کسی شئے یا فن کی خوبصورتی کے احساس کو جمالیات کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں جمالیات کو Aesthetics کہاجاتا ہے۔ انگلش کی Websterڈکشنری میں جمالیات کی تعریف اس طرح لکھی ہے:
The Law and principles determining the beauty nature, art, taste etc.
عظیم سائنسداں آئین اسٹائن نے نظریہ اضافیت میں کہا ہے کہ کائنات میں جو کچھ آپ دیکھتے ہیں وہ یقینی نہیں کہ وہی ہو جو آپ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ آپ کو وہ شئے جو کچھ نظر آرہی ہے وہ آپ کی نگاہ ، فاصلے اور زاویہ کے علاوہ اور بہت سے ایسے حقائق پر منحصر ہے جن سے آپ ناواقف ہیں یا جن کو Unknows factors کہا جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے نظام شمسی کا ساتواں سیارہ زحل ہے۔ ہندی میں جس کو "شنی" کہا جاتا ہے۔ پہلے زمانے کے ستارہ شناس اسے بھی دوسریے سیاروں کی طرح کا ہی ایک سیارہ سمجھتے تھے لیکن جب دور بین ایجاد ہوئی تو پتا چلا کہ زحل (Saturn) بڑا عجیب اور پراسرار سیارہ ہے اور بہت خوبصورت بھی ہے کیونکہ اس کے گرد ایک نہیں بلکہ کئی حلقے (Rings) بنے ہوئے ہیں جو سیارے کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ ماہر فلکیات کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں یہ حلقے زحل کے گردگھومن والے چاند ہوں گے لیکن کسی وجہ سے وہ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور زحل کی کشش کے باعث اس کے گرد گھومتے ہوئے حلقہ کی شکل میں نظر آنے لگے۔
اکثر سائنس داں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اس کائنات میں کوئی چیز "مکمل" نہیں۔ نہ کوئی دائرہ مکمل ہے نہ کوئی خط مستقیم۔ یہ مبینہ شئے اصل میں کیا چیز ہے اور کیا نظر آتی ہے یہ ہماری نظروںں کے اسے دیکھنے اور محسوس کرنے پر منحصر ہے مثلاً ہم چاند، سورج اور سیاروں کو گول سمجھتے ہیں جب کہ وہ "مکمل" گول نہیں۔ اسی طرح فطرت میں کوئی شئے نہ خوبصورت ہے نہ بد صورت۔ صرف کسی شئے کا وجود ہی اصل حقیقت ہے اسے دیکھ کر آپ کے اندر کون سی حس جاگتی ہے کون سا جذبہ ابھرتا ہے اسی کو ہم خوبصورتی کہتے ہیں۔
انسان ہر چیز کو "حواس خمسہ" سے محسوس کرتا ہے لیکن جمالیات کو حواس خمسہ نہیں بلکہ انسان کی چھٹی حس محسوس کرتی ہے۔ پانچوں حسیں تو ہر انسان میں ہوتی ہیں لیکن چھٹی حس ہر ایک میں نہیں ہوتی یا یہ کہئے کہ زیادہ تر انسانوں میں اس قدر کم ہوتی ہے کہ وہ خوبصورتی سے سرسری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے خوبصورتی کو محسوس کرنے کا ہر انسان کا معیار یا پیمانہ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔
اس مضمون کے لئے یہ طویل تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ احساس جمال بھی فطرت کی ہی دین ہے۔ کسی شئے کی جمالیات کو محسوس کرنے کے لئے بینائی اور نظر دونوں چیزوں کی ضرورت ہے۔ بینائی اور نظر بظاہر ہم معنی الفاظ ہیں لیکن ذرا سا فرق ہے۔
بینائی صرف دیکھنے کی حس کے معنی میں آتا ہے اور نظر اس چیز کی قدر وقیمت کو سمجھنے کے معنوں میں آتا ہے۔ نظر ہر شئے کی جمالیات کو سمجھتی ہے ہر انسان کی نظر کا معیار الگ ہوتا ہے۔ اس لئے ہر انسان کسی بھی شئے میں جمالیات کو اپنے طور پر محسوس کرتا ہے۔
مثلاً کسی شخس کو پھول کی خوشبو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ کسی کو رنگ پسند آتا ہے اور کوئی اس پھول کی پنکھڑیوں کی نرمی سے لطف اندوز ہوتا ہے حالانکہ یہ تینوں خوبیاں اس پھول کی جمالیات کا حصہ ہیں۔ صرف دیکھنے والے کی نظر کے زاویے اس کی جمالیات کے الگ الگ پہلو بن جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی ذاتی پسند کسی بھی شئے کی جمالیات کا معیار ہوتی ہے۔
اردو زبان میں جمالیات کی بات کی جائے تو ذہن میں سب سے پہلے ایک نام ابھرتا ہے اور وہ ہے پروفیسر شکیل الرحمن کا۔ قرآن شریف کی جمالیات سے لے کر انہوں نے اردو کے بدنام لیکن جینوئن (Genuine) اور جینیس (Genius) ادیب سعادت حسن منٹتو کے افسانوں تک کی جمالیات اردو قاری کے سامنے پیش کر دی ہیں۔ میں حیران ہوں کہ تخلیقات اور ان تخلیقات کی جمالیات کے بارے میں مزید کیا لکھا جا سکتا ہے؟ چنانچہ میں صرف جمالیات کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا۔
پروفیسر شکیل الرحمن نے اپنی تصنیف "مولانا رومی کی جمالیات" میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے۔ یہ واقعہ دراصل مولانا رومی نے اپنی ایک مثنوی میں تحریر فرمایا ہے۔ جس پہ یہ وضاحت مقصود ہے کہ جمالیات ہر فن میں ہوتی ہے۔ اسی واقعہ کو میں نے کہیں اور ذزرا تفصیل سے پڑھا تھا اس لئے یہاں اس واقعہ کو ذرا تفصیل سے پیش کرنے سے جمالیات کی زیادہ وضاحت ہو جائے گی۔
واقعہ اس طرح ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں ہر طرح کے فنکار رہتے تھے ان ہی میں کچھ فنکار "پُرکار" کہلاتے تھے اور کچھ سادہ کار۔ ایک روز بادشاہ نے ان فنکاروں سے کہا کہ بھئی تم دونوں فنکار ہو اور اپنی اپنی فنکاری کی جمالیات کا دعویٰ کرتے ہو۔ اب ہم کس طرح جانیں کہ تم دونوں میں بہتر فنکار کون ہے۔ بادشاہ کی اس بات کے جواب میں سادہ کاروں نے ادب سے عرض کیا:
"حضور مقابلہ کرا لیں اور خود فیصلہ کر لیں کہ کس کا فن بہتر ہے۔"
"مقابلہ کیسے کرایا جائے؟" بادشاہ نے سوال کیا۔
سادہ کاروں نے تجویز پیش کی:
"ہم دونوں فنکاروں کو ایک بہت بڑا کمرہ دیا جائے اور اس کمرے کے درمیان ایک دیوار کھنچوا دی جائے۔ اس کمرے کا آدھا حصہ پر کاری کے فنکارروں کو دے دیا جائے اور آدھا حصہ ہم سادہ کاروں کو۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنا اپنا فن دکھانے کے لئے چھ مہینے کا وقت دے دیا جائے۔ چھ ماہ بعد آپ دونوں کا فن دیکھ کر خود فیصلہ کر لیجئے کہ دونوں فنون میں کیا فرق ہے۔"
بادشاہ کو یہ تجویز پسند آگئی۔ اس نے ایک بہت بڑا کمرہ ان کو دے دیا اور درمیان میں دیوار بنوا دی تاکہ وہ ایک دوسرے کے فن کو متاثر نہ کر سکیں۔
چھ مہینے میں پُر کار طرح طرح کے رنگوں سے نازک اور باریک نقش و نگار بناتے رہے اور سادہ کار اپنے حصہ میں سفیدی کرکے سادگی سے اس کو چمکاتے رہے۔ چھ مہینے بعد دونوں فنکاروں نے بادشاہ سے عرض کیا کہ ہم اپنے اپنے فن کا کمال دکھا چکے ہیں اب حضور کمرے کے درمیان کی دیوار نکلوا دیں اور چل کر دیکھ لیں۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ کمرے کے درمیان کی دیوار ہٹا دی جائے۔ اس وقت تک دونوں فنکاروں کو بھی ایک دوسرے کا فن دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ دیوار ہٹنے کے بعد بادشاہ دونوں فنکاروں کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے کے اندر قدم رکھتے ہی بادشاہ اور اس کے درباری حیران رہ گئے کیونکہ سارا کمرہ ایک تھا یا ایک جیسا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پورے کمرے میں "پر کار" فنکاروں نے ہی بیل بوٹے اور نقش و نگار بنائے ہیں۔ بادشاہ کچھ دیر کھڑا حیرت سے دیکھتا رہا پھر اس نے سادہ کاروں سے کہا:
" یہ تو پُر کاری کے فنکاروں کا کمال ہے۔ تم لوگوں نے چھ مہینے میں کیا کیا؟"
اس وقت دو سادہ کاروں نے ایک چادر پھیلا دی اور بادشاہ سے کہا۔
"اب ہمارا والا حصہ ملاحظہ فرمائیے۔"
بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جس حصے کے سامنے چادر آگئی تھی وہاں دیوار آئینہ کی طرح سادہ ہوگئی تھی۔
تب فنکاروں نے کہا:
"عالی جاہ۔ یہ ہم سادہ کاروں کا فن ہے۔ آپ ہماری طرف جو نقش و نگار دیکھ رہے ہیں وہ اصل نقش و نگار نہیں بلکہ پُر کاروں کے بنائے ہوئے نقش نگاروں کا عکس ہیں۔"
مختصر یہ کہ سادہ کاروں نے دیوار کو رگڑ رگڑ کر اس قدر شفاف بنا دیا تھا کہ وہ آئینے کی طرح چمکنے لگی تھیں۔ یہی سادہ کاروں کے فن کی جمالیات تھی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمالیات صرف رنگوں اور پھولوں میں ہی نہیں بلکہ سادگی اور صفائی میں بھی ہے، یعنی اگر روح سادہ اور صاف ہے تو وہ ہر خوبصورتی کو اپنے اندر سمو ئے گی۔
ہالی ووڈ کے مشہور کامیڈین باب ہوپ (Bob Hope) سے ایک بار اخبار نویسوں نے سوال کیا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟
باب ہوپ نے بڑی سنجیدگی سیے جواب دیا:
"میں اداکاری کرتے ہوئے اپنے حواس خمسہ سے کبھی کام نہیں لیتا۔"
آدھے منٹ کے وقفہ کے بعد وہ بولا۔۔۔" ادکاری کرتے ہوئے میں صرف اپنی چھٹی حس سے کام لیتا ہوں۔"
میں اس مضمون کے شروع میں یہ تحریر کر آیا ہوں کہ جمالیات کو محسوس کرنے کے لئے حواس خمسہ کی بجائے چھٹی حس کی ضرورت ہوتی ہے۔
نفسیات کے ماہرین نے ذہانت کو ناپنے کے لئے پیمانہ بنایا جسے انٹلی جنس کوٹینٹ (Intelligence Quatient) یا آئی۔ کیو (I.Q) کہاجاتا ہے۔ ذہانت کے اس پیمانے کے مطابق سو آئی۔ کیو والے انسان نارمل انسان ہوتے ہیں۔ سو سے کم آئی۔ کیو والے کم عقل مانے جاتے ہیں اور سو سے زائد آئی۔ کیون والے ذہین اور عبقری کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایک نارمل انسان کسی خوبصورت چیز کو دیکھتا ہے تو وہ اس کی خوبصورت سے کچھ متاثر ہوتا ہے لیکن اس کی جمالیات اسے متاثر نہیں کرتی۔ ایک طرح سے جمالیات کا احساس ایک تخلیقی عمل ہوتا ہے۔ ایک خوبصورت منظر سو آدمی دیکھتے ہیں لیکن ہر دیکھنے والے پر اس کی خوبصورتی کا یکساں اثر نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ منظر کو دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ کیونکہ منظر کی خوبصورتی کی جمالیات ان کو متاثر نہیں کرتی۔ کچھ لوگ منظر کی جمالیات میں گم ہوکر مبہوت کھڑے رہ جاتے ہیں۔۔ اور یہ بات کسی خوبصورت منظر تک ہی محدود نہیں۔ بے آب و گیاہ جنگل، ریگستان ، سبزے سے بیگانہ پہاڑ اور پتھر۔۔ ہر شئے کی اپنی جمالیات ہوتی ہے جسے صرف وہی شخص محسوس کر سکتا ہے جس کی چھٹی حس بہت تیز ہو یا جس میں تخلیقی قوت ہو کیونکہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ سب خالق کائنات کی فنکاری یا اس کی تخلیق ہی تو ہوتی ہے۔ جس نے یہ ساری کائنات تخلیق کی اس کی کوئی بھی تخلیق جمالیات سے خالی کیسے ہو سکتی ہے؟
سائنسی نقطہ نظر سے اس کائنات میں کوئی چیز مکمل نہیں۔ خلا اور وقت کے نشیب و فراز کے باعث ہر شئے میں کوئی کمی رہ جاتی ہے یہ کمی بھی خدائے برتر کے فن کا کمال ہے۔ اس نامکمل پن میں بھی محسوس کرنے والے کو جمالیات محسوس ہوجائے گی۔ آئنسٹائن نے کہا ہے کہ زبان اور مکان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
جس طرح سکے کے ایک طرف تصویر ہوتی ہے اور دوسری طرف سن اسی طرح کائنات میں زمان اور مکان ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن ہمیں ان دونوں مظاہر کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب مادہ کسی حجم یا جسم کی شکل میں ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ خلا میں اگر نظروں کے سامنے کوئی مادی جسم نہیں تو صرف خلا رہ جاتا ہے لیکن جب کوئی مادی جسم آجاتا ہے تو ہمیں وقت کا بھی احساس ہونے لگتا ہے اور خلا کا بھی۔ وقت کو سائنسداں "چوتھی سمت" (Fourth Dimension) مانتے ہیں۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کو اگر خلا میں کسی ایسی جگہ بٹھا دیا جائے جہاں سے آپ ہر چیز کو دیکھ سکتے ہیں اور آپ پر وقت کا کوئی اثر نہ ہو تو آپ ہر مادی جسم کو تین اطراف (Three Dimensions) یعنی اس چیز کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی ایک نظر میں دیکھ لیں گے۔
اس کے بعد آپ اگر مسلسل اس چیز کو دیکھتے رہیں گے تو اس چیز کی"چوتھی سمت" بھی آپ کو نظر آنے لگے گی۔ آپ دیکھ سکیں گے کہ ایک بیج زمین میں ڈالا گیا۔ اس سے ایک کلا پھوٹا پھر وہ کلا درخت بنتا گیا اور پھیلتا گیا پھر کچھ عرصہ بعد درخت سوکھ کو ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کا سارا وجود مٹی میں مل گیا۔
درخت پیدا ہونے ، بڑھنے ، پھیلنے اور پھر ختم ہوجانے کا عرصہ ہی چوتھی ڈائی مینشن(چوتھی سمت) ہوتی ہے۔ وقت کی ڈائی منیشن کی جمالیات دیکھی نہیں جا سکتی صرف محسوس کی جا سکتی ہے جیسے اربوں ستارے آسمان میں کروڑوں اور اربوں سالوں سے چمک رہے ہیں وہ وقت کے اس نامعلوم عرصہ میں کیا کیا بن چکے ہیں یہ فطرت کی جمالیات کا ایک پہلو ہے۔ اس کے مقابل ایک ایٹم کے الیکٹرون اپنے اپنے مدار پر گھومتے رہتے ہیں یہ الیکٹرون کبھی اچھل کر اپنے مدار سے اوپر والے مدار پر چلے جاتے ہیں اور کبھی پھر واپس اپنے مدار پر آجاتے ہیں اور جب کوئی الیکٹرون اوپر والے مدار سے چھلانگ لگا کر نیچے والے مدار پر آتا ہے تو توانائی کا ایک ذرہ چھوڑتا ہے جسے فوٹون (Photon) کہا جاتا ہے۔ یہی فوٹون کوانٹم نظریہ کی بنیادی اکائی ہوتا ہے اس طرح بے شمار فوٹون مل کر روشنی بنتے ہیں جس کے ذریعہ اپنے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور اس روشنی کے سبب ہی ہم ہر مادی شئے کی جمالیات کو محسوس کرتے ہیں۔ روشنی کی مختلف لہریں ہی ہمارے دماغ میں نیوروسز کو متحرک کرکے ہماری پانچوں حسوں کو جگاتی ہیں اور چھٹی حس یعنی تخلیقی قوت پیدا کرتی ہیں اگر روشنی نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔
یہاں یہ بات سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ انسان کی تمام حسیں توانائی کی مختلف لہروں کے ذریعہ جاگتی ہیں جیسے روشنی کی لہریں، آواز کی لہریں ، حرارت کی لہریں وغیرہ۔ ہم روشنی کی لہروں کا بہت مختصر حصہ دیکھ پاتے ہیں جیسے روشنی کی بالائے بنفشی لہریں (Ultraviolet) اور زیریں سرخ لہریں ہماری آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
بہر حال بات احساس جمال کی ہو رہی ہے اس کائنات میں خوبصور تی یا بد صورتی کوئی چیز نہیں یہ ہماری حس جمالیات کا اثر ہوتا ہے کہ ہم کسی شئے کو خوبصورت محسوس کرنے لگتے ہیں اور کسی شئے کو بد صورت۔ کوئی ایک چیز کچھ ذہنوں کے لئے خوبصورت ہو سکتی ہے اور کچھ ذہن اس کو بد صورت بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے ایک نیگرو عورت جس کے موٹے ہونٹ لٹکے ہوئے ہوں۔ گردن لمبی ہو، نیگرو مرد اس عورت کو حسین ترین عورت سمجھیں گے لیکن غیر نیگرو مرد اس کو بدصورت کہیں گے۔ موت سب سے بھیانک شئے مانی جاتی ہے لیکن موت کی بھی ایک جمالیات ہوتی ہے۔
یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔
ہالی ووڈ میں ایک فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی منظر میں ایک کردار کو مرتے ہوئے دکھانا تھا۔ ڈائریکٹر مرنے کے سین بار بار فلما رہا تھا لیکن مطمئن نہیں ہو رہا تھا آخر اس نے ایکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
Please Mr. Haggerd, put some life in your death
(پلیز مسٹر ہیگرڈ اپنی موت میں کچھ جان ڈالئے)
یعنی اگر مرنے کی ایکٹنگ کر رہے ہیں تو ایسی ایکٹنگ کیجئے جس سے موت کی سچائی ظاہر ہو۔
مشہور مصور لینارڈو دا ونسی کی مشہور شاہکار تخلیق "مونا لیزا" جمالیات کی بہترین مثال ہے۔ ساری دنیا کے نقاد اور فنکار جس کی مسکراہٹ کا اسرار نہیں سمجھ سکے۔ بڑے بڑے فنکار، فلاسفر اور سائنس داں مونا لیزا کی پر اسرار مسکراہٹ کی وضاحت کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن ابھی تک اس کی پر اسرار مسکراہٹ کا راز ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
مثلا کچھ عرصہ پہلے کچھ بایو لوجسٹ سائنس دانوں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ مونا لیزا کے چہرے پر "لقوے" کا اثر ہے (مرض لقوہ چہرے کے فالج کو کہا جاتا ہے)۔
ماہر علم الابدان نے اس نتیجہ پر پہنچنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ انسان کے ہونٹوں کے دونوں کناروں کے خم اندرونی غم یا خوشی کا اظہار کرتے ہیں کسی غم زدہ یا روتے ہوئے انسان کے ہونٹوں کے دونوں کنارے نیچے کی طرف جھک جاتے ہیں اور مسکراہٹ کے وقت وہ ذرا سے اوپر کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ علم الابدان کے ماہرین کا خیال ہے کہ لقوہ کی وجہ سے مونا لیزا کے ہونٹوں کے عضلات اوپر کی طرف بے جان ہو گئے تھے اس لئے خم اوپر کی جانب اٹھے رہ گئے ہوں گے اور مستقل طور پر مسکراتی ہوئی "سی" نظر آنے لگی۔
لیکن مونا لیزا تو ایک تصویر ہے ، زندہ عورت نہیں۔ یہ تو لینارڈو کے فن کی جمالیات ہے کہ اس نے تصویر کے ہونتوںں کو ایک مستقل پراسرار مسکراہٹ دے دی۔ اس مسکراہٹ کی جمالیات یہ ہے کہ اسے واضح طور پر مسکراہٹ نہیں کہاجاسکتا پھر بھی اسے کوئی اور نام نہیں دیاجاسکتا۔ نہ ہی کسی دلی جذبہ کااظہار کہاجاسکتا ہے۔ صدیوں سے لوگ اس مسکراہٹ کی جمالیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں لیکن کوئی بھی کسی اطمینان بخش نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔
اسی طرح کائنات میں ان گنت (Infinite) اشیا ہیں جو مونا لیزا کی مسکراہٹ کی طرح پر اسرار ہیں اور ان کی جمالیات کو ہر تخلیقی ذہن اپنے طور پر دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔
فطرت میں اتنے رنگ اور پہلو ہیں کہ آپ صدیوں تک ہر شئے کو ہزاروں پہلوؤں سے دیکھتے رہئے تو ہر پہلو میں نئی قسم کی جمالیات محسوس ہوگی۔ انسان کا ذہن محدود ہے اور اس کی صلاحیتیں بھی محدود ہیں۔ اس لئے محسوسات کو ایک ہی طرح بار بار دہرانے سے جمالیات کا حس اسی طرح پھیکا پڑنے لگتا ہے جیسے شوخ رنگ کچھ عرصہ کے بعد پھیکے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں اس لئے جمالیات کا اظہار کرتے ہوئے قلم کو بے لگام چھوڑ دینے سے جمالیات میں وہ شوخی اور خوبصورتی نہیں رہتی جو ابتدا میں تھی۔
انسانی فطرت ہے کہ کیسی ہی عجیب کیسی ہی خوبصورت یا کیسی ہی پر اسرار شئے کیوں نہ ہو، مختصر عرصہ میں ہی انسانی ذہن کے لئے وہ اپنی کشش کھو دیتی ہے۔ آپ اپنی پسند کی انتہائی لذیذ شئے صرف چند بار کھا کر اس کے ذائقہ کی جمالیات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایک حد کے بعد وہ ذائقہ اور لذت دونوں اپنی جمالیات کھو دیتے ہیں۔ ویسے بھی فطرت کا اصول ہے کہ جو شئے اپنی حد سے بڑھ جاتی ہے وہ معکوس ہو جاتی ہے۔ اسی لئے شاید غالب نے کہا تھا:
نقش فریادی ہے ، کس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
ماخوذ از کتاب: آج کی سائنس (مضامین)
مصنف: اظہار اثر۔ ناشر: اردو اکادمی دہلی، نئی دہلی (سن اشاعت: 2006)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں