کوئی محدود چیز نہیں۔ تجربہ صرف اسی چیز کا نام نہیں کہ ہم اپنی روزانہ کی زندگی میں جو چیزیں ہوتی دیکھیں انہیں کو اس کا ایک جزو جانیں۔تجربہ کی حدود ادب میں بہت زیادہ وسیع ہیں۔ اس میں سب سے پہلی مدد ہمیں مشاہدہ سے ملتی ہے۔ ہم مختلف چیزوں کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان سے اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ تجربہ کا پہلا زینہ ہے۔ ان چیزوں کو دیکھنے کے بعد ہم انہیں اپنی ہستی کا ایک جزو سمجھنے لگتے ہیں ، اس پر طرح طرح سے غور کرتے ہیں اور ہماری دماغی کاوشوں کی مدد سے یہ حقیقی تجربہ ایک نئی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ تجربہ کی دوسری قسم ہے ، کبھی ہم مختلف حقیقی تجربات کو شامل کر کے انہیں نئی شکل دے دیتے ہیں۔ ہم نے جو دیکھا تھا اسے اپنے مخصوص نقطہ نظر میں رنگ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
افسانہ میں اکثر اسی قسم کے تجربات زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں ، اس لئے کہ ان میں تاویل اور نقطہ نظر کی رنگ آمیزی شامل ہوکر کوئی نہ کوئی نئی خصوصیت پیدا کر دیتی ہے۔
کبھی کبھی ہم صرف اپنی تخیل سے کام لیتے ہیں اور جو چیز ہم نے حقیقت میں کبھی ہوتی نہیں دیکھی اسے افسانہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ اسے بھی تجربہ کا ایک اہم اور ضروری پہلو سمجھنا چاہئے ، اور اس لئے حقیقت پر مبنی۔ یہ یا اس قسم کی چیزیں کبھی غیر حقیقی نہیں کہی جا سکتیں، اس لئے کہ انہیں اگر کسی اور نقطہ نظر سے نہ سہی تو کم از کم حقیقت شعری یا حقیقت افسانوی کے نزدیک ضرور صداقت ہی سمجھا جائے گا۔ انہیں ہم اس وقت تک غیر حقیقی نہیں کہہ سکتے جب تک ان میں امکان مثالی (Ideal probability) بھی موجود ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ جب تک انہیں ہم کسی نہ کسی طرح ممکن سمجھ سکتے ہیں اس وقت تک ان میں صداقت ہے۔


یہی وجہ ہے کہ لوگ مثالیت (Idealism) اور رومان (Romance) کو بھی حقیقت اور صداقت کی حد سے خارج نہیں سمجھتے۔ خصوصاً افسانوی دنیا میں دونوں کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں چیزوں کو کسی طرح ہم افسانے میں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے۔
ایک جگہ ہڈسن (Hudson) نے لکھا ہے کہ حقیقت کو فن کی حدود میں رکھنے کے لئے ہمیں مثالیت کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور رومان کو مبالغہ سے بچانے کے لئے ہمیں حقیقت شعری کا دس نگر ہونا پڑتا ہے۔ ہم اگر اس کے آگے صرف یہ اور بڑھادیں کہ:
"حقیقت شعری اور فن کی حیثیت افسانوی دنیا میں مرادف کی سی ہے"
تو یہ خیال زیادہ مکمل ہوجائے گا ، اس لئے کہ ہم کسی قوم پر بھی رومان اور مثالیت کو حقیقت شعری یا افسانویت کی دنیا سے الگ نہیں کرسکتے۔ اور ہم ہر معمولی سے معمولی حقیقت کو ایک رنگین سے رنگین داستان بناسکتے ہیں ، اگر صرف تخئیل سے تھوڑی سی مددلیں، اور ہر مافوق الفطرت واقعہ میں حقیقی دلچسپی پیدا کرسکتے ہیں اگر ان واقعات کے ساتھ ایسے جذبات شامل کردیں، جو فطرت انسانی سے ایسے موقعوں پر ظہور میں آتے ہیں۔


اس لئے ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہیں کہ افسانوں میں حقیقت اور تجربہ بہت وسیع چیز ہے اور اس کی تکمیل حقیقت پسندوں کے صول پر عمل کرنے کے بعد بالکل غیر ممکن ہے، اس لئے کہ کوئی فن اپنی موجودہ شکل پر قائم نہیں رہ سکتا، لوگوں کے دلوں پر وہ اثرات نہیں پیدا کرسکتا اگر اسے حقیقی صداقت (Scientific truth) کا پابند بنا دیا جائے۔ فن کا حسن اور جان ہر جگہ شعریت ہے اور اس لئے اسے کسی حقیقی صداقت کی پیروی کرنے کے بجائے صرف حقیقت شعری (Poetic truth) یا افسانوں کی دنیا میں حقیقت افسانوی کا پابند رہنا چاہئے۔


ہر ادب میں جس چیز کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہ تصور آفرینی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان حیات انسانی کی تفصیلات، مظاہر فطرت کی رنگین اور طویل کیفیات اور ان کے باریک سے باریک مظاہر کی تشریح اور تفصیل میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے لیکن اگر اس کے سامنے کوئی فن کار صرف ایسی چیزوں کا انتخاب کرکے رکھ دے جو براہ راست اس کے جذبات اور احساسات پر اثر کریں، ان میں ایک انقلاب اور ہیجان پیدا کردیں ، تھوڑی دیر کے لئے انہیں ایک عام سطحی دنیا سے کسی قدر بلند کردیں، تو یقینا وہ انہیں زیادہ پسند کرے گا۔
اب اگر یہ چیزیں اس حسن اور خوش سلیقگی سے چھانٹی گئی ہیں ، ان کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ باقی چھٹی ہوئی چیزوں کا تصور بھی ان کے ساتھ ذہن میں آجاتا ہے ،اور بغیر تفصیلات کے ذکر کے ان چیزوں کی پوری تفصیل نظروں کے سامنے پھرنے لگتی ہے ، تو وہ اسے یقینا ان تفصیلات کے مقابلہ میں زیادہ بہتر اور دلکش سمجھے گا جو کسی حقیقت نگار نے اس کے سامنے ویسی کی ویسی ہی اٹھا کر رکھ دی ہیں۔
اس لئے حقیقت نگار اور فن کار کے نقطہ نظر میں صرف اتنا فرق ہے کہ حقیقی چیزوں کو دونوں پیش کرتے ہیں لیکن ایک تفصیل کو دخل دیتا ہے اور دوسرا ایجاز کو۔ ایک سب کچھ خود بتا دینا چاہتا ہے اور دوسرا اس کے ایسے سامان مہیا کر دیتا ہے کہ وہ چیزیں بے بتائے خود بخود نظر کے سامنے آ جائیں۔ ایک مادی چیزوں کی تفصیلی کیفیت بیان کرکے وہی اثر پیدا کرنا چاہتا ہے اور دوسرا اس میں ایک روحانی کیف کو شامل کرکے ان تفصیلات میں اثر پیدا کرتا ہے۔ ایک انتخاب کا کام خود دوسروں کے لئے چھوڑ دیتا ہے اور دوسرا اس چیز کو کم اہم جان کر خود انتخاب کو کام میں لاتا ہے اور دوسروں کو صرف تخیل اور تصور پر زور دینے پر آمادہ کرتا ہے، ایک خشک فلسفی ہے اور دوسرا جذبات پرور شاعر، نفسیات کو دونوں کام میں لاتے ہیں لیکن ایک اسے صرف ایک ایسی حقیقت جانتا ہے جو تلخ بھی ہے اور غیر دلچسپی بھی، دوسرااس میں دلکشی کے سحر تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ غرض دونوں کا نقطہ نظر بالکل مختلف ہے، مقصد خواہ ایک ہی ہو۔


اگر فنی نقطہ نظر کو الگ کر کے بھی ہم حقیقت اور افسانہ کے تعلق پر صرف اخلاقی پہلو سے نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں بہت سی خرابیاں نظر آئیں گی۔ جن لوگوں نے حقیقت کے اس سخت نظریہ کی پابندی کی ہے ان کے افسانوں میں بعض بعض جگہ نہایت شرمناک اخلاقی لغزشیں نظر آتی ہیں۔
حقیقت اور صداقت کے ایسے ایسے عریاں اور حیا سوز مرقعے ہمیں افسانوں میں نظر آتے ہیں کہ اخلاق کو اپنی آنکھیں بند کرنی پڑتی ہیں۔ حقیقت اور صداقت کی پابندی افسانوں میں اس حد تک ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ہمیں واقعی صداقت کو اسی حد تک اختیار کرنا ہے تو ہم آسانی سے ان چیزوں کو تھوڑی بہت احتیاط اور پابندی کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں۔ یا ان چند عریاں پہلوؤں کے علاوہ حیات انسانی کے ہزارہا پہلو ایسے ہیں جو حقیقی ہونے کے باوجود بھی اخلاق اور حیا کے بہترین مرقعے ہیں۔
ہم فطرت انسانی کی بلند حقیقتوں ، جذبات اور احساسات کی نازک کشمکشوں ، خیالات اور تحریکات کی مختلف اضطراب اثر اور ہیجان پرور صداقتوں کو اپنے افسانہ کا بہترین موضوع بنا سکتے ہیں۔ جب ہم نفسیات اور سائینٹفک حقیقتوں کے پابند رہنے کے بعد بھی اخلاق کی حدود میں رہ سکتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان حدوں کو چھوڑ کر پستی کی طرف مائل ہوں؟


غرض مختصر طور پر ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ افسانہ میں حقیقت اور صداقت کا ہونا لازمی ہے۔ ہم اپنے افسانوں کو کبھی پسندیدہ نہیں خیال کرسکتے اگر وہ ہماری فطرت کے کسی نہ کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جس بات کے بے حد خیال رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ اس حقیقت کو فن کا پابند ہونا لازمی ہے۔
اسے افسانہ میں سائنٹیفک نہیں بلکہ شاعرانہ اور افسانوی حقیقت بن کر رہنا پڑے گا۔ اگر کوئی افسانہ نگار افسانہ میں ایک واعظ کی طرح تلقین اخلاق کرنے پر آمادہ ہو جائے تو اسے یقیناً افسانہ نگاری کے فن سے بے بہرہ سمجھنا چاہئے۔ افسانہ کی بنیاد کسی بلند اخلاقی مسئلہ پر ہو سکتی ہے ، اس کا مقصد کسی بلند اخلاق کی تلقین ہو سکتا ہے ، لیکن افسانہ نگار کو اس جذبہ کو سائنٹیفک حقیقت کی حد تک نہ پہنچانا چاہئے تاکہ اس سے حس جمالیاتی کو ٹھیس نہ لگے۔
افسانہ کا آبگینہ ان ٹھوس حقیقتوں کے لئے نہیں بلکہ ایک شاعرانہ شراب بھرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: افسانہ نگاری
مصنف: سید وقار عظیم
طباعت: سرسوتی پبلشنگ ہاؤس، الہ آباد (سن اشاعت: 1935ء)

Afsana aur haqeeqat. Article by: Waqar Azeem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں