برہان الحق ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی (پیدائش: 3/ذی الحجہ 362ھ مطابق 4/ستمبر 973ء، کاث، خوارزم - وفات: 3/رجب 443ھ مطابق 11/ستمبر 1051ء، غزنی، افغانستان)
کو شروع ہی سے بیرونی (البیرونی) کہا جاتا تھا یا بعد میں وہ اس لقب سے مشہور ہوا؟ اسے کے بارے میں تذکرہ اور تاریخ کی کتابیں خاموش ہیں۔ اس کے مولد سے متعلق نئی تحقیقات نے اس نظریے کو مشتبہ کر دیا ہے کہ وہ خوارزم کے مضافات میں ایک قریے میں پیدا ہوا تھا اور چونکہ وہ خاص خوارزم کا نہ تھا اور اہل خوارزم اپنے شہر سے باہر کے رہنے والوں کو بیرونی کہتے تھے اس لیے اس کی نسبت بھی بیرونی ہوئی۔ البیرونی نے اپنے عہد کے تقریباً تمام متداول علوم میں کامل دسترس بہم پہنچائی تھی۔ اس کا مطالعہ بھی گہرا اور وسیع تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے بہت جلد، جہاں تک کہ ریاضی، ہئیت، نجوم اور حکمت کا تعلق ہے، اپنے ہمعصر عالموں میں امتیاز حاصل کر لیا تھا۔ اس کی مشہور کتاب "الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ" جس میں گزشتہ زمانوں کے علمی آثار وغیرہ سے بحث کی گئی ہے، اس کی کم عمری کے زمانے کی تصنیف ہے۔
قدرت نے البیرونی کو علوم قطعیہ میں تحقیق و تدقیق ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔
ریاضی اور ریاضیاتی علوم کے میدان میں اس کی فکری و تجربی کاوشیں بے پناہ ہیں۔ ہیئت، علم پیمائش ارض (جیوڈیسی)، علم معدنیات ، نباتیات ، علم الانسان ، غرض کوئی شعبۂ علم ایسا نہیں جس سے اسے دلچسپی نہ رہی ہو اور جس سے متعلق اس نے کچھ نہ کچھ نہ لکھا ہو۔ اس کی فلسفیانہ بصیرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بصیرت کو جلا ملی تھی مذہب سے، اور اسی کے سہارے اس نے چند اہم مسائل پر غور و فکر کیا تھا۔ ریاضیاتی علوم کا وجدانی اور استخراجی طرز تحقیق اور طبیعی اور نیچرل سائنس کا تجربی اور استقرائی طرز استدلال ہمیں البیرونی کی تحقیقات اور نگارشات میں موضوع کے اعتبار سے جہاں جس کی ضرورت ہوئی، برابر ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ حال میں جدید اصول تحقیق کو برتنے والے عالم البیرونی کو اپنے آپ سے بہت قریب پاتے ہیں۔
ایک اور اہم بات جس کی طرف لوگوں کی نظر کم جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ البیرونی کا نقطہ نظر اس مسئلہ کے بارے میں کہ زمین متحرک ہے یا سورج ، عالمانہ اور حکیمانہ تھا۔ ایک متبحر عالم علمی معاملوں میں اپنی رائے میں محتاط ہوتا ہے ، جو بات ثابت نہیں ہو سکتی وہ نہ تو اس کا اقرار کرتا ہے اور نہ انکار ، یہی رویہ البیرونی کا اس مسئلہ سے متعلق تھا کہ زمین متحرک ہے یا سورج۔ کتاب الہند میں بھی اس نے اس کا ذکر کیاہے۔ اور استیعاب میں بھی جہاں اس نے اصطرلاب زورقی کے متعلق لکھا ہے۔ استیعاب میں وہ لکھتا ہے:
"ابو سعید سنجری نے ایک بڑا اصطرلاب بنایا تھا جس کا عمل مجھ کو بہت پسند آیا اور میں نے ابو سعید کی بہت تعریف کی ، کیونکہ جن اصولوں پر اس نے اس کو قرار دی اتھا وہ کرہ ارض کو متحرک تسلیم کرتے ہیں، میں اپنی جان کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ عقدہ ایسی شبہ کی حالت میں ہے کہ اس کا حل کرنا نہایت دشوار اور اس کا رد کرنا نہایت مشکل ہے۔ مہندسین اور علمائے ہیئت اس عقدہ کے رد میں بہت پریشان ہوں گے۔"
اگر اہل یوروپ حرکت زمینی سے متعلق البیرونی کے خیالات سے واقف ہوتے تو شاید وہ بطلیموس کے موقف کو حرف آخر نہ تصور کرتے اور کوپرنیکس سے بہت پہلے یہ ثابت ہو جاتا کہ آسمان نہیں بلکہ زمین متحرک ہے۔ ایک فلسفی کے طرز فک پر غور و فکر کرکے اس نے اس مسئلہ سے متعلق شک کا دروازہ کھول دیا تھا اور اس عقیدہ کی بنیاد کھوکھلی کر دی تھی جس پر صدیوں سے ماہرین علم ہیئت کا ایمان تھا۔
البیرونی نہ تو مسلم فلاسفہ کے طرز کا فلسفی تھا اور نہ متکلمین کے طرز کا، پھر بھی ہم اسے فلسفی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کائنات کے وجود اور مابعد الطبیعی امور پراس نے فلسفیانہ بحثیں کی ہیں۔ ابن سینا سے اس کا جو سوال و جواب ہوا تھا اس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ وہ مشائی فلسفے کی روایت کا قائل نہ تھا ، عالم کو قدیم نہیں مانتا تھا اور جزو لاتیجزی کے نظریے کے ماننے والوں پر ارسطو کا جو اعتراض تھا اسے غلط تصور کرتا تھا۔
ارسطو پر اس کا یہ اعتراض بھی تھا کہ آخر وہ کس دلیل سے اس عالم کے وجود سے انکار کرتا ہے جو اس عالم سے جدا ہے جب کہ اس عالم کے امکان کی بہت سی دلیلیں ہیں اور اس کے خلاف جو دلیلیں ہیں انہیں رد کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے وجود کی دلیلیں اس کے عدم کی دلیلوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔ تاریخ ، جغرافیہ ، اور ہیئت پر البیرونی کی جو تصنیفات ہیں ان میں بھی سائنسی اور تاریخی مباحث کے ساتھ فلسفہ علم کائنات اور مابعد الطبیعات پر اس کے خیالات مل جاتے ہیں۔ کتاب الہند میں جہاں اس نے ہندوؤں کے عقائد و افکار بیان کئے ہیں وہیں اکثر ہمیں ان عقائدو افکار پر تبصرہ کے ساتھ اس کے اپنے مابعد الطبیعی اور فلسفیانہ تصورات اور تشریحات بھی ملتی ہیں۔
آثار باقیہ میں زمانہ تاریخ انسانی کے ادوار اور قوانین قدرت میں یک رنگی اور استحکام سے متعلق اس کی جو بحثیں ہیں ان سے اس کی ژرف نگاہی اور علمی تعمق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ،اسی کے ساتھ ۔۔۔
"جہاں وہ قوانین قدرت کی مضبوطی کا پورے طور پر معتقد ہے وہاں عالم فطرت کی رنگا رنگ کیفیتوں اور پیچیدہ و لا ینحل حالتوں کا خیال بھی اس کے دماغ میں موجود رہتا ہے اور وہ بخوبی جانتا ہے کہ موجودات میں بسا اوقات ایسی طبیعی کیفیتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں جو بادی النظر میں ممکنات سے خارج معلوم ہوتی ہیں اور جن کے اسباب و علل کے معلوم کرنے سے اکثر انسانی عقل عاجز رہ جاتی ہے۔"
اسی ایک بات سے کہ البیرونی نے سنسکرت کی دو کتابیں، سانک اور پائنجلی کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ مابعد الطبیعی اور روحی مسائل سے اس کی گہری دلچسپی ظاہر و باہر ہے، سانک کا موضوع محسوس اور معقول موجودات ہیں اور پاتنجلی میں جسم کی قید سے روح کے نجات پانے کے اصول بیان کئے گئے ہیں۔
البیرونی مسلمان تھا، اور اس کی بعض تصنیفات میں قرآنی آیات بطور شاہد حق اور دلیل قطعی کے مباحث متعلقہ کے ساتھ اس طرح پرو دی گئی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات انہیں موقعوں کے لئے نازل کی گئی تھیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کا قرآن اور دیگر علوم نقلی کا مطالعہ گہرا تھا اور قرآن فہمی میں بھی وہ کسی سے کم نہ تھا۔ خدا، رسول اور آخرت پر اس کا ایمان محکم تھا۔ قانون مسعودی کے دیباچے کے بعض برجستہ فقرے صاف پتہ دیتے ہیں کہ وہ محض عبارت آرائی کے لئے نہیں ہیں بلکہ ایک سچے مسلمان کے قلب کی گہرائیوں سے نکلی درد و سوز میں ڈوبی آواز ہے۔ وہ لکھتا ہے :
"نیک بخت ہے وہ جو خدا کی توفیق سے نیک ہوا اور اس کے کرم سے اپنے ہم جنسوں و ہم عصروں میں یکتا ہو گیا۔ جسے خدا نے اونچا کیا اسے کوئی پست کرنے والا نہیں ہے ، آباد زمین کے مغرب و مشرق میں اسلام کیسے پہونچتا اور اسکی خبر دنیا کے دوردراز علاقوں میں کیونکر پہونچتی اگر اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور مومنین کے غلبہ کو ظاہر نہ فرماتا۔ اس کے بعد کہ آنحضرت ﷺکو جو یتیم تھے پناہ دی اور جو محتاج تھے غنی بنایا، یہاں تک کہ آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ کا ذکر بلند کیا، آپ کے ذریعہ اپنے دین کو ظاہر کیا اور اپنے کلمے اور حکم کو بلند کیا۔ پھر رسول کے بعد خدا نے اس نور کا دوسروں کو خلیفہ بنایا جو پھونکوں سے نہیں بجھ سکتا اور نہ زبانوں اور لبوں کے جھٹلانے سے باطل ہو سکتا ہے۔"
کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ البیورنی جیسا فاضل اجل اور عالم متبحر جس کی پوری زندگی اعلی قسم کی سائنسی تحقیق و تدقیق اور علمی موشگافیوں میں گذری، ایک لمحہ کے لئے بھی تشکیک میں مبتلا نہیں ہوا اور اپنے عقیدہ کے اظہار میں کبھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ کتاب الہند میں ہندوؤں کے رسم خط اور بعض رسوم کا ذکر جس باب میں ہے اس کے پہلے ہی پیراگراف میں وہ اعلان کرتا ہے کہ:
"پاک ہے وہ جو حکمت کے ساتھ پیدا کرتا اور مخلوق کے امور کو بہتر بناتا رہتا ہے۔"
یہ صحیح ہے کہ وہ ابوبکر الرازی کی تحریروں سے حوالے دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس کا رویہ ہمدردانہ بھی ہے لیکن الرازی کے برخلاف اس کے نظریہ کائانت کا جیسا کہ اس کے ارضیات اور تہذیبوں کے تقابلی مطالعے سے ظاہر ہے، خدائے خالق و قیوم و قدیم کی کبھی نہ ختم ہونے والی حمد و ثنا سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ یہی نہیں کہ البیرونی کے عقیدہ اور سائنس کے مابین کوئی بعد نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی علمی تحقیقات کا سرچشمہ ایمان باللہ ہی سے پھوٹتا ہے اور تحقیق میں اس کی جو دت طبع کی جڑیں اس کے مذہبی عقائد میں پیوست ہیں۔ "تحدید" میں حدث عالم سے متعلق اس کی بحث کو دیکھئے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کے دوران خدا کو ایک لمحہ کے لئے بھی فراموش نہیں کرتا۔
البیرونی ان مدعیان علم و حکمت میں سے نہ تھا جنہیں مذہب کو عقل انسانی کا پابند رکھنے پر اصرار تھا۔ وہ عقل انسانی کی حدود سے خوب واقف تھا ، تاریخ اسلام میں جب عقل و مذہب کا معرکہ شروع ہوا تھا تو مسائل الٰہی کے سلسلے میں کیسی کیسی موشگافیاں ہوئی تھیں اور یہ سب اس کی نظر میں تھیں لیکن وہ خود اپنی خداداد ذہانت سے کام لے کر اس نتیجہ پر پہونچا تھا کہ مذہب الٰہی عقل کا مخالف نہیں ہوسکتا ، البتہ وہ اس کا قائل نہ تھا کہ عقل انسانی ہمیشہ صراط مستقیم پر رہتی ہے۔ اس کا عقیدہ یہ تھاکہ عقل انسانی کو امور الٰہی کے تابع رہنا چاہئے اور اگر کبھی ایسی نشانیاں نظر آئین جو ہماری فہم و ادراک کے مطابق نہ ہوں تو ان نشانیوں کا انکار نہ کرنا چاہئے۔ اسی لئے وہ الرازی جیسے فلاسفہ کی انتہا پسندانہ روشن خیالی اور بے روک تعقل پسندی کا مخالف ہے ، اسی طرح وہ ان لوگوں کا بھی مخالف ہے جو محض جہالت، تعصب اور تنگ نظری کی بنا پر کوئی نہ کوئی مذہبی پہلو نکال کر سائنس اور فلسفہ کی مخالفت کرتے ہیں۔
البیرونی مورخ بھی تھا ، وہ ایک ایسا مورخ تھا جو تہذیبوں اور ان کے تاسیسات کا مطالعہ کرتا تھا، اور اس سلسلے میں اس کا منہاج تحقیق زمانہ حال کے اصول تحقیق سے کسی طرح کمتر نہیں کہاجاسکتا۔ وہ اپنے زمانے کی فن تاریخ نگاری کا مقلد نہ تھا وہ مجتہد تھا۔ اختراعی و تخلیقی صلاحیت کے وافر ذخیرے کے ساتھ اس کامطالعہ غیر معمولی طور پر وسیع اور گہرا تھا۔ ایک ایسے عہد میں جب کتابیں بڑی تعداد میں چھپتی نہ تھیں، علمی جرائد کا وجود نہ تھا اور جو معلومات دستیاب تھیں انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں بڑی دشواریاں تھیں ہمیں جب البیرونی جیسا متبحر عالم ملتا ہے جو مختلف علوم میں مجتہدانہ نظر اور منہاجات تحقیق میں منفرد فکر کا حامل تھا تو ہم سوچنے لگتے ہیں کہ شاید عظیم شخصیت کا نظریہ صحیح ہو، یعنی یہ کہ ہر عہد میں ایک ایسی استثنائی شخصیت ضرور ہوتی ہے جو اپنی غیر معمولی ذہانت اور مضبوط قوت ارادی سے حالات کا رخ موڑ دیتی ہے اور اپنے عہد پر اپنی شخصیت کا دوامی نقش چھوڑ جاتی ہے۔ علمی دنیا میں بھی ایسی شخصیتوں کی مثالیں ملتی ہیں اور اس لحاظ سے البیرونی بلا شبہ نابغۂ روزگار تھا۔
وہی مورخ اچھا ماناجاتا ہے جس کا جغرافیہ کا علم بھی اچھا ہو۔ البیرونی اس راز سے واقف تھا اور اس کی جغرافیائی معلومات اعلی درجہ کی تھیں۔ وہ واقعات و حقائق سے کسی صورت میں بھی اپنا رشتہ منقطع نہیں کرتا اور ان کے بیان میں بڑی وضاحت اور کامل احتیاط سے کام لیتا ہے لیکن وہ اسے بھی خوب سمجھتا ہے کہ تاریخ اور سائنس دونوں کا منصب یہ ہے کہ وہ وقائع و حقائق سے آگے بھی دیکھیں۔ کیونکہ صرف واقعات کی کھتونی سے کچھ سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ان کی تعبیر و تشریح ضروری ہے۔
البیرونی کا خیال تھا کہ تاریخ واقعات کے تسلسل کے علاوہ کچھ اور بھی ہے اور اصل تاریخ تصورات و ارادات ہی کی تاریخ ہوتی ہے۔ کتاب الہند کے مطالعے سے البیرونی کے تصور تاریخ سے متعلق یہی حقیقت سامنے آتی ہے۔ اس کی اس تصنیف سے یہ بھی معلوم وہتاہے کہ اس کے خیال میں اہل ہند کے عقائد، مذہبی رسوم و آداب اور تہذیبی خصائص کو اس وقت تک گہرائی اور سچائی سے بیان نہیں کیاجاسکتا تھا جب تک کہ ان کے فلسفے اور نظریہ حیات کو اچھی طرح سمجھ نہ لیا جائے۔
البیرونی سے پہلے جو مسلم جغرافیہ داں اور اقوام و ملل کے موضوع پر لکھنے والے گذر چکے تھے ان کے یہاں ہمیں وہ ہمہ گیری ، گہرائی، مقصدیت اور باضابطگی نہیں ملتی جو اس خوارزمی عالم کے یہاں ملتی ہے۔ کتاب الہند سے صرف یہی نہیں پتہ چلتا کہ اس کے مصنف کو اہل ہند کے احوال و عقائد کے جاننے کا شوق تھا ، بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ شوق برائے شوق اور اس کا یہ تجسس برائے تجسس نہ تھا۔ وہ درحقیقت یہ چاہتا تھا کہ ایک ایسی تہذیب سے جو اس کی اپنی اور اپنے ہم مذہبوں کی تہذیب سے بالکل مختلف اور متغائر تھی، ایسا رشتہ قائم ہو جائے کہ دونوں کو ایک دوسرے کے سمجھنے میں آسانی ہو، اس کتاب کے دیباچے میں اس نے لکھا ہے کہ:
"استاد موصوف۔۔۔ کی یہ خواہش ہوئی کہ جو کچھ ہم کو ہندوؤں کے بارے میں معلوم ہوا ہے وہ قلمبند کر دیا جائے تاکہ ان لوگوں کو جو ان سے بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال کرنا چاہیں اس سے مدد ملے اور جو لوگ ان سے میل جول پیدا کرنا چاہیں ان کے لئے بھی کارآمد ہو۔۔ ہم نے اس کو اس طرح لکھ ڈالا کہ اس میں کسی فریق کی طرف کوئی ایسا قول منسوب نہیں کیا ہے جو اس کا نہیں ہے اور نہ اس کا کلام نقل کرنے سے اگر وہ حق کے مخالف اور اہل حق کو اس کا سننا گراں ہو، احتراز کیا ہے وہ اس فریق کا اعتقاد ہے اور وہ اپنے اعتقاد سے بخوبی واقف ہے۔"
البیرونی نے تحصیل علم اور تحقیق فن کی ہر منزل میں مشاہدے اور تجربے کی ضرورت پر اصرار کیا اور ایک سچے سائنس داں کی مانند ان لوگوں کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جو بغیر تنقید اور جانچ کے روایت کی تقلید کرتے ہیں۔ وہ تفریق پرستی کا مخالف تھا اور کہا کرتا تھاکہ اپنی عالمگیر سچائیوں کی سطح پر تمام مذاہب ایک ہیں، اگر ناحق کی طرفداری اور تائید میں غلو کیاجائے تو حمیت کے مناسب طریقے سے بہک جانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے لیکن سج شخص کا مقصد اللہ اور اللہ کے واسطے حق ہوتا ہے اللہ اس کو ثابت قدم رکھتا ہے۔
ابو ریحان البیرونی ایک ایسا معقول سائنس داں تھا جو اس حماقت میں کبھی مبتلا نہیں ہوا کہ تجرباتی سائنس کے اصول تحقیق سے مذہب اور علوم انسانی کے شعبہ میں کام لے۔ اس سلسلے میں اس کا نظریہ علم بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کا نظریہ علم یہ تھا کہ علم کی مختلف شکلیں بتدریج ارتقاء کے مراحل سے گزرتی رہتی ہیں لیکن وہ بنیادی علم جس کا سر چشمہ وحی الٰہی ہے ، تغیر پذیری سے مبرا ہے۔
علوم پر جب بھی اس نے لکھا اس کا خیال رکھا کہ پہلے ان کے ارتقاء کی تاریخ بیان کر دے۔ تاریخ مذاہب اور مذاہب کے تقابلی مطالعے کا بانی تو وہ ہے ہی ، غور سے دیکھئے تو ایک لحاظ سے اس نے تاریخ سائنس کی بھی بنیاد رکھی۔ لیکن اس نے کبھی اور کسی حالت میں بھی غیر تغیر پذیر علم کو فروگزاشت نہیں کیا جس کی کوکھ سے تمام انسانی علوم جنم لیتے اور رد و واضافہ کے مراحل سے گزر کر ارتقاء کی راہوں کو طے کرتے رہتے ہیں۔
سائنسی علوم کی دنیا میں البیرونی نے جو کارنمایاں انجام دیا عام طور پر لوگوں کی توجہ اسی طرف رہی ہے اور یہ بات نظروں سے اوجھل رہی کہ اپنے عہد میں اور غالباً پوری تاریخ اسلام میں وہ واحد فرد ہے جس نے مذاہب کے تقابلی مطالعے کی ڈسپلن کو ایک نیا رخ دیا اور اس شعبہ علم میں اپنے پیش روؤں سے بہت آگے نکل گیا۔
قبل اس کے کہ اس سلسلے میں البیرونی کی امتیازی خصوصیات بیان کی جائے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جرمن مستشرق ایڈورڈ سخاؤ کا شکریہ جذبہ احسان مندی کے ساتھ ادا کیا جائے جس نے اس کی دو معرکۃ الآراء تصانیف "آثار الباقیہ" اور "کتاب الہند" کو ایڈٹ کرکے شائع کیا اور ساتھ ہی انگریزی اور جرمن ترجمے بھی طبع کروائے۔
1941ء میں انجمن ترقی اردو ہند نے کتاب الہند کا جو اردو ترجمہ شائع کیا، اس میں بھی سخاؤ کے انگریزی ترجمے سے مدد لی گئی، لیکن جہاں تک ہمیں معلوم ہے آثار باقیہ کا ترجمہ اردو میں ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ آثار باقیہ کے دیباچے میں البیرونی نے اپنے طریق تحقیق کا ذکر کیا ہے اور چونکہ ثقافتوں اور مذہبوں کے تقابلی مطالعے میں یہ طریق تحقیق بنیادی حیثیت رکھتا ہے ، اور اسی بنا پر ہم اسے اس ڈسپلن کا بانی کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس کا ذکر کر دیا جائے۔ اس میدان میں اپنے اکثر پیش روؤں کے بارے میں اس کی رائے اچھی نہ تھی، لیکن اس کا خیال تھا کہ اگر تحقیق کا صحیح طریقہ اپنایا جائے تو دوسرے مذاہب کے عقائد و احکام غیر جانبداری کے ساتھ بیان کئے جا سکتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اپنی دونوں مذکورہ بالا کتابوں میں اس نے اپنے طریق تحقیق پر روشنی ڈالی ہے ، وہ لکھتا ہے :
"۔۔۔ ادباء میں سے ایک صاحب نے مختلف قوموں کی تواریخ (سنن) کی کیفیت اور ان کے اصول میں اختلافات کی وجہ مجھ سے دریافت کی۔ یعنی تاریخیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور ان کے حصے یعنی سال اور مہینے جن پر وہ مبنی ہیں ، کیا ہیں، علاوہ ازیں وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے یہ اختلاف پیش آیا، نیز کون کون سے مشہور تیوہار اور میلے، یادگار ایام، مخصوص اوقات اور رسوم وغیرہ ہیں جو مختلف قوموں میں رائج ہیں ، صاحب مذلکور نے اصرار کیا کہ ان امور کی تشریح ایسی وضاحت کے ساتھ کردو کہ یہ باتیں پڑھنے والے کے بخوبی ذہن نشین ہوجائیں اور اسے متفرق کتابوں اور گزشتہ مصنفین کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہ رہے، مجھے معلوم تھا کہ یہ ایک نہایت دشوار اور مشکل الحصول کام ہے، بالخصوص اس شخص کے لئے جو ان باتوں کواس پیرایہ میں لکھنا چاہے کہ پڑھنے والے کے دل میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔"
"ان مسائل کی بہترین تشریح کے لئے گزشتہ قوموں کے اخبار و روایات جاننے کی ضرورت ہے ، اس لئے کہ ان میں سے اکثر ان کی باقی ماندہ دینی و دنیوی رسوم پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ مقصد محض عقلی استدلال (استدلال بالمعقولات) یا مشاہدۂ محسوسات پر قیاس کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا، بلکہ اہل کتاب اور اصحاب الارا اور ارباب ملل کے متداول اور صحیح خیالات سے مطلع ہونے اور ان معلومات کی بنا پر بجائے خود غور کرنے سے یہ گوہر مقصود حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بارے میں خود ان کے مختلف اقوال اور خیالات کا موازنہ ضروری ہے۔"
"لیکن سب سے پہلے واجب ہے کہ اپنے نفس کو ان عوارض اور اسباب سے خالی کرلیاجائے جو اکثر لوگوں کو سچائی کے دیکھنے سے اندھا کردیتے ہیں، مثلاًعادت مالوفہ، تعصب اور جوش فتحمندی ، خود غرضی ، خیال مقصد بر آری وغیرہ وغیرہ۔ جس طریقے کا میں ذکر کررہا ہوں یہی گوہر مقصود کو پانے اور شوائب شبھ، و شکوک کے رفع کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس کے بغیر چاہے کتنی ہی سخت اعتناء اور کوشش کی جائے ناممکن ہے کہ یہ غرض پوری ہو جائے ، لیکن اس کو میں مانتا ہوں کہ جو اصول اور طریقے ہم نے مقرر کئے ہیں ان پر عمل پیرا ہونا سہل نہیں ہے، بلکہ جدا اور صعوبت کی وجہ سے شبہ ہوتا ہے کہ ان تک پہونچنا ناممکن ہے۔
وجہ یہ ہے کہ تمام اخبار و روایات میں اکثر جھوٹی باتیں داخل ہو گئی ہیں اور ظاہراً یہ باتیں ناممکنات سے بھی نہیں معلوم ہوتیں کہ انہیں آسانی سے پہچان کر نکال دیاجائے۔ بہرحال ہم نے روایات و اخبار کو ممکن الوقوع تصور کر لیا اور بطور صحیح روایات کے مان لیا ہے۔ بشرطیکہ دوسرے شواہد سے ان کا بطلان ہوتا ہو۔ اس لئے کہ ہم احوال طبیعی میں خود ایسی باتیں دیکھتے ہیں اور ہم سے پہلے بھی لوگوں نے بار بار ایسی باتیں دیکھی ہیں کہ اگر ان کے مثل پچھلے زمانے کی کوئی روایت ہوتی تو ہم کہہ اٹھتے کہ یہ تو ناممکن ہیں۔ اس کے سوا عمر انسانی ایک ہی قوم کے اخبار جاننے کے لئے کافی نہیں ہوسکتی ، پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ بے شمار قوموں میں تمام قوموں کے اخبار معلوم ہو جائیں یہ قطعاً ناممکن ہے"۔
"جب معاملات کی یہ کیفیت ٹھہری تو ہم پر واجب ہے کہ زیادہ قریب کی باتوں سے کم قریب کی باتیں اور زیادہ معلوم شدہ باتوں سے کم معلوم شدہ باتیں اخذ کریں اور جہاں تک ہوسکے انہیں صحیح کریں۔ روایات کو ان لوگوں سے بہم پہونچائیں جن کا تعلق روایات سے ہے، جہاں تک ہوسکے ان کی اصلاح اور درستی کی کوشش کریں اور باقی کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ ہمارے اس عمل سے طالب حق اور محب حکمت کو دوسرے مضامین کی تحقیقات اور ان امور کے دریافت کرنے کا موقع ملے جو ہمیں معلوم نہیں ہوسکے۔ ہم نے خدا کی مدد سے اسی پر عمل کیا ہے۔"
(دیباچہ آثار باقیہ)
البیرونی کا طریق تحقیق تقابلی تھا ، مذاہب کا تقابلی مطالعہ اس شخص کے لئے آسان ہوسکتا ہے جو موجودہ مذاہب میں سے کسی کا پیرو نہ ہو ، لیکن البیرونی کے ساتھ یہ معاملہ نہ تھا، وہ مذہب اسلام کا پیرو تھا ، اور ہم نے دیکھا کہ قانون مسعودی کے دیباچے میں اس نے خدا اور اس کے رسول پر اپ نے ایمان کا برملا اعلان کیا ہے ، پھر وہ جس ماحول میں زندگی گزار رہا تھا ، مذہب میں راسخ العقیدگی کا ماحول تھا ، سلطان محمود کی فتحمندی کے جوش و خروش کا ماحول تھا، اسے معلوم تھا کہ اس کی کتابیں اسی راسخ العقیدگی کی عام فضا میں پڑھی جائیں گی۔ پھر وہ اپنے مطالعے میں پوری غیر جانبداری اور کمال معروضیت سے کام لیتا ہے اور کہیں بھی تعصب کی پرچھائیں نہیں پڑنے دیتا، وہ نہ تو اسلام کی برتری کا اعلان کرتا ہے اور نہ یہ جتاتا ہے کہ مسلمانوں کی تہذیبی و علمی ترقی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آج بھی اس شعبہ علم کے محققین میں شاذ و نادر کوئی ایسا ملے گا جس میں البیرونی کی سی غیر جانبداری اور معروضیت ہو۔ اس کے ساتھ یہ سعادت خاص عطیہ الٰہی تھی۔
ہمارا یہ نابغہ روزگار کئی زبانیں جانتا تھا، مثلاً سنعدی اور خوارزمی (جو فارسی کی دو صورتیں تھیں) عربی، عبرانی، سریانی اور سنسکرت ، اپنے مشہور ہمعصر ابن سینا اور دوسرے مسلم فلاسفہ کے مقابلہ میں اس کا رتبہ یوں بھی بلند ہے کہ انہوں نے یونانی فلسفہ اس کے عربی تراجم سے سیکھا تھا۔ انہوں نے براہ راست یونانی زبان میں اسے نہیں پڑھا تھا ، لیکن البیرونی نے نہایت مشقت و جانفشانی سے سنسکرت زبان کی اپنی لغوی و نحوی مشکلات اور اہل ہند کے مخالفانہ رویے کے باوجود سنسکرت سیکھی اور اتنی سیکھی کہ اس پر پورا عبور حاصل کیا اور پھر اہل ہند کے فلسفہ و علوم اور عقائد و رسوم سے متعلق براہ راست انہیں کتابوں سے استفادہ کیا۔
کتاب الہند کے باب اول میں اس نے اس سلسلے کی ان تمام مشکلات و موانع کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جو سنسکرت زبان کے سیکھنے اور ہندوؤں کی کتابوں سے استفادہ کرنے کے دوران اسے پیش آئے۔ بلاشبہ یہ اسی کا بےپناہ صبر و استقلال اور اسی کی بےلچک قوتِ ارادی تھی جو اس راہ کی دشواریوں پر قابو پا سکی۔
ماخوذ از کتاب: البیرونی اور جغرافیۂ عالم (مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد)۔
ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی۔ (اشاعت اول: جون-2004ء)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں