تنقید کا مقصد اور عمل - ڈاکٹر ارشد عبدالحمید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-04

تنقید کا مقصد اور عمل - ڈاکٹر ارشد عبدالحمید

tanqeed-ka-maqsad-aur-amal

ادب کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ انسان اور کائنات سے متعلق ہر حقیقت اور ہر تصور اس دائرے میں شامل ہے۔ لیکن یہ شمولیت غیر مشروط نہیں ہے۔ اس شمولیت کی شرط یہ ہے کہ ہر مشمولہ حقیقت یا تصور ادب کو ادب بنائے رکھنے میں ممد و معاون ہو۔ اگر کائنات کا کوئی علم، کوئی تصور ادبیت کو مجروح کرتا ہے تو ایسے علم اور ایسے تصور کی ادب کو چنداں ضرورت نہیں۔تنقید بھی ایک ادبی کارگزاری ہے لہذا جو تنقید ادب اور ادیب کے تخلیقی عمل اور اس کے مقصد میں معاون اور شریک ہے، وہی کار آمد اور کامیاب ہے۔ سائنس، سماجی علوم یا فلسفے کا بڑے سے بڑا نظریہ ہماری زندگی میں کتنا ہی دخیل اہم کیوں نہ ہو، اگر وہ ادبی عمل اور مقصد پر کھرا نہیں اترتا اور ادبیت کو مجروح کرتا ہے تو ایسا تنقیدی نظریہ ادب کے لئے بے کار بلکہ مضر ت رساں ہے۔ تنقید کا مقصد بھی ادبی مقصد ہی کا حصہ ہے اور تنقیدی طریقہ کار بھی ادبی طریقہ کار ہی کے دائرے کی چیز ہے لہذا تنقید کا غیر ادبی مقصد اور غیر ادبی طریقہ کار ادب کے لئے کسی بھی طرح کی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔


تخلیق اور تنقید کا رشتہ زبان اور قواعد کی طرح کا رشتہ ہے۔ جس طرح زبان پہلے وجود میں آتی ہے اور اس کی قواعد بعد میں مرتب کی جاتی ہے اسی طرح تخلیق پہلے ہوتی ہے اور تنقید بعد میں۔ جو لوگ تنقید کو تخلیق پر مقدم جانتے ہیں اور تخلیق کار کو نقاد کا پچھ لگو سمجھتے ہیں وہ گویا قواعد کو زبان سے بڑا سمجھتے ہیں اور اسی لئے اس غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں،جو غلطی تنقید کو غیر ادبی مقصد اور عمل تک لے جاتی ہے۔ تنقید، جو ادب کی قواعد ہے ، اگر پاننی کی قواعد کی طرح علم ہی علم ہو کر رہ جائے اور اس کا عملی مصرف کچھ نہ ہو تو وہ سنسکرت کی طرح از کار رفتہ اور مردہ ہوجاتی ہے۔ قواعد کا کام زبان کے لئے ایک ایسی علمی بنیاد فراہم کرتا ہے جو زبان کی ترویج اور معیار بندی میں معاون ثابت ہو۔ تنقید بھی ادبی تخلیق کاری کے لئے علمی سطح پر ترویج و ترقی اور معیار بندی کا نہایت اہم کام انجام دیتی ہے۔ اگر کوئی تنقید اس کام کو بخیر و خوبی انجام نہیں دیتی تو ظاہر ہے کہ وہ غیر مفید اور غیر اہم ہے اور اسی لئے ادب کے مقصد اور عمل سے خارج ہے۔


تخلیق کے مقدم اور تنقید کے موخر ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دونوں میں بعد المشرقین ہے یا دونوں کا وجود ایک دوسرے کے بغیر ممکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق تنقیدی شعور کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ اور تنقیدی عمل تخلیقات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تنقیدی شعور اور تنقیدی عمل میں فرق ہے۔ تنقیدی شعور نقاد کی بپوتی نہیں ہے۔ وہ نقاد سے بھی پہلے خو د تخلیق کار میں موجود اور فعال ہوتا ہے۔ تخلیق کار کا یہ تنقیدی شعوری اس معاشرے اور تہذیب کا زائید ہوتا ہے جس معاشرے اور تہذیب میں وہ تخلیق کار پلتا، بڑھتا اور زندگی کرتا ہے۔
تہذیب اور معاشرہ ہی تخلیق کار کو معیار و میزان فراہم کرتا ہے اور اسی معیار و میزان کے تحت تخلیق نمو پاتی ہے اور تخلیق میں منعس اسی معیار و میزان کی علمی ترتییب و تہذیب تنقیدی عمل کا بنیادی حصہ ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس طرح ادب کی تخلیق ایک تہذیبی کار گزاری ہے اسی طرح ادب کی تنقید بھی ایک تہذیبی کار گزاری ہے کیونکہ تنقید تخلیق پر اور تخلیق تہذیب پر منحصر ہے۔
تخلیق کار کے تنقیدی شعور کی نوعیت وجدانی ہوتی ہے اور نقاد تخلیق کے توسط سے تخلیق کار کے اسی وجدانی نوعیت کے تنقیدی شعور کو علمی سطح پر دریافت کرتا ہے۔ وہ تجزیے اور تقابل کے ذریعے ادبی اور تنقیدی اصول و ضوابط مرتب کرتا ہے۔ اچھی، کم اچھی یا خراب تخلیقات کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کی اچھائی اور خرابی کی وجوہات تلاش کرتا اور انہیں دلائل کے ذریعے ثابت کرتا ہے اور اس کا یہ سارا عمل ادبی مقصد اور طریقہ کار کا پابند وہتا ہے۔ اس تنقیدی عمل میں کائنات کا ہر علم اور ہر تصور اس شرط پر شامل ہوتا ہے کہ یہ شمولیت ادبی تخلیقیت کو سمجھنے ، اس کی ترتیب و تہذیب اور ترویج و ترقی نیز معیار بندی میں معاون ہوگی۔


جیسا کہ مذکور ہوا، ادب اور تنقید دونوں کی بنیاد تہذیب اور معاشرہ ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر معاشرے میں ادب و تنقید کے اصول منضبط اور تحریری شکل میں موجود ہوں۔ یہ اصول غیر منضبط وجدانی یا زبانی بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی معاشرے میں تنقید کا تحریری صورت میں موجودنہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ معاشرہ تنقیدی شعور اور عمل سے خالی ہے۔ ہر معاشرہ جس میں ادبی تخلیق کا کام ہوتا ہے، اس میں تنقیدی کام بھی لازماً ہوتا ہے۔
زبانی معاشرے میں تنقید بھی زبانی ہوتی ہے۔ تحریری معاشرے میں تنقید ضابطہ تحریر میں آجاتی ہے۔ زبانی معاشرے میں ادب سننے اور سنانے کے لئے ہوتا ہے لہذا ایسے معاشرے کی تنقیدی کار گزاری سماعی اورزبانی ہوتی ہے۔ تحریری معاشرے کا ادب لکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ، لہذا پڑھ پڑھ کر سوچنے اور سوچ سوچ کر پڑھنے کی سہولت مہیا ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے کی تنقید کا بصری اور علمی ہونا ایک فطری بات ہے۔
تنقید زبانی ہو یا تحریری وجدانی ہو یا علمی، ہر حال میں ادب اور تہذیب کی پابند ہوتی ہے۔ جب تنقید تہذیب کی پابند ہے تو وہ لازماً مقامی اور عصری نوعیت کی حامل بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تہذیب مکانی اور زمانی اعتبار سے کسی لا محدود اکائی کا نام نہیں ہے۔ تہذیب ہر حال میں جغرافیائی، ثقافتی، سماجی، تاریخی اور معاشی حالات سے متاثر اور متعین ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ تہذیب جامد یا بے لچک نہیں ہوتی۔ تہذیب ہر لمحہ فعال اور متحرک رہتی ہے۔ وقت اور حالات سے مطابقت تہذیب کے ارتقائئی عمل کا جزو لا ینفک ہے۔ تہذیبیں ایک دوسرے کو متاثر کرتی اور متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن متاثر ہونے کا یہ سلسلہ کسی تہذیب کی بنیادی اقدار کی روشنی میں ہوتا ہے۔
تہذیب کے ارتقائی سفر میں دو عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک عنصر ان بنیادی اقدار کا ہے جو روایت کے تسلسل کی صورت میں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ دوسرا عنصر وقت اور حالات سے مطابقت کا ہے جو تہذیب کو متحرک اور ارتقاپذیر رکھتا ہے۔ بنیادی اقدار کے تسلسل اور نئے تقاضوں کی تطبیق کا مجموعی عمل ہی کسی تہذیب کی عصری شناخت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ت
نقید، تہذیب کے اسی مجموعی عمل کو گرفت میں لیتی ہے۔ اگر تنقید تہذیبی روایت کے تسلسل کو نظر انداز کرتی ہے تو حالی اور ترقی پسند نقادوں کی طرح پرانے ادب کو سنڈا اور بورژوا کہہ کر رد کردیتی ہے اور اس طرح تنقید کے بنیادی منصب سے ہت جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی تنقید نئے تقاضون کی تہذیبی تطبیق سے رو گردانی کرتی ہے تو وہ روایت پرست ، تقلید پرست اور جامد ہوکر رفتہ رفتہ تہذیبی ارتقا کا ساتھ دینے سے قاصر ہوجاتی ہے اور ادبی مقصد اور عمل کے دائرے سے باہر ہوجانے کے باعث از کار رفتہ قرار دی جاتی ہے۔


تہذیب کی نوعیت مقامی اور عصری ہے لہٰذا ادب اور تنقید کی نوعیت بھی مقامی اور عصری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی تہذیب کا ادب اسی تہذیب کے حوالے اور طریقہ کار سے سمجھا جا سکتا ہے۔ تنقید عالمی اور آفاقی نہیں ہو سکتی کیونکہ ادب اور تہذیب عالمی اور آفاقی نہیں ہوتے۔ سائنسی اور سماجی علوم میں آفاقیت ہو سکتی ہے کہ ان کی بنیاد منطق اور مادے پر ہے۔ ادب کا معاملہ تہذیب، جذبے اور احساس سے وابستہ ہے لہذا انہی مقامیت اور عصریت کے تناظر ہی میں جانا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
تنقید غیر ادبی علوم اور غیر تہذیب سے مدد لے سکتی ہے اور لیتی ہے۔ لیکن یہ مدد اسی حد تک ممکن ہے جس حد تک ہماری اپنی تہذیب اور ادب کو سمجھنے میں کسی مغالطے یا کمی کی گنجائش نہ ہو۔ اگرہم آنکھیں میچ کر غیر تہذیب کے حوالے سے اپنے ادب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو وہی حشر ہوگا جو کلیم الدین احمد کے طرز تنقید نے غزل کے ساتھ کیا۔ غیر تہذیب اور غیر ادبی علوم کے حوالے سے اپنے ادب کو سمجھنے کا عمل انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تنقید کا بنیادی کام اس تہذیب کے روایتی تسلسل اور نئے تقاضوں کی تطبیق کو سمجھنے کا عمل ہے جس تہذیب نے متعلقہ ادب اور تنقید کو جنم دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب کی بعض خصوصیات ہر تہذیب میں ایک جیسی ہو سکتی ہیں اور ان مشترک خصوصیات کی حد تک ہر تنقید اخذ و استفادے کے مفید عمل سے گزرتی ہے۔ مثال کے لئے ہر تہذیب میں زبان کا تخلیقی استعمال ادب کے لئے ناگزیر ہے۔ ادبی لسانیات اور اسلوبیات ہر تنقید کے لئے یکساں دلچسپی کے عناصر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہیئتیں اور اصناف بھی مختلف تہذیبوں میں مشترک دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں لیکن ہر تہذیب ان تمام چیزوں سے اپنے بنیادی ادبی مزاج کے مطابق ہی استفادہ کر سکتی ہے۔ اردو نے افسانے کو اپنایا اور اپنی روایت کا حصہ بنا لیا۔ آزاد نظم بھی مستعار لی گئی لیکن مناسب تطبیق کے بعد ہی یہ ہماری شاعری کا حصہ بنی۔ سانیٹ کو ہم اپنی روایت کا حصہ نہیں بنا سکے۔ ہم نے مغرب سے بہت کچھ قبول کیا لیکن مغرب ہماری غزل کو اپنانے سے قاصر رہا۔ وجہ ظاہر ہے کہ مغربی تہذیب کا بنیادی ادبی مزاج غزل کے منافی ہے۔


ان تمام تفصیلات سے واضح ہے کہ تنقید ادب اور تہذیب کا حصہ ہے اور غیر ادبی علوم نیز غیر تہذیب سے مناسب استفادے کے باوجود اس کی نوعیت مقامی اور عصری ہے۔ اس اعتبار س تنقیدی عمل کی بنیاد تہذیب کے مطالعے اور ادب کے تہذیبی تفاعل کی شناخت ہے۔
کوئی تہذیب کن تحریروں کو ادب کہتی ہے اور کن تحریروں کو ادب کے دائرے سے باہر رکھتی ہے۔ جو تحریریں ادب کہلاتی ہیں ان کی کیا خصوصیات ہیں۔ ادب میں کون کون سی اصناف ہیں۔ ان اصناف کی درجہ بندی کن اصولوں کے تحت کی گئی ہے۔ کسی صنف کی بنیادی تہذیبی خصوصیات کیا ہیں۔ اس صنف میں کن رسومیات ، فنی جمالیات اور تصورات کو برتا گیا ہے۔ اس کی ہیئتی اور صنفی پہچان کن عناصر سے قائم ہوتی ہے۔ اس صنف میں معنی ، مضمون اور فکر کی کیا نوعیت ہے۔ ایک ہی صنف کی مختلف تخلیقات میں کون سی بہترین بہتر یا معمولی ہے۔ اس درجہ بندی کے کیا اصول ہیں۔ معمولی تخلیق کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بطور مجموعی کوئی تہذیب اپنے ادب سے تکنیکی، جمالیاتی اور فکری سطح پر کن نتائج کا مطالبہ کرتی ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ
ایسے سوالات ہیں جو تہذیب کے مقامی اور عصری میلان ہی سے متعین ہو سکتے ہیں اس میلان کی تشخیص اور اصول بندی تنقید کے بنیادی کاموں میں شامل ہے۔


کسی تہذیب کے عصری ادبی میلان کی تشخیص اس کی مستحکم روایات کے تسلسل کی پہچان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ وقت اور حالات کے تحت ہر تہذیب نئے تقاضوں سے ہم آہنگی کا عمل جاری رکھتی ہے۔ لیکن تہذب کی بنیادی خصوصیات بھی کسی نہ کسی سطح پر موجود ضرور رہتی ہیں۔ غزل ہماری تہذیب میں کئی صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ آج کی غزل وہ نہیں ہے جو سترہویں یا اٹھارہوی صدی کی غزل تھی۔ ولی سے غالب تک غزل میں شعریات کا ایک ہی تصور کارفرما ہے۔ حالی کے بعد اس شعریات میں تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن کیا آج غزل اتنی بدل گئی ہے کہ میر اور ظفر اقبال کی غزل میں کوئی عنصر قدر مشترک کے طور پر موجود ہی نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ ہر دو شعرا کی غزل بطور غزل ہی پہچانی جائے گی کیونکہ ہیئت سے لے کر فنی جمالیات، معنی آفرینی اور ندرت مضمون تک، غزل کے تمام تہذیبی تقاضے آج بھی وہی ہیں جو میر کے زمانے میں تھے۔ فرق اگر ہے تو تصور کائنات اور مسائل و تجربات میں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ تنقید کے لئے تہذیبی عصریت کے ساتھ تہذیبی روایت کی دریافت بھی ضروری ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ہر بیس، تیس، پچاس، برسوں میں نئے تقاضوں کی ہم آہنگی کا عمل(تہذیبی عصریت کے حوالے سے ) تہذیبی روایت کو ایک نئے زاویے سے از سر نو دریافت کرے۔
ہر نئی نسل اپنے مسائل اور تجربے کی روشنی میں اپنے ماضی کو دیکھتی سمجھتی ہے۔ اس عصری تناظر میں وایت کے بعض اجزا غیر مفید یا دوراز کار ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ نئی نسل اپنی تہذیب کے تسلسل کو نظر انداز کر کے بھی اس تہذیب کی نمائندہ بنی رہ سکے۔


تہذیب کو سمجھنے، روایت کو جاننے اور نئے تقاضوں کی تطبیق کو پہچاننے کا مثلث ہی تنقید کا نقطہ آغاز ہے۔ اس نقطہ آغاز پر معاشرہ، تخلیق کار اور نقاد تینوں موجود ہوتے ہیں کیونکہ یہ نقطہ تنقیدی شعور کا مرکزی نشان ہے۔ نقاد جب اس نشان سے آگے بڑھتا ہے تو جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ، وہ اس وجدانی نوعیت کے تنقیدی شعور کوعلمی سطح پر دریافت کرتا ہے۔ یہاں سے تنقید کا سفر اصول و ضوابط ، استدلال اور استدراک کی طرف ہوتا ہے۔ اس سفر میں وہ کائنات کے ہر علم، ہر تصور سے استفادے کی مجاز ہے لیکن اس استفادیے میں دوباتیں بنیادی شرائط کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ تنقید ادبی مقصد اور ادبی طریقہ کار سیے کسی حال میں منہ نہیں موڑ سکتی۔ دوسری بات یہ کہ وہ تہذیبی روایت، تسلسل اور عصریت کی تطبیق کو رد نہیں کرسکتی۔ جو تنقید ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے عرفان و آگہی ، تعین قدر، رہنمائی اور علمی عقدہ کشائی کی منزل تک پہنچتی ہے وہ صحیح معنی میں تنقید کا حق ادا کرتی ہے ورنہ نظریات کی لونڈی اور علوم کی داشتہ ہوکر رہ جاتی ہے۔


ان تفصیلات سے یہ انداز ہوتا ہے کہ تنقید کا کام کتنا مشکل اور کس قدر عرق ریزی ، دماغ سوزی اور دیدہ وری کا کام ہے۔ جب آپ تنقید کے کام میں تہذیب کو مرکزی حوالہ مانتے ہیں اور اسے ماجی بعید، ماضی قرییب اور حال کے ٹکڑوں میں بانٹنے کی جگہ ایک ارتقا پذیراکائی کے طور پر برتتے ہیں تو اس تہذیب کے آغاز سے حال تک تمام ادب کو نظر میں رکھنا ہر موڑ اور ہر تبدیلی کا نوٹس لینا اور تلاش و تجزے کے بعد نتائج کے مدلل استنباط اور عرفان کی منزل تک پہنچنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے تنقید سب سے پہلے مقدار اور معیار ہر دو اعتبار سے ایک بہترین قاری ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم کتنے ہی ذہین، دراک، باریک بیں اور نکتہ سنج کیوں نہ ہوں ، اگر ہم ادب کے بہترین قاری نہیں ہیں تو ہم ادب کے بہترین نقاد بھی نہیں ہو سکتے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم غیر مفید، نیم وحشی اور بورژوا وغیرہ وغیرہ الزامات کے ذریعے نہ صرف قدیم ادب سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں بلکہ عصر حاضر میں بھی ترقی پسند، جدید یا مابعد جدید وغیرہ کے لیبلوں کے ذریعے ادب کے ایک بڑے حصے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے کہ مغرب میں کسی نئی تھیوری پر کوئی نئی کتاب شائع ہوتی ہے تو ہم فوراً اس کا ترجمہ کر کے اردو میں ایک نئی تھیوری کے موجدہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں۔ تھیوری پہلے آتی ہے، تخلیقات اس میں بعد کو ایڈجسٹ کرلی جاتی ہیں۔ تلوں سے تیل نکلنے کے بات پرانی ہوئی اب تو تیل سے تل نکالے جاتے ہیں بلکہ تیل کا اسینس درآمد کر کے اس میں تل دالئے جاتے ہیں۔ یہ اسینس کبھی فرانس سے آتا ہے تو کبھی انگلیڈ ، امریکہ یا روس سے۔ ہماری تہذیب کے تسلسل میں اس اسینس کی کیا معنویت ہے اس سے کوئی سروکار نہیں۔


بطور نقاد ادب کا بہترین قاری ہونے کے معنی ادبی سروکار کی مرکزیت، تہذیبی اقدار رفتار کی معرفت اور تخلیقی اسرار و معیار سے واقفیت کی منازل سے گزرتے ہوئے تنقیدی عرفان تک پہنچنے سے ہے۔ اس میں تخلیق کے جملہ عناصر مثلا ہیئت ، مضمون، معنی، اسلوب ، فکر، لفظیات، رسومیات، روایت، جدت، فن اور جمالیات تک ہر پہلو پر غور کرنا ، ان عناصر کی مجموعی کیفیت و ماہیت کا سراغ پانا ایک جیسے یا مختلف متون کا تقابل اور تطابق ایک عہد کی بین المتوفی مطابقت یا اختلاف روایت کا تسلسل یا انحراف وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ادبی اصول و ضوابط کی ترتیب و تدوین و تعیین قدر وغیرہ سبھی کام شامل ہیں۔
ان کاموں میں منطق، فلسفہ، نفسیات ، سماجیات ، لسانیات ، صرف و نحو، بیان، بدیع، قافیہ، عروض،اسلوبیات ، شعریات ، فصاحت، بلاغت، تاریخ، تہذیب اور تشریح نہ جانے کن کن علوم و فنون سے مدد لی جاتی ہے لہذا ان تمام علوم سے واقفیت اورر انہیں ادبی ضرورت کے مطابق برتنے اور نتائج کے استخراج کا سلیقہ وغیرہ بھی تنقیدی عمل کا حصہ ہیں۔ لیکن جیسا کہ مذکور ہوا، ادب کو ادب بنائے رکھنا ہر حال میں ضروری ہے ، اسے ان علوم کی روشنی میں سائنس یا معلومات کا ذریعہ بنانا سماجی ، سیاسی اور معاشی مقاصد کے لئے کسی طرح کاآرگگن نعرے بازی کا وسیلہ ماننا غلط ہے۔


ان تفاصیل کے نتیجے کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ:


(1) ادب ایک تہذیبی مظہر ہے لہذا ادبی تنقید بھی ایک تہذیبی مظہر ہے۔


(2) تنقید کا مقصد بھی ادبی مقصد ہی کا حصہ ہے اور تنقیدی طریقہ کار بھی ادبی طریقہ کار ہی کا حصہ ہے۔


(3) تنقید، تخلیقی ادب پر مقدم نہیں موخر ہے اور جس طرح قواعد زبان کی معیار بندی کا کام کرتی ہے اسی طرح تنقید بھی ادب کی معیار بندی کا کام انجام دیتی ہے۔


(4) ادب کے اصول و ضوابط ، شعریات اور رجحانات تہذیب کے زائیدہ ہوتے ہیں لہذا ادبی تنقید تہذیبی اقدار کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔


(5) تہذیب کی نوعیت مقامی اور عصری ہے لہذا تنقید کی نوعیت بھی مقامی اور عصری ہے۔ تہذیبی تفاعل اور تسلسل غیر تہذیبوں سے جتنا اور جس طرح متاثر ہوتا ہے ، تنقید بھی اسی طرح غیر تہذیب سے استفادہ کرتی ہے لیکن کسی ایک تہذیب کا ادب غیر تہذیب کے تنقیدی اصولوں کی روشنی میں ناکام قرار نہیں دیاجاسکتا۔


(6) تنقید کسی تہذیب کی قدیم روایات اور عصری میلانات کی تطبیق پر نظر رکھتی ہے تعیین قدر کا مسئلہ اسی تطبیق کی روشنی میں طے ہوتا ہے۔


(7) تنقید کسی تہذیب ، معاشرے اور اس کے ادب میں موجود وجدانی تنقیدی شعور کو علمی سطح پر دریافت کرتی ہے ، اصول و ضوابط مرتب کرتی ہے ، معیار بندی اور تعیین قدر کے مرحلے سے گزرتی ہے اور تخلیق کار اور قاری کے درمیان ایک کار آمد پل کاکام انجام دیتی ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: تجزیہ اور تنقید (مضامین کا مجموعہ)
مصنف: ڈاکٹر ارشد عبدالحمید۔ ناشر: راجستھان اردو اکادمی، جےپور (سن اشاعت: 2001)

The purpose and measures of criticism. Essay: Dr. Arshad Abdul Hameed.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں