تیوہار اور قومی یکجہتی - مولانا وحید الدین خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-15

تیوہار اور قومی یکجہتی - مولانا وحید الدین خان

festivals-and-national-unity

تیوہار کو عربی میں عید، ہندی میں تیوہار اور انگریزی میں فیسٹول (Festival) کہتے ہیں۔ تیوہار کا بنیادی مقصد اجتماعی روایات کو زندہ رکھنا اور فرد کو فردسے جوڑنا ہے۔ انسانی تہذیب کی پوری تاریخ میں تیوہار کا رواج رہا ہے۔ سال کی خاص تاریخوں میں مشترک طور پر قومی تقریب منعقد کرنا ، یا مشترک تصور کے تحت کسی یادگار دن کو اجتماعی خوشی منانا ، اسی کا نام تیوہار ہے۔


تیوہار عام طور پر سال کی مقرر تاریخوں میں ہوتے ہیں۔ اس روز سب لوگ جمع ہو کر مخصوص انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔ اس طرح تیوہار لوگوں کے اندر اجتماعیت اور یک جہتی پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ وہ سماج کے ایک حصہ کو اس کے دوسرے حصہ سے قریب لے آتا ہے۔ تیوہار ملاقات اور تعلق کی مضبوط اور پائدار زمین فراہم کر نے کا ایک ذریعہ ہے۔


تبوہار کا ایک حصہ عام طور پرکسی مخصوص سماجی گروہ کے اپنے عقیدہ اور اپنی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ایک حصہ عمومی ہوتا ہے جو صرف ایک سماجی گروہ کی دلچسپی کی چیز نہیں ہوتا بلکہ پورے سماج اور وسیع تر معنوں میں تمام انسانوں سے تعلق رکھتا ہے۔


مثلاً عید میں دو گانہ نماز کا تعلق مسلم عقیدہ سے ہے۔ وہ مسلمانوں کے مذہب کا حصہ ہے۔ مگر عید میں شیرینی کھانا اور کھلانا ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے۔ یہ عمل انسانی سطح پر میل جول کو بڑھانے والا ہے۔ وہ ایک عالمی چیز ہے نہ کہ کوئی گروہی چیز۔ اسی طرح دیوالی میں لکشمی کی پوجا کر نا ہندو عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ہندو مذہب کا جز ہے لیکن گھر کی صفائی ایک ایسی چیز ہے جس میں ہر آدمی کے لئے دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ اس کو ہر آدمی خوشی سے اختیار کر سکتا ہے۔


میں آزادی (1947) سے پہلے والے ہندوستان میں پیدا ہوا۔ مجھے اپنے بچپن کی یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب دیوالی کا نیوہار آنا تو مسلمان ہندوؤں کے یہاں تجفے بھیجتے۔ ہم لوگ بھی اپنے گھروں کی صفائی اسی طرح کیا کرتے تھے جس طرح ہندو لوگ اس تیوہار میں اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں۔
اسی طرح جب عید کا تیوہار آتا تو ہندو بچے بھی مسلم بچوں کی طرح نئے کپڑے پہنتے۔ ہندو گھروں میں شیرینی کا اہتمام کیا جاتا اور وہ اپنے مسلم پڑوسیوں کی تواضع کر کے خوش ہوتے۔


اس طرح مسلمانوں نے ہندو تیوہاروں میں اپنے لئے دلچسپی کا سامان پا لیا تھا اور ہندو، مسلمانوں کے تیوہاروں میں اپنی دلچسپی کا سامان پا رہے تھے۔ دونوں فرقوں کے تیوہار ایک اعتبار سے ان کے اپنے فرقے کے تیوہار ہوتے تھے اور دوسرے اعتبار سے ان کی حیثیت مشترک تیوہار کی ہوتی تھی۔ اس دوسرے اعتبار سے دونوں گویا ایک دوسرے کے تیوہاروں کو مل جل کر مناتے تھے۔ اس طرح دونوں فرقوں میں رواداری کو فروغ ملتا تھا۔ دونوں بار بار ایک دوسرے سے قریب ہوتے رہتے تھے۔


اس چیز نے اس زمانہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کامل ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا کر رکھی تھی۔ دونوں میں کسی قسم کی اجنبیت حائل نہ تھی۔ دونوں اپنے آپ کو مسلم اور ہندو سمجھتے ہوئے وسیع تر ہندوستانی قوم کا جز بنے ہوئے تھے۔ دونوں اس عظیم ملک سے یکساں محبت کرتے تھے جس کا نام اب تاریخ میں برصغیر ہند (Indian sub-continent) لکھا جاتا ہے۔


یہی وہ دور ہے جس کی بابت سرسید نے اپنی ایک تقریر (27 جنوری 1883) میں کہا تھا:
"ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے ، جس کا بیرونی معاملات اور آپس کے برتاؤ سے کچھ تعلق نہیں۔ ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے۔ ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں۔ مقدس گنگا اور جمنا کا پانی ہم دونوں پیتے ہیں۔ ہندوستان ہی کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں۔ مرنے میں ، جینے میں دونوں کا ساتھ ہے۔ درحقیقت ہندوستان میں ہم دونوں باعتبار اہل وطن ہونے کے ایک قوم ہیں۔ اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی اور بہبودی ممکن ہے۔ اور آپس کے نفاق اور ضد و عداوت اور ایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔"


پھر یہی وہ ہندوستان ہے جس کا ترانہ اقبال نے اپنے اشعار میں گایا تھا۔ ان کا یشعر اس مشترکہ جذبہ کی بہترین عکاسی کرتا ہے جس کو ہندوستان کے تقریباً ہر شخص نے سنا ہے اور بے شمار لوگوں نے اس کو گایا ہے :
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی دہ گلستاں ہمارا


اس طرح کے مشترک ماحول اور یک جہتی کی فضا پیدا کرنے میں تیوہار نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نفرت اور باہمی دوری کے قاتل ہیں۔ اگر تیوہاروں کو صحیح جذبہ کے ساتھ اور مشترک انداز میں منایا جائے تو ہمارے سماج سے ہر قسم کے جس کو ہے اور فساد کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے۔


مجھے مدھیہ پردیش کے ایک صاحب نے بتایا۔ وہاں کے ایک قصبہ میں فرقہ وارانہ تناؤ کا ماحول تھا۔ ہولی کے تیوہار کا زمانہ آیا تو سخت اندیشہ پیدا ہو گیا کہ اس موقع پر فرقہ وارانہ فساد ہو کر رہے گا۔ ہولی کا رنگ انسانی خون کے رنگ میں تبدیل ہو جائے گا۔
اس وقت ایک بزرگ ہندو مسلمانوں کے علاقہ میں گئے۔ انھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ میں آپ لوگوں کا خیرخواہ ہوں اور آپ لوگوں کو ایک مشورہ دینے آیا ہوں جس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ اگر آپ میرے اس مشورہ کو قبول کر لیں تو امید ہے کہ ہماری بستی بہت بڑی آفت سے بچ جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت ہماری بستی کے جو حالات ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ مجھے بظاہر یقینی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالات باقی رہے تو ہولی کے موقع پر ضرور فرقہ وارانہ فساد ہو جائے گا اور ہماری سڑکوں پر رنگ کے بجاۓ خون بہے گا۔ اس مسئلہ کے حل کی ایک نہایت آسان تدبیر ہے اور اس وقت میں آپ کو وہی تدبیر بتانے آیا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ہولی کے دن جب ہندو لڑکے ہولی کھیلتے ہوۓ مسلمانوں کے محلہ کے پاس پہنچیں تو مسلمان اس سے الگ نہ رہیں۔ بلکہ مسلمان لڑکے بھی باہر نکل کر ان کی پارٹی میں شامل ہو جائیں اور ان کے ساتھ ہولی کھیلنا شروع کر دیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر بالفرض آپ لوگوں کے
کپڑوں میں ہولی کارنگ لگنے کا کچھ عذاب ہو تو میں بھگوان سے کہتا ہوں کہ وہ اس کو میرے حصہ میں ڈال دے اور اس تدبیر سے فساد کے ٹلنے کا جو ثواب ہے وہ سب آپ لوگوں کے حصہ میں لکھ دیا جائے۔ یہ بات مسلمانوں کی سمجھ میں آ گئی، چنانچہ انھوں نے ہولی کے موقع پر ایسا ہی کیا۔


ہولی کے دن حسب معمول ہندو نوجوانوں کی پارٹی مسلم محلہ سے گزرنے والی سڑک پر آئی۔ اس وقت ، پہلے سے طے کئے ہوئے منصوبہ کے مطابق ، کچھ تفریح پسند مسلم نوجوان اپنے گھروں سے نکلے اور جوش و خروش کے ساتھ ہندو پارٹی میں مل گئے۔ وہ اس وقت انہیں جیسے بن کر ان کے ساتھ ہولی کھیلے لگے۔
ایسا کرنے کے بعد اچانک ساری فضا بدل گئی جو دن دو دشمنوں کے ٹکراؤ کا دن بنتا وہ دو دوستوں کے ملاپ کا دن بن گیا۔ ہولی کا رنگ جو خون کے چھڑکاؤ کی صورت اختیار کرنے والا تھا ،وہ پیار و محبت میں بدل کر لوگوں کے اوپر گلاب جل کا چھڑکاؤ بن گیا۔


اسی طرح مہاراشٹر کے ایک شہر کا قصہ ہے۔ وہاں ہر سال ایک خاص تاریخ کو گنپتی کا جلوس نکلتا ہے جو گویا ان کا ایک سالانہ تیوہار ہے۔ ہندو اس میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے۔ کئی سال ایسا ہوا کہ جلوس جب مسلم محلہ سے گزرنے والی سڑک پر پہنچا تو کسی نہ کسی بات پر دونوں فرقوں میں اشتعال پیدا ہو گیا اورفساد کی نوبت آ گئی۔
پچھلے سال وہاں کے مسلمانوں نے مشورہ سے یہ طے کیا کہ وہ جلوس کے خلاف روک ٹوک نہیں کریں گے اور نہ اس کی روٹ بدلنے پر اصرار کریں گے۔ چنانچہ جب جلوس آیا تو انھوں نے پچھلے سالوں کے برعکس جلوس کا استقبال اور اس کو راحت پہنچانے کی کوششیں کیں۔ مثلاً یہ گرمی کا موسم تھا۔ چنانچہ انھوں نے راستہ میں جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کا انتظام کر دیا۔ وغیرہ۔
اس کا نتیجہ نہایت خوشگوار نکلا۔ دو فرقے جو اس سے پہلے ایک دوسرے کو حریف کی نظر سے دیکھتے تھے ، وہ ایک دوسرے کو دوست کی نظر سے دیکھنے لگے۔ جلوس کا قافلہ جو عام حالت میں دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بنتا ، وہ دونوں کے درمیان دوستی اور یک جہتی پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔


تیوہار کو اگر صحیح طریقہ سے منایا جائے تو بلاشبہ وہ رواداری، اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ وہ پورے سماج کو مشترک انسانی رشتہ میں جوڑ کر صالح معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے۔ اور صالح معاشرہ سے پیدا ہونے والے نتیجہ ہی کا دوسرا نام یک جہتی ہے۔


***
ماخوذ از مجلہ: الرسالہ (شمارہ: 153 ، اگست-1989)
ناشر: مکتبہ الرسالہ، نئی دہلی۔

Festivals and National Integration. Article: Maulana Waheeduddin Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں