امام ابن تیمیہ - علمی فکری و تحقیقی میدان کی تاریخ ساز شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-10

امام ابن تیمیہ - علمی فکری و تحقیقی میدان کی تاریخ ساز شخصیت

Imam-Ibn-Taymiyyah
اسلام کے زندہ معاشرے نے ایسے ایسے عظیم انسان پیدا کئے جن کی روح بے قرار، جرات افکار اور دمکتے ہوئے کردار انسانی تاریخ کے حسین نقش و نگار بناتے رہے۔ امام ابن تیمیہؒ انہی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ایک تھے۔ علمی و فکری میدان میں تحقیق و تجسس کے وہ گلشن کھلائے کہ آج بھی نسیم وہیں سے مہک لاتی ہے۔ ایک ہزار کتابوں کے یہ جلیل القدر مصنف جب محراب علم سے نکل کر میدان قتال کی طرف نکلے تو تاتاریوں کا رخ پھیر دیا، جرات مندی اور حق گوئی کا یہ عالم کہ سطوت شہنشاہی سرنگوں ہوگئی۔ بدعتوں کا خرمن ایک نگاہ غلط انداز سے جلا ڈالا اور صدق و صفا کے آئینے میں رخسار زندگی یوں دمک اٹھے کہ ان پر حرص و ہوا کی گرد پڑی ہی نہ تھی۔
(تحریر از: سلامت علی مہدی)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا خاندان شمال عراق کے تاریخی شہر حران کا مشہور علمی اور ادبی خاندان تھا۔ شیخ الاسلام کے دادا ابولبرکات مجدد الدین ابن تیمیہ کا شمار مذہب حنبلی کے ائمہ و اکابر میں ہے۔ شیخ الاسلام کے والد شہاب الدین عبدالحلیم ابن تیمیہ عالم و محدث ، فقیہ اور صاحب درس و افتاء تھے۔ اس نامور اور مخلص علمی و دینی خاندان میں دو شنبہ 10/ربیع الاول 661ھ(1263ء) میں تقی الدین ابن تیمیہ کی ولادت ہوئی۔ باپ نے احمد تقی الدین نام رکھا۔ بڑے ہوکر انہوں نے ابوالعباس کنیت اختیار کی، لیکن خاندانی لقب ابن تیمیہؒ سب پر غالب آیا اور وہ اسی نام سے مشہور ہیں۔


خاندان ابن تیمیہ کی وجہ تسمیہ مورخین نے یہ بیان کی ہے کہ امام صاحب کے جد امجد محمد بن خضر ایک مرتبہ حج کرنے گئے۔ یمن کی بستی تیما میں سے گزرے ، تو وہاں ایک نہایت خوبصورت اور پاکیزہ اطوار کی لڑکی دیکھی۔ حج سے واپس آئے تو گھر میں بچی کی ولادت کا حال معلوم ہوا ، چنانچہ محمد بن خضر اپنی اس بچی کو پیار سے "تیمیہ" کہہ کر پکارتے تھے، پھر وہی اس کا نام ہوگیا۔


ابن تیمیہ سات برس کے تھے کہ ان کا وطن حران تاتاری حملے کی زد میںآ گیا۔ مجبور ہوکر ان کا خاندان بھی شرفا و علما کے صدہا خاندانوں کی طرح کسی اسلامی ملک میں پناہ ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت تاتاریوں کی غارت گری سے بچا ہوا سب سے قریب ملک شام تھا۔اس خاندان نے دمشق کا ہی رخ کیا۔ اس پریشانی اور بے سرو سامانی کی حالت میں اس علمی خاندان نے اپنے قیمتی کتب خانے کو، جو کئی پشتوں کا اندوختہ اور ایک بڑا علمی سرمایہ تھا جداکرنا گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ سب مال و متاع چھوڑ کر کتابیں ایک گاڑی پر بار کیں اور روانہ ہوگئے۔ تاتاریوں کا کھٹکا لگا ہوا تھا، ہر جگہ دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ عورتوں اور بچوں کا ساتھ تھا، بڑی مشکل یہ تھی کہ جانوروں کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کتابوں کی گاڑی خود کھینچنا پڑتی تھی۔


دمشق پہنچتے ہی اس علمی گھرانے کی آمد کی خبر ہوگئی۔ چند دن کے اندر ہی جامع اموی اور دارالحدیث السکریہ میں عبدالحلیم ابن تیمیہ کا درس شروع ہوگیا۔ کمسن احمد ابن تیمیہ نے بہت جلد قرآن مجید کے حفظ سے فراغت کرلی اور حدیث و فقہ اور عربیت کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔


مورخین نے قبائل عرب میں کسی قبیلے کی طرف امام صاحب کو منسوب نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربی نہیں تھے۔ غالب قیاس یہ ہے کہ وہ کردی تھے۔ کرد قوم بڑی بہادر، با حوصلہ اور عالی ہمت ہے۔ اس کی سیرت و کردار میں قوت کا رنگ جھلکتا ہے اور آتش خوئی کا بھی۔ یہ تمام صفات امام صاحب میں واضح اور نمایاں طور پر موجود تھیں۔ قرآن مجید بچپن ہی میں حفظ کرلیا اور زندگی بھر اس کا دور کرتے رہے۔ امام صاحب کے شوق تلاوت کا یہ عالم تھا کہ اپنی زندانی زندگی کے دور میں بھی کبھی تلاوت قرآن کا ناغہ نہ کیا اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے جیل میں اسی سے زیادہ قرآن ختم کئے۔ حفظ قرآں کے بعد امام صاحب حفظ حدیث و لغت کی طرف متوجہ ہوئے۔ احکام فقہ کی معرفت حاصل کی اور ان کا برا حصہ ازبر کرلیا۔


امام صاحب کے ایک معاصر ذہبیؒ نے ان کی صورت و سیرت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے :


"سفید رنگ، سیاہ بال، سیاہ داڑھی، جس کے بال کانوں کی لو تک پہنچے ہوئے، آنکھیں کیا تھیں، چشم گویا تھیں۔ چوڑا چکلا بدن، مونڈھے فراخ ، آواز بلند اور شیریں، فصاحت و بلاغت کا جوہر نمایاں، کبھی غصہ بھی آجاتا، لیکن اس کو اپنے حلم سے دبالیتے۔ بارگاہ الٰہی میں عجزونیاز آہ و زاری، اللہ طرف توجہ اور اس سے مدد طلبی میں آپ جیسا کوئی شخص دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کا دبدبہ تھا اور زبان میں عجیب اثر اور حلاوت کہ جس سے بات کرتے اس کے دل میں اترتے چلے جاتے۔"


ابن شاکر نے لکھا ہے کہ ابن تیمیہؒ نہایت متقی، پرہیز گار اور عابد تھے۔ ان کی پوری زندگی اللہ کے مقرر کردہ حدود کی پابندی میں گزری۔ ان کا لباس امیروں کی طرح شاندار اور بیش قیمت نہ ہوتا اور نہ وہ علماء کی طرح عمامے اور جبے کے قائل تھے ، جومل جاتا پہن لیتے ، جو مل جاتا، کھالیتے۔ آپ کے متعلق آپ کی زندگی میں اور وفات کے بعد بہت سے لوگوں نے بے شمار خواب دیکھے۔


669ھ میں تاتاریوں نے شام پر حملہ کیا، 27 ربیع الاول کو دمشق اور باہر قزان اور سلطان مصر و شام کے درمیان معرکہ پیش آیا، مسلمان جم کر لڑے اور بہادری سے مقابلہ کیا، لیکن مسلمانوں کو شکست ہوئی، سلطانی افواج نے مصر کا رخ کیا اور اہل دمشق نے دمشق میں پناہ لی، یہ شکست، مصری افواج کی واپسی اور تاتاریوں کی پیش قدمی کے خطرے سے شہر میں بد حواسی پھیلی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے علماء اور سر برآوردہ اشخاص شہر چھوڑ چھوڑ کر مصر کا رخ کررہے تھے۔ تاجر اور عوام شہر چھوڑ چکے تھے، حکومتی عملہ رخصت ہوچکاتھا، حکام میں سے صرف منتظم قلعہ ابھی مقیم تھا۔ طرقہ یہ ہوا کہ قیدی جیل خانہ توڑ کر نکل آئے۔ ادیباشوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا۔ ادھر دمشق میں یہ طوفان بے تمیزی برپا تھا اور دھر قازان کی آمد آمد کا غلغلہ تھا جس سے رہے سہے حواس اور پراگندہ تھے۔


یہ حالات دیکھ کر اعیان شہر اور ابن تیمیہؒ نے مشورہ کیا اور یہ قرار پایا کہ ابن تیمیہؒ چند علماء اور رفقاء کی معیت میں قازان سے ملاقات کریں اور دمشق کے لئے پروانہ امن حاصل کرنے کی کوشش کریں۔


دو شنبہ 3 ربیع الثانی 699ھ کو دمشق کے نمائندہ اور اسلام کے سفیر ابن تیمیہ ؒ کی تاتاریوں کے جبار بادشاہ قازان سے ملاقات ہوئی۔ شیخ کمال الدین ، جو ابن تیمیہ کے ساتھ گئے تھے اور اس مجلس میں شریک تھے، اس ملاقات کا حال بیان کرتے ہیں:


"امام ابن تیمیہؒ تاتاریوں کے لشکر میں پہنچے، شاہ قازان اور دوسرے سرداروں سے ملاقات کی۔ قازان تاتاریوں کا چوتھا مسلمان سلطان تھا، امام صاحب کے پاس تلوار تھی نہ خنجر، لیکن ایمان اور تقویٰ کے اسلحہ سے مسلح تھے۔ ہیبت اور جلال کی خاص کیفیت ابن پر تاری تھی۔


"امام صاحب کے ساتھ وفد میں شریک ہوکر میں بھی گیا تھا۔ انہوں نے سلطان کے سامنے آیات قرآنی کی تلاوت اور احادیث رسول کا بیان، عدل و انصاف کے موضوع پر شروع کیا۔ ان کا لہجہ بلند ہوتا جارہا تھا اور وہ جوش کے عالم میں سلطان کے قریب پہنچتے جارہے تھے اور سلطان ہمہ تن گوش ان کی تقریر سن رہاتھا۔ سراپا التفات بنا ان کی طرف متوجہ تھا۔ تصویر حیرت بناان کی طرف دیکھ رہا تھا اور دم سادھے بیٹھا تھا۔ اس کے دل پر امام صاحب کی دہشت بیٹھ گئی تھی۔ اپنی بدنام تند خوئی اور درشت مزاجی کے باوجود سہما ہوا تھا لیکن محبت بھری نظروں سے ٹکٹکی باندھے امام صاحب کی صورت دیکھ رہا تھا ، آخر رہا نہ گیا، بول اٹھا۔


"یہ کون بزرگ ہیں؟ میں نے آج تک اس جگرے کا آدمی نہیں دیکھا ، نہ کسی کی بات یوں تیر کی طرح میرے دل میں بیٹھی، نہ کسی کے سامنے میں نے اپنے آپ کو ایسا بے بس پایا۔"


سلطان کو بتایا گیا کہ اس کا مخاطب علم و عمل کے اعتبار سے کیسا بلند مرتبت شخص ہے۔ ادھر امام صاحب کی تقریر پوری گھن گرج اور جاہ و جلال کے ساتھ جاری تھی:


"اے قزان ! تیرا دعوی ہے کہ تو مسلمان ہے ، تیرے ساتھ قاضی بھی ہیں، شیخ بھی اور اذان دینے والے موذن بھی جو خدائے واحد کے نام پر لوگوں کو بلاتے اور پکارتے ہیں۔ تیرے باپ داد ا کافر تھے ، لیکن وہ سیرت و کردار میں تجھ سے اونچے تھے ، جو حرکتیں تونے مسلمان ہوکر کی ہیں وہ انہوں نے کافر ہوکر بھی نہیں کی تھیں۔ وہ جو عہد کرتے اسے پورا کرتے تھے۔ مگر تونے پیمان وفا باندھ اور توڑ دیا۔ جو بول تیرے منہ سے نکلے ، شرمندہ عمل نہ ہوئے۔"


امام صاحب کی تقریر ختم کی اور اٹھ کھڑے ہوئے لیکن قازان نے نہایت اصرار سے آپ کو روکا اور دستر خوان پر لے گیا۔ وفد کے دوسرے لوگوں کے کھانا کھایا، لیکن امام صاحب نے ہاتھ روک لیا ، قازان نے پوچھا آپ کیوں نہیں تناول فرماتے؟"


ارشاد فرمایا:" اے سلطان میں تیرا کھانا کس طرح کھاسکتا ہوں ، یہ کھانا وہی تو ہے جو لوگوں کو لوٹ کر تیار کیا گیا ہے۔ یہ جو کچھ پکا ہوا سامنے موجود ہے یہ انہی درختوں کی ٹہنیوں پر پکایا ہے جو از راہ ظلم وجور کاٹے گئے ہیں۔"


قازان نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ پھر امام صاحب سے دعا کی درخواست کی، امام صاحب نے دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا:


"اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ ہے کہ قازان نے اس لئے تلوار میان سے نکالی ہے کہ تیرا کلمہ بند ہو اور تیری راہ میں جہاد کرے تو پھر اس کی مدد کیجؤ، اسے اپنی نصرت سے نوازیو، لیکن اگر یہ جنگ زر گری میں مبتلا ہے، دنیا اور بادشاہت اور توسیع مملکت کے لئے بر سر پیکار ہے تو پھر تو اس سے اچھی طرح سمجھ لیجؤ۔"


حالت یہ تھی کہ امام صاحب دعا کررہے تھے اور قازان کے منہ سے بے ساختہ آمین آمین کے الفاظ نکل رہے تھے۔ اور ہم اس خوف سے اپنے دامن سمیٹے بیٹھے تھے کہ امام صاحب کی گردن ضرور اڑا دی جائے گی اور خون کے چھینٹے ہمارے لباس پر پڑیں گے۔


702ھ میں تاتاری پھر دمشق کی طرف بڑھے، ابن تیمیہؒ مصر گئے اور سلطان کو جہاد پر آمادہ کیا۔ 2/رمضان کو تقحب کے میدان میں ایک طرف شامی و مصری فوجیں اور دوسری طرف تاتاری لشکر صف آرا ہوا، سلطان خوف بنفس نفیس لشکر میں موجود تھا۔ خلیفہ، عباسی، ابوالربیع سلطان کے پہلو میں تھے۔ ابن تیمیہؒ کو فتح کا اس قدر یقین تھا کہ امرا و عوام سے قسم کھاکر کہتے تھے کہ تم اس مرتبہ ضرور فتح پاؤ گے۔بالآخر دونوں لشکر آپس میں گتھ گئے اور جنگ کا بازار گرم ہوا۔ سلطان نے بڑی ثابت قدمی دکھائی۔ سخت معرکہ ہوا، بڑے بڑے ترکی امرا کام آئے، بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوئی اور تاتاریوں کے قدم اکھڑ گئے۔ بھاگنے والوں کی ایک بڑی تعداد گھاٹیوں اور خطرناک جگہوں میں گر کر اور دریائے فرات میں ڈوب کر ہلاک ہوگئی۔


تاتاریوں کے قصے سے فرصت پوکر ابن تیمیہؒ نے حسب معمول پوری سرگرمی کے ساتھ درس و تدریس اشاعت سنت اور رد بدعت کا کام شروع کردیا اور شرک و جاہلیت کے خلاف جہاد میں مشغول ہوگئے۔ جو ان کا محبوب مشغلہ اور زندگی کا ایک بڑا مقصد تھا۔ اس زمانے میں عیسائیوں اور یہودیوں کے اختلاط اور فاسد العقیدہ اور جاہل مقتداؤں کی تعلیم سے مسلمانوں میں بہت سے ایسے اعمال آگئے تھے جو جاہلیت کی یادگار اور مشرک و بت پرست اقوال کا شعا ر تھے۔


رجب 704ھ کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک پیرمرد، جو اپنے کو المجاہد ابراہیم بن القطان کہتا تھا، لایا گیا، اس نے بہت لمبی چوڑی گدڑی پہن رکھی تھی بال اور ناخن بڑھے ہوئے تھے۔ لبیں منہ پر آرہی تھیں۔ گالی اور فحش کثرت سے بکتا تھا اور نشہ آور چیزوں کا استعمال بھی کرتا تھا۔ ابن تیمیہؒ نے اس کی گدڑی کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے کا حکم دیا۔ سب طرف سے لوگ ٹوٹ پڑے اور اس کا تار تار تبرک ہوگیا، سر کے بال اور لبیں ترشوائیں ، ناخن کٹوائے، فحش گوئی اور نشے سے اس کی توبہ کرائی گئی۔


دمشق میں ابن تیمیہ ؒ کی ایک طرح کی دینی سیادت قائم ہوگئی تھی، وہ اگر دیکھتے کہ حکومت کسی بدعت یا فعل منکر کے روکنے میں تساہل سے کام لے رہی ہے اور علماء خاموش ہیں ، تو وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور خود شرعی احکام کا اجرا کرتے۔ ان کے ساتھ عقیدتمند تلامذہ اور دیندار اور صحیح العقیدہ عوام کی ایک بڑی جماعت تھی اور ان کا حلقہ اثر بڑھتا جاتا تھا۔ان کے علم و تقریر کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ وہ جہاں رہتے، سب پر چھا جاتے تھے ، درس دیتے تھے تو درس کی دوسری محفلیں بے رونق ہوجاتی تھیں ، تقریر کرتے تھے تو علم کا دریا امڈ تا نظر آتا تھا۔ ان کی شخصیت کی اس دلآویزی، بلندی اور عوام و خواص میں مقبولیت نے حاسدوں کا ایک طبقہ پیدا کردیا جو ان کے زوال کا متمنی اور ان کی اہانت کے درپے تھا۔


ان سب اسباب نے مل کر شیخ الاسلام کو عمر بھر ابتلا اور آزمائش میں رکھا، انہیں کئی بار قید و بند کے مراحل سے گزرنا پڑا، حتی کہ قید ہی کی حالت میں انتقال ہوا، شیخ صاحب جہاں کہیں بھی رہے۔ انہوں نے اپنا کام جاری رکھا ، جیل سے باہر ہوتے تو عام درس و افادہ میں مشغول رہتے، ان کی ان مجالس میں لوگ دور دراز سے شرکت کے لئے آتے اور عوام و خواص سب دینی و علمی فائدے اٹھاتے۔ جیل میں ہوتے تو وہاں بھی اصلاح عقائد تطہیرافکار اور تزکیہ نفوس کاکام جاری رہتا۔


7 شعبان 726ھ کو حکومت نے انہیں ایک بار پھر گرفتار کرکے قلعہ دمشق میں قید کردیا۔ قید وبلند کے یہ لمحات شیخ کے لئے سکون اور یکسوئی کی دولت لے کر آئے، شیخ پورے انہماک اور ذوق و شوق کے ساتھ عبادت و تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ اس سے جو وقت بچتا تھا وہ مطالعہ و تصنیف اور اپنی کتابوں کی تنقیح و تصحیح میں صرف کرتے تھے۔ جو خود ایک مستقل عبادت تھی۔ شیخ جیل خانے میں جو کچھ لکھتے لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور وہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتا، آخر مصر کے قاضی عبداللہ بن الاخنائی کی شکایت پر سلطان نے فرمان جاری کیا کہ شیخ کے پاس جتنی کتابیں ، کاغذ، قلم دوات ہے لے لیاجائے اور ان کے پاس کوئی ایسا سامان نہ رہے جس کی مدد سے وہ تصنیف کرسکیں۔ 9 جمادی الاخری 728ھ کو اس فرمان کی تعمیل ہوئی۔


اب زندگی کے دن پورے ہوچکے تھے، انتقال سے بیس روز پہلے طبیعت خراب ہوئی اور پھر درست نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ 22 ذی قعدہ 2785ھ(1328ء) کی شب میں وقت موجود آپہنچا اور اس مجمع کمالات ، ہستی نے 67سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کیا۔ شہر میں بجلی کی طرح یہ خبر پھیل گئی۔ قلعے کا دروازہ کھول دیاگیا اور اذن عام دے دیا گیا ، لوگ جوق در جوق آتے تھے اور زیارت کرکے چلے جاتے تھے۔


غسل کے بعد ایک نماز جنازہ قلعے میں ہوئی، نماز کے بعد جنازہ باہر لایا گیا ، چار گھڑی دن چڑھے جنازہ جامع اموی میں پہنچا۔ مجمع کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ ظہر کے بعد نماز جنازہ ہوئی، لحظہ بہ لحظہ ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ میدان، گلیاں، بازار سب بھر گئے۔ ہر طرف مجمع ہی مجمع نظر آتا تھا۔ بازار بند تھا، نمازج نازہ کے بعد جنازہ اٹھا، کاندھا دینے کا موقع نہ تھا، جنازہ انگلیوں اور سروں پر جارہا تھا۔ ہر طرف گریہ و بکا کی صدائیں بلند تھیں۔ جنازہ صبح کے وقت قلعے سے نکلا تھا، لیکن ہجوم کی کثرت کی وجہ سے کہیں عصر کی اذان کے وقت دفن کی نوبت آئی۔ بظاہر سارا شہر جنازے کی مشایعت میں تھا۔ ایسا ہجوم دمشق کی تاریخ میں دیکھا نہیں گیا۔


شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ نے اپنے دور میں علوم اسلامیہ میں مجتہدانہ مقام حاصل کیا اور تفسیر و حدیث و فقہ مٰں بیک وقت اپنی امامت ، تبحر اور غیر معمولی عبور کا جو نقش اپنے زمانے پر قائم کیا اس میں بہت برا دخل ان کے غیر معمولی حافظے اور ذہانت کو تھا۔


ابن تیمیہؒ کی شجاعت و دلیری اور موت سے بے خوفی ان کے تمام معاصرین حتی کہ ترک سرداروں اور فوجی افسروں کے لئے حیرت انگیز تھی۔ جب وہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو دشمن کی صفوں میں اس طرح گھومتے تھے جیسے بڑے سے بڑا بہادر اور اس طرح کھڑے رہتے تھے جیسے بڑے سے بڑا ثابت قدم شہسوار۔ وہ دشمن کو اپنے حملوں سے چور کردیتے تھے اور اس بے تکلفی سے فوج میں گھس جاتے تھے جیسے ان کو موت کا کوئی ڈر نہیں۔


ابن تیمیہؒ کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ علم دین کی خدمت کے لئے ہمہ تن وقف تھے، انہوں نے زندگی بھر کسی چیز سے سروکار نہ رکھا۔ ان کے اکثر معاصرین رفقاء، اور ہم عمر جن میں بڑے بڑے مخلص اور بڑے بڑے فاضل تھے ، حکومت کے مختلف عہدوں پر فائز رہے ، یا عطیہ سلطانی، خلعت شاہانہ سے سرفراز ہوئے ، یا حکومت کے وظیفہ خوار رہے، لیکن ابن تیمیہ کا دامن ساری عمر ان آلائشوں سے پاک رہا۔


ابن تیمیہؒ صرف صاحب قلم نہ تھے، صاحب سیف بھی تھے۔ ان کے قلم نے جو نقوش بنائے، وہ ایک ہزار کتابوں کے اوراق میں محفوظ ہیں، لیکن ان کی نوک شمشیر نے دشمنان اسلام کے سینے پر جو لکیریں کھینچیں، تاریخ نے انہیں بھی ناقابل فراموش بنادیا ہے، وہ بزم کے میر مجلس ہی نہ تھے رزم کے امیر عساکر بھی تھے ، وہ صرف جہاد کے مبلغ اور داعی نہ تھے مجاہد صف شکن بھی تھے۔


ماخوذ از کتاب: امام ابن تیمیہ
بحوالہ: محراب اردو ڈائجسٹ، نئی دہلی - کتاب نمبر۔ سن اشاعت: 1971ء

Imam Ibn Taymiyyah, an Intellectual Researcher and Historian

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں