ضرورت خود کو اچھا بنانے کی ہے - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-11

ضرورت خود کو اچھا بنانے کی ہے - کالم از ودود ساجد

wadood-sajid-column

مرکزی حکومت، تری پورہ کے چیف جسٹس، جسٹس عقیل قریشی (Akil Abdulhamid Kureshi) کا سپریم کورٹ میں آنے کا راستہ تو مسدود کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اس کے باوجود وہ کچھ اچھے اور معقول فکر رکھنے والے ججوں کو نہ روک سکی۔ یہ ہو بھی نہیں سکتا۔ سپریم کورٹ کالجیم اتنے ہی نام بھیجتا ہے جتنی اسامیاں ہوتی ہیں۔ آج کل تو اسامیاں زیادہ ہوتی ہیں اور نام کم۔ کالجیم اگر اپنے موقف پر اٹل رہے اور حکومت کو بہت زیادہ مداخلت نہ کرنے دے تو حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔


یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ہر جج، گوگوئی (Ranjan Gogoi) نہیں ہوتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 12 جنوری 2018 کو سپریم کورٹ کے جن چار ججوں نے حیرت انگیز طور پر ایک پریس کانفرنس کرکے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف بے چینی کا اظہار کیا تھا ان میں سے صرف جسٹس رنجن گوگوئی ہی ایسے نکلے کہ جنہوں نے سبکدوشی کے بعد راجیہ سبھا کی ممبری قبول کی۔ ان کے تین ساتھی ججوں، جسٹس جے چلمیشور، مدن بی لوکور (Madan Bhimarao Lokur) اور کورین جوزف (Kurian Joseph) سبکدوشی کے بعدخاموشی کے ساتھ اپنے اپنے آبائی گھروں کو لوٹ گئے۔

جسٹس جے چلمیشور (Jasti Chelameswar) نے تو ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی اپنا سامان اپنی آبائی ریاست کیرالہ بھجوا دیا تھا اور سپریم کورٹ میں اپنی مدت کار کے آخری دن رخصت لیتے ہی اپنے سرکاری مکان کی چابی افسروں کے حوالہ کرکے خود بھی کیرالہ روانہ ہو گئے تھے۔ ان تینوں نے اعلان بھی کردیا تھا کہ وہ سبکدوشی کے بعد کوئی سرکاری پیش کش قبول نہیں کریں گے۔ یہاں تک کہ جسٹس دیپک مشرا نے بھی حکومت سے کسی عہدہ کی خواہش ظاہر نہیں کی۔


حکومت نے ایک اچھے جج کا راستہ روکا لیکن 31 اگست کو سپریم کورٹ میں کم سے کم دو جج ایسے آ گئے کہ جنہوں نے اپنی اپنی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہتے ہوئے گجرات اور کرناٹک کی حکومتوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔


جسٹس وکرم ناتھ (Vikram Nath) نے گجرات ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہتے ہوئے حکومت کے بہت سے ایسے اقدامات پر قدغن لگائی کہ جن سے شہریوں کے انسانی و مذہبی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہوتی تھی۔ انہوں نے اب تک کی 17 سالہ مدت کار میں حکومتوں کو شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیا۔
سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے گجرات میں اپنی مدت کار کے دوران حکمرانوں اور پولس افسروں کو چین سے سونے نہیں دیا۔ انہوں نے کورونا کی وبا کے دوران مزدوروں کی تکلیف دہ نقل مکانی پر حکومت کو سخت لعن طعن کیا۔ ان کی قیادت والی بنچ میں دوسرے جج، جسٹس جے بی پاردی والا نے بھی حکومت گجرات کی سخت گرفت کی۔ انہوں نے تو ایک بار کہا تھا کہ احمد آباد کے سرکاری ہسپتال بدبودار تہہ خانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ جسٹس پاردی والا نے حکومت گجرات کے اس عمل کی بھی گرفت کی جس میں اس نے گجرات کے "گڑبڑ والے علاقوں" کے قانون کے تحت غریب مسلمانوں کا ناطقہ بند کردیا تھا اور اونچے مکانات والی سوسائیٹیوں کے دروازے غریب مزدور مسلمانوں پر بند کر دئے تھے۔


جسٹس وکرم ناتھ عدالتوں کے کام کاج میں شفافیت کے علمبردار ہیں۔ لہذا گجرات ہائی کورٹ ملک کی پہلی ہائی کورٹ بن گئی جہاں عدالت کی تمام کارروائی کو یوٹیوب پر براہ راست دکھایا جانے لگا۔ سپریم کورٹ کی ای کمیٹی کے چیرمین جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ایک بار بتایا تھا کہ انہوں نے جسٹس وکرم ناتھ کو فون کرکے یوٹیوب پر عدالتوں کی کارروائی کے تعلق سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ کام سب سے پہلے گجرات ہائی کورٹ شروع کرے گی۔ جسٹس وکرم ناتھ نے سب سے پہلے گجرات ہائی کورٹ کی عدالت نمبر ایک کو ہی زوم کے ذریعہ یوٹیوب سے جوڑا۔ عدالت نمبر ایک میں وہ خود بیٹھتے تھے۔
ان کی قیادت والی بنچ نے جو تاریخ ساز سماعتیں کی ہیں ان میں سب سے زیادہ ان غریب لوگوں کے مقدمات کی ہیں جن پر گجرات پولیس نے دھڑا دھڑ پی ایس اے (پبلک سیکیورٹی ایکٹ) لگادیا تھا۔ یہ ایکٹ یواے پی اے، ٹاڈا، پوٹا اور غداری کے قانون کی ہی طرح سخت ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ کی کارروائی دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ حکومت گجرات نے پی ایس اے کا غریب رکشہ والوں تک کے خلاف خوب استعمال کیا۔ یہاں تک کہ چوری کے واقعات میں بھی پی ایس اے لگا دیا گیا۔ اس ایکٹ کے سبب ان کی ضمانتیں مشکل ہو گئیں۔ جس پر یہ ایکٹ لگ جاتا ہے وہ دوسال تک ضمانت کیلئے عدالت کے ارد گرد پھٹک بھی نہیں سکتا۔
لیکن چیف جسٹس وکرم ناتھ نے عدالت میں اعلان عام کر دیا کہ پورے گجرات میں جو بھی پی ایس اے کا شکار ہو وہ ان کی عدالت میں براہ راست آ سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ حکومت گجرات پی ایس اے لگا کر جن غریبوں کی زندگی اجیرن بنا رہی ہے انہیں سرعت کے ساتھ انصاف حاصل ہو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ درجنوں غریبوں کو پی ایس اے سے نجات ملی۔ عام حالات میں یہ ممکن نہیں تھا۔ کوئی غریب کیسے ہائی کورٹ تک اپنی روداد لے کر جاتا۔ لیکن جسٹس وکرم ناتھ نے حکومت جیسے طاقتور ادارے کے مقابلے غریبوں کو اہمیت دی۔ انہوں نے دوران سماعت کئی بار یہ جملہ دوہرایا کہ ریاست گجرات میں پی ایس اے کا بے دریغ ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کئی بار ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل کو سخت سست سنائیں۔


سپریم کورٹ میں آنے سے کچھ ہی دن پہلے ان کی عدالت میں وہ مقدمہ پیش ہوا جسے شر پسند "لو جہاد" کہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت گجرات نے تبدیلی مذہب کے قانون کی دفعہ پانچ میں ترمیم کر دی۔ اس دفعہ کی رو سے دو مختلف مذاہب کے مردو عورت کیلئے یہ ناممکن ہوگیا کہ ان میں سے کوئی ایک شادی کے مقصد سے اپنا مذہب تبدیل کرلے۔ ایسے جوڑوں کو ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینے کا پابند بنا دیا گیا۔ جسٹس وکرم ناتھ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور دفعہ پانچ کی ان شقوں پر عمل درآمد روک دیا۔ انہوں نے شادی کے مقصد سے تبدیلی مذہب کا ارادہ رکھنے والوں سے بھری عدالت میں کہا کہ:
"آپ ہمارے پاس آئیے، ہم آپ کو پروٹیکشن دیں گے"۔


جسٹس وکرم ناتھ نے حکومت کے اس رویہ پر بھی سخت ناگواری ظاہر کی جس کے تحت اس کے وکیل فریق مخالف کو ضروری کاغذات فراہم نہیں کراتے تھے۔ انہوں نے درجنوں مقدمات میں اس بات کو یقینی بنایا کہ سرکاری وکیل، فریق مخالف یا عرضی گزار کو دو گھنٹے کے اندر اندر دستاویزات مہیا کرائیں۔
انہوں نے "چھوٹے" وکیلوں کو آگے بڑھایا اور ان کے دلائل بھی پوری اہمیت کے ساتھ سنے۔ ایک موقع پر انہوں نے ایک جونئر وکیل سے کہا تھا کہ:
"آپ اپنے سینئر سے آدھی فیس مانگ لیجئے گا کیونکہ آپ نے ان کی جگہ بہت اچھی بحث کی ہے"۔


ایسے ہی ایک دوسرے جج کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے ایس اوکا (A. S. Oka) ہیں۔ انہیں بھی سپریم کورٹ میں بلا لیا گیا ہے۔ وہ اس وقت ہائی کورٹ کے ججوں کی آل انڈیا رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ دوسرے نمبر پر تری پورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عقیل قریشی ہیں لیکن ان کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی اس پر ہم پچھلے ردعمل میں روشنی ڈال چکے ہیں۔
جسٹس اوکا نے بھی کرناٹک حکومت کی کم سرزنش نہیں کی۔ انہوں نے تو اپنے ایک شاندار فیصلہ سے نہ صرف کرناٹک بلکہ گجرات اور یوپی کے ان ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کیلئے بھی مشکلات کھڑی کر دیں جن پر مجرمانہ نوعیت کے مقدمات ہیں۔ ان کے دور میں کرناٹک کے وزیر اعلی ایس یدی یورپا تھے۔ ان پر بدعنوانی کے متعدد مقدمات تھے۔ حکومت نے ان پر عاید یہ تمام مقدمات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جسٹس اوکا کی بنچ نے سخت ناگواری کا اظہار کیا اور چھوٹی عدالتوں کے ججوں اور سرکاری وکیلوں تک کی سرزنش کی۔ انہوں نے ججوں اور وکیلوں سے کہا کہ حکومت اگر سیاستدانوں پر عاید مجرمانہ مقدمے ختم کرنے کا فیصلہ کر بھی لے تب بھی آپ کو اپنا دماغ استعمال کرنا چاہئے اور آنکھ بند کرکے فائل نہیں بند کر دینی چاہئے۔
اس سے پہلے کرناٹک حکومت نے 67 ممبران اسمبلی اور سیاستدانوں پر عاید مجرمانہ نوعیت کے مقدمات ختم کر دئے تھے۔ لیکن جسٹس اوکا نے حکومت کے اس فیصلہ پر پابندی عاید کردی اور تمام مقدمات کا از سرنو جائزہ لینے کے احکامات دئے۔


جسٹس اوکا کے اس فیصلہ کا اثر یہ ہوا کہ دوسری ریاستوں کے حقوق انسانی کے علمبردار سرگرم ہو گئے۔ جب یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے ہی خلاف قائم درجنوں مقدمات بیک جنبش قلم واپس لے لئے تو اس کے خلاف رضاکاروں نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ صحیح تعداد کا ہمیں علم نہیں لیکن خود وزیر اعلی نے ہی بتایا تھا کہ ان کے خلاف 20 ہزار مقدمات عاید کئے گئے تھے۔
اسی طرح مغربی یوپی کے مظفر نگر میں 2013 میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں جو لوگ ملوث تھے ان پر سے بھی حکومت نے 12 جنوری 2021 کو مجرمانہ مقدمات ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
25 اگست کواس کے خلاف سپریم کورٹ نے سخت ناگواری کا اظہار کیا۔ "عدالت دوست" مسٹر ہنساریا کی رپورٹ پر چیف جسٹس کی بنچ نے ایک اہم فیصلہ کرکے تمام ریاستوں کو پابند کردیا ہے کہ وہ متعلقہ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ممبران پر عاید کوئی بھی مجرمانہ مقدمہ ختم نہیں کر سکتیں۔ مظفر نگر کے فسادات میں 65 افراد کا قتل ہوا تھا اور 20 ہزار افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ اس میں ایک ایم ایل اے،ایک ایم پی اور ایک وزیر کے خلاف مقدمہ قائم ہے۔


جسٹس اوکا نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے درجنوں ماخوذ افراد کو رہا کرنے کے احکامات دئے اور کسی بھی قانون کے خلاف احتجاج کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے پولیس کی گرفت کی۔ یہ جسٹس اوکا ہی تھے جنہوں نے کرناٹک پولیس کے اس عمل پر گرفت کی جس کے تحت یونیفارم پہن کر اور ہاتھوں میں ہتھیار لے کر تفتیش کار پولیس والوں نے شاہین اسکول کے ایک کم عمر طالب علم سے تفیش کی تھی۔
اس کے خلاف جسٹس اوکا نے کمشنر تک کو لعن طعن کی اور وضاحت طلب کی کہ اس نے اپنے حلف نامہ میں اس فوٹو کا حوالہ دے کروضاحت کیوں نہیں کی جس میں وردی پوش پولیس والے ہاتھوں میں ہتھیار لے کر اس بچہ کو گھیرے ہوئے بیٹھے ہیں۔


آپ کو یاد ہوگا کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے دوران شاہین اسکول کے بچوں نے بھی ایک پروگرام پیش کیا تھا۔ اس پروگرام کے خلاف شرپسندوں کے دباؤ میں آکر بیدر پولیس نے ایف آئی آردرج کر لی تھی۔ جسٹس اوکا نے تبلیغی جماعت کے خلاف جاری مہم پر بھی قدغن لگائی تھی اور متعدد ماخوذ مسلمانوں کو رہا کیا تھا۔
اسی طرح انہوں نے حکومت کی اس کوشش پر بھی "بریک" لگادیا تھا جس کے تحت وہ کرناٹک کی مسجدوں میں مائک پر ہونے والی اذان پر پابندی لگانا چاہتی تھی۔ جسٹس اوکا نے کہا کہ کسی ایک خاص مذہب کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہرچند کہ حکومت کے وکیل نے کہا کہ یہ ضابطہ کسی ایک خاص مذہب کے لوگوں کیلئے نہیں بنایا گیا ہے لیکن عدالت نے کہا کہ ہم خوب سمجھتے ہیں۔ یہاں کرناٹک کے مسلمانوں کی ستائش کی جانی چاہئے جنہوں نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خود ہی لاؤڈ اسپیکرس کا "ڈیسبل پوائنٹ" کم کر کے آواز دھیمی کر دی۔


لطیف نکتہ یہی ہے کہ ہم اچھے ججوں کے لئے جہاں ایک طرف دعا کریں وہیں خود بھی ایک دو قدم آگے بڑھ کر اپنے طرز عمل میں کچھ اصلاحات کریں۔ بروں کے درمیان بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔
ضرورت خود کو اچھا بنانے کی ہے!!


***
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 4 ستمبر 2021ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Column: M. Wadood Sajid. The need is to improve oneself.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں