ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 06 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-30

ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 06

neeli-dunya-siraj-anwar-06

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
فیروز اپنی ٹیم اور جان کے ہمراہ امریکہ پہنچ گیا۔ جتنا عرصہ وہ لوگ وہاں مقیم رہے لیباریٹری میں راکٹ تیار ہوتا رہا۔ پہلے یہ خیال تھا کہ راکٹ جلد تیار ہو جائے گا۔ مگر پھر پتہ چلا کہ انہیں تقریباً دو ماہ تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اس دوران اچانک ایک رات اختر اور سوامی غائب ہو گئے۔ جب سوامی کو ڈھونڈا گیا تو ہم لوگوں نے دیکھا کہ اندھیری رات میں اوپر سے نیچے ڈالی جانے والی ایک چمکیلی سبز روشنی کے بالکل درمیان وہ اپنا مونہہ اونچا کئے کھڑا تھا۔ پھر اختر بھی کسی اور جگہ سے نکل کر ان کے پاس آ گیا۔ اور اختر نے سوامی پر راکٹ کا فارمولا چرانے کا الزام دھر دیا۔۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔

"اختر کو کچھ نہیں ہوا، وہ محفوظ ہے، میں نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
"وہ۔۔وہ محفوظ ہے!" سوامی کی آنکھیں حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔
"ہاں وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا کتاب پڑھ رہا ہے۔"
"کتاب پڑھ رہا ہے!" سوامی خوف و دہشت کے باعث چونک کر پیچھے ہٹ گیا اور پھر بڑبڑایا۔ "بھگوان کرے ایسا ہی ہو۔"


"میں تم سے پوچھ سکتا ہوں کہ تم اس طرف کیوں آئے تھے؟" جیک نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
سوامی نے بھی جیک کے لہجے کی تلخی محسوس کر لیا۔ کچھ دیر تک وہ سوچتا رہا اور پھر بولا: "میں بابا کو دیکھنے آیا تھا۔"
"جھوٹ نہ بولو۔۔۔" جیک نے چیخ کر کہا:
"ہم کافی دن سے تمہاری حرکتیں دیکھ رہے ہیں۔ تم نے ہم سے بے شک یہ جھوٹ بول دیا ہو کہ کچھ دن پہلے جب آج جیسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، تم اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلے تھے۔ لیکن آج تمہاری قلعی کھل گئی ہے۔ تمہیں آج بتانا ہی پڑے گا کہ آخر یہ کیا چکر ہے؟ تمہیں بتانا ہی پڑے گا کہ تم اس سبز روشنی میں کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے۔ یہ روشنی کہاں سے آتی ہے۔ تم کیا چاہتے ہو اور تم نے وہ فارمولا کیوں چرایا ہے۔ نظریں نہ جھکاؤ، میری طرف دیکھ کر بات کرو۔۔ آج تمہیں بتانا ہی پڑے گا۔۔ سب کچھ بتانا پڑے گا۔"


کچھ دیر کے لئے بالکل سناٹا چھا گیا۔ اس سناٹے میں ہمیں اپنے دل کی دھڑکنیں بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔ سوامی نے سب باتیں بڑے سکون اور توجہ سے سنیں۔ اس کے چہرے پر ایک لمحے کے لئے مسکراہٹ کھل گئی اور مجھے اس کی یہ مسکراہٹ زہر لگنے لگی۔ اب، مجھے اس کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے۔ کہ میں سوامی پر مکمل شبہ کرنے لگا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ سوامی نے ہی فارمولا چرایا تھا اور پھر کسی نامعلوم ذریعہ سے فارمولا اس نے کسی کو پہنچا دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ذریعہ وہی سبز روشنی ہو جو آسمان سے اس پر آکر پڑی تھی، جیسی ابھی کچھ دیر پہلے اس نامعلوم شخص پر پڑ رہی تھی۔جو اچانک غائب ہو گیا تھا۔ مجھے فوراً یہ خیال بھی آیاکہ آخر والٹر کے کمرے سے آنے والی وہ روشنی کیسی تھی ، جس کا سبز روشنی سے ملاپ ہوتے ہی ایک تڑاخا سنائی دیا تھا؟


اپنے اس سوال کا جواب بھی مجھے فوراً مل گیا۔ کیوں کہ میں نے دیکھا کہ کارخانے کی طرف سے والٹر اسمتھ کچھ گارڈز کے ساتھ ہماری ہی طرف آ رہا تھا۔ سوامی نے بھی اسے آتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر پیدا ہوا اور پھر وہ ہاتھ جوڑ کر مجھ سے کہنے لگا:
"مالک! بھگوان کے لئے مجھ سے کچھ نہ پوچھئے۔ آپ بے شک مجھے چور سمجھئے، لیکن اپنے سے علیحدہ نہ کیجئے گا۔ میں خطاوار تو ضرور ہوں مگر اتنا نہیں جتنا کہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو سب کچھ بتا دوں گا لیکن فی الحال آپ ، جیک اور جان صاحب مجھے شک کی نظروں سے نہ دیکھیں بس میں یہی چاہتا ہوں۔"


ٹارچ کی روشنی سوامی کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں سچ کی جھلک دیکھی۔ میرا دل اس کی طرف سے ابھی تک صاف نہیں ہوا تھا۔ مگر نہ جانے وہ کون سی طاقت تھی جو مجھے سوامی کی بات مان لینے پر مجبور کر رہی تھی۔ میں اسے وہیں چھوڑ کر والٹر سمتھ کی طرف بڑھا۔ والٹر سوامی کو خوف ناک نظروں سے گھور رہا تھا۔ شاید اس نے گارڈز کو پہلے ہی ہدایت کر دی تھی۔ اسلئے گارڈز نے اپنی بندوق کا رخ سوامی کی طرف کر رکھا تھا۔
"خدا کا شکر ہے مسٹر جان کہ میں وقت پر آ گیا ہوں۔" والٹر نے کہنا شروع کیا:
"اگر میں نے اپنی جی ایل شعاع استعمال نہ کی ہوتی تو آپ کا یہ آدمی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہوتا۔"
"کون سی شعاع۔۔ اور اس کے استعمال کرنے کا کیا مطلب ہے؟"
"میں عرض کرتا ہوں۔" اسمتھ نے سوامی کو گھورتے ہوئے کہا:
"میں کئی دن سے اپنی کھڑکی سے ایک سبز رنگ کی روشنی دیکھ رہا ہوں جو اس مقام پر آسمان سے گرتی تھی۔ میں آپ کی زبان سے پہلے بھی یہ سب باتیں سن چکا تھا اس لئے میں نے لگاتار تین دن کی محنت کے بعد یہ جی ایل شعاع ایجاد کی۔ مجھے علم تھا کہ سوامی حسب معمول آج رات کو پھر یہاں آئے گا اور سبز روشنی میں کھڑا ہو کر ان نامعلوم قوتوں سے بات کرے گا۔ میں اپنی شعاع کا تجربہ پہلے ہی کرچکا تھا ، اس لئے آج جیسے ہی سوامی اس روشنی میں کھڑا ہوا، میں نے کھڑکی میں سے اپنی شعاع سبز چمکیلی روشنی پر ڈالی اور امید کے مطابق سبز روشنی فضا میں ختم ہو گئی۔ میں نے اس روشنی کو ختم کر دیا ہے۔ اب شاید وہ ہرگز اس مقام پر نہیں پڑ سکے گی۔"


"آپ کی یہ شعاع واقعی بڑی کارآمد ہے۔" جان نے کہا: " میں آپ کو داد دیتا ہوں۔"
"لیکن۔۔" میں نے تذبذب کے لہجے میں کہا:
" اس روشنی میں ایک سایہ بھی تو کھڑا ہوا تھا۔ وہ کہاں گیا؟"
"مالک۔۔۔ میرے مالک۔" سوامی نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ گرم جوشی سے تھام لیا، گویا کہنا چاہتا ہو کہ آپ نے بڑی اہم بات پوچھی ہے۔
"سایہ!" والٹر اسمتھ نے سوامی کو گھورتے ہوئے کہا۔ "روشنی میں سایہ کہاں تھا۔۔ وہ تو یہی سوامی تھا!"
"جی نہیں۔۔ ہم لوگوں نے خوب غور سے دیکھا ہے ، سوامی تو در اصل اس سائے کو پکڑنا چاہتا تھا جو روشنی میں کھڑا آسمان کی طرف ہاتھ اور مونہہ اٹھائے کسی سے مخاطب تھا۔"
"کیا کہہ رہے ہیں مسٹر فیروز!" والٹر اسمتھ کا مونہہ حیرت کے باعث کھلا کا کھلا رہ گیا۔


"مالک ٹھیک کہہ رہے ہیں۔" سوامی نے ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا۔ "میں اس سائے کو پکڑنا چاہتا تھا۔ مگر اتنی دیر میں آپ کی شعاع اس پر پڑی اور پھر وہ فضا میں تحلیل ہو گیا۔"
" تو کیا تمہیں علم تھا کہ سبز روشنی میں کوئی سایہ موجود ہے، اور کیا تم اپنے کمرے میں سے اسی غرض سے دوڑتے ہوئے یہاں آئے تھے کہ اس سائے کو پکڑ سکو؟"جان نے سوامی سے دریافت کیا۔
"مجھے سب علم ہے جناب۔۔ مگر مجھ سے کچھ پوچھئے نہیں ، میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میری زبان اس وقت خود بخود بند ہو جاتی تھی ، جب میں سبز روشنی کا کوئی راز کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں تو صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ تین کام بہت جلد انجام دیں۔ پہلے تو راکٹ اور اس کے فارمولے کو غور سے دیکھیں کہ اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہوئی۔ راکٹ کو باقاعدہ چیک کریں۔ دوسرا یہ کہ بابا کا بہت زیادہ خیال رکھیں اور نگرانی کریں اور تیسرا سب سے ضروری کام یہ کہ فوراً راکٹ کے ذریعے اپنی مہم پر روانہ ہو جائیں۔۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔"
سوامی اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ اچانک اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ جلد ی سے اس نے اپنے سر کو پکڑ لیا، تکلیف کی وجہ سے اس نے دانت بھینچ لئے۔۔ ایک دو بار لہرایا اور پھر دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔


ہم لوگوں نے دوڑ کر اس کو اٹھایا اور اسے ہاتھوں پر سنبھالے ہوئے کمرے میں آگئے۔ وہ ابھی تک بے ہوش تھا۔ ہماری آمد کی خبر سن کر اختر بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آیا اور سوامی کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ سچ پوچھئے تو حیرت کی بات بھی تھی جب سے ہم امریکہ آئے تھے ہر قدم پر ایک نیا اچنبھا ہمارا منتظر تھا۔ ہمیں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا اور اچانک کوئی نئی بات یا نیا حادثہ رونما ہو جاتا تھا !
اختر کے دریافت کرنے پر اسے پوری باتیں بتائی گئیں۔ پہلے تو یہ باتیں سن کر اس نے پہلے ہی کی طرح سوامی پر شبہ ظاہر کیا اور مجھ سے کہا کہ میں تعلقات اور خدمت کی پروا کئے بغیر اسے فوری نوکری سے الگ کردوں لیکن جب میں نے اسے یہ بتایا کہ سوامی درحقیقت اس پر اسرار سائے کو پکڑنا چاہتا تھا جو سبز روشنی میں کھڑا ہوا تھا تو اختر بہت حیران ہوا۔ پہلے تو اسے یقین ہی نہیں آیا مگر بعد میں جب جان اور جیک نے بھی یہی بات کہی تو وہ خاموش ہو گیا۔


میں خاموشی سے ٹکٹکی باندھے بے ہوش سوامی کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آخر اس نے یہ کیوں کہا تھا کہ میں اس پر شبہ نہ کروں، اختر کا بہت زیادہ خیال رکھوں اور یہ دیکھوں کہ راکٹ کے فارمولے میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہوئی؟ والٹر کچھ دیر تک تو سوامی کے ہوش میں آنے کا انتظار کرتا رہا۔ اور پھر اس کی طرف سے ناامید ہوکر واپس اپنی لیبارٹری میں چلا گیا۔ ادھر ہم آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ جان نے کافی دیر کی خاموشی کے بعد کہا:
"میں سمجھتا ہوں کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کچھ قوتیں یہ چاہ رہی ہیں کہ ہم اپنی پرواز روک دیں۔"
"مگر اس طرح تو ہمارا مشن ادھورا رہ جائے گا!" میں نے جلدی سے اعتراض کیا۔
"اور پھر امجد اور نجمہ کی زندگی کا بھی سوال ہے۔" جیک نے کہا۔
"مجھے اب نجمہ اور امجد کی زندگیاں اتنی پیاری نہیں رہیں جتنی آپ سب حضرات کی ہیں۔" زرینہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہنا شروع کیا:
"جب سے آپ لوگوں نے اوپر خلا میں جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ یہ رکاوٹیں خواہ کوئی پیدا کر رہا ہو، لیکن اب ہمیں اس کی بات ماننی ہی پڑے گی اور اپنا ارادہ ترک کرنا پڑے گا۔"
میں نے حیرت سے پلٹ کر زرینہ کو دیکھا کہ آخر وہ اتنی عجیب بات کیوں کہہ رہی ہے؟ میں نے فوراً اس سے سخت لہجے میں کہا۔ "زرینہ تم اپنے ہوش میں تو ہو، جانتی ہو کیا کہہ رہی ہو؟"
"جانتی ہوں، اچھی طرح جانتی ہوں۔" زرینہ روتے ہوئے کہنے لگی۔ "میں دو کی زندگی بچانے کے لئے آپ سب کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی! اختر پر شروع ہی سے آفتیں آ رہی ہیں ، میں نہیں چاہتی کہ اب وہ بھی مجھ سے چھین لیا جائے۔"


کمرے میں یہ بات سن کر سناٹا چھا گیا۔ ہم ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اب کیا کہیں؟ آخر جان کرسی سے آہستہ سے اٹھا اور زرینہ کے پاس پہنچ کر اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا۔ "میں تمہاری حالت کو اچھی طرح جانتا ہوں بیٹی، لیکن تم فکر مند نہ ہو۔ اللہ نے چاہا تو ہم پرواز بھی کریں گے اور کامیاب بھی ہوں گے۔"
"مگر۔۔۔ مگر اختر! "زرینہ فقرہ مکمل بھی نہ کر سکی کہ اچانک پھر رونے لگی۔
"اختر کا ذرا سا بھی بال بیکا نہ ہوگا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ اختر پر کوئی مصیبت نازل ہوئی تو میں سب سے پہلے اس مصیبت کو اپنے اوپر لے لوں گا۔"
پھر ہم سب نے باری باری زرینہ کو تسلی دی۔ آخر اس کی کچھ ڈھارس بندھی۔ اس عرصے میں سوامی کو ہوش آ چکا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اور شاید یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آ چکا ہے۔ ہم نے اس سے کچھ پوچھنا چاہا مگر وہ خاموش رہا۔ پھر اس نے عجیب سی نظروں سے ہمیں دیکھا اور بولا۔ "ہم لوگ کب اپنے سفر پر روانہ ہوں گے؟"
"راکٹ تیار ہو چکا ہے ، پرسوں ہمارا یہ سفر شروع ہو جائے گا۔" جان نے جواب دیا۔ "کیوں کیا بات ہے؟"
سوامی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک لمبی سی ٹھنڈی سانس بھری اور چپ چاپ اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔


وہ دن بھی آہی گیا جس کا ہم سب بڑی بے چینی اور بے قراری سے انتظار کر رہے تھے۔ راکٹ تیار ہو چکا تھا اور ہمیں سفر کی ابتدائی مشق کے لئے لیباریٹری میں بلایا گیا تھا۔ یہ مشق مختلف قسم کے آلات میں بیٹھ کر چکر کھانے ، لٹکنے اور تیز رفتاری سے گھومنے سے شروع ہوئی۔ ہمیں خلائی سوٹ پہنائے گئے۔ یہ لباس خاص قسم کے کپڑے سے بنایا گیا تھا۔ ہمارے سر پر ایک پلاسٹک کا خول رکھ دیا گیا تھا ہم اس خول سے باہر کی چیزیں دیکھ سکتے تھے۔ اور دوسروں کی آوازیں بھی صاف طور سے سن سکتے تھے۔


اصولاً تو ہمیں کئی ماہ پہلے سے یہ تیاریاں کرنی چاہئے تھیں لیکن جان نے ہمیں بتایا تھا کہ راکٹ جس قسم کا بنایا گیا ہے اور اس میں جس طرح کے کل پرزے استعمال کئے گئے ہیں ، ان کی موجودگی میں یہ ضروری نہیں کہ ہم لوگ اس قسم کی مشقیں کریں جو خلائی سفر کے مسافروں کے لئے بے حد ضروری ہوتی ہیں۔ جان نے کہا تھا کہ راکٹ کا فارمولا اتنا عمدہ ہے کہ ہمیں اپنے راکٹ میں گھر کا سا آرام ملے گا۔ ہم خلائی سوٹ کے بغیر راکٹ کے کیبن میں ادھر اُدھر گھوم پھر سکیں گے اور زمین کی کشش سے نکل جانے کے بعد بے وزنی کی کیفیت ہمیں زیادہ پریشان نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ ہمیں پانی کی بھی تکلیف نہیں ہوگی۔ راکٹ میں مختلف گیسیں بنانے کا معقول انتظام ہے اور ہم گیسوں کو ملا کر پینے کا پانی آسانی سے فراہم کر سکیں گے۔


یہ بات ہماری سمجھ میں آسانی سے اس لئے آگئی کہ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ راکٹ کا فارمولا زہروی سائنس داں شاگو کا بھیجا ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ زہرہ کے لوگ سائنس میں ہم دنیا کے لوگوں سے بہت آگے ہیں۔
تقریباً آٹھ گھنٹے تک ہم خلائی سفر کی مشق کرتے رہے ، والٹر اسمتھ نے ہمیں اپنے اگلے سفر کی مشکلات بتاتے ہوئے کہا: "جن خاص قسم کی گیسوں کا ذکر فارمولے میں کیا گیا ہے وہ گیسیں میں نے فیول چیمبر میں بھروا دی ہیں۔"
"وہ تو ٹھیک ہے۔۔ لیکن مجھے راکٹ کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔" میں نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"نظر بھی کیسے آ سکتا ہے جب کہ راکٹ یہاں ہے ہی نہیں۔"
"پھر کہاں ہے؟"
"راکٹ تیار ہوچکا تھا، راتوں رات وہ یہاں سے لے جایا گیا اور اب وہ میامی بیچ کے پاس پرواز کرنے کے لئے تیار کھڑا ہے۔"جان نے مسکرا کر جواب دیا۔
"جی ہاں۔۔۔ مسٹر فیروز۔"والٹر نے کہا: "کل صبح پانچ بج کر چالیس منٹ پر وہ وہاں سے داغا جائے گا اور اس کی پرواز کی خبر پوری دنیا میں کسی کو نہ ہو سکے گی۔ میں نے اس کا مکمل انتظام کر لیا ہے۔"
"کسی کو بھی خبر نہ ہوگی؟" میں نے گھبرا کر دریافت کیا۔
"صرف میری لیباریٹری میں کام کرنے والوں کو سب باتیں معلوم ہوں گی۔" والٹر نے جواب دیا۔
"صرف وہی لوگ جان سکیں گے کہ ہم خلا میں کہاں اور کس مقام کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی مشکل پیش آگئی تو زمین کے یہ لوگ ہماری کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔"
"ہماری۔۔۔!" میں نے تعجب سے والٹر کو دیکھ کر پوچھا:
"آپ یہ لفظ ہماری کیوں استعمال کر رہے ہیں؟"
"اس لئے کہ میرے عزیز دوست والٹر اسمتھ بھی ہمارے ساتھ جا رہے ہیں ، فیروز!" جان نے بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"کیا واقعی؟" میں یہ سن کر خوشی کے مارے اچھل پڑا۔


" جی ہاں۔ میں نے اور میرے دوست جان نے میری روانگی کو ابھی تک راز ہی رکھا تھا۔ چونکہ میں نے یہ راکٹ بنایا ہے اور میں ہی اس کے کل پرزوں سے خوب اچھی طرح واقف ہوں۔ اس لئے جب جان نے مجھ سے چلنے کے لئے کہا تو میں انکار نہ کر سکا۔ ایک تو یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے کہ راستے میں راکٹ میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے اور تب وہاں میری ضرورت پیش آئے۔ دوسرے اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی اس مہم میں شامل ہونے کے بعد میں بھی آپ کی کوئی مدد کر سکوں۔"
"یقین مانئے گا ہمیں یہ جان اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ ہم اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔" جیک کی بھی بانچھیں کھلی جا رہی تھیں۔
"میں آپ کے اس جذبے کی دل سے قدر کرتا ہوں مسٹر جیک۔" والٹر اسمتھ نے کہا:
"اور اب آپ سب حضرات کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ آپ آرام کریں تاکہ کل صبح پرواز کا کام بخیر و خوبی پورا ہوسکے۔ مشق آپ لوگ کرہی چکے ہیں، بس ایک بات کا خیال رکھنا ہے کہ آپ کے نامعلوم دشمن اس مقام کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ ان سے ہر وقت ہوشیار رہیں۔"


"ہماری کوشش تو یہی ہے والٹر۔" جان کے چہرے پر افسردگی پھیل گئی۔ "اب تک وہ ہمیں کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔"
"اس کے باوجود اب بھی کوئی ہماری راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔۔" جیک نے کہا۔
"بہرحال ہم احتیاط کے طور پر ایک ہی کمرے میں آرام کریں گے۔" میں نے جواب دیا۔ " اور رات بھر ہم میں سے ایک شخص باری باری جاگ کر پہرہ دیتا رہے گا۔"
"ہاں یہ خیال بہت عمدہ ہے۔" والٹر نے خوش ہو کر کہا۔ "اچھا، میں اب چلتا ہوں، مجھے انجینئروں کو کچھ ہدایات دینی ہیں۔"


والٹر کے جانے کے بعد ہم دیر تک اپنے اگلے سفر کے بارے میں سوچتے رہے۔ کتنا عجیب اور مشکل سفر ہوگا۔ امریکہ کے کئی جانباز اب تک خلائی سفر کر چکے ہیں۔ اس سفر کی ابتدا روس کے یوری گگارن نے کی تھی اور پھر امریکہ کے مختلف خلا بازوں نے چاند تک سفر کیاتھا۔ مریخ سیارے تک بھی ایک چھوٹا سا جہاز روانہ کیا گیا تھا جو تقریباً پانچ یا چھ مہینے میں مریخ کے قریب سے ہوکر گزرا تھا۔ چھ ماہ کا طویل عرصہ مریخ تک پہنچنے میں!
اور سیارہ زہرہ تک پہنچنے کے لئے کتنا وقت درکار ہوگا؟
یہ باتیں سوچ کر میرا دل اندر ہی اندر بیٹھا جاتا تھا۔ جب میں نے اپنے خدشات کا تذکرہ جان سے کیا تو اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا: "تم ناحق پریشان ہوتے ہو فیروز ! خلاء کا سفر اب نہ تو کوئی معمہ رہا ہے اور نہ بے حد مشکل کام۔ پچھلے دنوں زمین سے چاند تک جن لوگوں نے پرواز کی تھی تم ان سے سبق کیوں نہیں لیتے؟"
"مگر وہ لوگ بھی تو چاند تک تقریباً چار دن میں پہنچے تھے۔ سیارہ زہرہ تک نہ جانے ہم کب پہنچیں گے ؟"
"ناامید کیوں ہوتے ہو؟" جان نے پھر مجھے تسلی دی:
"اول تو یہ سفر میرے نزدیک کچھ مشکل ہے نہیں۔ مشکل صرف اپنی زمین کے دائرہ کشش سے نکلتے وقت پیش آتی ہے۔ راکٹ کو ہماری زمین کی کشش اپنی طرف کھینچے گی اور راکٹ اس کشش سے دامن چھڑانے کی کوشش کرے گا۔ اس وقت ہمارے دل اندر ہی اندر ڈوبتے جائیں گے۔ زمین کی کشش سے آزاد ہونے کے بعد ہم خلا میں ہوں گے۔ یہ ایک خالی اور کالا خول ہوگا جس کا کنارہ کسی انسان نے آج تک تلاش کیا ہے اور نہ کبھی کرے گا۔ اس اندھیرے خلا میں ہمارا راکٹ ایک تنکے کی طرح نامعلوم سمت میں بہا چلا جائے گا۔ جسے میں خلاء کہہ رہا ہوں وہ ہمیں اپنی زمین سے نیلی دنیا کی طرح نظر آتا ہے۔"


"کیوں۔۔ نیلی دنیا کی طرح کیسے نظر آتا ہے؟" میں نے جان کی باتیں غور سے سننے کے بعد دریافت کیا۔
"ہماری زمین کو خدا نے ہوا کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ ہوا کا غلاف ہماری گیند جیسی دنیا پر ہر سمت موجود ہے۔ کسی اور سیارے پر ہوا نہیں ہے۔ ہوا میں جو خاک کے ذرے ملے ہوئے ہیں ان کے جمع ہونے سے ہمیں خلاء نیلا نظر آتا ہے۔ اسے یوں سمجھو کہ اگر ہماری زمین پر ہوا نہ ہوتی تو آسمان ہمیں زمین سے نیلا نہیں بلکہ کالا نظر آتا، بالکل اسی طرح جیسے چاند سے خلاء بالکل کالا نظر آتا ہے۔"
"ہاں، کیوں کہ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ چاند پر ہوا نہیں ہے۔" میں نے جلدی سے کہا۔
"بالکل، اس لحاظ سے ہم لوگ جس نیلی دنیا کا سفر کریں گے درحقیقت وہ کالی دنیا ہوگی۔ ایک حیرت انگیز ، کبھی نہ ختم ہونے والے گہرے اور کالے رنگ کا گڑھا جس میں جگہ جگہ کروڑوں چمکتے ہوئے اور دمکتے ہوئے ستارے لٹکے ہوئے ہوں گے اور ان ستاروں میں سے ایک ستارہ زہرہ ہماری منزل مقصود ہوگا۔"


"لیکن میں اس اندھیرے سے نہیں گھبرا رہا ہوں ، میں تو اتنے لمبے سفر اور طویل وقت سے گھبرا رہا ہوں۔"
"تم بھول گئے ہو کہ راکٹ کا فارمولا شاگو نے ہمیں بھیجا ہے اور وہ لوگ سائنس میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ خود والٹر نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ جس انداز اور جس طریقے سے یہ راکٹ بنا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زہرہ تک پہنچنے میں وہ بہت زیادہ وقت نہیں لے گا۔ ہو سکتا ہے کہ چھ مہینے کے بجائے صرف چھ دن ہی درکار ہوں۔"
جان کی بات سن کر میں بہت خوش ہوا اور پھر بولا۔ " ہاں اگر اتنا وقت لگتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔"
"میں یقین کے ساتھ کس طرح کہہ سکتا ہوں۔"جان نے مسکرا کر کہا: "یہ تو کل کی پرواز سے ہی پتہ لگے گا۔ اب تم پہرہ دینے کے لئے تیار ہو جاؤ تاکہ میں تھوڑا سا سو سکوں اور خود کو کل کے سفر کے لئے تیار کر سکوں۔"


رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹ گئی، صبح ہونے کے بعد ہم لوگ میامی بیچ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اختر اور سوامی حسب عادت چپ تھے ، میرا دل لرز رہا تھا اور خاموش دعا مانگ رہا تھا کہ خدا ہمیں ہر مصیبت اور آفت سے بچائے رکھے۔ ممکن ہے آپ حضرات پڑھ کر ہنسیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی قربان گاہ پر لے جایا جا رہا ہے۔ ہم سات آدمی خلائی سوٹ پہنے ہوئے آہستہ آہستہ اس طرف بڑھ رہے تھے جہاں کئی سو پونڈ وزنی وہ راکٹ ایک دیو کی طرح مونہہ اونچا کئے ہوئے کھڑا تھا۔ یہ راکٹ ایک بہت اونچے پلیٹ فارم سے سہارا لئے ہوئے کھڑا تھا۔ اس کے سب سے اوپر والے حصے میں وہ کیبن فٹ تھا جس میں ہم لوگوں کو پہنچنا تھا۔ سہارے والے پلیٹ فارم کے ساتھ ایک لفٹ نصب تھی جو ہمیں کیبن میں لے جانے کے لئے بالکل تیار تھی۔


پہلے میں سمجھا تھا کہ وہاں ہمارے اور چند انجینئروں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا۔۔ مگر اب معلوم ہوا کہ ہوائی، بری اور بحری فوج کے کافی جوان پہلے ہی سے موجود تھے۔ کیوں کہ ہماری پرواز امریکہ کی خلائی انجمن 'این اے ایس اے' سے تعلق نہیں رکھتی تھی اور ہم جس مشن پر جا رہے تھے اسے دوسروں سے چھپایا گیا تھا ، اس لئے ہر شخص ہمیں حیرت اور تعجب سے دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ: "نہ تو اخبار میں آیا اور نہ ہی سرکاری طور پر اعلان کیا گیا ، پھر آخر یہ سات آدمی کون ہیں جو ایسے جان جوکھم والے کام کے لئے تیار ہو گئے ہیں؟"


اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ راکٹ کی پرواز میں ابھی چالیس منٹ کا وقفہ تھا۔ فوجی ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے اور ہم ان کی گرمجوشی کا جواب مسکراہٹ سے دیتے ہوئے لفٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لفٹ کا دروازہ خود بخود کھل گیا تھا اور ہم سے اب اس کا فاصلہ تقریباً بیس فٹ رہ گیا تھا۔ ہمارے اگلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی اچانک ایک زبردست دھماکہ ہوا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے لفٹ کے پرخچے اڑ گئے۔ فولاد کے ٹکڑے بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اڑے اور ان کی چوٹ سے بچنے کے لئے ہم لوگ جلدی سے زمین پر لیٹ گئے۔ دھماکے کے ساتھ ہی شعلے بھی لپکنے لگے اور اس سے پہلے کہ آگ بجھانے والے انجن موقع پر پہنچے آگ زیادہ بھڑک اٹھی۔ غصے کے مارے جان کی بری حالت تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ کام ہمارے دشمن کا ہی ہو سکتا ہے۔ دشمن گوشت پوست کا انسان ہو تو آدمی اس سے نمٹ بھی لے، لیکن نہ دکھائی دینے والی قوتوں سے بھلا کون ٹکر لے سکتا ہے !


جان نے چیخ چیخ کر مائیکرو فون پر احکامات دینے شروع کر دئے۔ وہ فوجوں کو حکم دے رہا تھا کہ وہ بھی آگ بجھانے میں لگ جائیں۔ مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ آگ بڑی تیزی سے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ یہ لوگ آگ سے بچنے کے لئے پیچھے ہٹتے جارہے تھے۔ زرینہ نے اختر کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور سوامی حسب عادت اختر کی پشت پر تھا۔ جیک اس وقت زمین پر جھکا ہوا کوئی چیز اٹھا رہا تھا۔ دراصل وہ لفٹ کے دروازے کا ہینڈل تھا، اس ہینڈل پر کسی کی انگلیوں کے نشان صاف نظر آ رہے تھے۔ جس کس نے بھی لفٹ کو کھولا تھا ، شاید اس کے ہاتھ میں نمی تھی یا پھر تیل لگا ہوا تھا۔ اسی لئے ہینڈل پر وہ نشان بہت صاف تھے۔ جیک نے جب یہ ہینڈل جان کو دکھایا تو وہ بڑا حیران ہوا اور پھر اس نے ایک انجینئر کو اشارے سے اپنے قریب بلا کر کہا کہ وہ جلدی سے لیباریٹری میں جائے اور انگلیوں کے نشانات دیکھنے والے ماہروں سے یہ معلوم کر کے بتائے کہ وہ نشانات کس کے ہیں؟ کوئی باہر کا آدمی ہے یا اس کی پارٹی کے لوگوں میں سے کسی کے ہیں؟
وہ انجینئر تو فوراً چلا گیا۔ مگر اب ایک عجیب بات ہوئی۔ آگ بڑھتے بڑھتے اس مقام تک پہنچ گئی جہاں راکٹ کھڑا تھا۔ راکٹ کی دم سے آگ تقریباً پانچ سو گز دور تھی، پوری کوشش اور احتیاط کے باوجود بھی فائر بریگیڈ آگ پر قابو نہ پا سکا تھا۔ یہ دیکھتے ہی جان کا ماتھا ٹھنکا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا والٹر اسمتھ نے تقریباً چیخ کر کہا:
"جان راکٹ کو بچاؤ۔۔ آگ کا رخ اس کی طرف ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خود بخود اڑ جائے۔"


"میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ تم ہی کچھ سوچو۔۔۔"جان نے آگ کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔
"راکٹ اگر اڑ گیا تو ہماری محنت اکارت جائے گی۔"جیک نے گھبرا کر کہا۔
"میرے خیال میں ہم لوگ یہاں سے دور ہٹ جائیں۔" اختر بولا۔ "کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راکٹ ہی پھٹ جائے؟"
"نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔" جان نے دانتوں پر دانت جماتے ہوئے کہا: "میں دشمنوں کی چال ہرگز کامیاب نہ ہونے دوں گا۔ سمجھتے ہو والٹر، وہ کیا چاہتے ہیں؟"
"کیا چاہتے ہیں؟"
"ان کا منشا یہ ہے کہ جب ہم لوگ لفٹ میں سوار ہوں تو پوشیدہ طور پر رکھا ہوا بم آپ ہی آپ پھٹ جائے۔ ہم تباہ ہو جائیں اور پھر آگ کی وجہ سے ہمارا رات دن کی محنت کے بعد تیار کیا ہوا یہ راکٹ خود بخود ہوا میں اڑ جائے۔ اور اس طرح نہ ہم رہیں نہ راکٹ اور نہ فارمولا۔ کیوں۔۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟"
"واقعی بڑی کامیاب چال ہے۔"جان کی آنکھیں شعلے اگلنے لگیں۔
"لیکن میں اس چال کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔" اتنا کہہ کر جان جلدی سے انجینئروں کی طرف بڑھا اور ان سے کچھ کہہ کر پھر ہماری طرف واپس آگیا۔ بار بار وہ آگ کو دیکھتا جاتا تھا کہ شعلے راکٹ تک پہنچے تو نہیں، مگر خدا کا شکر ہے کہ ابھی آگ راکٹ کے نچلے حصے سے کافی دور تھی۔
اچانک ہمارے سروں پر ایک ہیلی کوپٹر کی گرج سنائی دی۔ یہ ہیلی کاپٹر نیچے اتر رہا تھا۔ جیسے ہی وہ زمین پر ٹکا جان نے مائیک پر کہا:
"دنیا والوں کو ہمارا سلام، دوستو! اور ساتھیو! ہماری کامیابی کی دعا کرنا۔ خدا نے چاہا تو ہم جلد واپس آئیں گے۔"


اتنا کہہ کر اس نے پھر ہمیں حکم دیا کہ ہم فوراً ہیلی کاپٹر میں بیٹھ جائیں۔ ہیلی کوپٹر میں بیٹھنے سے پہلے ہم نے دیکھا کہ اب آگ راکٹ کے نچلے حصے تک پہنچ گئی ہے اور اس جگہ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہوں گے کہ راکٹ دراصل پٹرول وغیرہ سے نہیں بلکہ مختلف گیسوں کے آپس میں ملنے اور شعلہ پیدا کرنے سے اڑتا ہے۔ اس خاص قسم کے راکٹ میں بھی ایسی ہی کچھ گیسیں بھری ہوئی تھیں۔ شاگو کے کہنے کے مطابق اس راکٹ کے فیول چیمبر میں سوبیا دھات بھی ڈالی گئی تھی۔ (سوبیا دھات کے بارے میں آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ یہ میرے پہلے سفر میں تلاش کی گئی تھی اور زہرہ کے لوگوں کے لئے یہ دھات ویسا ہی کام کرتی تھی جیسا ہمارے لئے ایٹم۔ اس دھات کا مفصل حال آپ میرے پہلے سفر نامے"خوفناک جزیرہ" میں پڑھئے)۔
شاگو نے ایندھن کا جو فارمولا لکھا تھا اس میں مختلف گیسوں کے ساتھ ہی سوبیا بھی شامل تھی۔ اس لئے یہ دیکھتے ہی کہ آگ راکٹ کے نچلے حصے میں پہنچ گئی ہے۔ ہمیں فوراً یہ ڈر ہوا کہ کہیں راکٹ آگ نہ پکڑ لے اور یہ آگ اس کے ایندھن تک نہ پہنچ جائے !


ایک زبردست دھماکہ ہوا اور ہم نے دیکھا کہ راکٹ ہل رہا ہے اوراس کے نیچے سے زبردست دھواں اٹھ رہا ہے۔ اس عرصے میں ہم ہیلی کوپٹر میں بیٹھ چکے تھے اور جان کی ہدایت کے مطابق ہیلی کوپٹر راکٹ کی چوٹی سمت پرواز کررہا تھا۔ جان نے مائیک ہاتھ میں لے کر وائر لیس اسٹیشن کو پیغام بھیجا۔
"آپ ذمہ دار افسران کو بتا دیجئے کہ ہمارے اندیشے درست ثابت ہوئے۔ کسی نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ ہی راکٹ کو بھی تباہ کرنا چاہتا تھا۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے اس دشمن کا یہ ارادہ کامیاب نہ ہونے دوں۔ میں راکٹ کے کیپسول میں ہیلی کوپٹر کے ذریعے اپنے ساتھیوں سمیت داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔۔ خدا حافظ!"


راکٹ کے نیچے سے اب شعلے بلند ہونے لگے تھے۔ انجینئروں کی ہدایت کے مطابق وہ پلیٹ فارم جس نے راکٹ کو سہارا دے رکھا تھا اب دائیں طرف جھکنے کے قریب تھا، کیونکہ انجینئر سمجھ چکے تھے کہ راکٹ اب کوئی دم میں اڑا ہی چاہتا ہے۔ ہمارا ہیلی کوپٹر راکٹ کی چوٹی کے قریب ہوا میں معلق ہو گیا تھا۔ اس کے پائیلٹ نے ایک فولادی سیڑھی نیچے لٹکا دی تھی اور اس سیڑھی سے اتر کر ہمارے ساتھی باری باری کیپسول کے دروازے کے اندر سر کے بل داخل ہو رہے تھے۔ والٹر اسمتھ سب سے پہلے گیا ، پھر زرینہ اور اختر، اور آخر میں جیک ، جان سوامی اور میں۔۔ ہیلی کوپٹر ہمیں چھوڑتے ہی تیزی سے ایک طرف ہٹ گیا، کیوں کہ راکٹ ایک زبردست شور اور دھماکہ کے بعد آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہا تھا۔


اوپر۔۔۔ اور اوپر۔۔۔ بہت ہی اوپر!
راکٹ کی رفتار لگاتار بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ہمیں اتنا موقع بھی نہ مل سکا تھا کہ ہم خود کو کیپسول کی کرسیوں سے بیلٹ کے ذریعے جکڑ لیں۔۔ بس ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی ہماری جان کھینچ رہا ہے۔ ہم اوپر اٹھ رہے تھے اور کوئی طاقت نیچے سے ہمیں کھینچ رہی تھی۔ اس کھینچا تانی میں ہماری صورتیں بدل گئین اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ہونٹ نیچے کی طرف کھنچ گئے۔ اور چہرے پر مردنی سی چھاگئی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی ہمارے جسم کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔
مگر یہ حالت کچھ ہی دیر رہی۔ جلد ہی ہم کشش ثقل سے آزاد ہو گئے۔ ہمارا راکٹ تیر کی طرح خلا کی طرف جانے لگا۔ اور پھر ہم نے راکٹ کی کھڑکی میں سے زمین کو دیکھا۔
سبزی مائل نیلی زمین! ہماری پیاری زمین!!
چاروں طرف ہلکی دودھیا لکیر نظر آ رہی تھی جو یقیناً ہوا کا غلاف تھا۔ اور پھر اس غلاف کے بعد گہراہ سیاہ خلا۔۔۔ وہی خلا جو ہمیں اپنی زمین پر سے نیلا نظر آتا ہے۔۔ ایک عجیب اور نیلی دنیا کی طرح۔۔ ہم لوگ اپنی مختصر سی پارٹی کے ساتھ اسی نیلی دنیا کی طرف جا رہے تھے۔
کسے معلوم تھا کہ ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے ؟
مگر کاش ہمیں معلوم ہو جاتا۔ کاش ہمیں پہلے ہی سے پتہ لگ جاتا کہ نیلی دنیا کی مختلف اور ہیبت ناک آفتیں اپنا بھیانک مونہہ کھولے ہمارے راکٹ کو نگل لینے کے لئے بڑی تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہیں!


میری یہ ہیبت ناک کہانی یہاں تک پڑھنے کے بعد آپ شاید یہ جاننے کے خواہش مند ہوں گے کہ آخر یہ خلا ہے کیا چیز اور اس سے ہم لوگ کس لئے اتنا ڈر رہے تھے؟ سائنس سے دلچسپی رکھنے والے تو اسے آسانی سے سمجھ لیں گے ، لیکن جن کی سمجھ میں سائنس کی باریکیاں نہیں آتیں ان کے لئے میں مختصر اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ اگر آپ ایک بہت بڑا مٹکا لیں جس کا محیط تقریباً ایک میل ہو۔ اور پھر اس مٹکے کو اندر سے کالا کر دیں تو مٹکے کے اندر کا خالی حصہ خلاء کہلائے گا (جو ہر سمت سے کالا دکھائی دے گا) اب اگر ایسا کیا جائے کہ کسی طرح ایک ہوائی جہاز میں کچھ آدمی بٹھا کر وہ ہوائی جہاز مٹکے کے اندر چھوڑ دیا جائے اور مٹکے کے بیچوں بیچ سو واٹ کا ایک بلب جلا دیاجائے (یہ بلب سورج کو ظاہر کرے گا) اس کے علاوہ مٹکے کی کالی دیواروں پر چھوٹے بڑے گول گول شیشے لگا دئے جائیں۔ یعنی ایسے شیشے جو فٹ بال کی گیند سے لے کر پچیس پیسے کے سکے کے برابر تک کے ہوں اور پھر اس کے بعد مٹکے کا مونہہ بند کر دیا جائے تو اس صورت میں مٹکے کے اندر کا حصہ خلاء ہے اور ہمارا راکٹ ہوائی جہاز ! دور دور تک پھیلی ہوئی سیاہی اور اس سیاہی میں چھوٹے بڑے ستارے ( جو دراصل آئینے ہیں) اس نہ ختم ہونے والے خلا میں ٹمٹماتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔


ہماری زمین میں ایک مقناطیسی کشش ہے جو ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کشش کی وجہ سے ہر چیز میں وزن محسوس ہوتا ہے۔ اگر کسی طرح، جس مقام پر ہمارا مٹکا رکھا ہے وہاں کی کشش ختم کر دی جائے تو مٹکے کے اندر والا ہوائی جہاز کاغذ سے بھی ہلکا ہو جائے گا۔ مٹکے کی ہوا بھی اگر باہر نکال دی جائے تو ہوائی جہاز کے چلنے سے شور بھی پیدا نہ ہوگا۔ کیوں کہ یہ ہوا ہی ہے جو ہمیں آوازیں سنواتی ہے۔ جب مٹکے میں نہ ہوا ہوگی نہ کشش تو ہمارا ہوائی جہاز خلاء میں بغیر کسی سہارے کے متعلق ہو جائے گا۔ بے شک جہاز کے انجن بند ہو جائیں مگر جہاز اسی جگہ معلق رہے گا۔ لیکن اگر کوئی اس جہاز کو دھکا دے دے تو پھر وہ ہمیشہ اسی رفتار سے خلاء میں گھومتا رہے گا۔
اب آپ آسانی سے میری بات سمجھ سکتے ہیں اس لئے میں اپنی بھیانک کہانی پھر سے شروع کرتا ہوں۔


ہمارا راکٹ ایک خاص رفتار سے (جو کم سے کم اٹھارہ ہزار میل فی گھنٹہ تھی) خلاء میں نہایت تیزی سے چلا جا رہا تھا۔ لیکن اگر سچ پوچھئے تو ہمیں ایسا لگ رہا تھا گویا یہ جوں کی چال چل رہا ہے۔ اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ زمین پر اگر ہم کسی ریل گاڑی میں بیٹھیں تو اس کی رفتار کا اندازہ برابرسے گزرتی ہوئی چیزوں مثلا درخت ، کھیت یا بجلی کے کھمبوں اور ریل کے شور سے کرتے ہیں۔ جب درخت جلدی جلدی گزرنے لگتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ریل تیز چل رہی ہے۔ یا پھر ریل کی پہیوں کی آواز بڑھ جاتی ہے تب ہم سمجھتے ہیں کہ ریل کی رفتار تیز ہے۔ خلاء میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ نہ تو وہاں ہوا تھی اور نہ برابر سے گزرنے والی چیزیں، بس دور تک سیاہی ہی سیاہی۔۔ اب بھلا کوئی کس طرح رفتار کا اندازہ کر سکتا ہے !


ہمارے دل اندر ہی اندر ڈوبتے جا رہے تھے ، ہم جانتے تھے کہ ہم بے وزنی کی کیفیت میں ہیں، کیونکہ ایک بار جب میں نے اپنی نوٹ بک جان کی طرف اچھالی تو وہ ہوا میں تیرنے لگی۔ حالانکہ شاگو کے ڈیزائن کئے ہوئے اس راکٹ میں ہمیں خلائی لباس پہننے کی ضرورت بالکل نہیں تھی ، مگر ہم نے احتیاط کے طور پر یہ لباس اپنے جسم سے علیحدہ نہیں کیا تھا۔ ہمارا خلائی کیبن ایک ہال نما کمرہ تھا۔ جس میں مختلف چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے تھے۔ ہر کیبن میں کھڑکیاں تھیں جن میں سے ہم باہر کا نظارہ دیکھ سکتے تھے۔ اگر سچھ پوچھئے تو لفظ 'نظارہ' استعمال کرتے ہوئے میرا دل لرز رہا ہے ، وہ نظارہ کچھ اس قسم کا تھا کہ حد نظر تک اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔ سورج کی روشنی سے کروڑوں اور اربوں ستارے جگمگا رہے تھے۔ بار بار کوئی شہاب ثاقب تیزرفتاری سے شعلے اگلتا ہوا ادھر سے اُدھر جاتا ہوا نظر آ جاتا۔
شہاب ثاقب خلاء میں اڑتے ہوئے مادی اور ٹھوس ٹکڑے ہوتے ہیں۔ جس سیارے کے نزدیک سے یہ گزرتے ہیں ، سیارے کی کشش انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور وہ تیز رفتاری سے بھڑک اٹھتے ہیں۔ ایسے شہاب ثاقب ننھی سی گیند سے لے کر پہاڑ جتنے بڑے ہوتے ہیں۔ آپ راتوں کو آسمان پر ستارے ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ دراصل یہ وہی شہاب ثاقب ہوتے ہیں، بڑا بھیانک نظارہ تھا۔ یوں لگتا تھا گویا ہم جہنم میں آ گئے ہیں۔ اور جہنم کے فرشتے آگ کی چھوٹی بڑی گیندیں ہماری طرف پھینک رہے ہوں۔ واقعی وہ جہنم تھا۔ نہ درخت ، نہ پہاڑ، نہ ندی نالے ، نہ چہچہاتے ہوئے خوبصورت پرندے اور نہ نیلا آسمان۔ اگر کچھ تھا تو بس صرف سیاہ خلاء ، اور اب یہی سیاہی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی تھی۔


والٹر اسمتھ اور جان خلائی کیبن کے کنٹرول روم میں مصرودف تھے۔ اختر اور سوامی ایک برتھ پر خاموشی سے گردن لٹکائے بیٹھے تھے۔ میں زرینہ کے قریب بیٹھا ہوا اسے مختلف باتیں سنا کر اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کر رہا تھا اور جیک کھڑکی کے قریب کھڑا ہوا خلاء میں جھانک رہا تھا۔ اس نے اپنے جبڑے بڑی سختی سے بند کر رکھے تھے اور اس کی آنکھوں میں ایک خوفناک چمک تھی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہا تھا۔ ہم سب اپنے تیز رفتار راکٹ کے رحم و کرم پر تھے جو ہمیں اپنی دور دراز منزل تک لے جا رہا تھا۔ مگر ہمارے دل یہ سوچ کر ڈر رہے تھے کہ کیا ہم اس تک پہنچ بھی سکیں گے؟


راکٹ آہستہ آہستہ مختلف وقفے کے بعد اپنے نچلے حصے گراتا جا رہا تھا۔ اس لحاظ سے اس کی رفتار بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن میں یہ پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ رفتار کے بڑھنے اور گھٹنے کا اندازہ بالکل نہ ہوتا تھا ، صرف کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا جان کبھی کبھار ہمارے پاس آکر بتا دیتا تھا کہ راکٹ کی رفتار کتنی ہے اور ہم لوگ کتنے عرصے کے بعد سیارہ زہرہ تک پہنچیں گے؟
"زمین کے کنٹرول روم سے ہمارا رابطہ قائم ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ہم ایک ہفتے کے بعد زہرہ تک پہنچیں گے۔"
"لیکن آپ نے ان سے یہ بھی دریافت کیا کہ لفٹ پر کس کی انگلیوں کے نشان تھے۔" جیک نے پوچھا۔
"ہاں۔۔ ابھی ایک گھنٹے کے اندر مجھے اس کی رپورٹ مل جائے گی۔"
"مگر اس سے فائدہ کیا۔ ہمارا دشمن تو اب یہاں نہیں ہے۔" سوامی نے کہا۔
"یہ تم کس طرح کہہ سکتے ہو۔" میں نے جلدی سے پلٹ کر اسے دیکھا:
"ہمارا دشمن کوئی انسان نہیں ہے ، بلکہ وہ سیارہ زہرہ کی ایک ہستی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ کسی اور شکل میں ہمارے ساتھ ہی سفر کررہا ہو۔"
میری یہ بات سن کر سب کے چہروں پر مردنی چھا گئی اور سب خوفزدہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔



Novel "Neeli Dunya" by: Siraj Anwar - episode:6

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں